Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 103
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
خُذْ : لے لیں آپ مِنْ : سے اَمْوَالِهِمْ : ان کے مال (جمع) صَدَقَةً : زکوۃ تُطَهِّرُھُمْ : تم پاک کردو وَتُزَكِّيْهِمْ : اور صاف کردو بِهَا : اس سے وَصَلِّ : اور دعا کرو عَلَيْهِمْ : ان پر اِنَّ : بیشک صَلٰوتَكَ : آپ کی دعا سَكَنٌ : سکون لَّھُمْ : ان کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے نبی تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھاؤ اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو ، کیوں کہ تمہاری دعا ان کے لئے وجہ تسکین ہوگی ، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
خذ من اموالھم صدقۃً ان کے مالوں سے صدقہ لے لو۔ یعنی گناہوں کے کفارہ میں (جو مال وہ دے رہے ہیں) لے لو۔ بعض کے نزدیک صدقہ سے مراد زکوٰۃ ہے۔ تطھرھم (وہ صدقہ) ان کو گناہوں سے پاک کر دے گا ‘ یا تم ان کو مال صدقہ لے کر گناہوں سے پاک کر دو گے۔ پہلی صورت میں تطہر کی ضمیر مؤنث غائب صدقہ کی طرف راجع ہوگی۔ دوسری صورت میں خطاب کا صیغہ ہوگا اور رسول اللہ (ﷺ) کو خطاب ہوگا۔ فتزکیھم بھا اور تم ان کو صدقہ لے کر پاکیزہ و صاف کر دو گے۔ یعنی ان کی نیکیاں بڑھا دو گے اور مخلص اہل ایمان کے درجات پر پہنچا دو گے۔ ابن جریر نے علی بن ابی طلحہ کے طریق سے حضرت ابن عباس کا قول یہی نقل کیا ہے اور حضرت سعید بن جبیر ‘ ضحاک اور زید بن اسلم کے اقوال سے بھی یہی مقدار نقل کی ہے۔ لیکن بغوی نے لکھا ہے کہ عطیہ کی روایت سے حضرت ابن عباس کے قول میں ستونوں سے خود بندھ جانے والے لوگوں کی تعداد صرف پانچ بیان کی گئی ہے جن میں ابولبابہ بھی تھے۔ اور حضرت سعید بن جبیر و زید بن اسلم کے اقوال میں آٹھ اور قتادہ و ضحاک کے اقوال میں سات بیان کی گئی ہے۔ ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم نے بروایت عوفی ‘ حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) (ایک) جہاد پر تشریف لے گئے مگر ابولبابہ اور ان کے ساتھ پانچ دوسرے آدمی پیچھے رہ گئے (جہاد پر نہ جاسکے) پھر ابو لبابہ نے اور پانچ میں سے دو آدمیوں نے غور کیا ‘ پشیمان ہوئے اور ان لوگوں کو اپنی تباہی (یعنی دین کی بربادی) کا یقین ہوگیا۔ کہنے لگے : ہم تو (ٹھنڈے) سایہ میں عورتوں کے ساتھ چین کریں اور رسول اللہ (ﷺ) کے ہمرکاب (دوسرے) مسلمان جہاد میں شریک ہوں (یہ بڑا گناہ ہے) خدا کی قسم ! ہم ستونوں سے خود اپنے کو باندھ دیں گے اور اس وقت تک نہ کھولیں گے جب تک رسول اللہ (ﷺ) خود نہ کھولیں۔ چناچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ تین آدمی رہ گئے جنہوں نے اپنے آپ کو نہیں بندھوایا تھا (الحدیث) ۔ عبد نے قتادہ کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت سات آدمیوں کے حق میں نازل ہوئی جن میں سے چار یعنی ابو البابہ ‘ مرداس ‘ اوس اور جذام نے اپنے آپ کو ستونوں سے باندھ دیا تھا۔ ابن مندہ نے الصحابہ میں اور ابو الشیخ نے بطریق ثوری از اعمش از ابو سفیان ‘ حضرت جابر کا بیان نقل کیا ہے کہ جو لوگ رسول اللہ (ﷺ) کی ہمرکابی سے رہ گئے تھے ‘ ان میں سے ابو البابہ ‘ اوس بن جذام ‘ ثعلبہ بن ودیعہ ‘ کعب بن مالک ‘ مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ تھے۔ ابو لبابہ اور ثعلبہ (وغیرہ) نے اپنے آپ کو ستونوں سے بندھوا دیا تھا اور (رہائی کے بعد) اپنے مال لا کر خدمت گرامی میں پیش کئے تھے اور عرض کیا تھا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! اس کو لے لیجئے ‘ اسی نے ہم کو آپ کے ہمرکاب جانے سے روکا تھا۔ حضور (ﷺ) نے انہی حضرات کے متعلق فرمایا تھا : میں ان کو نہیں کھولوں گا جب تک اللہ ان کو نہ کھلوائے۔ انہی کے متعلق آیت وَاٰخَرُوْنَ اِعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِھِمْ الخ نازل ہوئی تھی۔ اس حدیث کی سند قوی ہے۔ بغوی نے لکھا ہے : تمام روایات حضرت ابو لبابہ کے نام پر متفق ہیں۔ بعض لوگوں کا تو یہ بھی خیال ہے کہ آیت کا نزول صرف ابولبابہ کے حق میں ہوا۔ بغوی نے لکھا ہے : اس میں اختلاف ہے کہ ابو لبابہ کا جرم کونسا تھا جس کے سلسلہ میں یہ آیت اتری۔ مجاہد نے کہا : ابولبابہ نے بنی قریظہ سے کہا کہ اگر ان (یعنی حضرت معاذ) کے فیصلہ کی شرط پر راضی ہو کر تم اپنی گڑھی سے نیچے اترے تو (حلق پر انگلی پھیرتے ہوئے اشارہ کیا کہ یہ ہوجائے گا ‘ یعنی) ذبح کر دئیے جاؤ گے۔ ہم نے یہ قصہ سورة الانفال کی آیت یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَخُوْنُوا اللّٰہَ الخ کی تفسیر کے ذیل میں ذکر کردیا ہے۔ ابن اسحاق اور بیہقی کا بھی یہی خیال ہے کہ حضرت ابو لبابہ کا ستون سے خود بندھنا بنی قریظہ کے واقعہ ہی سے متعلق تھا۔ زہری کا قول ہے کہ آیت کے نزول کا تعلق تبوک کے واقعہ سے ہے۔ میں کہتا ہوں : شاید دونوں قصوروں کی وجہ سے ابولبابہ نے اپنے آپ کو ستون سے باندھا ہو۔ اس کی تائید حضرت ابن عباس اور حضرت سعید بن مسیب کے اقوال مندرجۂ بالا سے ہوتی ہے۔ ابن مردویہ نے واقدی کے سلسلہ والی سند سے حضرت ام سلمہ کا بیان نقل کیا ہے کہ ابولبابہ کی توبہ (قبول ہونے) کی آیت میرے گھر میں اتری تھی۔ سحر کے وقت میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو ہنستے سنا تو عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! ہنسی کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا : ابولبابہ کی توبہ قبول ہوگئی۔ میں نے عرض کیا : کیا میں ان کو اس کی اطلاع دے دوں ؟ فرمایا : تمہاری مرضی۔ میں نے حجرہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر آواز دی : ابو لبابہ ! تم کو بشارت ہو ‘ اللہ نے تمہاری توبہ قبول فرما لی۔ یہ پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آواز سنتے ہی لوگ ابولبابہ کو کھولنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ابولبابہ نے کہا : (ابھی نہیں) رسول اللہ (ﷺ) تشریف لے آئیں ‘ وہ ہی مجھے کھولیں گے۔ صبح کو جب حضور (ﷺ) گھر سے برآمد ہوئے تو آپ نے جا کر کھولا اور آیت وَاٰخَرُوْنَ اِعْتَرَفُوْاالخ نازل ہوئی۔ حضرت ام سلمہ کی اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ جس قصور کی معافی نازل ہوئی تھی ‘ وہ وہی قصور تھا جو بنی قریظہ کے متعلق حضرت ابو لبابہ سے صادر ہوگیا تھا ‘ کیونکہ تبوک کا جہاد تو پردہ کی آیت نازل ہونے کے بعد ہوا تھا۔ لہٰذا اولیٰ یہ ہے کہ ستون سے بندش کا واقعہ دونوں قصوں کے نتیجہ میں قرار دیا جائے کیونکہ روایتیں دونوں صحیح ہیں۔ وصل علیھم اور ان کیلئے دعائے مغفرت کرو۔ بغوی نے لکھا ہے کہ صدقہ کا مال لیتے وقت کیا امام پر واجب ہے کہ دینے والے کیلئے دعا کرے ؟ بعض علماء نے نزدیک واجب ہے ‘ بعض کے نزدیک مستحب۔ بعض کے نزدیک واجب زکوٰۃ وصول کرتے وقت تو دعا دینی واجب ہے اور نفل صدقہ کے وصول کرتے وقت مستحب۔ بعض کا قول ہے کہ امام پر واجب ہے۔ مگر فقیر اگر مالدار سے لے تو دینے والے کو دعا دینی مستحب ہے۔ بخاری کا بیان ہے کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ نے فرمایا (حضرت ابو اوفیٰ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حدیبیہ کے موقع پر درخت کے نیچے رسول اللہ (ﷺ) کے دست مبارک پر (تجدید) بیعت کی تھی) کہ رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں جب لوگ صدقہ کا مال پیش کرتے تھے تو حضور (ﷺ) (دعا دیتے اور) فرماتے : اے اللہ ! ان پر رحمت نازل فرما۔ چناچہ میرے باپ نے بھی جب اپنے صدقہ کا مال پیش کیا تو حضور (ﷺ) نے فرمایا : اے اللہ ! آل ابی اوفیٰ پر رحمت نازل فرما۔ صاحب قاموس نے لکھا ہے کہ لغت میں صلوٰۃ کا معنی ہے : دعاء ‘ رحمت ‘ استغفار اور اللہ کی طرف سے رسول (ﷺ) کی تعریف۔ جب لفظ صلوٰۃ کی نسبت بندوں کی طرف کی جاتی ہے تو دعا اور استغفار ہوتا ہے۔ آیت میں یہی معنی مراد ہے۔ ایک حدیث آتی ہے جس میں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی کھانے کیلئے بلائے تو دعوت قبول کرلینا چاہئے (اور جانا چاہئے) پھر اگر روزہ نہ ہو تو کھا لینا چاہئے اور روزہ دار ہو تو (میزبان کیلئے) صلوٰۃ یعنی دعا کرنا چاہئے۔ رواہ احمد و مسلم وابو داؤد والترمذی عن ابی ہریرۃ۔ حضرت جابر کی روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ (ﷺ) سے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! میرے شوہر کیلئے صلوٰۃ کر دیجئے ‘ یعنی دعائے مغفرت فرما دیجئے۔ حضور (ﷺ) نے دعا کردی۔ اخرجہ احمد۔ اس روایت کی تصحیح ابن حبان نے کی ہے : جب لفظ صلوٰۃ کی نسبت اللہ کی طرف کی جاتی ہے تو رحمت اور پسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔ حضرت ابو اوفیٰ کیلئے رسول اللہ (ﷺ) نے جو دعا کی تھی ‘ اس میں صلوٰۃ سے مراد رحمت ہی ہے۔ ابو داؤد اور نسائی نے حضرت قیس بن سعد کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اے اللہ ! اپنی صلوٰۃ اور رحمت سعد بن عبادہ کی آل پر کر دے۔ اس روایت کی سند عمدہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی مرفوع روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ ملائکہ مؤمن کی روح سے کہتے ہیں : تجھ پر اور تیرے بدن پر اللہ کی رحمت ہو۔ احادیث مذکورہ کے الفاظ کی روشنی میں اور لغوی معنی کے پیش نظر یحییٰ بن یحییٰ نے کہا کہ انبیاء کے علاوہ دوسروں کیلئے بھی اگر لفظ صلوٰۃ استعمال کرلیا جائے یعنی لفظ صلوٰۃ سے ان کیلئے دعا کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن محدثین اور فقہاء اسلام کی اصطلاح ہے کہ لفظ صلوٰۃ انبیاء کیلئے مخصوص ہے ‘ یا ہمارے نبی (ﷺ) کیلئے خاص ہے اور دوسروں کیلئے اس کا استعمال ذیلی طور پر کیا جاسکتا ہے۔ اسی اصطلاح کی بناء پر امام مالک نے فرمایا : میری رائے میں انبیاء کے سوا دوسروں کے واسطے لفظ صلوٰۃ کا استعمال مکروہ ہے۔ قاضی عیاض نے کہا کہ یہ قول امام مالک اور سفیان کا ہے اور یہی مسلک متکلمین اور فقہاء کا ہے۔ فقہاء اسلام نے کہا : انبیاء کے سوا دوسروں کیلئے رضاءٍ مغفرت اور رحمت وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے جائیں (صلوٰۃ کا لفظ استعمال نہ کیا جائے) انبیاء کے سوا دوسروں کیلئے لفظ صلوٰۃ کا استعمال (خلافت راشدہ اور بنی امیہ کے عہد میں) معروف نہ تھا ‘ بنی ہاشم یعنی خلفاء عباسیہ کے دور میں اس کی ایجاد ہوئی (لہٰذا یہ بدعت ہے) ۔ امام ابوحنیفہ اور ایک جماعت کے علماء کا قول ہے کہ انبیاء کے علاوہ دوسروں کیلئے لفظ صلوٰۃ کا استعمال مستقل طور پر (یعنی تنہا غیرانبیاء کیلئے) درست نہیں ‘ ذیلی طور پر (یعنی انبیاء کے بعد اگر دوسروں کا ذکر آیا ہو تو بالتبع) درست ہے ‘ کیونکہ اہل شریعت کی اصطلاح میں انبیاء خصوصاً رسول اللہ (ﷺ) کی عظمت کے اظہار کیلئے لفظ صلوٰۃ خاص کرلیا گیا ہے ‘ لہٰذا انبیاء کے علاوہ دوسروں کیلئے اس کا استعمال جائز نہیں۔ اللہ نے فرمایا : لاَ تَجْعَلُوْا دُعَآء الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا۔ اسی بناء پر حضرت ابن عباس نے فرمایا : کسی کی طرف سے سوائے رسول اللہ (ﷺ) کے ‘ کسی اور پر صلوٰۃ بھیجنا (یعنی لفظ صلوٰۃ سے دعا کرنا) مناسب نہیں۔ رواہ ابن ابی شیبۃ من طریق عثمان بن حکیم عن عکرمۃ وہذا سند صحیح۔ بیہقی نے کہا : حضرت ابن عباس کے اس کلام کا یہ مطلب ہے کہ تعظیم کے طور پر انبیاء کے علاوہ دوسروں کیلئے لفظ صلوٰۃ نہ ذکر کیا جائے ‘ اگر دعاء کے طور پر ہو تو کوئی حرج نہیں۔ ابن قیم نے کہا : پسندیدہ بات یہ ہے کہ انبیاء ‘ ملائکہ ‘ امہات المؤمنین ‘ آل رسول ‘ ذریات رسول اور تمام اہل طاعت کیلئے بالاجمال (بغیر کسی شخصی تعین اور نام کے) لفظ صلوٰۃ کا استعمال صحیح ہے اور انبیاء کے علاوہ کسی معین شخصیت کیلئے اس کا استعمال مکروہ ہے۔ کسی معین شخصیت کیلئے اگر استعمال کیا جائے گا تو یہ شعار بن جائے گا۔ خصوصاً ایسی صورت میں تو کراہت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب اس لفظ کا (خصوصی) استعمال ایسی شخصیتوں کیلئے کیا جائے جن کے ہم پایہ بلکہ ان سے برتر فضائل رکھنے والے دوسرے افراد ہوں اور ان افضل یا مساوی المرتبہ افراد کیلئے تو لفظ صلوٰۃ استعمال نہ کیا جائے اور دوسروں کیلئے کیا جائے ‘ جیسے رافضی کرتے ہیں۔ کذا قال الحافظ ابن حجر۔ ان صلوتک سکن لھم بیشک تمہاری دعا ان کیلئے رحمت ہے۔ حضرت ابن عباس نے سکَنکا ترجمہ رحمت کیا ہے۔ ابو عبیدہ نے سکون خاطر اور طمانیت قلب ترجمہ کیا ہے ‘ یعنی تمہاری دعا ان کیلئے سکون خاطر اور دل کے ٹھیراؤ کا ذریعہ ہے۔ ان کو اطمینان ہوجائے گا کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔ میں کہتا ہوں : پاک باطن اور صاف قلب رکھنے والوں سے اگر کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو گناہ کی ظلمت ان کے دل پر چھا جاتی ہے اور اندر کچھ تاریکی محسوس ہونے لگتی ہے ‘ لیکن جب اللہ کے رسول (ﷺ) ان کیلئے دعائے مغفرت کردیتے ہیں اور اللہ ان کو معاف کردیتا ہے تو دل کی تاریکی اور گھٹن دور ہوجاتی ہے۔ یا دل کے اندر گناہ کی تاریکی اور گھٹن ایسی ہوتی ہے جیسے معدہ سے بخارات چڑھنے اور اطراف قلب میں جمع ہو کر دل پر دباؤ ڈالنے سے خفقان پیدا ہوجاتا ہے اور جب بخارات کا دباؤ معدہ کی اصلاح سے ختم ہوجاتا ہے تو خفقان جاتا رہتا ہے۔ یہی حالت گناہ سے پیدا ہونے والی تاریکی کی وجہ سے دل کی بےچینی کی ہوتی ہے اور مغفرت کی وجہ سے ان کا زوال ہو کر سکون و اطمینان پیدا ہوجاتا ہے۔ سچ فرمایا ہے کہ اللہ کی یاد سے دلوں کو سکون ہوجاتا ہے۔ وا اللہ سمیع اور اللہ سننے والا ہے ان کے اعتراف قصور اور ان کیلئے رسول اللہ (ﷺ) کی دعا و استغفار کو۔ علیم۔ خوب واقف ہے ان کی ندامت (اور توبہ) سے۔ بغوی نے (آیت ذیل کے سبب نزول کے متعلق) لکھا ہے کہ جب ان حضرات کی توبہ قبول ہوگئی تو وہ لوگ جو (سستی یا کسی اور وجہ سے) تبوک کو نہ گئے تھے اور انہوں نے (گناہ کا علی الاعلان اقرار کر کے) توبہ بھی نہیں کی تھی ‘ کہنے لگے : کل تک تو یہ لوگ ہمارے ساتھ تھے ‘ کوئی ان سے میل جول بھی نہیں رکھتا تھا نہ کوئی ان سے بات کرتا تھا۔ اب یہ نئی بات کیا ہوگئی ؟ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top