Fi-Zilal-al-Quran - Al-Anfaal : 20
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اَطِيْعُوا : حکم مانو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَلَا تَوَلَّوْا : اور مت پھرو عَنْهُ : اس سے وَاَنْتُمْ : اور جبکہ تم تَسْمَعُوْنَ : سنتے ہو
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ اور رسول کے رسول کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو
تفسیر آیات 20 تا 23:۔ اب روئے سخن اہل ایمان کی طرف پھرجاتا ہے اور مسلسل يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا سے انہیں مخاطب کیا جاتا ہے۔ اور یہ خطاب ان مضامین کے بعد آتا ہے کہ اللہ ان کے ساتھ ہے ، اور اس خطاب میں ان کو یہ وصیت کی جاتی ہے کہ وہ اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کریں۔ ان کو اللہ اور رسول سے سرکشی کرنے سے خبردار کیا جتا ہے اور انہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے جو اللہ کی آیات کو سنتے ہیں اور ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں گویا انہوں نے سنا ہی نہیں ہے۔ یہ لوگ گونگے اور بہرے ہیں اگرچہ وہ آنکھیں اور کان رکھتے ہیں اور زبان رکھتے ہیں۔ یہ لوگ بدترین جانور ہیں۔ اس لیے کہ یہ جانوروں کی طرح سنتے تو ہیں لیکن راہ ہدایت نہیں پاتے۔ یہ پکار ان لوگوں کو ہے جو ایمان لائے ہیں۔ انہیں کہا گیا ہے کہ وہ اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کریں۔ اللہ کی آیات و کلمات سنتے ہوئے روگردانی نہ کریں۔ یہ پکار ان اشارات کے بعد آئی ہے جو بطور مقدمہ و تمہید اس سے پہلے آنا ضروری تھے۔ اس سے قبل اس معرکے کے بڑے بڑے واقعات بیان کردئیے گئے تھے۔ ذات باری کو دیکھنا ، اس کی تدبیر کا تصور ، اس کی معاونت اور امداد کی یقین دہانی ، اور یہ تصریح کہ اللہ مومنین کے ساتھ ہے اور یہ کہ وہ کافروں کی تمام تدابیر کو ڈھیلا کرنے والا ہے لہذا اس کے بعد سمع و اطاعت کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہیں رہتا۔ ان حقائق کے ہوتے ہوئے بھی اللہ اور رسول اللہ سے روگردانی کرنا نہایت ہی قبیح اور منکر فعل نظر آتا ہے۔ کوئی عقلمند انسان ایسی حرکت نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں چوپایوں کا بھی ذکر کیا جاتا ہے ، کیونکہ لفظ (دواب) میں طبیعت کے لحاظ سے انسان بھی شامل ہیں۔ لیکن دواب کا لفظ انسانوں کے مقابلے میں مویشیوں پر زیادہ بولا جاتا ہے۔ اس لیے اس لفظ کا بعض انسانوں پر اطلاق کرنے سے حیوانات کا تصور خود بخود سامنے آجاتا ہے اور جو لوگ گونگے اور بہرے ہیں اور علم نہیں رکھتے ان کے بارے میں حیوانیت کا تصور دیا جاتا ہے۔ گویا جہلاء درحقیقت جانور ہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ جانوروں کے کان تو ہیں لیکن وہ چند مبہم کلمات ہی سن سکتے ہیں۔ ان کی زبان بھی ہے لیکن وہ معانی پر مشتمل کلمات نہیں بول سکتے۔ ہاں بہائم کو فطری صلاحیت دے دی گئی اور وہ اس فطری صلاحیت کے مطابق اپنا کاروبار زندگی چلاتے ہیں جبکہ انسان مویشی اپنی ضروریات زندگی بھی خود اپنی عقل سے تجویز کرتے ہیں۔ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ ۔ وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ ۔ اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِيْنَ لَا يَعْقِلُوْنَ ۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ اور رسول کے رسول کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سنا حالانکہ وہ نہیں سنتے تھے۔ یقیناً خدا کے نزدیک بد ترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ اور یہ لوگ کیوں شر الدواب ہیں ؟ وَلَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِيْهِمْ خَيْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ ۭوَلَوْ اَسْمَعَهُمْ ۔ اگر اللہ کو معلوم ہوتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے تو وہ ضرور انہیں سننے کی توفیق دیتا ۔ اس لیے کہ اللہ کو معلوم ہے کہ ان میں کوئی بھلائی نہیں ہے اور اگر ان میں بھلائی ہوتی تو اللہ ان کو سماع اور قبولیت کی توفیق دے دیتا لیکن انہوں نے اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے اپنی فطری استعداد کو ختم کردیا ہے۔ چونکہ انہوں نے اپنے دل و دماغ کے دروازے بند کردئیے تھے ، اس لیے اللہ نے بھی ان کو سماعت کی توفیق سے محروم کردیا۔ اگر اللہ ان کو سمجھا بھی دیتا تو بھی ان کا رویہ ایسا ہوگیا تاھ کہ وہ مان کر نہ دیتے۔ وَلَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّهُمْ مُّعْرِضُوْنَ (لیکن بھلائی کے بغیر) اگر وہ ان کو سنوارتا تو وہ بےرخی کے ساتھ منہ پھیر جاتے۔ کیونکہ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ عقل ایک بات کو پا لیتی ہے لیکن دل اس قدر مسخت ہوچکے ہوتے ہیں کہ وہ مان کر نہیں دیتے۔ اگر محض فہم و ادراک کی حد تک اللہ ان کو سنا بھی دے تو بھی یہ قبولیت سے محروم ہی رہتے ہیں۔ دنیا میں بیشمار ایسے لو ہیں جن کی عقل حق پر مطمئن ہوتی ہے لیکن ان کے دل قبول نہیں کرتے۔
Top