Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 102
وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا١ؕ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور اعْتَرَفُوْا : انہوں نے اعتراف کیا بِذُنُوْبِهِمْ : اپنے گناہوں کا خَلَطُوْا : انہوں نے ملایا عَمَلًا صَالِحًا : ایک عمل اچھا وَّاٰخَرَ : اور دوسرا سَيِّئًا : برا عَسَى : قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ : معاف کردے انہیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
کچھ اور لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کیا ہے۔ ان کا عمل مخلوط ہے ، کچھ نیک ہے اور کچھ بد۔ بعید نہیں کہ اللہ ان پر پھر مہربان ہوجائے کیونکہ وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
1 :۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ والبیہقی رحمہم اللہ نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” واخرون اعترفوا بذنوبہم خلطوا عملا واخر سیئا “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ دس آدمی تھے جو غزوہ تبوک میں رسول اللہ (ﷺ) سے پیچھے رہ گئے تھے جب رسول اللہ (ﷺ) واپس تشریف لے آئے تو ان میں سے سات آدمیوں نے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیا جب نبی کریم (ﷺ) مسجد میں ان کے پاس سے گزرے اور ان کو دیکھ کر فرمایا کہ کون لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو باندھ دیا ہے صحابہ کرام ؓ نے فرمایا یہ ابو لبابہ اور ان کے ساتھی ہیں جو آپ سے یارسول اللہ (ﷺ) پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے اپنے آپ کو باندھ دیا اور قسم اٹھائی کہ کوئی ان کو نہ کھولے گا یہاں تک کہ نبی کریم (ﷺ) ان کو کھولیں گے اور ان کا عذر قبول فرمائیں گے آپ نے فرمایا میں بھی اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کو نہیں کھولوں گا اور نہ ان کا عذر قبول کروں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کو کھولیں گے کیوں کہ انہوں نے مجھ سے اعراض کیا اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے سے پیچھے رہ گئے ۔ جب ان کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا ہم اپنے آپ کو نہیں کھولیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہی ہم کو کھولنے والے ہیں ہوں گے تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت ) نازل فرمائی (آیت) ” واخرون اعترفوا بذنوبہم خلطوا عملا واخر سیئا۔ عسی اللہ ان یتوب علیہم “ اور قریب کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے توبہ قبول ہوجائے اور وہ بہت توبہ قبول کرنے والے اور رحم کرنے والے ہیں جب (یہ آیت) نازل ہوئی تو نبی کریم (ﷺ) نے ان تک یہ آیت پہنچائی ان کو کھول دیا اور ان کا عذر قبول کرلیا وہ مال لے آئے اور کہا یا رسول اللہ یہ ہمارے لئے مال ہیں ہماری طرف سے اس کو صدقہ کردیجئے اور ہمارے لئے استغفار فرمائیے آپ نے فرمایا مجھے تمہارا مال لینے کا حکم نہیں دیا گیا تو اللہ جل شانہ نے یہ نازل فرمایا (آیت) خذ من اموالہم صدقۃ تطھرھم وتزکیہم بھا وصل علیم “ فرمایا کہ ان کے لئے استغفار کیجئے (آگے فرمایا) (آیت) ” ان صلوتک سکن لہم “ یعنی آُ کی دعا ان کے لئے رحمت ہوگی آپ نے ان سے صدقہ لے لیا اور ان کے لئے استغفار فرمایا اور ان میں سے تین