Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 103
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
خُذْ
: لے لیں آپ
مِنْ
: سے
اَمْوَالِهِمْ
: ان کے مال (جمع)
صَدَقَةً
: زکوۃ
تُطَهِّرُھُمْ
: تم پاک کردو
وَتُزَكِّيْهِمْ
: اور صاف کردو
بِهَا
: اس سے
وَصَلِّ
: اور دعا کرو
عَلَيْهِمْ
: ان پر
اِنَّ
: بیشک
صَلٰوتَكَ
: آپ کی دعا
سَكَنٌ
: سکون
لَّھُمْ
: ان کے لیے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
سَمِيْعٌ
: سننے والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اے نبی تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھاؤ اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو ، کیوں کہ تمہاری دعا ان کے لئے وجہ تسکین ہوگی ، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
خذ من اموالھم صدقۃً ان کے مالوں سے صدقہ لے لو۔ یعنی گناہوں کے کفارہ میں (جو مال وہ دے رہے ہیں) لے لو۔ بعض کے نزدیک صدقہ سے مراد زکوٰۃ ہے۔ تطھرھم (وہ صدقہ) ان کو گناہوں سے پاک کر دے گا ‘ یا تم ان کو مال صدقہ لے کر گناہوں سے پاک کر دو گے۔ پہلی صورت میں تطہر کی ضمیر مؤنث غائب صدقہ کی طرف راجع ہوگی۔ دوسری صورت میں خطاب کا صیغہ ہوگا اور رسول اللہ (ﷺ) کو خطاب ہوگا۔ فتزکیھم بھا اور تم ان کو صدقہ لے کر پاکیزہ و صاف کر دو گے۔ یعنی ان کی نیکیاں بڑھا دو گے اور مخلص اہل ایمان کے درجات پر پہنچا دو گے۔ ابن جریر نے علی بن ابی طلحہ کے طریق سے حضرت ابن عباس کا قول یہی نقل کیا ہے اور حضرت سعید بن جبیر ‘ ضحاک اور زید بن اسلم کے اقوال سے بھی یہی مقدار نقل کی ہے۔ لیکن بغوی نے لکھا ہے کہ عطیہ کی روایت سے حضرت ابن عباس کے قول میں ستونوں سے خود بندھ جانے والے لوگوں کی تعداد صرف پانچ بیان کی گئی ہے جن میں ابولبابہ بھی تھے۔ اور حضرت سعید بن جبیر و زید بن اسلم کے اقوال میں آٹھ اور قتادہ و ضحاک کے اقوال میں سات بیان کی گئی ہے۔ ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم نے بروایت عوفی ‘ حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) (ایک) جہاد پر تشریف لے گئے مگر ابولبابہ اور ان کے ساتھ پانچ دوسرے آدمی پیچھے رہ گئے (جہاد پر نہ جاسکے) پھر ابو لبابہ نے اور پانچ میں سے دو آدمیوں نے غور کیا ‘ پشیمان ہوئے اور ان لوگوں کو اپنی تباہی (یعنی دین کی بربادی) کا یقین ہوگیا۔ کہنے لگے : ہم تو (ٹھنڈے) سایہ میں عورتوں کے ساتھ چین کریں اور رسول اللہ (ﷺ) کے ہمرکاب (دوسرے) مسلمان جہاد میں شریک ہوں (یہ بڑا گناہ ہے) خدا کی قسم ! ہم ستونوں سے خود اپنے کو باندھ دیں گے اور اس وقت تک نہ کھولیں گے جب تک رسول اللہ (ﷺ) خود نہ کھولیں۔ چناچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ تین آدمی رہ گئے جنہوں نے اپنے آپ کو نہیں بندھوایا تھا (الحدیث) ۔ عبد نے قتادہ کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت سات آدمیوں کے حق میں نازل ہوئی جن میں سے چار یعنی ابو البابہ ‘ مرداس ‘ اوس اور جذام نے اپنے آپ کو ستونوں سے باندھ دیا تھا۔ ابن مندہ نے الصحابہ میں اور ابو الشیخ نے بطریق ثوری از اعمش از ابو سفیان ‘ حضرت جابر کا بیان نقل کیا ہے کہ جو لوگ رسول اللہ (ﷺ) کی ہمرکابی سے رہ گئے تھے ‘ ان میں سے ابو البابہ ‘ اوس بن جذام ‘ ثعلبہ بن ودیعہ ‘ کعب بن مالک ‘ مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ تھے۔ ابو لبابہ اور ثعلبہ (وغیرہ) نے اپنے آپ کو ستونوں سے بندھوا دیا تھا اور (رہائی کے بعد) اپنے مال لا کر خدمت گرامی میں پیش کئے تھے اور عرض کیا تھا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! اس کو لے لیجئے ‘ اسی نے ہم کو آپ کے ہمرکاب جانے سے روکا تھا۔ حضور (ﷺ) نے انہی حضرات کے متعلق فرمایا تھا : میں ان کو نہیں کھولوں گا جب تک اللہ ان کو نہ کھلوائے۔ انہی کے متعلق آیت وَاٰخَرُوْنَ اِعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِھِمْ الخ نازل ہوئی تھی۔ اس حدیث کی سند قوی ہے۔ بغوی نے لکھا ہے : تمام روایات حضرت ابو لبابہ کے نام پر متفق ہیں۔ بعض لوگوں کا تو یہ بھی خیال ہے کہ آیت کا نزول صرف ابولبابہ کے حق میں ہوا۔ بغوی نے لکھا ہے : اس میں اختلاف ہے کہ ابو لبابہ کا جرم کونسا تھا جس کے سلسلہ میں یہ آیت اتری۔ مجاہد نے کہا : ابولبابہ نے بنی قریظہ سے کہا کہ اگر ان (یعنی حضرت معاذ) کے فیصلہ کی شرط پر راضی ہو کر تم اپنی گڑھی سے نیچے اترے تو (حلق پر انگلی پھیرتے ہوئے اشارہ کیا کہ یہ ہوجائے گا ‘ یعنی) ذبح کر دئیے جاؤ گے۔ ہم نے یہ قصہ سورة الانفال کی آیت یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَخُوْنُوا اللّٰہَ الخ کی تفسیر کے ذیل میں ذکر کردیا ہے۔ ابن اسحاق اور بیہقی کا بھی یہی خیال ہے کہ حضرت ابو لبابہ کا ستون سے خود بندھنا بنی قریظہ کے واقعہ ہی سے متعلق تھا۔ زہری کا قول ہے کہ آیت کے نزول کا تعلق تبوک کے واقعہ سے ہے۔ میں کہتا ہوں : شاید دونوں قصوروں کی وجہ سے ابولبابہ نے اپنے آپ کو ستون سے باندھا ہو۔ اس کی تائید حضرت ابن عباس اور حضرت سعید بن مسیب کے اقوال مندرجۂ بالا سے ہوتی ہے۔ ابن مردویہ نے واقدی کے سلسلہ والی سند سے حضرت ام سلمہ کا بیان نقل کیا ہے کہ ابولبابہ کی توبہ (قبول ہونے) کی آیت میرے گھر میں اتری تھی۔ سحر کے وقت میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو ہنستے سنا تو عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! ہنسی کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا : ابولبابہ کی توبہ قبول ہوگئی۔ میں نے عرض کیا : کیا میں ان کو اس کی اطلاع دے دوں ؟ فرمایا : تمہاری مرضی۔ میں نے حجرہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر آواز دی : ابو لبابہ ! تم کو بشارت ہو ‘ اللہ نے تمہاری توبہ قبول فرما لی۔ یہ پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آواز سنتے ہی لوگ ابولبابہ کو کھولنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ابولبابہ نے کہا : (ابھی نہیں) رسول اللہ (ﷺ) تشریف لے آئیں ‘ وہ ہی مجھے کھولیں گے۔ صبح کو جب حضور (ﷺ) گھر سے برآمد ہوئے تو آپ نے جا کر کھولا اور آیت وَاٰخَرُوْنَ اِعْتَرَفُوْاالخ نازل ہوئی۔ حضرت ام سلمہ کی اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ جس قصور کی معافی نازل ہوئی تھی ‘ وہ وہی قصور تھا جو بنی قریظہ کے متعلق حضرت ابو لبابہ سے صادر ہوگیا تھا ‘ کیونکہ تبوک کا جہاد تو پردہ کی آیت نازل ہونے کے بعد ہوا تھا۔ لہٰذا اولیٰ یہ ہے کہ ستون سے بندش کا واقعہ دونوں قصوں کے نتیجہ میں قرار دیا جائے کیونکہ روایتیں دونوں صحیح ہیں۔ وصل علیھم اور ان کیلئے دعائے مغفرت کرو۔ بغوی نے لکھا ہے کہ صدقہ کا مال لیتے وقت کیا امام پر واجب ہے کہ دینے والے کیلئے دعا کرے ؟ بعض علماء نے نزدیک واجب ہے ‘ بعض کے نزدیک مستحب۔ بعض کے نزدیک واجب زکوٰۃ وصول کرتے وقت تو دعا دینی واجب ہے اور نفل صدقہ کے وصول کرتے وقت مستحب۔ بعض کا قول ہے کہ امام پر واجب ہے۔ مگر فقیر اگر مالدار سے لے تو دینے والے کو دعا دینی مستحب ہے۔ بخاری کا بیان ہے کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ نے فرمایا (حضرت ابو اوفیٰ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حدیبیہ کے موقع پر درخت کے نیچے رسول اللہ (ﷺ) کے دست مبارک پر (تجدید) بیعت کی تھی) کہ رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں جب لوگ صدقہ کا مال پیش کرتے تھے تو حضور (ﷺ) (دعا دیتے اور) فرماتے : اے اللہ ! ان پر رحمت نازل فرما۔ چناچہ میرے باپ نے بھی جب اپنے صدقہ کا مال پیش کیا تو حضور (ﷺ) نے فرمایا : اے اللہ ! آل ابی اوفیٰ پر رحمت نازل فرما۔ صاحب قاموس نے لکھا ہے کہ لغت میں صلوٰۃ کا معنی ہے : دعاء ‘ رحمت ‘ استغفار اور اللہ کی طرف سے رسول (ﷺ) کی تعریف۔ جب لفظ صلوٰۃ کی نسبت بندوں کی طرف کی جاتی ہے تو دعا اور استغفار ہوتا ہے۔ آیت میں یہی معنی مراد ہے۔ ایک حدیث آتی ہے جس میں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی کھانے کیلئے بلائے تو دعوت قبول کرلینا چاہئے (اور جانا چاہئے) پھر اگر روزہ نہ ہو تو کھا لینا چاہئے اور روزہ دار ہو تو (میزبان کیلئے) صلوٰۃ یعنی دعا کرنا چاہئے۔ رواہ احمد و مسلم وابو داؤد والترمذی عن ابی ہریرۃ۔ حضرت جابر کی روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ (ﷺ) سے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! میرے شوہر کیلئے صلوٰۃ کر دیجئے ‘ یعنی دعائے مغفرت فرما دیجئے۔ حضور (ﷺ) نے دعا کردی۔ اخرجہ احمد۔ اس روایت کی تصحیح ابن حبان نے کی ہے : جب لفظ صلوٰۃ کی نسبت اللہ کی طرف کی جاتی ہے تو رحمت اور پسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔ حضرت ابو اوفیٰ کیلئے رسول اللہ (ﷺ) نے جو دعا کی تھی ‘ اس میں صلوٰۃ سے مراد رحمت ہی ہے۔ ابو داؤد اور نسائی نے حضرت قیس بن سعد کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اے اللہ ! اپنی صلوٰۃ اور رحمت سعد بن عبادہ کی آل پر کر دے۔ اس روایت کی سند عمدہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی مرفوع روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ ملائکہ مؤمن کی روح سے کہتے ہیں : تجھ پر اور تیرے بدن پر اللہ کی رحمت ہو۔ احادیث مذکورہ کے الفاظ کی روشنی میں اور لغوی معنی کے پیش نظر یحییٰ بن یحییٰ نے کہا کہ انبیاء کے علاوہ دوسروں کیلئے بھی اگر لفظ صلوٰۃ استعمال کرلیا جائے یعنی لفظ صلوٰۃ سے ان کیلئے دعا کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن محدثین اور فقہاء اسلام کی اصطلاح ہے کہ لفظ صلوٰۃ انبیاء کیلئے مخصوص ہے ‘ یا ہمارے نبی (ﷺ) کیلئے خاص ہے اور دوسروں کیلئے اس کا استعمال ذیلی طور پر کیا جاسکتا ہے۔ اسی اصطلاح کی بناء پر امام مالک نے فرمایا : میری رائے میں انبیاء کے سوا دوسروں کے واسطے لفظ صلوٰۃ کا استعمال مکروہ ہے۔ قاضی عیاض نے کہا کہ یہ قول امام مالک اور سفیان کا ہے اور یہی مسلک متکلمین اور فقہاء کا ہے۔ فقہاء اسلام نے کہا : انبیاء کے سوا دوسروں کیلئے رضاءٍ مغفرت اور رحمت وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے جائیں (صلوٰۃ کا لفظ استعمال نہ کیا جائے) انبیاء کے سوا دوسروں کیلئے لفظ صلوٰۃ کا استعمال (خلافت راشدہ اور بنی امیہ کے عہد میں) معروف نہ تھا ‘ بنی ہاشم یعنی خلفاء عباسیہ کے دور میں اس کی ایجاد ہوئی (لہٰذا یہ بدعت ہے) ۔ امام ابوحنیفہ اور ایک جماعت کے علماء کا قول ہے کہ انبیاء کے علاوہ دوسروں کیلئے لفظ صلوٰۃ کا استعمال مستقل طور پر (یعنی تنہا غیرانبیاء کیلئے) درست نہیں ‘ ذیلی طور پر (یعنی انبیاء کے بعد اگر دوسروں کا ذکر آیا ہو تو بالتبع) درست ہے ‘ کیونکہ اہل شریعت کی اصطلاح میں انبیاء خصوصاً رسول اللہ (ﷺ) کی عظمت کے اظہار کیلئے لفظ صلوٰۃ خاص کرلیا گیا ہے ‘ لہٰذا انبیاء کے علاوہ دوسروں کیلئے اس کا استعمال جائز نہیں۔ اللہ نے فرمایا : لاَ تَجْعَلُوْا دُعَآء الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا۔ اسی بناء پر حضرت ابن عباس نے فرمایا : کسی کی طرف سے سوائے رسول اللہ (ﷺ) کے ‘ کسی اور پر صلوٰۃ بھیجنا (یعنی لفظ صلوٰۃ سے دعا کرنا) مناسب نہیں۔ رواہ ابن ابی شیبۃ من طریق عثمان بن حکیم عن عکرمۃ وہذا سند صحیح۔ بیہقی نے کہا : حضرت ابن عباس کے اس کلام کا یہ مطلب ہے کہ تعظیم کے طور پر انبیاء کے علاوہ دوسروں کیلئے لفظ صلوٰۃ نہ ذکر کیا جائے ‘ اگر دعاء کے طور پر ہو تو کوئی حرج نہیں۔ ابن قیم نے کہا : پسندیدہ بات یہ ہے کہ انبیاء ‘ ملائکہ ‘ امہات المؤمنین ‘ آل رسول ‘ ذریات رسول اور تمام اہل طاعت کیلئے بالاجمال (بغیر کسی شخصی تعین اور نام کے) لفظ صلوٰۃ کا استعمال صحیح ہے اور انبیاء کے علاوہ کسی معین شخصیت کیلئے اس کا استعمال مکروہ ہے۔ کسی معین شخصیت کیلئے اگر استعمال کیا جائے گا تو یہ شعار بن جائے گا۔ خصوصاً ایسی صورت میں تو کراہت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب اس لفظ کا (خصوصی) استعمال ایسی شخصیتوں کیلئے کیا جائے جن کے ہم پایہ بلکہ ان سے برتر فضائل رکھنے والے دوسرے افراد ہوں اور ان افضل یا مساوی المرتبہ افراد کیلئے تو لفظ صلوٰۃ استعمال نہ کیا جائے اور دوسروں کیلئے کیا جائے ‘ جیسے رافضی کرتے ہیں۔ کذا قال الحافظ ابن حجر۔ ان صلوتک سکن لھم بیشک تمہاری دعا ان کیلئے رحمت ہے۔ حضرت ابن عباس نے سکَنکا ترجمہ رحمت کیا ہے۔ ابو عبیدہ نے سکون خاطر اور طمانیت قلب ترجمہ کیا ہے ‘ یعنی تمہاری دعا ان کیلئے سکون خاطر اور دل کے ٹھیراؤ کا ذریعہ ہے۔ ان کو اطمینان ہوجائے گا کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔ میں کہتا ہوں : پاک باطن اور صاف قلب رکھنے والوں سے اگر کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو گناہ کی ظلمت ان کے دل پر چھا جاتی ہے اور اندر کچھ تاریکی محسوس ہونے لگتی ہے ‘ لیکن جب اللہ کے رسول (ﷺ) ان کیلئے دعائے مغفرت کردیتے ہیں اور اللہ ان کو معاف کردیتا ہے تو دل کی تاریکی اور گھٹن دور ہوجاتی ہے۔ یا دل کے اندر گناہ کی تاریکی اور گھٹن ایسی ہوتی ہے جیسے معدہ سے بخارات چڑھنے اور اطراف قلب میں جمع ہو کر دل پر دباؤ ڈالنے سے خفقان پیدا ہوجاتا ہے اور جب بخارات کا دباؤ معدہ کی اصلاح سے ختم ہوجاتا ہے تو خفقان جاتا رہتا ہے۔ یہی حالت گناہ سے پیدا ہونے والی تاریکی کی وجہ سے دل کی بےچینی کی ہوتی ہے اور مغفرت کی وجہ سے ان کا زوال ہو کر سکون و اطمینان پیدا ہوجاتا ہے۔ سچ فرمایا ہے کہ اللہ کی یاد سے دلوں کو سکون ہوجاتا ہے۔ وا اللہ سمیع اور اللہ سننے والا ہے ان کے اعتراف قصور اور ان کیلئے رسول اللہ (ﷺ) کی دعا و استغفار کو۔ علیم۔ خوب واقف ہے ان کی ندامت (اور توبہ) سے۔ بغوی نے (آیت ذیل کے سبب نزول کے متعلق) لکھا ہے کہ جب ان حضرات کی توبہ قبول ہوگئی تو وہ لوگ جو (سستی یا کسی اور وجہ سے) تبوک کو نہ گئے تھے اور انہوں نے (گناہ کا علی الاعلان اقرار کر کے) توبہ بھی نہیں کی تھی ‘ کہنے لگے : کل تک تو یہ لوگ ہمارے ساتھ تھے ‘ کوئی ان سے میل جول بھی نہیں رکھتا تھا نہ کوئی ان سے بات کرتا تھا۔ اب یہ نئی بات کیا ہوگئی ؟ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top