Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 42
لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوْكَ وَ لٰكِنْۢ بَعُدَتْ عَلَیْهِمُ الشُّقَّةُ١ؕ وَ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ١ۚ یُهْلِكُوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ۠   ۧ
لَوْ : اگر كَانَ : ہوتا عَرَضًا : مال (غنیمت) قَرِيْبًا : قریب وَّسَفَرًا : اور سفر قَاصِدًا : آسان لَّاتَّبَعُوْكَ : تو آپ کے پیچھے ہولیتے وَلٰكِنْ : اور لیکن بَعُدَتْ : دور نظر آیا عَلَيْهِمُ : ان پر الشُّقَّةُ : راستہ وَسَيَحْلِفُوْنَ : اور اب قسمیں کھائیں گے بِاللّٰهِ : اللہ کی لَوِ اسْتَطَعْنَا : اگر ہم سے ہوسکتا لَخَرَجْنَا : ہم ضرور نکلتے مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ يُهْلِكُوْنَ : وہ ہلاک کر رہے ہیں اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے اِنَّهُمْ : کہ وہ لَكٰذِبُوْنَ : یقیناً جھوٹے ہیں
اے نبی اگر فائدہ سہل الحصول ہوتا اور سر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہوجاتے ، مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہوگیا۔ اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقینا تمہارے ساتھ چلتے۔ وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں
درس نمبر 91 تشریح آیات 42 ۔۔۔۔ تا۔۔۔ 91 یہاں سے ان لوگوں کے بارے میں تبصرہ شروع ہوتا ہے جن سے اس موقعہ پر کمزوریوں اور کوتاہیوں کا ظہور ہوا۔ اس پورے سبق میں ان منافقین کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جو اسلام کے نام پر اسلامی صفوں میں گھستے ہوئے تھے ، خصوصا اس وقت جب اسلام غالب ہوگیا تھھا اور ان لوگوں کی سلامتی اور ان کے مفادات کا تقاضا یہ تھا کہ یہ لوگ اسلام کے سامنے سرنگوں ہوجائیں اور اسلامی صفوں میں داخل ہو کر اسلام کے خلاف سازشیں کریں کیونکہ ظاہری حالات ایسے ہوگئے تھے کہ اسلام سے باہر رہ کر وہ اسلام کے خلاف کچھ نہ کرسکتے تھے۔ اس سبق میں وہ تمام حال ہمارے سامنے آئیں گے جن کی طرف سے ہم نے اس سورت کے مقدمے میں اشارہ کیا تھا ، ان حالات کی تصویر کشی قرآن کے الفاظ میں ہوگی۔ سورت کے آغاز میں ہم نے جو اصولی بحث کی تھی اس کی روشنی میں اب ان نصوص کو سمجھنا کوئی زیادہ مشکل کام ہرگز نہ ہوگا جیسا کہ پہلے ہم کہہ آئے ہیں : لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيْبًا وَّسَفَرًا : اگر یہ معاملہ دنیاوی مفادات کا ہوتا اور ہوتا بھی سہل الحصول ، یا کوئی مختصر اور نفع بخش سفر ہوتا جس کے نتائج یقینی ہوتے تو یہ لوگ ضرور آپ کے ساتھ ہولیتے۔ لیکن یہ سفر دور کا سفر ہے اور پر مشقت ہے اور ہمت شکن سفر ہے۔ کمزور ہمتوں اور ضعیف العزم لوگ جراءت کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہ سفر اس عظیم اور بلند نصب العین کی طرف ہے جس کو دیکھ کر کمزور ارواح کے لوگ ڈرجاتے ہیں ، کمزور دل والوں پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور کم ظرف لوگ اس سے پیچے رہ جاتے ہیں۔ یہ مہم در اصل ایک مثالی مہم تھی اور انسانیت کی تاریخ میں ایسی مہمات ہمیشہ مثالی حیثیت رکھی ہیں اور کسی بھی ملک کے لیے فخریہ حکایات و روایات فراہم کرتی ہیں۔ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لاتَّبَعُوكَ وَلَكِنْ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ " اے نبی اگر فائدہ سہل الحصول ہوتا اور سر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہوجاتے ، مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہوگیا " اگر مقام شرف و منزلت کی طرف بسہولت آگے بڑھا جاسکتا ہو ، تو امیدواران منزل بکثرت سامنے آجاتے ہیں لیکن راستہ دشوار گزار ہو تو لوگوں کی بڑی تعداد پہلو تہی کرتی ہے۔ اور راستے کی مشکلات کی خاطر لشکر سے پیچھے رہ جاتی ہے اور ان کے پیش نظر دنیا کا نہایت ہی بےقیمت اور بےحقیقت مقصد ہوتا ہے۔ ہر دور اور ہر زمانے میں ایسے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں اور مشہور و معروف ہوتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ شاذ و نادر نہیں بلکہ ایسے لوگ تو ہر زمانے میں بکثرت ائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ زندگی کے ایک کنارے پر بےوقعت مقام کے مکین ہوتے ہیں۔ گرچہ یہ لوگ اپنے زعم میں یہ خیال کرتے ہیں کہ انہوں نے مفادات حاصل کیے ، انہوں نے اعلی دنیاوی مقاصد پا لیے اور وہ کسی بھی مقصد کے لیے اعلی قربانیاں دینے سے بچ گئے۔ لیکن انہیں معلوم نہیں کہ کوئی جس قدر قیمت دے گا ، اسے اس کی قیمت ہی کے مطابق مقام ملے گا۔ اس دنیا میں بھی کسی کو ہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ قیمت ادا کرتا ہے۔ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ : " اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر چل سکتے تو یقینا تمہارے ساتھ چلتے " یہ وہ جھوٹا عذر ہے جو ہمیشہ کمزور لوگ پیش کیا کرتے ہیں۔ عذرات پیش کرنے والے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں۔ اگرچہ بظاہر عذرات پیش کرنے والے قوی اور بہادر نظر آئیں لیکن در حقیقت یہ کمزور قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ بہادر وہ ہوتا ہے جو مشکلات کا سامنا کرتا ہے اور ضعیف وہ ہوتا ہے جو پہلو تہی کرتا ہے یہ وہ اصول ہے جس میں کوئی استثناء نہیں ہے۔ یہ اصول ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ يُهْلِكُونَ أَنْفُسَهُمْ : " وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں " یہ جھوٹ بول کر اور جھوٹی قسمیں کھا کر ، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں کے نزدیک گویا کامیاب ہوگئے ، حالانکہ حقیقت حال کا علم تو اللہ کو ہے کہ یہ کامیاب نہیں ہیں اور اللہ ان کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے کھول بھی سکتا ہے ، لہذا یہ لوگ دنیا میں بھی اپنے جھوٹے عذرات کی وجہ سے بےوقعت ہوں گے اور آخرت میں بھی کیونکہ آخرت میں تو کوئی بہانہ نہ چلے گا۔ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ : " اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں "
Top