آدمی ایسے تھے جنہوں نے اپنے آپ کو ستونوں سے نہیں باندھا ان کا معاملہ ایک سال موخر کردیا گیا وہ نہیں جانتے تھے کیا ان کو عذاب دیا جائے گا یا ان کو توبہ قبول کی جائے گی تو اللہ عزوجل نے (یہ آیت ) ” لقد تاب اللہ علی النبی والمھجرین والانصار الذین اتبعوہ فی ساعۃ العسرۃ “ اتاری آیت کے آخر تک پھر فرمایا (آیت) وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ سے لے کر (آیت) ” ثم تاب علیہم لیتوبوا ، ان اللہ ھو التواب الرحیم (118) تک یعنی ” ان استقاموا “ اگر وہ صراط مستقیم پر قائم رہے ۔ 2 :۔ ابوالشیخ (رح) نے ضحاک (رح) سے بغیر اسی طرح روایت بیان کی ۔ 3 :۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابن ابی حاتم والبیہقی نے دلائل میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” اعترفوا بذنوبہم “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ابولبابہ تھے جب انہوں نے قریظہ کو کچھ کہا تو ساتھ ہی اپنے گلے کی طرف اشارہ کردیا کہ محمد (ﷺ) تم ذبح کریں گے اگر تم ان کے حکم پر اتر آئے ۔ ابولبابہ ؓ کا اپنے آپ کو ستون سے باندھنا : 4 :۔ البیہقی (رح) نے دلائل میں سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ بنوقریظہ (یہودی) ابو لبابہ کے حلیف تھے انہوں نے اوپر سے جھانک کر ان کی طرف دیکھا اور آپ ان کو رسول اللہ (ﷺ) کے حکم کی طرف دعوت دینے لگے انہوں نے کہا اے ابولبابہ کیا تو ہم کو حکم دیتا ہے کہ ہم نیچے اتر آئیں تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے گلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ذبح کردیئے جاؤ گے رسول اللہ (ﷺ) کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپ نے ان سے فرمایا کیا تو خیال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تیرے ہاتھ سے غافل ہیں جب تو نے ان کی طرف اس کے ذریعہ اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا پس وہ کچھ وقت تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ رسول اللہ (ﷺ) غزوہ تبوک کے لئے تشریف لے گئے اور یہ تنگی والا جہاد تھا وہ لوگ جو پیچھے رہ گئے (غزوہ تبوک سے ) ابولبابہ بھی ان لوگوں میں سے تھے جب رسول اللہ (ﷺ) (غزوہ سے ) واپس تشریف لائے ابو لبابہ نے آکر سلام کیا آپ نے ان سے منہ پھیرلیا تو ابولبابہ گھبرائے گئے اور تو بہ کے ستون سے اپنے آپ کو باندھ دیا جو ام سلمہ کے دروازہ کے پاس ہے سات دن اور رات شدید گرمی میں اسی حال میں رہے ان دنوں میں کچھ کھایا اور نہ ایک قطرہ تک پیا اور کہا میں اس جگہ پر پڑا رہوں گا یہاں تک کہ اس دنیا سے جدا ہوجاؤں گا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لیں وہ برابر اسی طرح رہے یہاں تک کہ کمزوری کے سبب کسی کی آواز بھی نہیں سن سکتے تھے اور رسول اللہ (ﷺ) انکی طرف صبح اور شام دیکھتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی آواز دی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے تیری توبہ قبول کرلی رسول اللہ (ﷺ) نے ان کی طرف ایک آدمی بھیجا تاکہ ان کو ان کی رسی سے آزاد کردے انہوں نے انکار کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) کے بغیر مجھے کوئی نہ کھولے ۔ رسول اللہ (ﷺ) تشریف لائے اور اپنے ہاتھ مبارک سے ان کو کھولا جب تندرست ہوئے تو ابولبابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ) میں اپنی قوم کا وہ گھر کو دوں گا جس میں مجھ سے یہ غلطی ہوئی اور میں آپ کی طرف منتقل ہونا چاہتا ہوں آپ مجھ کو ٹھکانہ دیجئے اور میں اپنے مال میں سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف صدقہ نکالنا چاہتا ہوں آپ نے فرمایا تجھ سے مال کا تیسرا حصہ کافی ہے ابو لبابہ نے پانی قوم کے گھر سے ہجرت کرلی اور رسول اللہ (ﷺ) کے پاس سکونت اختیار کرلی اور انہوں نے اپنے تہائی مال کا صدقہ کیا پھر توبہ کی پھر اس کے بعد اسلام میں ان سے سوائے نیکی اور خیر کے عمل کے اور کچھ نہیں دیکھا گیا یہاں تک کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ 5 :۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) غزوہ تبوک پر تشریف لے گئے تو ابو لبابہ اور ان کے ساتھ دو آدمی پیچھے رہ گئے نبی کریم (ﷺ) سے ( جہاد میں نہ جاسکے ) پھر ابو لبابہ اور ان کے ساتھ دو آدمیوں نے سوچا اور نادم ہوئے اور انہوں نے اپنی ہلاکت کا یقین کرلیا ۔ اور کہنے لگے کہ ہمسائے اور عورتوں کے ساتھ اطمینان اور راحت سے رہ رہے تھے اور رسول اللہ (ﷺ) اور ایمان والے لوگ آپ کے ساتھ جہاد میں مصروف ہیں ۔ اللہ کی قسم ہم اپنے آپ کو ستونوں کے ساتھ ضرور باندھ دیں گے ۔ اور پھر نہیں کھولیں گے یہاں تک کہ رسول اللہ (ﷺ) ہم کو کھولیں گے اور ہمارا عذر قبول فرمائیں گے ابو لبابہ چلے اور انہوں نے اپنے آپ کو باندھ دیا اور ان کے ساتھ دو آدمیوں نے بھی مسجد کے ستونوں سے (اپنے آپ کو ) باندھ دیا اور تین آدمی باقی رہ گئے کہ انہوں نے اپنے آپ کو نہ باندھا۔ رسول اللہ (ﷺ) جہاد سے واپس تشریف لائے اور آپ سیدھے مسجد میں پہنچے تو ان پر گزرتے ہوئے فرمایا یہ لوگ کون ہیں اپنے آپ کو ستونوں سے باندھنے والے ایک آدمی نے کہا یہ ابولبابہ اور ان کے دوساتھی ہیں جو رسول اللہ (ﷺ) سے پیچھے رہ گئے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے معاہدہ کیا کہ ہم اپنے آپ کو نہ کھولیں گے یہاں تک کہ آپ ان کو نہ کھولیں گے اور ان سے راضی نہ ہوں گے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے معاہدہ کیا کہ ہم اپنے آپ کو نہ کھولیں گے یہاں تک کہ آپ ان کو نہ کھولیں گے اور ان سے راضی نہ ہوں گے اور انہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا ہے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ کی قسم میں ان کو نہ کھولوں گا یہاں تک کہ میں ان کو نہ کھولوں گا یہاں تک کہ میں ان کو کھولنے کا حکم نہ دیا جاؤں اور ان کا عذر قبول نہ کروں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کا عذر قبول نہ فرمائیں گے کیونکہ یہ لوگ پیچھے رہ گئے مسلمانوں سے اور ان کے ساتھ جہاد کرنے سے اعراض کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” واخرون اعترفوا بذنوبہم “ اور قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا ضرور ہوگا جب آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (ﷺ) نے ان کو کھولا اور ان کے عذر کو قبول فرمایا ۔ ابو لبابہ اور ان کے ساتھی اپنے مال لے کر آئے اور رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آکر کہا ہمارے مالوں کو لے لیجئے اور ہماری طرف سے اس کو صدقہ کردیجئے اور ہمارے لئے رحمت کی دعا کیجئے وہ عرض کرنے لگے کہ ہمارے لئے استغفار کیجئے اور ہم کو پاک کیجئے ۔ آپ نے فرمایا میں اس میں سے کچھ بھی نہیں لوں گا ۔ یہاں تک اس کا حکم نہ کیا جاؤں ۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” خذ من اموالہم صدقۃ “ راوی نے کہا کہ تین آدمی باقی رہ گئے جنہوں نے ابولبابہ کی مخالفت کی انہوں نے توبہ نہیں کی تھی ۔ اور نہ ہی کسی چیز کا انہوں نے ذکر کیا اور ان کے عذر کے بارے میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ۔ ان پر زمین تنگ ہوگئی کشادہ ہونے کے باوجود ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” واخرون مرجون لامر اللہ “ تو ان لوگوں نے کہنا شروع کیا وہ ہلاک ہوگئے جب ان کے لئے عذر نازل نہیں ہوا اور دوسرے لوگوں نے کہنا شروع کیا وہ ہلاک ہوگئے جب ان کے لئے عذر نازل نہیں ہوا اور دوسرے لوگوں نے کہنا شروع کیا تو قریب ہے اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائیں گے ۔ اور وہ انتظار کرنے لگے اللہ کے حکم کا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” لقد تاب اللہ علی النبی “ سے لے کر (آیت) ” وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ تک یعنی وہ انتظار کررہے تھے اللہ کے حکم کا پس ان پر توبہ کا حکم نازل ہوا اور اس کے ساتھ انہوں نے عمل کیا ۔ 6 :۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” واخرون اعترفوا بذنوبہم “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آٹھ آدمی تھے جنہوں نے اپنے آپ کو ستونوں کے ساتھ باندھ دیا تھا ان میں سے کردم ، مرداس اور ابولبابہ تھے ۔ 7 :۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ (رح) نے قتادہ (رح) نے (آیت) ” واخرون اعترفوا بذنوبہم خلطوا عملا واخر سیئا۔ کے بارے میں فرمایا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ یہ سات آدمی تھے جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے ان میں سے چار ایسے تھے جنہوں نے کچھ اچھے عمل اور کچھ برے عمل آپس میں ملا دیئے (ان کے نام یہ تھے ) جد بن قیس ، ابولبابہ ، حرام اور اوس یہ سب انصار میں سے تھے ان کی توبہ قبول کی گئی اور یہ وہ لوگ تھے جن کے بارے میں کہا گیا (آیت ) ” خذ من اموالہم صدقۃ “ 8 :۔ ابن ابی حاتم (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” خلطوا عملا واخر سیئا “ کے بارے میں فرمایا (عمل صالح والے لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ جہاد کیا (آیت) ” واخر سیئا “ جو ان سے پیچھے رہ گئے۔ 9 :۔ ابن ابی شیبہ وابن دنیا نے توبہ میں وابن جریر وابن منذر وابو الشیخ والبیہقی نے شعب الایمان میں ابو عثمان نہدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے قرآن میں کوئی آیت نہیں ہے جو میرے نزدیک اس امت کے لئے اس آیت سے بڑھ کر امید افزاء ہو (آیت) ” واخرون اعترفوا بذنوبہم خلطوا عملا واخر سیئا “ ۔ اعمال سیئہ سے توبہ کرنا : 10 :۔ ابوالشیخ والبیہقی (رح) نے مطرف (رح) سے روایت کیا کہ میں رات کو اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا اور قرآن پر غور کررہا تھا تو میں نے اپنے اعمال کو اہل جنت کے اعمال کو اہل جنت کے اعمال پر پیش کیا اچانک ان کے اعمال شدید اور سخت تھے مثلا (آیت) ” کانوا قیلا من الیل ما یہجعون (17) “ (الذریات) اور (آیت) اور ” یبیتون لربہم سجدا و قیام ‘ (64) “ (فرقان آیت 64) اور (آیت) ” امن ھو قانت اناء الیل ساجدا وقائما “ تو