Fi-Zilal-al-Quran - Al-Anfaal : 30
وَ اِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَ١ؕ وَ یَمْكُرُوْنَ وَ یَمْكُرُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ
وَاِذْ : اور جب يَمْكُرُ بِكَ : خفیہ تدبیریں کرتے تھے آپ کے بارہ میں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) لِيُثْبِتُوْكَ : تمہیں قید کرلیں اَوْ يَقْتُلُوْكَ : یا قتل کردیں تمہیں اَوْ يُخْرِجُوْكَ : یا نکال دیں تمہیں وَيَمْكُرُوْنَ : اور وہ خفیہ تدبیریں کرتے تھے وَيَمْكُرُ اللّٰهُ : اور خفیہ تدبیریں کرتا ہے اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ خَيْرُ : بہترین الْمٰكِرِيْنَ : تدبیر کرنے والا
وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب کہ منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کرلیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کردیں۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے
درس نمبر 84 ایک نظر میں اس سورة میں سلسلہ کلام آگے بڑھتا ہے۔ حالات حاضرہ پر تبصرہ واقعات ماضی کی روشنی میں جاری ہے۔ امت مسلمہ کے سامنے اس عظیم فتح کی تصویر کشی کرکے بتایا جاتا ہے کہ ذرا سوچو کہ تمہارا حال تمہارے ماضی کے مقابلے میں کس قدر بدل چکا ہے۔ کس قدر عظیم انقلاب چشم زدن میں برپا کردیا گیا ہے لیکن یہ کیونکر ہوا۔۔۔ ؟ محض فضل ربی اور تدبیر الہی کے ذریعے۔ اس عظیم انقلاب کو دیکھو ! اس کے مقابلے میں اموال و غنائم کس قدر حقیر ہیں۔ نیز تم نے جو قربانیاں دیں اور جو مشقتیں اٹھائیں وہ تمہیں تو بہت بڑی نظر آتی ہوں گی مگر اب نتائج کے مقابلے میں کس قدر حقیر ہیں۔ درس سابق میں یہ بیان کردیا گیا تھا کہ مکہ میں مسلمانوں کے حالات کس قدر خراب رہتے تھے ، اس جنگ سے قبل مدینہ میں بھی تمہاری پوزیشن کچھ اچھی نہ تھی۔ تم قلیل و ضعیف تھے۔ تم ہر وقت خطرات میں گھرے ہوئے تھے۔ خطرہ تھا کہ تمہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ مدینہ میں آ کر تم مامومن ہوئے اور اس جنگ اور نصرت کے بعد ، محض تدبیر الہی سے تم عزیز اور مقتدر ہوگئے۔ اس سبق میں مشرکین کے موقف کی تصویر کشی کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ دیکھو یہ لوگ تمہارے خلاف چالیں چل رہے تھے۔ ہجرت سے قدرے پہلے اور یہ دعوے کرتے تھے کہ یہ شخص جو آیات الہی پڑھتا ہے اگر ہم چاہیں تو ایسا کلام گھڑ سکتے ہیں اور وہ بغض وعناد میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ عذاب الہی کا خود مقابلہ کرنے لگے کہ اگر دعوت اسلامی حق ہے تو ہم پر عذاب آجائے۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ دیکھو یہ لوگ دعوت اسلامی کی راہ روکنے کے لیے اپنی قیمتی دولت بھی فضول خرچ کر رہے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔ لیکن یہ دنیا میں ناکام ہوں گے۔ اور آخرت میں جہنم کا ایندھن ہوں گے نیز دنیا اور آخرت دونوں میں خسارے سے دوچار ہوں گے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو یہ حکم دیتے ہیں کہ وہ کافروں سے بات کرکے ان کو یہ اختیار دیں کہ وہ دو امور میں سے ایک کو قبول کرلیں۔ یا تو وہ کفر ، عناد اور اللہ اور رسول کے خلاف صف آرائی سے باز آجائیں ، اگر وہ ایسا کریں تو اللہ ان کی سابقہ کو تاہیاں جو دور جاہلیت میں کی گئیں ان کو معاف کردے گا۔ یا وہ لوٹ کر اس حالت میں چلے جائیں جس میں وہ تھے اور اس برے انجام سے دوچار ہوں جو ہر اس شخص کو نصیب ہوا جس نے اس راہ کو اختیار کیا۔ تب ان پر اللہ کی وہی سنت جاری ہوگی جس کا اللہ ارادہ کریں اور جس میں اس کی رضا ہو۔ آخر میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ ہدایت دیتے ہیں کہ وہ ان ہدایت دیتے ہیں کہ وہ ان کفار کے ساتھ جنگ اس وقت تک جاری رکھیں یہاں تک کہ کفار کے ہاتھ میں ایسی قوت نہ رہے جس میں مسلمانوں کے لیے خطرہ ہو۔ اس جہاں پر اللہ کی الوہیت قائم ہوجائے اور دین پر اللہ کے لیے خالص ہوجائے۔ اگر وہ سر تسلیم خم کردیں تو حضور ان سے یہ قبول کرلیں گے۔ رہی ان کی نیت تو اس پر معاملہ اللہ کے ہاں ہوگا۔ کیو کہ اللہ خبیر وبصیر ہے۔ اگر وہ روگردانی کریں ، اسلام کے خلاف یہ جنگ جاری رکھیں اور اسلام کے خلاف ان کے بغض وعناد کا یہی عالم رہے اور اللہ وحدہ کی حاکمیت کا اعتراف نہ کریں اور اللہ کے اقتدار اعلیٰ کے سانے نہ جھکیں تو مسلمان کے خلاف جہاد جاری رکھیں گے۔ اس میں وہ صرف اللہ پر بھروسہ کریں گے جو ان کا سرپرست ہے۔ وہ اچھا سرپرست اور بہترین مددگار ہے۔ درس نمبر 84 تشریح آیات : 30 ۔۔ تا۔۔ 40 تفسیر آیت 30 ۔ وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ ۭوَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ ۭوَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ ۔ وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب کہ منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کرلیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کردیں۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔ اب حالات مکہ معظمہ کی اسکرین پر لائے جاتے ہیں ، جبکہ حالات کے اندر وہ انقلاب برپا نہ ہوا تھا جواب ہوچکا ہے۔ اہل مکہ اپنے موقف پر سختی سے جمے ہوئے تھے مقصد یہ ہے کہ حالات بہت اچھے رخ پر جا رہے ہیں اور مستقبل تابناک ہے ، لیکن اس میں تمہارا کوئی ذاتی کمال نہیں ہے یہ تو اللہ کی تدبیر اور تقدیر کی کارستانیاں ہیں۔ دنیا میں وہی کچھ ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ ابتداء میں جن لوگوں کو مخاطب کیا جا رہا تھا وہ تو حالات کے ان دونوں ادوار کو اچھی طرح جانتے تھے کیونکہ وہ ان ادوار سے ہوکر گزرے تھے۔ ان کے لیے تو سابقہ دور ماضی قریب تھا اور اس دور میں وہ جس خوف قلق میں مبتلا تھے وہ انہیں اچھی طرح یاد تھا حال میں جو اطمینان تھا وہ ان کے سامنے تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے اور رسول اللہ ﷺ کے خلاف کیا مکاریاں کی گئی تھیں اور کی جا رہی ہیں اور کس طرح وہ ان میں سے کامیاب ہوکر گزرے ہیں۔ انہوں نے مشکلات سے نجات ہی نہیں پائی بلکہ ان میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ ان کی تدبیر یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کو قید کرکے بیڑیاں پہنا دیں یہاں تک کہ وہ رحلت کر جائیں یا انہیں قتل کردیں یا آپ کو مکہ سے خارج کردیں۔ انہوں نے ان تمام تجاویز پر غور کیا تھا اور آخر میں وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ آپ کو قتل ہی کردیں۔ اس کام کو تمام قبائل کے نوجوان سر انجام دیں تاکہ آپ کا کون تمام قبائل پر منقسم ہوجائے۔ بنو ہاشم آپ کا بدلہ نہ لے سکیں آخر کار دیت پر راضی ہوجائیں۔ امام احمد نے روایت کی ہے۔ عبدالرزاق سے ، معمر سے ، عثمان جریر سے ، ۔۔ مولی عباس سے ، کہتے ہیں کہ ابن عباس نے فرمایا کہ و اذ یمکر بک کی تفسیر یہ ہے کہ ایک رات قریش نے مکہ میں باہم مشورہ کیا تو بعض نے کہا کہ جب وہ صبح نکلیں تو انہیں باندھ دیں یعنی نبی ﷺ کے بارے میں۔ بعض نے کہا اسے قتل کردیا جائے ، بعض نے کہا کہ انہیں جلا وطن کردیا جائے۔ حضور ﷺ کو اس کی اطلاع دے دی گئی۔ حضرت علی رات کو آپ کے بستر پر سوئے اور حضور نکل کر غار میں چھپ گئے لیکن مشرکین رات کو حضور کی چوکی کرتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو وہ حملہ آور ہوئے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ بستر پر حضرت علی سوئے ہوئے ہیں اور اللہ نے ان کی اس تدبیر کو ان پر الٹ دیا ہے تو انہوں نے حضرت علی پوچھا کہ تمہارے صاحب کہاں ہیں تو حضرت علی نے فرمایا : ” مجھے معلوم نہیں ہے “۔ چناچہ انہوں نے آپ کی پتہ براری شروع کی اور نقش قدم پر چل پڑے۔ جب وہ پہاڑ کے پاس پہنچے تو ان سے آپ کے قدموں کے آثار خلط ملط ہوگئے۔ وہ پہاڑ پر چڑھ گئے ، غار کے اوپر گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ دروازے پر عنکبوت نے تانا بانا بن دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ یہاں داخل ہوئے ہوتے تو یہاں عنکبوت کا جالا نہ ہوتا۔ چناچہ حضور نے وہاں تین راتیں گزر دیں۔ وَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ ۭوَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ : ” وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا ، اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے “۔ قرآن نے ان حالات کو جن الفاظ میں بیان کیا ، وہ نہایت ہی موثر ہیں جس سے قریش کی مجلس کا نقشہ ذہن میں آجاتا ہے ان کی تدابیر ، تجاویز اور چالیں سامنے آتی ہیں لیکن اللہ ان پر محیط ہے۔ ان کے معاملے میں اللہ کی چالیں سامنے آتی ہیں اور ان کی وجہ سے مشرکین کی تمام چالیں خاک میں مل جاتی ہیں لیکن انہیں آخر دم تک اس کا شعور ہی نہیں ہوتا۔ یہ نہایت ہی مسحور کن تصویر کشی ہے ، اور نہایت خوفناک بھی ، کیونکہ کمزور انسان قادر مطلق کے مقابلے میں کر ہی کیا سکتے ہیں۔ اللہ قہار و جبار ہے اور ہر چیز پر محیط ہے۔ قرآن کریم اس حقیقت کو اپنے مخصوص انداز و طرز پر بیان کرتا ہے کہ اسے پڑھ کر دل لرز اٹھتے ہیں اور انسانی شعور گہرائیوں تک متاثر ہوجاتا ہے۔
Top