Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 29
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا١ۗ ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ١ؕ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠   ۧ
ھُوَ : وہی ہے الَّذِىْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا لَكُمْ : واسطے تمہارے مَّا : جو کچھ ہے فِى الْاَرْضِ : زمین میں جَمِيْعًا : سارے کا سارا / سب کچھ ثُمَّ : پھر اسْتَوٰٓى : وہ متوجہ ہوا / ارادہ کیا اِلَى : طرف السَّمَآءِ : آسمان کے فَسَوّٰىھُنَّ : پس برابر کردیا ان کو / درست بنایا ان کو / ہموار کیا ان کو سَبْعَ : سات سَمٰوٰتٍ : آسمانوں کو وَ : اور ھُوَ : وہ بِكُلِّ : ساتھ ہر شَىْءٍ : چیز کے عَلِيْمٌ : خوب علم والا ہے
اللہ وہ ہے کہ جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لیے پیدا کیا۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو ان کو سات آسمان بنا دیا اور وہ ہر چیز (بنانا) جانتا ہے۔
ترکیب : ھو مبتدا الذی موصول خلق فعل بافاعل لکم متعلق ہے خلق کے ما موصول ثانی ذی الحال فی الارض ثبت کے متعلق ہو کر اس کا صلہ ہوا جمیعا بمعنی مجتمعاً حال ہے یہ ما اپنے صلہ اور حال سے مل کر مفعول ہوا خلق کا اور پھر خلق تمام جملہ مل کر صلہ ہوا الذی کا پھر الذی خبر ہوئی ھو کی ثم کلمہ تراخی استوی بمعنی قصد فعل بافاعل الی السماء متعلق ہے استوی کے فسوھن میں سوی بمعنی عدل و خلق فعل ضمیر اس کی فاعل ھن ضمیر جمع مؤنت راجع ہے السماء کی طرف اگر اس سے مراد اجرام لیا جاوے ورنہ مبہم ہے اس کی تفسیر سبع سمٰوات ہے اور اول تقدیر پر بدل ہے ھو مبتداء بکل شیء علیم خبر۔ تفسیر : یہ دوسری نعمت خدا تعالیٰ یاد دلاتا ہے کہ جو پہلی نعمت پر مترتب ہے۔ یعنی تم اس خدا سے کیونکر روگردانی کرتے ہو کہ جس نے تم کو معدوم سے موجود کردیا اور پھر موجود کرکے یوں ہی پریشان اور بےسامان نہیں چھوڑا بلکہ تمہارے فائدے کے لیے زمین کی ہر ایک چیز کو پیدا کیا ع ابروباد ومہ و خور شید و فلک و رکاراند۔ پھر اس نے آسمان کی طرف توجہ کی تو اس کے طبقے بنا دیے، کیونکہ زمین کی چیزوں کا سرانجام پانا آسمانی اور علویات کی تاثیر بغیر نہیں ہوسکتا، اگر آفتاب نہ ہوتا یا مہتاب اور ستارے نہ ہوتے تو پھل پھول ہزاروں چیزیں نہ ہوتیں۔ الغرض زمین کی چیزوں کو آسمانوں اور آسمانی چیزوں سے ایک عجیب ارتباط ہے کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ رزق و روزی ہے وہ آسمان سے اترتی ہے و فی السماء رزقکم وما تو عدون اور یہ اس لیے کہ وہ خدا تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ ہر چیز کی مصلحتیں اور اسرار اس کو معلوم ہیں۔ متعلقات : استوی کے معنی لغت میں قصد کرنے کے ہیں، بولتے ہیں استوی الیہ کا لسہم المرسل جبکہ کوئی کسی چیز کا قصد مصمم کرے اور ادھر ادھر نہ ہٹے اور اصل استواء کی طلب مساوات ہے اور سیدھی چیز کو مستوی اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے اجزاء باہم مساوی یعنی برابر ہوتے ہیں جیسا کہ سطح اور خط اور جسم مگر یہ معنی جناب باری کے لیے تجویز کرنا جائز نہیں کیونکہ وہ جسمیت سے پاک ہے اور جن لوگوں نے اس قسم کے الفاظ سے یہ بات نکالی (کہ وہ آسمان یا عرش پر سیدھا کھڑا ہوتا ہے یا بیٹھتا ہے جس طرح کوئی اپنی کرسی یا تخت پر بیٹھتا ہے اور پھر اس کی تائید میں کچھ احادیث لائے ہیں کہ جن میں بیشتر تیسری چوتھی صدیوں کے محدثین کی وہ احادیث ہیں جو رطب ویا بس کا مجموعہ ہیں) بڑی غلطی کی ہے اور پھر اصرار اور غلو کرکے رسائل لکھنا اور عرشی فرشی کہلانا ایک سادہ لوحی اور تعصب بیجا ہے اعاذنا اللہ منہ۔ السماء کی ہمزہ واؤ سے بدل گئی پیشتر واؤ تھا اور جو واؤ کہ الف کے بعد زائد ہوتا ہے بیشتر عرب اس کو ہمزہ سے بدل لیتے ہیں۔ لغت میں لفظ سماء کا چند معانی پر اطلاق ہوا ہے۔ بادل کو بھی کہتے ہیں اور افق کو بھی ایک شاعر کہتا ہے ؎ فاوّاہ الذکر بہا اذا ما ذکرتھا و من بعض ارض بیننا و سماء ” کہ جب میں اس محبوبہ کو اور پھر وہ جو مجھ میں اور اس میں زمین کے ٹکڑے اور ان کے اوپر کے آسمان فاصل ہیں ان کو خیال کرتا ہوں تو دل سے ایک آہ نکلتی ہے۔ “ اور اوپر کی جانب کو بھی اور اس نیلی چھت کو بھی کہ جو ایک گول گنبد سا نظر آتا ہے قرآن میں جو جا بجا سماء کا ذکر ہے کہ ہم نے اس کو اپنے ہاتھ سے بنایا والسَّمَائَ بَنَیْنَھَا بَاِیْدٍ ، اِنَّا زَیّْنَا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بْزْیْنَۃِ نِ الْکَوَاکْبْ کہ ہم نے پہلے آسمان کو ستاروں سے زینت دی۔ اَفَلَمْ یَنْظُرُوْنَ الی السَّمَآئِ فَوْقَھُمْ کَیْفَ بَنَیْنَھَا وَزَیَّنّٰھَا وَمَا لَــھَا مِنْ فُرُوْجٍ کیا نہیں دیکھا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو کس طرح بنایا ہم نے ان کو اور کیسی زینت دی اور ان میں کوئی درز بھی نہیں۔ اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَیْ فِیْ خَلْقْ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجْعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُتُوْرٍثُمَّ ارْجْعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبُ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّھُوَ حَسِیْرٌ۔ ” اس نے سات آسمانوں کو اوپر تلے بنایا، اے دیکھنے والے تجھ کو خدا کی پیدائش میں کچھ تفاوت نہ معلوم ہوگا دوبارہ نظر آسمانوں کی طرف پھر اتیری نگاہ تھک کر خیرہ ہو کر رہ جائے گی “ وغیرہا من الآیات پس اس سے وہی اخیر معنی مراد ہیں کہ جس کو ہماری زبان میں آسمان اور ہندی میں آکاش اور انبر کہتے ہیں اور ہر زبان میں اس کا نام ہے اور جس کو تمام عرب و عجم ‘ ہند و روم ‘ اہل یورپ قدیم زمانہ سے اب تک ایسا ہی سمجھتے ہیں کہ خدا نے آسمانوں کو بنایا ہے ہم ان کو دیکھتے ہیں ان میں کوئی شگاف اور درز نہیں کہ جو خدا کی صنعت میں قصور ثابت کرے اور یہ ستارے آسمان پر لگے ہوئے ہیں اگر کسی پڑھے ہوئے سے پوچھئے گا تو وہ بھی یہی کہے گا اور ان پڑھ بلکہ جنگل کے رہنے والے وحشیوں سے دریافت فرمائیے گا تو وہ بھی یونہی کہیں گے۔ جس سے معلوم ہوا کہ یہ مسئلہ بھی منجملہ ان مسائل کے ہے کہ جس کا علم انسان کی فطرت اور جبلت میں یکساں رکھا گیا ہے اور اسی فطری علم پر خدائے تعالیٰ اپنے کلام میں انسان کو مخاطب کرکے اپنے عجائبات قدرت کی طرف متوجہ کرتا ہے اور تمام انبیاء (علیہم السلام) بھی اسی نہج پر کلام کرتے چلے آئے ہیں۔ چناچہ تورات اول کے پہلے باب میں یہ لکھا ہے ابتدا میں خدا نے آسمان و زمین کو پیدا کیا (8) اور خدا نے فضا کو آسمان کہا۔ (10) اور خدا نے خشکی کو زمین کہا پھر اسی کتاب کے 7 باب میں طوفان نوح کے بیان میں یہ جملہ بھی ہے جب نوح کی عمر چھ سو برس کی ہوئی دوسرے مہینے کی سترہویں تاریخ کو اسی دن بڑے سمندر کی سب سوتیں پھوٹ کر نکلیں اور آسمان کی کھڑکیاں کھل گئیں اور 8 باب میں یہ جملہ ہے اور آسمان کی کھڑکیاں بند ہوگئیں اور آسمان سے مینہ تھم گیا پھر اسی کتاب کے 19 باب میں قوم لوط کی نسبت یہ ہے تب خداوند نے سدوم اور عمورہ پر گندھک اور آگ خداوند کی طرف سے آسمان پر سے برسائی۔ انجیل متی کے 3 باب میں ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یحییٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ سے اصطباغ یعنی دریا میں غوطہ لگا کر باہر آئے تو ان کے لیے آسمان کھل گیا۔ انجیل لوقا کے 18 باب میں یہ جملہ ہے پر اس محصول لینے والے نے دور سے کھڑا ہو کے اتنا بھی نہ چاہا کہ آسمان کی طرف آنکھ اٹھاوے بلکہ چھاتی پیٹتا اور کہتا تھا کہ اے خدا مجھ گناہ گار پر رحم کر اور مکاشفات یوحنا کے 8 باب اور دیگر ابواب سے صاف آسمان پرستاروں کا ہونا اور ان کے دروازے کھلنا اور وہاں سے آواز آنا وغیرہ وہ باتیں مذکور ہیں کہ جو قرآن و احادیث کے مطابق ہیں اسی طرح ہنود کے وید اور پارسیوں کے دساتیر سے بھی آسمانوں کی بابت اس طرح کے مضامین مفہوم ہوتے ہیں۔ الغرض ہزارہا برس سے الہامی اور غیر الہامی کتابوں اور انبیاء (علیہم السلام) اوردیگر لوگوں کا اس امر میں اتفاق ہے لیکن گریک یعنی یونان کے فیلسوفوں نے جس طرح اور چیزوں کی حقیقت اور ماہیت دریافت کرنے میں عقل کے گھوڑے دوڑائے اور جو باتیں ان کو اپنے قیاس اور تخمین یا تجربہ اور آلات رصد وغیرہا سے دریافت ہوئیں تو ان کو قلمبند کیا اور اس کا نام حکمت رکھا کہ جس کی شاخیں ہیئت اور طبعیات اور آلہیات وغیرہا علوم ہیں کہ جن پر بہت سے کوتاہ بینوں کو ناز ہے مگر آسمانوں کی تحقیق میں ان کے دو فریق ہوگئے ایک گروہ کے پیشوا کا فیثا غورس نام ہے وہ کہتے ہیں آسمانوں کا وجود نہیں یہ ستارے بذات خود قائم ہیں کسی میں جڑے ہوئے نہیں پھر خود اس فریق کے بھی دو قول ہیں بعض کہتے ہیں ستارے اور ثوابت متحرک نہیں صرف زمین حرکت کرتی ہے اس کی وجہ سے یہ چیزیں حرکت کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جس طرح کہ ریل گاڑی میں درخت اور پتھر حرکت کرتے معلوم ہوتے ہیں دوسرا گروہ کہتا ہے کہ زمین بھی متحرک ہے اور ستارے بھی۔ آفتاب کو مدار ٹھہرا کر اس کے گرد حرکت کرتے ہیں۔ ہاں چھوٹے چھوٹے ستارے کہ جن کو ثوابت کہتے ہیں وہ حرکت نہیں کرتے ان کی حرکت زمین کی حرکت سے محسوس ہوتی ہے اور جس طرح ستارے آفتاب کے ایک فاصلہ معین پر حرکت دوری کرتے ہیں۔ اسی طرح زمین بھی اپنے بعد معّین پر اس کے ارد گرد پھرتی ہے اور ستارے صرف یہ زحل، مشتری، مریخ، عطارد، زہرہ، شمس، قمر ہی نہیں ان کے سوا اور بھی رصد سے ثابت ہوئے ہیں۔ یہ مذہب فیثا غورس مدت تک تو حکماء کے نزدیک اس کے دیگر اقوال کی طرح مردود اور بےقدر رہا مگر اب چند عرصہ سے اس لیے یورپ میں بڑا رواج پایا اور یورپ کے بڑے بڑے محقق اسی کے مقلد ہو کر ان ہی باتوں کو الہامی اور لوح محفوظ کی باتیں سمجھنے لگے بلکہ اپنی تحقیقات سے اس پر اور کچھ بڑھایا اور چاند اور سیاروں میں پہاڑ اور دیگر اجرام عنصری بلکہ حیوانات کے وجود کے بھی بعض لوگ قائل ہوگئے اور بہت سی عجیب و غریب باتیں پیدا کیں۔ 1 ؎ دوسرے گروہ کے سر دفتر حکیم بطلیموس ہیں وہ کہتے ہیں کہ زمین گول کروی ہے کسی قدر یعنی تخمیناً چوتھائی حصہ اس کا ناہمواری کی وجہ سے اونچا اٹھا ہوا ہے باقی اس کے گرد پانی لپٹا ہوا ہے جس کو سمندر کہتے ہیں۔ پانی کے ارد گرد کرہ ہوا لپٹا ہوا ہے اس کے اوپر آگ کوسوں تک ہر طرف سے لپٹی ہوئی ہے۔ یہ چار کرہ عناصر کے ہوئے اب یہ جس قدر زمین پانی سے اوپر اٹھی ہوئی ہے اس پر سب لوگ بستے ہیں ان چاروں کروں کے چوطرف پہلا آسمان ہے جس کو فلک القمر بھی کہتے ہیں یعنی اس آسمان میں چاند ہے جیسا کہ نیلے جسم پر ایک سفید گول نشان ہوجاتا ہے اس کے اوپر فلک العطارد ہے۔ فلک زہرہ اس کے اوپر فلک شمس ہے یعنی چوتھا آسمان جہاں آفتاب ہے اس کے اوپر فلک مریخ کہ جہاں مریخ ستارہ ہے اس کے اوپر فلک مشتری اس کے اوپر کہ جہاں مشتری ستارہ ہے اس کے اوپر فلک زحل کہ جہاں زحل ستارہ ہے اس کے اوپر فلک الثوابت کہ جہاں پر سینکڑوں ان گنت ستارے ہیں کہ جو از خود حرکت کرتے معلوم نہیں ہوتے یعنی ایک جگہ ہمیشہ ثابت رہتے ہیں۔ چونکہ نیچے کے آسمان بلکہ کل آسمان نہایت شفاف اور صاف ہیں وہ اوپر کے ستارے سب نظر آتے ہیں۔ اس کے اوپر فلک الافلاک کہ جس کو فلک اطلس کہتے ہیں یعنی سادہ اس پر کوئی تارہ نہیں وہ دن رات میں مشرق سے مغرب کی طرف ایک جگہ چرخہ کی طرح پھر کر دورہ تمام کرتا ہے اور اس کی وجہ سے سب آسمان اور تارے دورہ تمام کرتے ہیں کہ جس سے رات اور دن پیدا ہوتے ہیں یعنی جہاں سامنے آفتاب آگیا وہاں دن ہوگیا اور جہاں سامنے سے بالکل ہٹ گیا رات ہوگئی اور تمام ستارے از خود بھی ایک حرکت مغرب سے مشرق کی طرف کرکے دورہ تمام کرتے ہیں۔ چاند تو مہینہ بھر میں اس دورہ کو تمام کرلیتا ہے دراصل گھٹتا بڑھتا نہیں بلکہ جس قدر وہ آفتاب کے مقابلہ میں آتا ہے اور اسی قد اس پر روشنی پڑتی ہے اتنا ہی ہم کو دکھائی دیتا ہے ورنہ وہ گول بڑا بھاری جسم ہے زمین سے کہیں زائد ہے اور آفتاب اپنے دورہ کو دائرہ منطقۃ البروج 2 ؎ پر برس میں تمام کرتا ہے۔ اسی لیے مختلف فصلیں سردی اور گرمی کی پیدا ہوتی ہیں۔ یہ کل تیرہ کرے ہوئے جن میں نو آسمان ہیں سات تو یہ کہ جن کو شرع نے سبع سمٰوات کہا ہے اور دو وہ کہ جن کو عرش و کرسی کہا ہے کرسی فلک الثوابت ‘ عرش فلک الافلاک ہے۔ اس صورت پر اور آسمانوں کا کوئی رنگ نہیں کیونکہ اگر رنگ ہوتا تو اوپر 1 ؎ منجملہ ان کے سید احمد خان صاحب ہیں کہ جو اپنی تفسیر کے صفحہ 45 میں اول تو لفظ سماء کا اطلاق ستاروں پر از خود فرض کرتے ہیں اور پھر سبع سمٰوات سے بتقلید حکماء یونان و یورپ وہ وسعت مراد لیتے ہیں کہ جو انسان کے اوپر دکھائی دیتی ہے بقرینہ سبع سیارہ اس کو سبع یعنی سات کہہ دیا ورنہ سات میں کچھ حصر نہیں اور بیضاوی نے عرش و کرسی ثابت کرنے کے لیے جو یہ کہہ دیا تھا کہ سات کہنے سے زائد کی نفی نہیں ہوسکتی اس کو اپنے مدار کے لیے دلیل بنایا اور جہاں بیضاوی نے صرف لفظ السماء کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اس لفظ سے مراد اجرام علویہ یا جہات علو ہے تو حضرت یہ سمجھ گئے کہ بیضاوی اس آیت میں اس لفظ سے دونوں مراد لینا جائز رکھتے ہیں اس پر طرہ یہ الٹا کہ سب علماء اور مفسرین پر کہ جو تقلید حکماء نہیں کرتے طعن کرتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ وسعت یعنی فضا کوئی مجسم چیز نہیں صرف بعد موہوم ہے حالانکہ قرآن مجید اور دیگر کتب الہامیہ سے آسمان کا مجسم ہونا ثابت ہے اور یہ کہ وہ قیامت کو پھٹ جائے گا۔ 