Fi-Zilal-al-Quran - An-Naba : 37
رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ لَا یَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًاۚ
رَّبِّ السَّمٰوٰتِ : جو رب ہے آسمانوں کا وَالْاَرْضِ : اور زمین کا وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ : اور جو ان دونوں کے درمیان ہے رحمن لَا يَمْلِكُوْنَ : نہ مالک ہوں گے مِنْهُ خِطَابًا : اس سے بات کرنے کے
” اس نہایت مہربان خدا کی طرف سے جو زمین اور آسمانوں اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ، جس کے سامنے کسی کو بولنے کا یارا نہیں۔
یہ جزاء وسزا جو اہل تقویٰ اور اہل ضلالت کے لئے ، اس سے قبل مفصل طور پر بیان ہوئی ، یہ تیرے رب کی طرف سے ہے۔ اور رب السموت ........................ الرحمن (37:78) ہے (اس نہایت مہربان خدا کی طرف سے جو زمین اور آسمانوں اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے) اس آخری ٹچ اور اس عظیم حقیقت کے بیان کے لئے اب یہ مناسب وقت ہے ، یعنی یہ کہ اللہ کی ربوبیت زمین و آسمانوں پر حاوی ہے ، اس کے اندر یہ دنیا بھی ہے اور آخرت بھی ہے۔ یہ اہل تقویٰ کو جزاء دیتی ہے اور اہل ضلالت اور بدکاروں کو سزا دیتی ہے اور دنیا وآخرت کے تمام فیصلے اللہ کی طرف رجوع ہوتے ہی۔ پھر یہ ربوبیت نہایت رحیمانہ ہے۔ یہ جزاء بھی اس کی رحمت کا نتیجہ ہے اور سزا بھی اس کی رحمت کا تقاضا ہے۔ یہ اس کی رحمت ہی کا تقاضا ہے کہ سرکشوں کو جہنم میں جلایا جائے۔ کیونکہ یہ عین رحمت ہے کہ شر کو سزا ملے اور خیروشر برابر نہ ہوں ورنہ یہ تو ظلم ہوگا۔ پھر یہ رحمت اپنے اندر جلال لئے ہوئے ہے۔ اس خوفناک دن میں اس دربار رحمت میں کوئی بات نہ کرسکے گا۔ جبرائیل (علیہ السلام) اور دوسرے سربرآور دو فرشتے بھی صف بستہ خاموش کھڑے ہوں گے۔ صرف اجازت سے کچھ عرض کرنا ہوگا اور بات ہوگی۔ لیکن بات بھی درست ہوگی ورنہ رحمن تو دل کی بات جانتا ہے ، بری بات کہنے کی اجازت ہی نہ ہوگی۔ یہ منظر کہ بےگناہ لوگ اور سرکردہ فرشتے بھی اس بارگاہ میں خاموش کھڑے ہی ، کوئی شخص بات بھی نہیں کرتا ، سا ہواکھڑا ہے ، فضا پر رعب ، خوف ، جلالت اور وقار کے گہرے بادل پھیلا دیتا ہے۔ ایسے حالات میں جبکہ خوف کے بادل چھائے ہوئے ہوں ، دنیا کے غافلوں اور بری راہوں پر سرپٹ بھاگنے والوڈ کو ایک بار پھر ڈرایا جاتا ہے ، ایک زبردست چیخ آتی ہے اور مدہوش لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
Top