میں اپنے آپ کو ان میں سے گمان نہ کرتا پھر میں نے اپنے آپ کو اسآیات پر پیش کیا (آیت) ” ما سلکم فی سقر (42) اور (آیت) ” قالوا لم نک من المصلین (42) “ المدثر) لے کر ”(آیت ) ” نکذب بیوم الدین (46) تک پس میں جھٹلانے والی قوم میں غور وفکر کرتا اور اپنے آپ کو ان میں گمان نہ کرتا پھر اس آیت کا حکم دیا گیا یعنی (آیت) ” واخرون اعترفوا بذنوبہم خلطوا عملا واخر سیئا “ پس میں امید کرسکتا ہوں کہ میں ان میں سے ہوں گا اور اے میرے بھائیو ! تم بھی ان میں سے ہوگے۔ 11 :۔ ابو الشیخ وابو المنذر و ابونعیم نے المعرفۃ میں وابن عساکر نے ایک قومی سند کے ساتھ جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ غزوہ تبوک میں چھ آدمی رسول اللہ (ﷺ) سے پیچھے رہ گئے تھے (وہ یہ تھے ) ابو لبابہ اوس بن جزام ، ثعلبہ بن ودیعہ ، کعب بن مالک ، مرارہ بن ربیع اور ھلال بن امیہ (ان میں سے ) ابو لبابہ اوس بن جزام اور ثعلبہ آئے اور انہوں نے اپنے آپ کو ستونوں سے باندھ دیا اور اپنا مال لے آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ اس مال کو لے لیجئے جو ہم آپ سے پیچھے رک گئے اور ان کو چالیس دن مؤخر کردیا گیا وہ باہر نکلے اور انہوں نے اپنے خیمے لگائے اور ان میں سے آپ نے ان کو اپنی عورتوں سے بھی جدا کردیا کوئی مسلمان ان کا دوست نہیں تھا ۔ اور اس میں سے کوئی قریب بھی نہیں ہوا پھر اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ سے لے کر ” التواب الرحیم “ تک ام سلمہ نے کعب کی طرف ایک آدمی بھیجا اور ان کو خوشخبری دی ۔ 12 :۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن شوذب (رح) سے روایت کیا کہ احنف بن قیس نے فرمایا کہ میں نے اپنے آپ کو قرآن پر پیش کیا ۔ میں نے کسی آیت کو نہیں پایا جو میرے نزدیک اس آتی سے زیادہ مشابہت رکھتی ہو ، یعنی (آیت) ” خذ من اموالہم صدقۃ واخرون اعترفوا بذنوبہم خلطوا عملا واخر سیئا :۔ 13 :۔ ابو الشیخ (رح) نے مالک بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حسن بصری سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ” (آیت) ” خذ من اموالہم صدقۃ واخرون اعترفوا بذنوبہم خلطوا عملا واخر سیئا :۔ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اے مالک انہوں نے توبہ کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے ۔ اور امید ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ واجب ہے (یعنی ثابت ہے ) صحابہ کرام ؓ سے خواب کے متعلق دریافت کرنا : 14 :۔ بخاری ومسلم وترمذی والنسائی وابن مردویہ رحمہم اللہ نے سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) اکثر اپنے صحابہ سے فرمایا کرتے تھے کیا تم سے کسی نے خواب دیکھا ہے ؟ ایک صبح کو آپ نے ہم سے فرمایا اس رات دو آنے والے میرے پاس آئے مجھ سے کہا چلئے میں ان کے ساتھ چل پڑا ۔ وہ مجھے مقدس زمین کی طرف لے گئے ہم ایک آدمی پر تھے جو لیٹا ہوا تھا اور دوسرا ایک پتھر لے کر اس پر کھڑا ہوا تھا اچانک وہ پتھر کو اس کے سر پر مارتا ہے تو اس کا سرکچلا جاتا ہے اور پتھر لڑھک کر دور جاگرتا ہے۔ وہ پتھر کے پیچھے جاکر اس کو اٹھاتا ہے اور اس کی طرف واپس آتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس کا سر ٹھیک ہوجاتا ہے جیسے تھا پھر وہ دوبارہ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہے جو اس سے پہلی مرتبہ کیا تھا میں نے ان دونوں سے کہا سبحان اللہ یہ دونوں کون ہیں ؟ میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا چلئے تو ہم چلے اور ایک اپنی گدی بل چت لیٹے ہوئے ایک آدمی کے پاس آئے اور دوسرا آدمی لوہے کی سلاخ لے کر اس پر کھڑا تھا اچانک وہ اس کی ایک جانب سے آکر اس کی باچھیں گدی تک چیر دیتا ہے ۔ اور اس کے نتھنوں کو اس کی گدی تک اور اس کی آنکھوں کو اس کی گدی تک چیر دیتا ہے پھر وہ دوسری جانب پھر آتا ہے اور اس جانب سے بھی اسی طرح کرتا ہے جیسے اس نے پہلی جانب کیا تھا اس جانب سے جب فارغ ہوتا ہے تو پہلی جانب ٹھیک ہوجاتی تھی جیسے تھی پھر وہ اس کی طرف لوٹتا ہے اور اس طرح کرتا ہے جیسے اس نے پہلی مرتبہ کیا تھا میں نے کہا سبحان اللہ یہ دونوں کون ہیں ؟ میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا آگے چلئے تو ہم چلے اور ہم تنور کی طرح ایک چیز پر آئے اچانک اس میں شور اور آوازیں تھیں ہم نے اس میں جھانکا اچانک اس میں مرد اور عورتیں ننگی تھیں آگ کا شعلہ ان کو نیچے سے بلند ہوتا تھا یہ شعلہ جب ان پر پڑتا تو وہ چیخ و پکار کرتے میں نے کہا یہ کون ہیں ؟ دونوں نے مجھ سے کہا آگے چلئے ہم چلے اور خون کی طرح ایک سرخ نہر پر آئے اور تیرنے والے آدمی اس میں تیر رہا تھا اور نہر کے کنارہ پر ایک دوسرا آدمی تھا جس کے پاس بہت سے پتھر تھے جب وہ تیرنے والا تیر کر اس کے پاس آتا تھا جس کے پاس پتھر جمع تھے تو وہ اپنا منہ کھولتا تو یہ اس کے منہ میں پتھر ڈال دیتا پھر وہ آدمی چلا جاتا اور تیرنے لگتا پھر اس کی طرف لوٹتا جب کبھی لوٹتا تو اپنا منہ کھول دیتا اور وہ اس میں پتھر ڈال دیتا ۔ میں نے ان دونوں سے کہا یہ دونوں کون ہیں ؟ میرے دونوں ساتھیوں نے کہا آگے چلئے ہم چلے اور ایک بہت ہی بدصورت آدمی کے پاس آئے جس سے بڑھ کر آپ نے انتہائی بدصورت آدمی کو نہیں دیکھا ہوگا اچانک اس کے پاس ایک آگ تھی جس کو وہ سلگاتا کہ اس کے اردگرد دوڑتا تھا ۔ میں نے اس سے کہا یہ کون ہے دونوں نے مجھ سے کہا آگے چلئے ہم چلے اور ایک گھنے سیاہ باغ پر آئے اس میں ہر جانب بہار کا نور تھا اور اچانک باغ کے راستوں کے درمیان ایک لمبے قد کا آدمی تھا قریب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے سر کی لمبائی آسمان کی طرف بڑھی ہوئی تھی جبکہ اس آدمی کے اردگرد اکثر (چھوٹے ) بچے تھے کہ میں نے ان کو کبھی نہیں دیکھا تھا میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے دونوں نے مجھ سے کہا آگے چلئے ہم چلے اور ایک بڑے باغ کی طرف پہنچے ۔ اس سے بڑا باغ میں نے کبھی نہیں دیکھا اور نہ اس سے اچھا دونوں نے مجھ سے کہا اس میں چڑھتے چلو ہم اس میں چڑھے ہم ایک ایسے شہر کی طرف پہنچے جو سونے اور چاندی کی اونٹینوں سے بنایا گیا تھا ہم اس شہر کے دروازہ پر آئے ہم نے کھولنے کو کہا تو ہمارے لئے کھول دیا گیا ہم اس میں داخل ہوئے اور وہاں بہت سے لوگوں سے ہم نے ملاقات کی ان میں کچھ اپنی تخلیق میں اتنے حسین تھے کہ ان سے بڑھ کر حسین تم نے نہیں دیکھے ۔ اور کچھ اتنے بدصورت تھے کہ ان سے بڑھ کر بدصورت تم نے نہیں دیکھے ۔ دونوں نے ان سے فرمایا تم جاؤ اور اس میں نہر میں اپنارنگ صاف کرلو اچانک یہ نہر چوڑائی میں تھی جو جاری تھی اور اس کا پانی دودھ کی طرح سفید تھا وہ لوگ گئے اور اس میں واقع ہوگئے پھر ہماری طرف لوٹ آئے ۔ ان سے ساری بدصورتی چلی گئی اور وہ انتہائی حسین ہوگئے دونوں نے مجھ سے کہا یہ آپ کو محل ہے اور آپ کی منزل ہے میں نے ان سے کہا تم دونوں میں اللہ تعالیٰ برکت دے مجھ کو چھوڑ دو میں اس میں داخل ہوجاؤں دونوں نے کہا ابھی نہیں لیکن تم ضرور اس میں داخل ہوگے۔ جہنم کی خواب میں دیکھنا : میں نے ان دونوں سے کہا آج کی رات میں نے عجیب و غریب مناظر دیکھے رہیں ۔ وہ کیا ہے جو میں نے دیکھا دونوں نے مجھ سے کہا پہلا آدمی کہ جس پر ایک آدمی آکر اس کا سر کچل دیتا ہے پتھر کے ساتھ وہ آدمی ہے جو قرآن شروع کرتا پھر اسے چھوڑ دیتا تھا اور فرض نماز سے سو جاتا تھا (یعنی نماز نہیں پڑھتا تھا ) اس کے ساتھ قیامت کے دن تک ایسا کیا جاتا رہے گا اور آدمی جو اس کے جبڑے کو گدی تک چیر دیتا تھا اس کے نتھنوں کو اس کی گدی تک اور اس کی آنکھوں کو اس کی گدی تک کیونکہ یہ آدمی صبح سویرے نکل کر جھوٹ بولتا تھا اور اس کا جھوٹ آفاق میں پہنچ جاتا ہے اور اس کے ساتھ اس طرح قیامت کے دن تک کیا جاتا رہے گا اور ننگے مرد اور عورتیں جو سب تنور میں تھے وہ زنا کرنے والے مرد اور زنا کرنے والی عورتیں ہیں اور وہ آدمی جو ایسے آدمی کے پاس آتا ہے جو نہر میں تیرتا ہے اور وہ اس کو پتھر مارتا ہے وہ سود کھانے والا ہے اور روہ بدصورت آدمی جس کے پاس آگ تھی ۔ اس کو سلگاتا تھا وہ داروغہ جہنم مالک تھا اور وہ لمبا آدمی جو باغ میں تھا ۔ وہ حضرت ابراہم (علیہ السلام) تھے اور وہ لڑکے جو اس کے اردگرد تھے ایسے نومولود بچے تھے جو فطرت پر بھی وفات پاگئے اور وہ قوم جو آدھی ان میں سے خوبصورت تھی اور آدھی ان میں سے بدصورت تھی وہ ایسی قوم ہے جنہوں نے نیک اور برے اعمال ایسے ہی ملا دیئے اللہ تعالیٰ نے ان سے درگزر فرمایا اور میں جبرئیل اور یہ میکائل ہیں ۔ 15 :۔ الخطیب (رح) نے اپنی تاریخ میں ابو موسیؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میں نے کچھ آدمیوں کو دیکھا کہ ان کی کھالیں آگ کی کینچوں سے کاٹی جارہی تھیں ۔ میں نے کہا یہ کون ہیں ۔ بتایا یہ وہ لوگ ہیں جو ایسی چیزوں کے ساتھ زیب وزینت کرتے تھے جو ان کے لئے حلال نہیں تھی ۔ اور میں نے ایسا بدبودار خیمہ دیکھا جس میں چیخ و پکار تھی ۔ میں نے کہا یہ کیا ہے ؟ بتایا گیا کہ وہ عورتیں ہیں جو ان کے لئے بناؤ سنگھار کرتی تھیں جو ان کے لئے حلال نہیں تھے ۔ اور میں نے ایک قوم کو دیکھا جو غسل کررہے تھے جنابت کے پانی سے میں نے کہا یہ کون ہیں بتایا یہ وہ قوم ہے جنہوں نے نیک اور برے کو آپس میں ملا دیا ۔ 16 :۔ ابن سعد (رح) نے اسود بن قیس عدی (رح) نے روایت کیا کہ حسن بن علی ؓ ایک دن حبیب بن مسلمہ سے ملے اور فرمایا اے حبیب ! اللہ تعالیٰ کی اطاعت فرمانبرداری کے امور کے سوا کے لئے تجھے رب میسر آگیا ہے ۔ اس نے کہا لیکن میری پہنچ آپ کے باب تک ہے اور وہ ایسے نہیں ہیں فرمایا کیوں نہیں لیکن تو نے معاویہ کی اطاعت کی قلیل زائل ہونے والی دنیا کی شرط پر اگر وہ تیرے دنیوی (رح) معاملات میں تیرے ساتھ کھڑے ہیں وہ یقینی طور پر تو وہ تیرے ساتھ بیٹھے گا ۔ تیرے دین میں اور اگر وہ جو تو نے کیا ہے وہ تیرا کام ہے خیر اور بھلائی کی بات ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت ) ” خلطو اعملا صالحا واخر سیئا “ لیکن تو اس طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”(آیت ) ” کلا بل ران علی قلوبہم ما کانوا یکسبون (14) “
Top