Tafseer-e-Haqqani - Al-Kahf : 72
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا
قَالَ : اس (خضر) نے کہا اَلَمْ اَقُلْ : کیا میں نے نہیں کہا اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَسْتَطِيْعَ : ہرگز نہ کرسکے گا تو مَعِيَ : میرے ساتھ صَبْرًا : صبر
اس نے کہا میں نہیں کہہ چکا ہوں کہ تو ہرگز میرے ساتھ نہ ٹھہر سکے گا۔
ترکیب : عن ‘ یسئلونک سے متعلق ذکرا ‘ اتلوا کا مفعول، مکنا مفعول امرہ محذوف وجدھا جواب ہے اذابلغ کا تغرب جملہ حال ہے ضمیر وجدھا سے یا مفعول وجد حمئۃ ذات حمات۔ الحمات الطین الاسودوقرآء ابن عامر و حمزۃ حامیۃ اے حارۃ اما تخیر کے لیے جزاء کو حمزہ کسائی خفص بالنصف والتنوین پڑھتے ہیں اور باقی بالرفع والاضافۃ۔ اول تقدیر پر فلہ الحسنی جزاء ً ً جیسا کہ کہتے ہیں لک ھذا الثوب ہبۃ دوسری صورت میں الحسنی کا موصوف الفعلہ مقدر مانا جائے گا یا المثوبۃ پس جزاء موصوف ہوگی المثوبۃ الحسنیٰ کی واضافۃ الموصوف الی الصفۃ کثیر۔ تفسیر …ذوالقرنین کال اور اس کا سفر : یہ تیسرا قصہ ذوالقرنین کا ہے جو اہل کتاب کے کہنے سے قریش نے حضرت ﷺ سے پوچھا تھا۔ انا مکنا سے تمہید کے بعد قصہ شروع ہوتا ہے کہ ہم نے ذوالقرنین کو دنیا پر قابو دیا تھا اور ہر ایک قسم کا سازوسامان ملا تھا جس سے وہ مشرق و مغرب تک فتوحات حاصل کرتا ہوا چلا گیا (اگرچہ جب سے علم تاریخ مدون ہوا ہے تب سے ایسے سازوسامان جواب ہیں ریل دخانی جہاز پائے نہیں جاتے مگر تواریخ سے پہلے غیرمعلوم زمانہ میں جانے کیا کیا صنعتیں تھیں اور مٹ گئیں جن کے بعض آثار قدیم خرابات کے کھودنے سے برآمد ہوتے ہیں) ۔ فاتبع سبباً کہ ذوالقرنین نے سفر کا سازوسامان تیار کیا اور پہلے مغرب کی سمت کو روانہ ہوا یہاں تک کہ ان کو آفتاب سمندر کے گرم اور سیاہ پانی میں ڈوبتا ہوا دکھائی دیا گرچہ آفتاب آسمان پر ہے مگر غروب کے وقت پانی کے کنارہ پر کھڑے ہونے والے کو پانی میں اور پہاڑ کے سامنے والے کو پہاڑ میں غروب ہوتا ہوا معلوم ہوا کرتا ہے اور جس نے حمئۃ پڑھا ہے اس کے نزدیک ذوالقرنین کے سامنے سیاہ دلدل ہوگا جس میں آفتاب کو غروب ہوتے دیکھا ہوگا۔ القصہ وہاں ایک بت پرست قوم ملی جس کی نسبت خدا نے ذوالقرنین کو بالہام یا بواسطہ نبی یہ حکم دیا کہ خواہ ان کو سزا دے خواہ ان سے کوئی نیک سلوک کر، ذوالقرنین نے لوگوں سے کہا وہ جو ان میں ظالم و سرکش ہیں میں انہیں سزا دوں گا یعنی مار ڈالوں گا جو اس کے بعد وہ اپنے رب کے ہاں جا کر اور بھی سخت عذاب پائیں گے یا یہ مراد کہ سزا دوں گا کوئی سزا ہو پھر مرنے کے بعد وہ وہاں اور بھی سزا پائیں گے اور جو ان میں ایماندار اور نیک ہوجائیں گے ان کو اچھا بدلہ انعام و اکرام دوں گا اور اپنی حکومت و ریاست کے امر میں بھی ان سے نرمی برتوں گا چناچہ ذوالقرنین نے ایسا ہی کیا۔
Top