Maarif-ul-Quran - Ibrahim : 51
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا١ۙ وَّ لَا تُسْئَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ
اِنَّا : بیشک ہم اَرْسَلْنَاکَ : آپ کو بھیجا بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ بَشِيرًا ۔ وَنَذِيرًا : خوشخبری دینے والا۔ ڈرانے والا وَلَا تُسْئَلُ : اور نہ آپ سے پوچھا جائے گا عَنْ : سے اَصْحَابِ : والے الْجَحِيمِ : دوزخ
(اے محمدﷺ) ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اہل دوزخ کے بارے میں تم سے کچھ پرسش نہیں ہوگی
اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ بالْحَقِّ ( ہم نے تجھ کو بھیجا ہے حق ( کلام) دے کر) ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ بالحق میں حق سے مراد قرآن ہے جیسا کہ آیت کریمہ : بل کذبوا بالحق لما جآء ھُم ( بلکہ جھٹلایا انہوں نے حق کو جب) ان کے پاس آیا) میں بھی الحق سے مراد قرآن پاک ہے۔ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا ( خوشی سنانے والا اور ڈرانے والا) یعنی اہل طاعت کے لیے خوشخبری دینے والے اور اہل معصیت کے واسطے ڈرانے والے۔ وَّلَا تُسْـــَٔـلُ ( اور تجھ سے پوچھ نہ ہوگی) نافع اور یعقوب نے ولا تسأل کو صیغہ نہی معروف سے اور باقی قراء نے رفع سے مضارع منفی مجہول سے پڑھا ہے۔ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِيْمِ ( دوزخ والوں کی) جحیم سخت آگ کو کہتے ہیں جمہور کی قرأت کے موافق : وَ لَا تساَلُ عَنْ اَصحٰبِ الْجَحِیْمکے یہ معنی ہوں گے کہ اے محمد ﷺ آپ سے اس کی پوچھ گچھ نہ ہوگی کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہ لائے آپ کے ذمہ تو صرف پہنچا دینا ہے اور حساب ہمارے ذمہ ہے اور نافع کی قرأۃ پر سوال سے نہی کرنا شدت عذاب سے کنایہ ہوگا جیسے کہا کرتے ہیں کہ اس کا حال مت پوچھو ( یعنی وہ بہت تکلیف میں ہیں کیا پوچھتے ہو مجھے یارائے بیان نہیں ہے) بہت سخت حالت میں ہے اور علامہ بغوی نے کہا ہے کہ عطاء نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ ایک روز جناب رسول ﷺ نے فرمایا کاش مجھے خبر ہوتی کہ میرے والدین کس حال میں ہیں اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی اور عبد الرزاق نے کہا ہے کہ مجھ سے ثوری نے موسیٰ بن عبید سے اور موسیٰ نے محمد بن کعب قرظی سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے یہ حدیث روایت کی ہے اور اسی طرح ابن جریر نے ابن جریج کے طریق سے کہا ہے کہ مجھ سے داوٗد بن عاصم نے ابن عباس ؓ سے یہ حدیث نقل کی ہے۔ میں (صاحب تفسیر) کہتا ہوں کہ یہ شان نزول جو علامہ بغوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے میرے نزدیک پسندیدہ نہیں اور نیز قوی بھی نہیں اگر یہ حدیث پایہ ثبوت کو بھی پہنچ جائے تو یہ محض ابن عباس ؓ کا خیال ہے اور اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ حضور نے ایسا فرمایا ہو اور اسی دن اتفاق سے یہ آیت بھی نازل ہوئی ہو تب بھی کوئی دلیل اس امر پر نہیں کہ اَصْحٰبُ الْجَحِیْم سے حضور کے والدین مراد ہوں اور اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ حضور کے والدین ہی مراد ہوں تو یہ آیت ان کے کفر پر کسی طرح دال نہیں کیونکہ مؤمن بھی گناہوں کے سبب جہنم والوں میں سے ہوتا ہے اور پھر شفاعت یا اور کسی وجہ سے یا مدت عذاب کے تمام ہونے سے اس کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ دیکھو امام بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اولاد آدم کے سب قرنوں میں بہترین اور افضل ترین قرن میں پیدا کیا گیا اور فرمایا کہ جب کبھی کسی گروہ کے دو ٹکڑے ہوئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس میں سے کیا جو بہتر ٹکڑا تھا حتی کہ میں اپنے والدین سے پیدا ہوا اور جاہلیت کی ناپاکیوں میں سے کوئی ناپاکی مجھے نہیں لگی اور میں آدم ( علیہ السلام) سے لے کر اپنے ماں باپ تک نکاح سے پیدا ہوا ہوں، زنا سے نہیں پیدا ہوا ہوں۔ اس لیے میں اپنی ذات سے اور باعتبار آباو اجداد کے تم سے بہتر ہوں اس حدیث کو بیہقی نے دلائل نبوت میں حضرت انس ؓ سے اور ابو نعیم نے اپنی کتاب میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے اور شیخ اجل شیخ جلال الدین سیوطی ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے والدین شریفین کے اسلام کے بارے میں چند رسائل تصنیف کئے ہیں۔ میں نے ان رسائل میں سے ایک رسالہ اخذ کیا ہے اس میں دلائل اور اعتراضات واردہ کے شافی جوابات لکھے ہیں۔ فللّہ الحمد۔
Top