Taiseer-ul-Quran - Al-Baqara : 38
فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ وَ ضَآئِقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَهٗ مَلَكٌ١ؕ اِنَّمَاۤ اَنْتَ نَذِیْرٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌؕ
فَلَعَلَّكَ : تو شاید (کیا) تم تَارِكٌ : چھوڑ دو گے بَعْضَ : کچھ حصہ مَا : جو يُوْحٰٓى : کیا گیا اِلَيْكَ : تیری طرف وَضَآئِقٌ : اور تنگ ہوگا بِهٖ : اس سے صَدْرُكَ : تیرا سینہ (دل) اَنْ يَّقُوْلُوْا : کہ وہ کہتے ہیں لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اترا عَلَيْهِ : اس پر كَنْزٌ : خزانہ اَوْ : یا جَآءَ : آیا مَعَهٗ : اس کے ساتھ مَلَكٌ : فرشتہ اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : کہ تم نَذِيْرٌ : ڈرانے والے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے وَّكِيْلٌ : اختیار رکھنے والا
ہم نے کہا : تم سب کے سب 57 یہاں سے نکل جاؤ۔ پھر جو میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے اور جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے
57 کیا نیکی اور بدی کے نتائج لازمی ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ گناہ معاف کردیا۔ مگر جنت سے اخراج کا حکم بحال رہنے دیا، بلکہ اسے مکرر بیان فرمایا کیونکہ آدم (علیہ السلام) کو جنت میں رہنے کے لیے نہیں بلکہ زمین میں خلافت کے لیے پیدا کیا گیا تھا اور یہی کچھ اقتضائے مشیئت الہی تھا۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نیکی اور بدی کے نتائج لازمی نہیں جو بہرحال انسان کو بھگتنا پڑیں یہ ایک گمراہ کن نظریہ ہے۔ نیکی کی جزا اور بدی کی سزا دینا کلیتاً اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، بھلائی پر انعام بھلائی کا طبیعی نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کا فضل ہے۔ وہ چاہے تو دے چاہے تو نہ دے اور چاہے تو کئی گنا زیادہ دے دے۔ اسی طرح وہ چاہے تو کسی کا گناہ معاف کر دے، اور چاہے تو سزا دے دے۔ وہ حکیم بھی ہے اور عادل بھی۔ لہذا ان صفات کے مطابق وہ سب کچھ کرنے کا پورا اختیار رکھتا ہے۔ کفارہ مسیح کا عقیدہ :۔ اللہ تعالیٰ کا سیدنا آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول کرنے سے نصاریٰ کے اس غلط عقیدہ کی بھی تردید ہوجاتی ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے اس گناہ کے داغ کو بنی نوع انسان کے دامن سے دور کرنے کے لیے خدا کو اپنا اکلوتا بیٹا بھیج کر کفارہ ادا کرنے کے لیے سولی پر چڑھانا پڑا۔
Top