Tafseer-e-Haqqani - Maryam : 66
وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا
وَيَقُوْلُ : اور کہتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان ءَ اِذَا : کیا جب مَا مِتُّ : میں مرگیا لَسَوْفَ : تو پھر اُخْرَجُ : میں نکالا جاؤں گا حَيًّا : زندہ
اور انسان (منکر) کہا کرتا ہے کیوں جی جب میں مر جائوں گا تو کیا پھر کیا زندہ کر کے قبر سے باہر نکالا جائوں گا۔
تفسیر : ویقول الانسان یہاں سے ان ناخلفوں کے عقائد بیان فرماتا ہے کہ جن کا اوپر ذکر ہوا ہے انسان سے کسی شخص خاص کی طرف اشارہ نہیں بلکہ عموماً حشر کے منکر مراد ہیں وہ تعجب سے کہتے ہیں کہ کیا جب ہم مرجائیں گے تو پھر زندہ ہوں گے ؟ اس بات کو محال اور خدا کی قدرت سے باہر جانتے تھے اس لیے رسول کی تکذیب کرتے تھے اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ ابن آدم یہ بات یاد نہیں کہ وہ کچھ بھی نہ تھا ہم نے اس کو موجود کردیا پس جو نیست محض کو موجود کردیتا ہے اس کے نزدیک دوبارہ زندہ کردینا کیا مشکل ہے۔ اس دلیل کے بعد قسم کھا کر وعدہ مستحکم کرتا ہے کہ ہم ان کو مرنے کے بعد ضرور جمع کریں گے اور شیاطین کو بھی جو انہیں گمراہ کر رہے ہیں۔ اس کے بعد ان سب کو جہنم کے کنارہ پر حاضر کریں گے اور یہ گھٹنوں کے بل بیٹھیں ہوں گے جس طرح غم و فکر میں بیٹھتے ہیں۔ پھر کفار کے ہر فریق میں سے متکبر و گمراہ کنندوں کو چھانٹ چھانٹ کر بہت خواری کے ساتھ جہنم میں داخل کریں گے (شیعۃ فعلۃ کفرقۃ دفیہ الطائفۃ التی شاعت) وان منکم الا واردھا الی قولہ جثیا بعض مفسرین کہتے ہیں کہ منکم سے مراد کفار ہیں ان کو اولاً غائب کے صیغوں سے یاد کیا تھا پھر حاضر کے صیغوں سے خطاب کیا کیونکہ اہل ایمان دوزخ میں وارد یعنی داخل نہ ہوں گے لقولہ تعالیٰ اولئک عنہا مبعدون وقولہ لایسمعون حسیسہا لیکن اکثر کہتے ہیں کہ مومن و کفار سب کے لیے خطاب عام ہے مگر اہل ایمان کا ورود اس میں داخل ہونا نہیں بلکہ اس کا ملاحظہ اور معائنہ کرنا اور اس کے پاس سے ہو کر گزر جانا ہے جیسا کہ جملہ ثم ننجی الذین اتقوا الخ دلالت کرتا ہے اور بہت سی روایت صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے اور یہ اس لیے کہ اہل ایمان جنت میں اس تکلیف کے مکان کو یاد کر کے زیادہ شکریہ ادا کریں اور تاکہ جنت کی لذت بھی ان کو خوب معلوم ہو کیونکہ راحت کا مزہ تکلیف کے مقابلہ میں معلوم ہوا کرتا ہے و اذا یتلی الخ حشر کے ان دلائل کے بعد مشرکین عرب یہ کہا کرتے تھے کہ اگر ایسا بھی ہوا تو وہاں بھی ہم ہی اچھے رہیں گے جس طرح کہ یہاں مسلمانوں سے زیادہ ہم کو راحت و ثروت ہے وہاں بھی ہوگی۔ اس کے جواب میں فرماتا ہے وکم اھلکنا الخ کہ دنیا میں ان سے بھی زیادہ دولت مند قومیں تھیں جن کو ہم نے ہلاک کیا جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ دولت دنیا کچھ عنداللہ عزت کی بات نہیں پھر فرماتا ہے کہ دنیا میں ہمارا طریق خالقیت یہ ہے کہ گمراہوں کو جلدی نہیں پکڑتے بلکہ فلیمدد ولہ الرحمن (یہ صیغہ امر وجوب تحقیق کے لیے بمعنی مضارع ہے) اس کو اور ترقی دیتے ہیں یہاں تک کہ یا تو دنیا میں یا قبر میں مصیبت دیکھ لیتے ہیں یا قیامت میں۔
Top