Fi-Zilal-al-Quran - Al-Anfaal : 55
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ
اِنَّ : بیشک شَرَّ : بدترین الدَّوَآبِّ : جانور (جمع) عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا فَهُمْ : سو وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
یقیناً اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو ماننے سے انکار کردیا۔ پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں
درس نمبر 86 ایک نظر میں سورت انفال کا یہ چوتھا اور آخری سبق ہے۔ اس میں دوسرے ممالک اور بلاکوں کے ساتھ صلح و جنگ کے کچھ قواعد وضع کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی معاشرے کی داخلی تنظیم اور دوسری تنظیموں کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت کو منضبط کیا گیا ہے۔ مختلف احوال میں اسلام اور دوسری اقوام کے ساتھ معاہدوں کی نوعیت پر بحث ہے۔ نیز خون رنگ و نسل ، علاقائیت اور قائد و نظریات کے بارے میں اسلام کے نقطہ نظر کو متعین کیا گیا ہے اس سبق میں ان موضوعات کے بارے میں ایسے احکام بھی دیے گئے ہیں جو اپنے موضوع پر فائنل ہیں۔ اور بعض ایسے ہیں جو اس مرحلے کے لیے تھے جن میں یہ صورت اتری ہے اور متعین حالات کے لیے تھے۔ یا ایک متعین واقعہ کے لیے تھے اور جن میں بعد میں ترمیمیں کی گئیں اور انہوں نے بعد میں آخری صورت اختیار کی۔ یعنی سورت توبہ میں ان احکامات نے آخری شکل اختیار کی۔ سورت توبہ مدنی دور کی آخری سورتوں میں سے ہے۔ ان احکامات نے آخری شکل اختیار کی۔ سورت توبہ مدنی دور کی آخری سورتوں میں سے ہے۔ ان احکامات اور قواعد میں درج ذیل امور شامل ہیں۔ جو لوگ اسلامی بلاک سے معاہدے کرتے ہیں اور بعد میں اپنے عہد کو توڑ دیتے ہیں وہ اس کرہ ارض پر بد ترین جانور ہیں۔ لہذا اسلامی بلاک کے فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ان کی سبق آموز تربیت کرے۔ اور ان کو ایسا سبق سکھائے کہ یہ لوگ اور ان کے بعد آنے والے یا ان کی پشت پر جو قوتیں کھڑی ہوں ان کے لیے بھی وہ اچھی عبرت ہو۔ جن معاہد اقوام سے اسلامی حکومت کو یہ خطرہ لاحق ہو کہ وہ بد عہدی کریں گی یا عہد میں امانت داری کے مقابلے میں خیانت کریں گی تو اسلامی قیادت کا یہ حق ہوگا کہ وہ اس عہد کو ان کے سامنے رکھ دے اور اعلان کردے کہ اس کی اب کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس کے بعد اگر اسلامی حکومت ان لوگوں کی سرزنش کرے تو وہ آزاد ہے تاکہ وہ ان لوگوں کو خوفزدہ کرسکے جو اسلامی حکومت کے خلاف سرگرم ہوں اور تیاریاں کر رہے ہوں کہ حملہ کردیں۔ یہ کہ اسلامی بلاک کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی دفاعی افواج کو ہر وقت چوکس رکھیں اور انتہائی ممکن حد تک اپنی فوجی قوت کو ترقی دیں۔ اس طرح کہ اس کرہ ارض پر ہدایت یافتہ قوت ہی بڑی قوت ہو اور اس سے تمام باطل قوتیں لرزہ بر اندام ہوں اور ان کی قوت کے بارے میں زمین میں تمام باطل قوتیں جانتی ہوں اور خائف ہوں اور یہ جراءت نہ کرسکیں کہ وہ حملہ آور ہوں اور وہ اللہ کی سلطنت کے سامنے سر تسلیم خم کردیں اور صورت حال یہ ہوجائے کہ پوری دنیا میں کسی داعی اسلام کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہو اور کوئی رکاوٹ ان لوگوں کے سامنے نہ رہے جو دعوت اسلامی کو قبول کرنا چاہتے ہیں اور کوئی قوت سیاسی اقتدار اعلی اپنے لیے مخصوص کرنے والی نہ ہو بلکہ نظام حکومت صرف اللہ کا چلتا ہو۔ ٭۔ یہ کہ اگر غیر مسلموں میں سے کوئی اسلامی کمپ کے ساتھ کوئی معاہدہ امن کرنا چاہے اور وہ اسلامی حکومت کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے تو اسلامی حکومت کی قیادت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ اسے قبول کرلے اور معاہدہ کرلے۔ اگر وہ کوئی خفیہ سازش کرنا چاہتے ہوں اور بظاہر دھوکے کی کوئی علامت نظر نہ آتی ہو تو ان کا فرض ہے کہ ان کے خفیہ ارادوں کو اللہ پر چھوڑ دے۔ اللہ اس قسم کے فریب کاروں کے شر سے بچانے والا ہے۔ ٭۔ جہاد مسلمانوں پر فرض ہے۔ اگرچہ دشمن کی تعداد مسلمانوں کی تعداد سے دوگنا ہو۔ خدا کے فضل سے مسلمانوں کو اپنے دشمنوں پر فتح نصیب ہوگی۔ ان میں سے ایک آدمی بیس کا مقابلہ کرسکتا ہے اور کمزور حالات میں بھی ان میں سے ایک آدمی دو آدمیوں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ لہذا جہاد کا فریضہ اس موقوع کے لیے انتظار کی مہلت نہیں دیتا کہ مومنین اور ان کے دشمن کی تعداد برابر ہو۔ اس لیے مسلمانوں کی تیار قوت ہی کافی ہے اور ان پر فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ قوت تیار رکھیں۔ اللہ پر بھروسہ کریں معرکے میں ثابت قدم رہیں۔ مشکلات میں صبر سے کام لیں اور نتائج اللہ پر چھوڑ دیں۔ اس لیے کہ وہ مادی قوتوں کے علاوہ روحانی قوت بھی رکھتے ہیں۔ ٭۔ اسلامی محاذ کا پہلا ہدف یہ ہونا چاہی کہ وہ طاغوتی قوت کے تمام سرچشموں کو پاش پاش کرکے رکھ دے۔ اگر وہ سمجھتے ہوں کہ فوجیوں کو قید کرنا اور پھر تاوان جنگ لے کر چھوڑ دینا مفید مطلب نہیں ہے تو پھر ایسا ہر گزنہ کرنا چاہیے ، اس لیے کہ رسول اور مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ طاغوتی قوتوں کو اچھی طرح پاش پاش کرنے سے چاہئے ، اس لیے کہ رسول اور مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ طاغوتی قوتوں کو اچھی طرح پاش پاش کرکے علاقے میں اپنا اقتدار اعلی نافذ کردیں۔ اس سے پہلے قیدی بنا کر فدیہ لینے سے بہتر ہے کہ وہ دشمن کو پیس کر رکھ دیں۔ ٭۔ مسلمانوں کے لیے مال غنیمت حلال کردیا گیا ہے اور اسی طرح مسلمانوں کے لیے بھی یہ جائز کردیا گیا ہے کہ وہ قیدیوں کو رہا کرکے جنگی تاوان وصول کریں لیکن اس وقت جب وہ دشمن کی قوت کو اچھی طرح توڑ دیں اور اپنا اقتدار اعلی قائم کردیں اور ان کے اقتدار کی شان و شوکت قائم ہوجائے۔ ٭۔ اسلامی کیمپ میں قید ہونے والے کفار سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسلام میں دلچسپی لیں اور یاد رکھیں کہ تم سے جو اموال غنیمت لیے گئے ہیں اگر مسلمان ہوجاؤ تو اللہ تمہیں اس سے اچھا دینے والا ہے۔ لیکن اگر تم خیانت کروگے تو جس طرح تمہارا انجام جنگ بدر میں ہوا ہے وہی دوبارہ ہوگا۔ ٭۔ اسلامی معاشرہ میں اکٹھ نظریات پر ہوتا ہے لیکن تعلق مولات تو خصوصاً نظریات اور مشترکہ تحریک کی اساس پر ہوتا ہے ، لہذا جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور جن لوگوں نے پناہ دی اور نصرت دی یہی لوگ در اصل ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے نظریہ تو قبول کرلیا اور ایمان بھی لائے مگر ہجرت نہ کی تو ان اور مومنین مہاجرین کے درمیان کوئی ولایت نہیں ہے۔ یعنی دار الاسلام ان کی نصرت اور ان کی کفالت اور ہمدردی کا پابند نہیں ہے۔ اور ان کی مسلمانوں پر نصرت اور ہمدردی صرف اس وت فرض ہے جبکہ ان کا عقیدہ اور نظریہ زد میں ہو اور نظریات و عقائد کی وجہ سے ان پر ظلم ہو رہا ہو۔ ۔ یکن اس بارے میں بھی ایک مزید شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ ظلم اور زیادتی قوم کی طرف سے نہ ہو جن کا اہل اسلام کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو۔ ٭۔ اسلامی معاشرے کے اندر بھی دوستی اور ہمدردی کا تعلق صرف اس اکٹھ کے دائرے کے اندر ہے جس کا عقیدہ و نظریہ حقیقی ایمان کا ہو اور ان کے اندر اسلامی انقلاب کے لیے مشترکہ تحریک کا تعلق بھی ہو۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رشتہ دار (اولو الارحام) دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ترجیح کے مستحق تصور نہ ہوں گے ، لہذا و ہزیادہ قریب تصور ہوں گے۔ بشرطیکہ یہ رشتہ دار سب کے سب اسلامی نظریہ حیات کے قائل ہوں اور باہم مل کر اسلام کے لیے کام کر رہے ہوں۔ صرف رشتہ داری کافی نہیں ہے ، یعنی ایسی رشتہ داری جس میں نظریات و عقائد کا اشتراک نہ ہو اور جس میں ایک مقصد کے لیے حرکت نہ پائی جاتی ہو۔ اجمالاً اس سبق میں یہی بڑے مضامین ہیں اور یہ مضامین و موضوعات اسلامی معاشرے کی تنظیم کے داخلی اور خارجی موضوعات کے اہم مضامین ہیں۔ اور تفصیلات آیات کی تشریح کے دوران ملاحظہ فرمائیں۔ درس نمبر 86 تشریح آیات۔ 55 ۔ تا۔ 75 تفسیر آیات 55 تا 63: یہ آیات ایک قسم کی عملی ہدایات ہیں ، اس وقت جبکہ جماعت مسلمہ ایسے حالات سے عملاً دو چار تھی۔ اس وت مدینہ میں اسلامی مملکت کی بیناد رکھی جا رہی تھی۔ ان عملی حالات میں ، امت مسلمہ کو ضروری احکامات دیے گئے۔ ان میں سے اکثر ہدایات اس وقت کی قائم اسلامی مملکت یا اسلامی محاذ اور اس وقت کی اسلامی حکومت کے ارد گرد قائم مملکتوں اور محاذوں کے درمیان قانون بین الممالک کے موضوع پر ہیں۔ ان آیات کے بعد ، قرآن کریم نے ان میں معمولی ترمیمات کی ہیں لیکن یہ ہدایات اسلام کے قانون بین الممالک کے سلسلے کی اساسی ہدایات ہیں۔ ان ہدایات میں اس بات کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ مختلف بین الاقوامی گروہوں اور مملکتوں کے درمیان باہم سلامتی کے معاہدات ہوسکتے ہیں ، بشرطیکہ فریقین معاہدہ اس کی شرائط کی نیک دلی کے ساتھ پابندی کرتے ہوں۔ اگر کوئی فریق اس معاہدے کے پردے میں غداری اور خیانت کی تدابیر کر رہا ہو اور حملے اور شر انگیزیوں کی تیار کر رہا ہو تو اسلامی مملکت کے سربراہ کو یہ اختیار ہے کہ وہ ان معاہدوں کو علی الاعلان منسوخ کردے اور اس کی اطلاع فریق مخالف کو بھی دے دے اور پھر اس کا اختیار ہے کہ وہ جس وقت چاہے اس قسم کے خائنوں اور غداروں پر ضرب لگائے اور یہ ضرب اس قدر شدید ہو اور اس قدر سبق آموز ہو کہ کوئی کینہ پرور کھلے طور پر یا خفیہ طور پر اسلامی مملکت کے خلاف کسی راہ میں رکاوٹ بھی نہ بنیں یا یہ کہ وہ ہر شخص تک دعوت اسلامی کے پہنچنے میں مزاحم نہ ہوں تو اسلامی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی معاہدہ کرے اور جب تک ان سے کسی بدنیتی کا ظہور نہ ہو وہ ان کے ساتھ عہد پر قائم رہے۔ پڑوسی مملکتوں کے درمیان عملی حالات کا یہ ایک عملی ضابطہ ہے۔ یہ ضابطہ باہم تعلقات کو اس وقت تک ختم نہیں کرتا جب تک اسلامی مملکت کے پڑوسی ممالک دعوت اسلامی کے پھیلاؤ کی راہ میں کوئی مادی رکاوٹ کھڑی نہیں کردیتے اور لوگوں کے کانوں تک اسلام کی تبلیغ کی رسائی کو ختم نہیں کردیا جاتا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ تحفظ بھی دیا جاتا ہے کہ یہ معاہدے دشمن کے یے سازشوں اور یشہ دوانیوں کا سبب نہ بن جائیں اور ان معاہدوں کے پس پردہ یہ لوگ اسلامی مملکت پر اچانک اور غدارانہ ضرب لگانے کا ارادہ نہ رکھتے ہوں۔ وہ عملی حالات کیا تھے جن میں یہ ہدایات نازل ہوئیں۔ جب امت مسلمہ ہجرت کرکے مدینہ کو گئی تو اس وقت وہاں مسلمانوں کو جو حالات درپیش تھے ان کی تلخیص امام ابن قیم نے زاد المعاد میں یوں کی ہے : " جب حضور مدینہ تشریف لائے تو ان کے اور کفار کے درمیان تین قسم کے تعلقات تھے۔ ایک قسم کے لوگ وہ تھے جنہوں نے حضور کے ساتھ مصالحت کی اور وعدہ کیا کہ وہ آپ کی مخالفت نہ کریں گے۔ آپ کے ساتھ جنگ نہ کریں گے نہ آپ کے دشمنوں کے ساتھ موالات کریں گے اور امداد دیں گے اور وہ اپنے کفریہ نظریات پر قائم رہیں گے اور پر امن رہیں گے۔ ان کا خون اور مال محفوظ ہوگا۔ دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جو آپ کے دشمن اور محارب تھے اور تیسری قسم ان لوگوں کی تھی جنہوں نے نہ تو عہد کیا اور نہ ہی آپ کے ساتھ جنگ کی بلکہ وہ انتظار کرتے رہے کہ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ان لوگوں میں سے بعض تو ایسے تھے جو آپ کی کامیابی کے دل سے خواہاں تھے اور بعض ایسے تھے جو آپ کے دشمنوں کی کامیابی اور فتح چاہتے تھے۔ اور بعض ایسے تھے جو مسلمانوں کی صفوں میں بظاہر شریک ہوگئے تھے لیکن فی الباطن وہ دشمنوں کے ساتھ تھے۔ یہ منافقین تھے ، تو حضور نے ان لوگوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جس کا رب تعالیٰ نے حکم دیا۔ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ عہد امن کیا اور وعدہ کیا وہ مدینہ کے ارگرد رہنے والے تین یہودی قبائل تھے۔ بنی قینقاع ، بنو النضیر اور بنو قریظہ اور ان کے علاوہ بعض مشرک قبائل بھی تھے جو مدینہ کے ارد گرد بستے تھے۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ حالات وقتی حالات تھے اور عملی حالات تھے ، جو مسلمانوں کو درپیش تھے۔ اور اسلامی مملکت یا اسلامی نظام کے مستقل بین الاقوامی ضوابط نہ تھے۔ کیونکہ بعد میں ان کے اندر ترمیمات کی گئیں۔ اور سورت براءت میں جو احکام وارد ہوئے وہ آخری احکام تھے۔ بین الاقوامی تعلقات جن مراحل سے گزرے ان کا ذکر ہم نے امام ابن القیم کی کتاب زاد المعاد سے پارہ نہم میں نقل کیا تھا " یہاں مناسب ہے کہ دوبارہ وہ اقتباس دے دیا جائے۔ " بعثت سے لے کر وفات تک کفار اور منافقین کے ساتھ آپ کا طرز عمل " اس عنوان کے تحت وہ رقم طراز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپ کی طرف یہ وحی نازل کی کہ " آپ اپنے رب کے نام سے پڑھیں " یوں ہوا آپ کی نبوت کا آغاز ، اس وقت جو حکم دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ آپ اپنے دل میں پڑھیں۔ ابھی آپ کو تبلیغ کا حکم نہ ملا تھا ، کچھ عرصہ بعد یہ آیت نازل ہوئی یا ایہا المدثر قم فانذر یعنی اقراء سے آپ کو نبوت ملی اور یا ایہا المدثر سے آپ کو منصب رسالت عطا ہوا اور حکم دیا گیا کہ آپ اپنے رشتہ داروں کو ڈرائیں ، رشتہ داروں کے بعد آپ نے اپنی قوم کو انجام بد سے ڈرایا۔ قوم کے بعد مکہ مکرمہ کے ارگرد پھیلے ہوئے قبائل کو تبلیغ کی۔ اس کے بعد یہ پیغام پوری عرب دنیا تک عام کردیا گیا اور بالآخر اس دعوت کو بین الاقوامی دعوت بنا دیا گیا۔ دعوت اسلامی کا کام شروع کرنے کے بعد نبی ﷺ کئی سال تک صرف وعظ اور تبلیغ کرتے رہے اور طاقت کا استعمال نہ کیا ، بلکہ آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ صبر اور درگزر سے کام لیں اور اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیں۔ ایک عرصہ بعد آپ کو ہجرت کی اجازت دی گئی اور ساتھ ہی دشمنوں سے لڑنے کی بھی اجازت دی گئی تاہم یہ اجازت اس حد تک تھی کہ صرف ان لوگوں سے جنگ کی جائے جو لڑنے کے لیے میدان میں اتر آئیں اور دوسروں سے نہ لڑا جائے۔ سب سے آخر میں یہ حکم دیا گیا کہ کفار اور مشرکین سے اس وقت تک جنگ جاری رکھی جائے جب تک دین اللہ کے لیے خالص نہیں ہوجاتا۔ (لیکون الدین کلہ للہ) جس وقت آپ کو جہاد کا حکم دیا گیا ، اس وقت حضور اور کفار کے درمیان تعلقات کی صرف تین شکلیں تھیں ، اہل صلح ، اہل حرب اور اہل ذمہ ، اہل صلح یعنی جن کے ساتھ امن کے معاہدات ہوئے تھے ، ان کے بارے میں حکم ہوا کہ عہد کو آخر تک نبھایا جائے ، لیکن صرف اس صورت میں کہ جانب مخالف اپنے معاہدے کا پابند ہو اور اگر وہ عہد شکنی اور غداری کریں تو آپ بھی معاہدہ ان کے منہ پر دے ماریں ، البتہ ایسے لوگوں کے ساتھ عملاً جنگ اس وقت تک نہ چھیڑی جائے جب تک انہیں باقاعدہ اطلاع نہ دی جائے کہ معاہدہ ختم ہوچکا ہے۔ جب سورة براءت نازل ہوئی تو ان تمام اقسام کے احکام علیحدہ علیحدہ بیان ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ، نبی ﷺ کو حکم دیا کہ وہ اہل کتاب (یہود و نصاری) سے اس وقت تک لڑیں کہ یا وہ جزیہ قبول کریں اور یا اسلام میں داخل ہوجائیں اور مشرکین اور منافقین سے بھی جہاد کا حکم دیا گیا۔ نیز منافقین سے مزید سختی برتنے کا حکم دیا گیا۔ کفار کے ساتھ آپ کا جہاد مسلح جنگ کی شکل میں تھا اور منافقین کے ساتھ زبان اور دلیل سے۔ سورة براۃ میں یہ حکم بھی دیا گیا کہ کفار کے ساتھ کیے ہوئے تمام معاہدات کو ختم کردیا جائے اور علی الاعلان ان سے براءت کا اظہار کردیا جائے۔ اس اعلان کے بعد اہل عہد کی تین اقسام قرار پائیں ، وہ جن کے ساتھ جنگ کا حکم دیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے عہد شکنی کی تھی اور اپنے عہد پر قائم نہیں رہے تھے ، ان لوگوں کے ساتھ حضور نے جنگ کی اور ان پر فتح پائی۔ دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جن کے ساتھ عہد تھا اور وہ اسے نبھاتے بھی رہے۔ آپ کو حکم دیا گیا کہ ان کے ساتھ جو معاہدہ ہے اسے مقرر مدت تک برقرار رکھا جائے اور شرائط کی پابندی کی جائے۔ تیسری قسم ایسے لوگوں کی تھی کہ جن کے ساتھ اگرچہ معاہدہ تو نہ تھا لیکن یہ لوگ آپ کے خلاف کسی جنگ میں بھی شریک نہ ہوئے تھے یا ان کے ساتھ تعین مدت کے بغیر معاہدہ طے پا گیا تھا ، ایسے لوگوں کے بارے میں حکم ہوا کہ انہیں چار ماہ کی مہلت دی جائے اور ان سے کہہ دیا جائے کہ اس کے بعد کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا۔ یا مسلمان ہوجاؤ ورنہ لڑنے کے لیے تیارہ ہوجاؤ۔ چناچہ انہی ہدایات کے مطابق آپ نے عہد شکنوں کے ساتھ جنگ کی ، اور جن کے ساتھ کوئی عہد نہ تھا انہیں چار ماہ کی مہلت دی اور راست باز معاہدین کے ساتھ اپنا عہد پورا کیا اور ایسے تمام لوگ معاہدہ کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی اہل ایمان اور مسلمانوں کا جزو بن گئے اور اہل ذمہ پر جزیہ عائد ہوا۔ جیسا کہ کہا گیا سورة براءت کے نزول کے بعد کفار کے ساتھ آپ کے تعلقات تین قسم کے رہ گئے تھے یعنی محارب ، اہل ذمہ اور اہل عہد اور چونکہ اہل سب کے سب اسلام میں داخل ہوگئے تھے ، اس طرح صرف اہل ذمہ اور اہل حرب ہی باقی رہ گئے۔ اہل حرب کی حالت یہ رہتی تھی کہ آپ کے دور میں وہ ہمیشہ آپ سے خائف رہتے تھے۔ چناچہ حضور ﷺ کی عمر کے آخری دور میں حضور اور تمام انسانوں کے تعلقات کی نوعیت صرف یہ رہ گئی تھی کہ ان میں سے بعض مسلم اور مومن تھے ، بعض آمن اور مسالم تھے اور بعض آپ سے خائف اور محارب تھے۔ منافقین کے ساتھ آپ کا طرز عمل یہ تھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ آپ ان کے اعلان اسلام کو قبول فرمائیں اور ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کردیں اور ان کے مقابلے میں علم و استدلال کے ہتھیار ہی استعمال کریں اور ان کے ساتھ سرد مہری کا رویہ اختیار کریں اور ان سے سختی برتیں اور ان کی نفسی کیفیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے ارشادات عالیہ سے ان کی اصلاح کی سعی کریں۔ ان کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کریں اور نہ حضور ان کی قبر پر کھڑے ہوکر دعا کریں اور یہ کہ اگر آپ ان کے لیے دعائے مغفرت مانگ بھی لیں تو بھی اللہ انہیں ہر گز نہ بخشے گا۔ یہ تھا مختصر بیان حضور کے طرز عمل کا اپنے کفار اور منافق دشمنوں کے ساتھ " اس تلخیص کے مطالعہ ، واقعات سیر کے مطالعہ اور ان آیات کے شان نزول کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن حالات میں سورت انفال نازل ہوئی وہ حالات ، مدینہ کے ابتدائی حالات اور سورت توبہ میں پیش کردہ آخری حالات کے درمیان ایک عبوری مرحلہ تھا۔ لہذا ان تاریخی مراحل کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان آیات کا مطالعہ ضروری ہے۔ اگرچہ ان میں بعض حتمی اصول بھی موجود ہیں لیکن یہ آخری شکل میں سورت توبہ میں دی گئی اور عملی طور پر ان اصولوں کو حضور ﷺ کی سیرت کے آخری ایام میں نافذ کیا گیا۔ ابن قیم کے اس تفصیلی بیان کی روشنی میں اب ہم ان نصوص قرآنی کی تشریح کرتے ہیں : اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ۔ اَلَّذِيْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِيْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّهُمْ لَا يَتَّقُوْنَ ۔ یقیناً اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو ماننے سے انکار کردیا۔ پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ (خصوصا) ان میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تونے معاہدہ کیا پھر وہ ہر موقع پر اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے۔ لفظ دواب کا اطلاق اگرچہ لغوی طور پر ان تمام چیزوں پر ہوتا ہے جو زمین پر چلتی پھرتی ہیں۔ لہذا انسان پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے ، لیکن جب اس کا اطلاق انسانوں پر کیا جائے تو اس وقت بات کو ایک خاص رنگ دینا بھی مطلوب ہوتا ہے۔ یعنی انسانیت کو حیوانیت کا رنگ اور شیڈ دینا مطلوب ہوتا ہے۔ اس طرح جن انسانوں پر اس لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہے ، ان کے بارے میں یہ تاثر دے دیا جاتا ہے کہ وہ بدترین بہائم ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کی روش اختیار کرلی ہے اور ان کے حالات ان کو یہاں تک لے آے ہیں کہ اب وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ کیونکہ ان لوگوں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عہد کو تو توڑتے ہیں اور اللہ سے نہیں ڈرتے۔ اس آیت سے مراد کون لوگ ہیں ؟ اس کے بارے میں متعدد روایات وارد ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ بنو قریظہ ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ بنونضیر ہیں۔ بعض روایات میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ بنوقینقاع ہیں۔ بعض میں یہ کہا گیا کہ اس سے وہ عرب مراد ہیں جو مدینہ کے اردگرد رہتے تھے۔ اس آیت کے الفاظ اور تاریخی واقعات دونوں بناتے ہیں کہ اس سے مراد یہ سب لوگ ہوسکتے ہیں کیونکہ یہودیوں میں سے ہر گروہ نے اپنی اپنی جگہ حضور کے ساتھ عہد شکنی کی۔ اور مدینہ کے ارد گرد مشرکین نے بھی بار بار عہد شکنی کی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں بدر سے پہلے اور بعد میں پیش ہونے والے سب واقعات پر تبصرہ کیا ہے۔ لیکن جو حکم دیا گیا ہے وہ قیامت تک کے لیے ہے اور ان تمام لوگوں پر اور تمام حالات پر صادق ہوگا جو قیامت تک اسی نہج پر پیش آئیں گے۔ یہ لوگ جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی یہ لوگ کفر میں دور تک چلے گئے ہیں اور انہوں نے ایسی روش اختیار کی ہے کہ اب ان کے ایمان کا کوئی امکان نہیں رہا ہے۔ اس طرح ان کی فطرت میں بگاڑ داخل ہوگیا ہے۔ اور وہ جانوروں میں سے بدترین جانور بن گئے۔
Top