Tafseer-e-Haqqani - Hud : 9
وَ لَئِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ١ۚ اِنَّهٗ لَیَئُوْسٌ كَفُوْرٌ
وَلَئِنْ : اور اگر اَذَقْنَا : ہم چکھا دیں الْاِنْسَانَ : انسان کو مِنَّا : اپنی طرف سے رَحْمَةً : کوئی رحمت ثُمَّ : پھر نَزَعْنٰهَا : ہم چھین لیں وہ مِنْهُ : اس سے اِنَّهٗ : بیشک وہ لَيَئُوْسٌ : البتہ مایوس كَفُوْرٌ : ناشکرا
اور اگر ہم انسان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھا کر پھر اس سے چھین لیتے ہیں تو ناامید (اور) ناشکر ہوجاتا ہے
ترکیب : صدرک مرفوع ہے ضائق کا فاعل ہو کر جو معتمد علیہ مبتداء ہے اور ممکن ہے کہ وہ مبتداء اور ضائق خبر مقدم ہو ان یقولوا ای مخافۃ ان یقولہ افمن کان موضع رفع میں ہے مبتداء ہونے کی وجہ سے اور خبر محذوف ہے تقدیرہ افمن کان علی ھذہ الاشیاء کغیرہ۔ تفسیر : فرمایا تھا کہ منکروں سے جو مرنے کے بعد زندہ ہونے کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کا انکار کرتے ہیں اور ان کے اس کفر کی سزا یعنی عذاب کو جو ہم نے ابھی ان پر نہیں بھیجا ذکر کیا جاتا ہے تو کس دلیری اور استقلال سے کہتے ہیں کہ وہ کیوں نہیں آتا ؟ کس نے روک رکھا ہے ؟ اب یہاں فرماتا ہے کہ ان کی یہ سب باتیں ہماری دنیاوی نعمت اور راحت کی وجہ سے ہیں اور ان پر کچھ موقوف نہیں بجز ایمانداروں اور نیکوں کے انسان کا عموماً یہ دستور ہے کہ ولئن اذقنا الخ جب ہم اس کو اپنی نعمت و راحت دے کرلیتے ہیں تو ناامید اور ناشکر ہو کر طرح طرح کی بیہودہ باتیں بکنے لگتے ہیں اور جو سختی کے بعد راحت دیتے ہیں تو اپنے پہلے دنوں کو بھول جاتے اور اس کے نشہ میں پھول جاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ میری سختی کا زمانہ گیا اب دوبارہ نہ آئے گا اور خوب اتراتے ہیں۔ چونکہ عالم حسی اور اسی کے لذائذ اور شہوات ہی پر یہ عیش ہے لذائذِ روحانی اور عالم جاودانی سے غافل ہے یہیں کی کامیابی کو سعادت عظمیٰ سمجھ کر اس پر اتراتا اور عالم آخرت کی تکذیب کرتا اور منکر ہو کر خدا سے مقابلہ کا دعویٰ کرتا اور خم ٹھونک کر اس کے عذاب کا خواستگار ہوتا ہے اور جو کہیں مصیبت آگئی تو اس محرومی کو سخت محرومی اور عذاب اور نکال حقیقی جان کر ناامید اور ناشکر ہوجاتا ہے۔ الغرض ذرا سی نعمت (کیونکہ اذقنا یعنی چکھانا فرمایا ہے پیٹ بھر کردینا تو عالم باقی میں ہوگا اگر یہاں ہوتا تو جانے حضرت انسان کیا کرتے) پر اتراتے اور باغی بن جاتے ہیں ٗ شکر نہیں کرتے۔ رسولوں سے مقابلہ عذاب کی خواستگاری جتلاتے ہیں اور ذرا سی مصیبت میں صبر نہیں کرتے مگر جو ایمان لائے اور نیک کام کرتے ہیں وہ ایسے نہیں وہ نعمت پر شکر اور مصیبت پر صبر کرتے ہیں کیونکہ ان کو مقصود بالذات اس عالم فانی کے نعماء نہیں بلکہ وہ عالم سو ان کو وہاں مغفرت اور اجر عظیم ہے اور چونکہ وہ اس نعمت دنیا کے نشہ میں بہت سی ایسی باتیں پیغمبر ﷺ کے مقابلہ میں کرتے تھے جن سے آنحضرت ﷺ کو رنج ہوتا تھا۔ کبھی یوم موعود کا وقت پوچھا کرتے تھے جیسا کہ گذرا اور کبھی آنحضرت ﷺ سے تمسخر اور عناد کی راہ سے یہ کہتے تھے ہم تجھے جب مانیں گے جب تو مکہ کے پہاڑوں کو سونے کا کر دے گا یا تیرے ساتھ کوئی آسمان سے فرشتہ اگر تیرے برحق ہونے کی گواہی دے گا۔ ان یقولوا لولا انزل علیہ کنز او جاء معہ ملک اور جب تو ایسا نہ کرسکے تو ہمارے بتوں کی مذمت نہ کر۔ ان رنج آمیز باتوں سے بمقتضائِ بشریت یہ خیال آتا ہوگا کہ ایسے بیہودوں کے سامنے توحید و تلقینِ آخرت کا بیان کرنا قرآن اور وحی پر قہقہہ اڑوانا ہے اس لئے آنحضرت ﷺ کو تسلی دے کر ان کے فرض منصبی پر مستحکم کیا جاتا ہے بقولہ فلعلک تارک بعض مایوحی الیک الخ کہ کیا آپ ان کی ان بیہودہ باتوں سے دل تنگ ہو کر بعض احکام (تحقیرِ بت وغیرہ) چھوڑ بیٹھیں گے ؟ نہیں ایسا نہ کرو۔ آپ کا کام صرف اندیشہ ناک باتوں سے مطلع کردینا ہے انما انت نذیر رہا ہدایت پر لانا اور حسب خواہش معجزات کا صادر کرنا وہ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے واللّٰہ علی کل شیء وکیل۔ ام یقولون افتراہ چونکہ وہ قرآن مجید کے بھی منکر تھے اور اس کو منجانب اللہ بھی نہیں کہتے تھے ان کے جواب میں فرماتا ہے قل فاتوا بعشر سور الخ کہ ان سے کہہ دو اگر یہ اللہ کا کلام نہیں تو پھر محمد ﷺ میں تم سے زیادہ کون سے اسباب فصاحت و بلاغت جمع ہیں بلکہ وہ ان باتوں میں تم سے بدرجہا کم ہیں سو تم ایسی دس سورتیں تو بنا لاؤ اور خدا کے سوا جن معبودوں کو پوجتے ہو سب سے مدد بھی لے لو۔ پھر تم جب ایسا نہ کرسکو تو یقین کرلو کہ یہ بشر کا کلام نہیں بلکہ اللہ علام کا جس نے اس میں دنیا و آخرت کے علوم کا دریا بہا دیا ہے انما انزل بعلم اللّٰہ اور اس سے یہ بھی جان لو کہ تمہارے معبود جو اس کام میں عاجز رہ گئے معبود نہیں بس عالم وجود میں صرف معبود تو ایک اللہ ہی ہے وان لا الٰہ الا ھو پھر اب بھی مانتے ہو یا کہ ضد میں پڑے رہو گے اس وقت کے کفار ایک یہ بھی حجت پیش کیا کرتے تھے کہ اتباع قرآن و اسلام کی کیا ضرورت ہے ؟ مسافروں کو کھانا کھلانا ‘ یتیم کی پرورش کرنا ‘ بھوکوں کی خبر گیری کرنا ‘ رستوں پر کنوئیں کھدوانا ‘ سایہ دار درخت لگانا ‘ بہت سے نیک کام ہم کرتے ہیں اور ان کا مقبول ہونا بھی ثابت ہے کہ ہم ایسے کاموں سے دنیا میں پھلتے پھولتے ہیں۔ اولاد و مال میں برکت امن و تندرستی نصیب ہوتی ہے سو یہی بات کافی ہے اس کا جواب دیتا ہے من کان یرید الحیوۃ الدنیا الخ کہ یہ لوگ عالم آخرت پر تو کچھ نظر رکھتے ہی نہیں ان کاموں سے ان کی غرض حیات الدنیا اور اس کی زینت کثرت اولاد و مال ہوتی ہے سو ان کا بدلہ پورا پورا ہم ان کو یہیں دے دیتے ہیں۔ اب رہا دار آخرت سو اس کے تو وہ منکر ہیں اور نیز وہاں کے لائق اعمال ایمان و اخلاص ان کو نصیب نہیں کیونکہ ان چیزوں کے معلم الٰہی پیغمبر کا وہ اتباع نہیں کرتے صرف عقل بغیر مدد الہام کچھ کام نہیں کرسکتی سو اس لئے وہاں ان کے لئے آتش جہنم ہے اور یہ دنیا کا عمل جو ریا اور غرض حصول دنیا پر مبنی تھا سب نکما ہوجاوے گا اس میں ریاکاروں کے لئے سخت چشم نمائی ہے۔ احادیث صحیحہ میں بھی ریاکاری کی نماز اور تلاوت قرآن ‘ درس و تدریس علوم اسلامیہ ‘ جہاد و صدقات کا باطل ہونا اور آخرت میں حرمانی و پریشانی اٹھانا بکثرت وارد ہے۔ اس کے بعد ان لوگوں کا کامیاب ہونا دار آخرت میں بیان فرماتا ہے کہ جو اسلام کی سیدھی سڑک پر چلتے ہیں افمن کان علی بینۃ الخ ان آیات میں یہود کی طرف بھی خطاب ہے اور ان کو ان سلیم الطبع یہود سے مقابلہ کیا جاتا ہے جو اسلام میں داخل ہوگئے تھے یا ان کا قلبی میلان تھا۔ مقابلہ اور موازنہ کی تقریر یہ ہے کہ بھلا وہ شخص کہ جن کے پاس اسلام قبول کرنے کے لئے یہ تین دلیلیں ہیں اور اسی سبب سے وہ قرآن پر ایمان رکھتے ہیں ان منکروں کے برابر ہوسکتے ہیں جو اور قبائل یہود و نصاریٰ میں سے بےدلیل قرآن کا انکار کرکے جہنم میں گھر بناتے ہیں ہرگز برابر نہیں اور وہ تین دلیل یہ ہیں : (1) علی بینۃ کہ خدائی دلیل پر قائم ہیں۔ وہ کیا ہے ؟ نور فطرت دل کی آنکھ جو حق و باطل میں تمیز کرتی ہے اور جب وہ قرآن اور اسلام کے اصول و فروع میں نظر کرتی ہے تو اس کو خلاف عقل نہیں پاتی۔ اس کی ذاتی صداقت و نورانی اصول پر فریفتہ ہوجاتی ہے۔ (2) یتلوہ شاہد منہ خدا کا گواہ بھی ان کے روبرو شہادت دے رہا ہے وہ کون پیغمبر (علیہ السلام) جس کی صورت و سیرت اس کے شاہد ہونے پر آپ واضح دلیل ہے یا جبرئیل فرشتہ جس نے ظاہر ہو کر بارہا شہادت دی اور تصدیق کی ہے۔ (3) ومن قبلہ کتاب موسیٰ الخ اس سے پہلے کی موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب توریت جس کے اصول اور قرآن کے اصول میں سرمو بھی فرق نہیں اور اس میں بہت سی اس کے برحق ہونے کی پشین گوئیاں بھی ہیں۔ پھر ان تین دلائل کے بعد جو خواہ مخواہ راستباز کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کر رہے ہوں اس کو نہ مانے یہ اس کی بدبختی ہے اور اس کا مقام جہنم ابدی کا مقتضٰی ہے۔ ان دلائل کے بعد آنحضرت ﷺ کو مخاطب بنا کر اور ہر ایک صاحب عقل سلیم سے ارشاد ہوتا ہے کہ اس سے یعنی قرآن و اسلام سے شک میں نہ رہنا چاہیے۔ یہ آفتاب کی طرح روشن اور برحق ہے مگر اس پر بھی بدبخت ایمان نہیں لاتے۔ توریت کو امام یعنی پیشوا اور رحمت فرمایا سو کتاب الٰہی میں یہ دونوں وصف ظاہر ہیں۔
Top