Tafseer-e-Haqqani - Al-Israa : 32
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا
وَلَا تَقْرَبُوا : اور نہ قریب جاؤ الزِّنٰٓى : زنا اِنَّهٗ : بیشک یہ كَانَ : ہے فَاحِشَةً : بےحیائی وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ
اور زنا کے پاس بھی نہ جاؤ کیونکہ وہ بےحیائی (کا کام) ہے اور بہت ہی برا طریقہ ہے
ساتواں حکم : ولاتقربوا لزنٰی کہ زنا کے پاس بھی نہ جائو، زنا کی قباحت میں سلف سے خلف تک عقلاء کو اتفاق ہے اس میں یہ چند قباحت ہیں۔ (1) انساب کا خلط ملط ہونا یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کس کا بیٹا ہے پھر باہمی حصہ ترکہ میں خرابی آتی ہے۔ (2) عورت کو شرعی یا عرفی طور پر اگر ایک شخص خاص سے تعلق نہ ہو جس کو نکاح کہتے ہیں تو اس کے پاس آنے والوں میں باہمی قتال وجدال کی نوبت آئے گی جیسا کہ مشاہدہ میں آتا ہے اور یہ بات تخریب عالم کا باعث ہے۔ (3) عورت سے مقصود صرف شہوت رانی ہی نہیں بلکہ باہم مل کر خانہ داری کے امور میں ایک دوسرے کا معین ہونا ‘ مرد کما کر لائے ‘ عورت دردمندی اور کفایت کے ساتھ اس کو گھر میں اٹھائے۔ دونوں مل کر بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوشش کریں اور نیز بیماری اور پیری میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دے ہر ایک کو دوسرے کے ساتھ کمال درجہ کی درمندی ہو اور یہ بات جب تک ممکن نہیں کہ عورت کی نظر ایک ہی شخص پر رہے اوروں سے علاقہ نہ رکھے اور یہ بغیر اس کے کہ زنا کو حرام کیا جائے ممکن نہیں۔ (4) اگر زنا کا دروازہ کھل جائے تو انسان اور بہائم میں کیا فرق رہے، جس عورت کو چاہے رکھے اور نیز باہم الفت و محبت کبھی پیدا نہ ہو۔ ان سب باتوں کے لحاظ سے شرع نے زنا کو حرام کیا اور یہاں تک تاکید کے لفظ استعمال کئے کہ اس کے پاس جانے کی بھی ممانعت کردی یعنی اس کے اسباب 2 ؎ سے بھی روکا اور اس کی ان قباحتوں کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا۔ انہ کان فاحشۃ وساء سبیلا۔ 2 ؎ زنا کے بہت سے اسباب ہیں۔ نامحرم عورتوں سے تخلیہ کرنا، ان سے ہنسی مذاق کرنا ‘ ان سے رسم ملاقات بڑھانا، لگاوٹ کی باتیں کرنا، فحش تصاویر دیکھنا، فساق کے عشق آمیز افسانے سننا، اس قسم کی نظم و نثر کا عادی ہونا ‘ تھیٹروں اور ناجائز مجامع میں جانا ‘ راگ و باجے سننا ‘ ناچ دیکھنا دکھانا وغیرہ۔ 12 منہ
Top