Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 49
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓئِكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یُهَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَایَتِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰى یُهَاجِرُوْا١ۚ وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰى قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَهَاجَرُوْا : اور انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور جہاد کیا بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰوَوْا : ٹھکانہ دیا وَّنَصَرُوْٓا : اور مدد کی اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اَوْلِيَآءُ : رفیق بَعْضٍ : بعض (دوسرے) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَمْ يُهَاجِرُوْا : اور انہوں نے ہجرت نہ کی مَا لَكُمْ : تمہیں نہیں مِّنْ : سے وَّلَايَتِهِمْ : ان کی رفاقت مِّنْ شَيْءٍ : کچھ شے (سروکار) حَتّٰي : یہانتک کہ يُهَاجِرُوْا : وہ ہجرت کریں وَاِنِ : اوراگر اسْتَنْصَرُوْكُمْ : وہ تم سے مدد مانگیں فِي الدِّيْنِ : دین میں فَعَلَيْكُمُ : تو تم پر (لازم ہے) النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر عَلٰي : پر (خلاف) قَوْمٍ : وہ قوم بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَهُمْ : اور ان کے درمیان مِّيْثَاقٌ : معاہدہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے تو اجازت ہی دیجئے۔ اور آفت میں نہ ڈالئے۔ دیکھو یہ آفت میں پڑگئے ہیں اور دوزخ سب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔
(9:49) ائذن لی۔ تو رخصت سے۔ تو اجازت دے۔ اذن یاذن (سمع) سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ اذن مصدر جس کے معنی ہیں اجازت دینا۔ لاتفتنی۔ فعل نہی۔ تو مجھے فتنہ میں نہ ڈال۔ تو مجھے آزمائش میں نہ ڈال۔ تو مجھے گمراہی میں نہ ڈال۔ فتن یفتن (ضرب) فتون سے۔ اصل میں لا تفتن تھا۔ ی ضمیر واحد متکلم اور اس سے قبل نون وقاریہ جس میں لاتفتن کا نون مدغم ہوا۔ تو مجھے آزمائش میں نہ ڈال یعنی میری مجبوری ایسی ہے کہ اگر آپ اجازت نہ دیں گے تو میں مجبورا تعمیل سے قاصر رہوں گا۔ اس لئے آپ جہاد میں جانے کے لئے حکم ہی نہ دیں تاکہ میں نافرمانی کی آزمائش سے بچ جاؤں۔ الا۔ حرف تنبیہ اور استفتاح (یعنی کلام کے شروع کرنے کے لئے ہے) یہاں بطور استفتاح کے استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ جب یہ شروع کلام میں آتا ہے تو اپنے مابعد کے مضمون پر زور دیتا ہے اور اس کے تحقق کو ثابت کرتا ہے جیسے الا انہم ھم السفہاء (2:13) خبر دار ہو کہ یہی بیوقوف ہیں۔ آیۃ ہذا میں ہے الا فی الفتنۃ سقطوا۔ خبردار رہو کہ فتنہ میں تو وہ پہلے ہی گر چکے۔ سقطوا۔ وہ گرپڑے۔ سقوط سے ماضی۔ جمع مذکر غائب۔ لمحیطۃ۔ اسم فاعل مؤنث۔ احاطۃ مصدر احاط یحیط اھاطۃ (باب افعال) حوط مادہ ۔ چاروں طرف سے گھیر لینے والی۔
Top