2 ؎ اور اسی کو فلک البروج بھی کہتے ہیں برج سے مراد قلعہ جات کے برج نہیں بلکہ دوائر کی وجہ سے آسمانوں کے بارہ حصہ اس طرح قائم کئے ہیں کہ جس طرح خرپزہ کی پھانکیں اور ستاروں کی ہیئت اجتماعی سے کہیں شیر کی صورت پیدا ہوگئی تو برج اسد کہنے لگے اور کہیں کیکڑے کی تو اس کو سرطان اور کہیں بچھو کی تو اس کو عقرب و قس علیٰ ہذا۔ نزول قرآن کے زمانے میں بھی عرب ان بروج سے واقف تھے اسی لیے خدا نے والسماء ذات البروج فرمایا۔ کی چیزیں دکھائی نہ دیتیں اور یہ جو نیلگوں معلوم ہوتا ہے یہ آسمان کی شفافی اور غبارات کی تیرگی سے پیدا ہوا ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ جب سفیدی اور سیاہی ملتی ہیں تو نیلی رنگت پیدا ہوجاتی ہے یا یوں کہو کہ اجزائے شفاف ہیں اجزائے غباری کہ جو سیاہ ہیں ان کے ملنے سے یہ نیلگونی پیدا ہوگئی یا یہ کہ ہوا کے اجزاء شفاف میں جب ان کو دیکھتے ہیں تو نظر میں ایک تیرگی پیدا ہوتی ہے ان دونوں کے ملنے سے نیلگونی پیدا ہوتی ہے جیسا کہ سمندر کا پانی نیلا دکھائی دیتا ہے اس کے علاوہ اور بہت سے مسائل اس حکیم اور اس کی جماعت کے ہیں اور چونکہ یہ مسائل کسی قدر الہامی کتابوں کے موافق ہیں اس لیے اس حکمت کا جس طرح حکمائِ یونان میں رواج ہوا اسی طرح جب حکمت یونانیہ عربی میں ترجمہ ہو کر آئی اہل اسلام نے بھی اس کو پسند کیا چناچہ اب تک شرح چغمینی اور تذکرہ وغیرہما اسی حکمت کی کتابیں درس میں داخل ہیں بلکہ ایشیائی ملکوں میں ہندو اور ایرانی وغیرہما سب لوگ اور قدیم عیسائی اور یہودی بھی انہیں مسائل کے معتقد ہیں لیکن نہ اسلام کو اس ہیئت سے کچھ بحث ہے، نہ اس سے۔ اگر یہ غلط ہوا تو اسلام کی صداقت میں کیا نقصان آتا ہے ؟ اور جو وہ سراسر غلط ہو تو کیا نقصان ہے البتہ آسمانوں کی بابت علی سبیل فکرِ آیات قدرت جو کچھ قرآن یا دیگر کتب الہامیہ میں مذکور ہے اس کے تمام بنی آدم قائل ہیں وہ علم فطری ہے جب بطلیموس اور فیثاغورس نہ تھے جب بھی لوگ ان باتوں کو مانتے تھے۔ اول تو یہ مسلم نہیں کہ اگر آسمانوں کا کوئی رنگ ہو تو نیچے کے آسمان کی وجہ سے اوپر کے آسمان کی چیزیں نظر نہ آویں باوجودیکہ پانی اور بلور اور آئینہ میں رنگت ہوتی ہے پھر بھی وہ نفوذ بصر کو مانع نہیں اس کے پرلی طرف والی چیز برابر نظر آتی ہے (دوم) ممکن ہے کہ نویں یا آٹھویں آسمان کی رنگت نیلگوں ہو اگر اوپر کی چیز کے نظر آنے میں مانع ہوگا تو وہ ہوگا باقی نیچے کے آسمان مانع نہ ہوں گے اور ان کے اوپر کوئی ستارہ نہیں اور ان کی رنگت اوپر تلے آئینوں میں جس طرح اوپر کے آئینہ کی رنگت تلے دکھائی دیتی ہے اور نیلا رنگ کچھ ان ہی صورتوں میں کہ جن کو مستدل نے ذکر کیا منحصر نہیں اور یہ جو سب کچھ تسلیم بھی کیا جاوے تو قرآن سے صرف یہ ثابت ہے کہ آسمانوں کی طرف نظر کرسکتے ہیں۔ اس تقدیر پر یہ نیلا رنگ گو آسمان کا رنگ نہ ہو مگر جب یہ آسمان کے ساتھ وہ علاقہ رکھتا ہے جو کہ سمندر کے پانی کے ساتھ اس کا رنگ پھر جس طرح سمندر کا نیلا رنگ اس کی رؤیت اور نظر کرنے میں قادح نہیں اسی طرح آسمان کی طرف نظر کرنے میں یہ مانع نہیں یا یوں کہو کہ کسی جسم پر کوئی کپڑا لپیٹ کر دکھایا جاوے تو وہ دیکھنے والا کہہ سکتا ہے کہ ہم نے وہ جسم دیکھا، آدمی پائجامہ کرتا پہنے ہوئے جب دکھائی دیتا ہے تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اس کو دیکھا، اسی طرح اگر آسمانوں کے نیچے خدا نے یہ قدرتی نیلگوں چھت گیری لگا دی ہے تو اس کے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں کرتی اور یوں تو حقیقۃً کوئی جسم دکھائی ہی نہیں دیتا جب نظر پڑے گی تو اس کے عوارض ہی پر پڑے گی کما ہو الحق عند الحکماء۔ الہامی کتابوں بالخصوص قرآن مجید سے یہ ثابت ہے کہ آسمان کوئی مجسم چیز ہے کہ جو قیامت کو پھٹ جاوے گی، عام ہے کہ وہ کوئی جسم اور کسی قسم کا ہو۔ قال اللہ تعالیٰ اِذَ السَّمَآئُ انْفَطَرَتْ وقال اذا السَّمَآئُ کُشِطَتْ وَقَالَ اِذ السَّمَائُ انْشَقَّتْ ۔ وَاَذِنَتْ لِرَبّْھَا وَحُقُّتْ وقال لَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَضَ وَمَا بَیْنَھُمَا فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ۔ الآیۃ کیونکہ اگر آسمان فضا بعد موہوم کا نام ہوتا جیسا کہ بعض مقلدین یورپ کا قول ہے تو وہ ایک عدمی چیز ہے اس کا پھٹنا اور اس کے چھلکوں یعنی طبقات کا اکھڑنا اور اس کو پیدا کرنا اور بنانا جس طرح کہ زمین اور اس کی چیزیں بنائیں یا اس کی کھڑکیاں کھلنا جس کا کہ تورات میں ذکر ہے اور اس کو سقف محفوظ کہنا چہ معنی دارد ؟ البتہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ وغیرہ اکابر سے جو کچھ آسمان کے باہمی فاصلہ کی نسبت مروی ہے اور یہ کہ فلاں آسمان چاندی کا اور فلاں زبر جد کا اور فلاں اس کا اگر بسند صحیح ثابت ہے تو تشبیہ اور مجاز پر محمول ہے نہ حقیقت پر پھر اس پر اعتراض محض بےجا ہے۔ فوائد : (1) عالم کے پیدا ہونے میں لوگوں کے گونا گوں مذاہب اور مختلف اقوال ہیں۔ ہندو جو اپنی کتابوں بالخصوص چاروں وید اور پرانوں کو تمام دنیا کی کتابوں سے قدیم سمجھتے ہیں اور ان کے پنڈت اپنے علوم پر بڑے نازاں ہیں اور سوائے ہندوئوں کے کل عالم کو ملچھ کہتے ہیں یعنی ناپاک اور کسی کو نجات اور سرگ (بہشت) کا مستحق نہیں جانتے۔ اس پر طرہ یہ کہ اپنے مذہب میں بھی ملانا روا نہیں سمجھتے ان کے ابتدائے عالم اور آفرنیش جہان کی بابت اس قدر مختلف اقوال ہیں کہ جن کے سننے سے عاقل کے سر میں درد ہوتا ہے قول اول : چناچہ رگ وید کے آتیریہ اینہ میں لکھا ہے کہ شروع میں یہ سنسار (عالم) صرف آتما یعنی روح تھا اور کچھ نہ تھا پس اس نے چاہا کہ میں جگت کو پیدا کروں پس اس نے پانی، روشنی، جاندار وغیرہ طرح طرح کے عالم پیدا کئے پھر خیال کیا کہ ان کا نگہبان پیدا کروں۔ تب اس نے ایک پرش یعنی شخص کو پانی سے نکالا اور اس میں غور سے نگاہ کی تو اس کا منہ انڈے کی طرح کھل گیا اور اس میں سے ایک شبد یعنی آواز نکلی اور اس آواز سے آگ پیدا ہوئی پھر اس کے نتھنے کھل گئے اور سانس آنے لگے۔ اس سانس سے آکاش یعنی آسمان پیدا ہوئے پھر آنکھ کھل گئی ان سے جوت (روشنی) اور اس سے سورج پیدا ہوا اور کان کھل گئے ان سے چاروں کونوں کا پھیلاؤ ہوا پھر اس کے چمڑے سے بال نمودار ہوئے ان سے نباتات پیدا ہوئے اور اس کی چھاتی کھل گئی اس سے بدھ اور بدھ سے چاند پیدا ہوا پھر ناف کھل گئی اس سے رپان جس سے موت پیدا ہوئی اس کے بعد لنگ (آلہ تناسل) کھل گیا اس سے منی نکلی اور اس منی سے پانی پیدا ہوا پھر وہ برہما یہ سوچا کہ یہ پرش مجھ بغیر کس طرح رہ سکے گا اس لیے وہ اس کے سر میں سما گیا الخ۔ اس بیان میں چند خرابیاں ہیں (1) یہ کہ جب وہ خود لکھتا ہے کہ اس نے تمام عالم پانی روشنی سب کچھ پیدا کرلیا تو ان کی محافظت کے لیے اس پرش کو پیدا کیا پھر یہ کہنا کہ اس پرش کے منہ سے آگ اور آلہ تناسل سے پانی اور سانس سے آکاش اور آنکھ سے آفتاب پیدا ہوا صریح غلط ہے۔ (2) جب پانی اس کی منی سے پیدا ہوا تو پھر یہ کہنا کہ پرش کو پانی سے نکالا بالکل غلط ہے کیونکہ اس سے پہلے پانی کہاں تھا اور تھا تو یہ کیوں کہا کہ اس کی منی سے پیدا ہوا۔ (3) منی غذائوں کے کھانے سے پیدا ہوتی ہے اس سے تو تمام نباتات اور پانی پیدا ہوا پھر اس سے پہلے کیا کھا پی کر منی پیدا ہوئی۔ (4) اس قول کے بموجب اس پرش اور تمام عالم کا پیدا کرنے والا برہما ثابت ہوتا ہے حالانکہ اس کے برخلاف وید اور پورانوں سے ثابت ہوتا ہے۔ قول دوم : برمھہ دیوت پر ان کے برہم کھنڈ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کرشن سرشت کرتار یعنی خالق ہے اس کے دائیں طرف سے وشنو اور بائیں سے شیو اور ناف سے برہما پیدا ہوا اور ان تینوں نے اس کی پوجا کی یہ قول اول اقوال کے صریح برخلاف ہے۔ قول سوم : بھاگوت اور شیو پر ان میں لکھا ہے کہ وشن کی ناف سے کنول کا پھول نکلا اس سے برہما پیدا ہوا جس نے وشن سے جھگڑا کیا۔ قول چہارم : متیہ پر ان میں لکھا ہے کہ برہما سے شیو پیدا ہوا یعنی مہادیو یہ اول اور دوم اور سوم سب کے مخالف ہے۔ قول پنجم : لنگ پر ان میں لکھا ہے کہ شیو برمہانڈ سے نکلا اور صورت پکڑ کے اپنی بائیں طرف سے وشن اور لکھشمی کو اور دائیں طرف سے برہما اور سرستی کو پیدا کیا اور یہ پہلے قول سے بالکل مخالف ہے۔ قول ششم : ویدانت اور سانکھ سار اور دیگر پرانوں سے ثابت ہے کہ سرشٹ کے وقت برمّہ سے اور بدھ سے اہنکار اور اہنکار سے آکاش اور آکاش سے اگن اور اگن سے جل اور جل سے پر تھوی اور ان سے سب چیزیں پیدا ہوئیں۔ قول ہفتم : یجر وید میں لکھا ہے کہ دراج پرش سے سرشٹ ہوئی اس طرح پر کہ اس نے مرد و عورت کی شکل ایک شخص کو پیدا کیا پھر وہ دو شخص ایک مرد ایک عورت بن گئے اور جورو خسم بن گئے وہ عورت مرد سے شرما کر گائے بن گئی تو مرد بیل بن گیا، اس سے بیل و گائے کی نسل جاری ہوئی پھر وہ گھوڑی تو یہ گھوڑا بن گیا اور وہ گدھی تو یہ گدھا بن گیا اور وہ کتیا تو وہ کتا بن گیا۔ الغرض جس قدر کائنات عالم ہے اس کی صورت میں وہ مرد عورت آتے گئے اور وہ چیزیں عالم میں ظہور پاتی گئیں۔ اس قصہ کو سن کر ناظرین بےاختیار ہنسیں گے۔ قول ہشتم : منو کے شاستر میں کہ جس کو دھرم شاستر کہتے ہیں، یہ لکھا ہے کہ پہلے ایسا اندھیرا تھا کہ جس کا بیان نہیں ہوسکتا، تب ایشر نے پر تھمی ظاہر کرنے کے لیے مہاتت اور بھوت وغیرہ کی صورت میں ظہور کیا تب برہما نے خلقت کو پیدا کرنے کا ارادہ کرکے اول جل (پانی) کو پیدا کیا اور اس جل میں اپنی منی ڈالی جس سے سونے کا چمکتا ہوا انڈا پیدا ہوا، اس انڈے میں سب کا باپ آپ برہما ہو کے پیدا ہوا، پھر کے برس تک برہما اس انڈے کے خیال میں رہا اس کے بعد اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کردیے اور ان سے آسمان اور زمین بنایا الخ یہ ہذیان بھی قابل غور ہے۔ قول نہم : کرم پر ان میں لکھا ہے میں ناراین دیو جو ہوں سرشت کے پہلے تھا پر میرے رہنے کو استھان (جگہ) نہ تھا تب اوے ہو کر شیش ناگ کو پلنگ پر بنا کر آرام کیا اس کے پیچھے میری مہربانی سے چومکھی برہما پیدا ہوا جو تمام دنیا کا دادا ہے پھر برہما نے اپنی مانند پانچ شخص بنائے۔ سنک، سناتن، سنندن، رورو اور سنت کمار الخ، تب مہامنی وشنو نے اپنے پتر (پسر) برہما کو تسلی دی جس سے وہ عبادت کرنے لگا لیکن جب اس کا کچھ پھل نہ ملا تو غصہ میں آ کر رونے لگا اور ان آنسوئوں سے مہادیو پیدا ہوا پھر اس نے اور خلقت کو پیدا کیا الخ ان سب کے علاوہ بیدانتی لوگ کچھ اور ہی کہتے ہیں ان سے بڑھ کر یہ اقوال حیرت افزا ہیں مارکنڈ اور سری بھاگوت میں لکھا ہے کہ کھاری پانی کا سمندر ایکھ کے رس کا سمندر، شراب کا سمندر، گھی کا سمندر، دودھ کا سمندر، چھاچھ کا سمندر، میٹھے پانی کا سمندر یہ ساتوں سمندر سمیر 1 ؎ کے چاروں طرف بہتے ہیں، مگر نہ اس سمیر کا پتا ہے نہ ان سمندروں کا کہیں نشان ہے۔ بعض پرانوں میں ہے کہ زمین کچھوے کی پیٹ پر ہے اور بعض میں ہے کہ نادیہ بیل کے دونوں سینگوں پر زمین ہے اور وہ بیل مچھلی پر کھڑا ہے اور جب وہ بیل سر ہلاتا ہے تو زلزلہ آتا ہے اور بعض میں ہے کہ شیش ناگ کے سر پر ہے اس خیال سوداوی کا کچھ ٹھکانا ہے۔ وید اور شاستروں اور پرانوں میں یہ لکھا ہے کہ سمیرپربت زمین کے بیچوں بیچ ایک پہاڑ ہے جس کی بلندی تین لاکھ کوس ہے اور اس کی جڑ کی مٹائی چونسٹھ ہزار کوس کی ہے اور اس کے اوپر مہاوشن، شیو، اندر اور دیوتائوں کا استھان ہے اس کے آس پاس اور بہت پہاڑ ہیں جنہوں کے اوپر ایک ایک درخت چار چار ہزار سو کوس کا اونچا ہے۔ ہنود کی بعض کتابوں سے یہ بھی ثابت ہے کہ کرم یعنی افعال خالق ہیں اور بعض پر اکرت یعنی زمانہ کو خالق جانتے ہیں خدائے تعالیٰ کے منکر ہیں۔ بعض مایا کے قائل ہیں۔ بعض کہتے ہیں وہ خود اپنی صورتیں بدل کر عالم میں ظاہر ہوا کبھی درخت کبھی پتھر بنا۔ اب میں حکمائِ یونان کے اقوال اس بارے میں نقل کرتا ہوں : واضح ہو کہ حکماء کے دو گروہ ہیں ایک گروہ متقدمین یعنی افلاطون سے پہلے اور خود افلاطون ایک گروہ متاخرین ارسطا طالیس اور اس کے معاصر اور بعد کے حکمائِ قدما کے مختلف اقوال ہیں چناچہ ثالیس ملیطی یہ کہتا ہے کہ ضرور کوئی نہ کوئی عالم کا مبدع 2 ؎ اور وہ پانی ہے کیونکہ ہر قسم کی صورت قبول کرسکتا ہے۔ اسی سے آسمان و زمین عناصر مرکبات ہر چیز بنی ہے پس جو پانی کہ منجمد ہوگیا یعنی جم گیا وہ زمین ہے اور پانی کے تحلیل ہونے سے ہوا پیدا ہوئی ہے اور تموج بحر اور جھاگ سے آگ بنی اور پھر پانی اور آگ کے ابخرات اور دھوئوں سے آسمان بنا اور ان ارضیات میں جو اشتعال واقع ہوا اس سے ستارے ‘ آفتاب و ماہتاب بنے۔ پس اسی لیے یہ آسمان پانی کے گردا گرد حرکت دوری کرتا ہے گویا کہ مسبب اپنے سبب اور عاشق اپنے معشوق پر قربان ہوتا ہے شاید مبدع سے مراد مبدء 3 ؎ ہے اس تقدیر پر یہ مذہب تورات اور کتب الہامیہ سے کسی قدر مطابق ہوجاوے گا اور کچھ عجب نہیں کہ ثالیس نے انبیاء علہیم السلام سے فیض حاصل کیا ہو۔ حکیم انکیم اس یہ بھی ملیطی 4 ؎ ہے یہ کہتا ہے کہ کل عالم کا پیدا کرنے والا خدا تعالیٰ ہے پس یہ جو کچھ موجود ہوا ہے یہ سب اس کے علم ازلی 1 ؎ سمیر ہندوئوں کے نزدیک ایک فرضی پہاڑ کا نام ہے جس طرح کہ مانسرور ایک تالاب ہے کہ جس کے ہنس موتی کھاتے ہیں شاید یہ باتیں عالم خیال میں ہوں تو ہوں برہمنوں کے تصور میں ورنہ ان کا کہیں پتا نہیں۔ 12 منہ 2 ؎ ابتدائً پیدا کرنے والا۔ 12 منہ 3 ؎ یعنی وہ چیز کہ جس کو سب سے اول اللہ تعالیٰ نے بنایا اور پھر اس سے اور چیزیں بنائیں۔ 12 منہ 4 ؎ یعنی ملیطہ کا رہنے والا ہے کہ جس کو مالٹا کہتے ہیں۔ یہ ایک جزیرہ ہے اس کو یونان سے پہلے بڑا تعلق تھا۔ 12 منہ میں تھا۔ سب سے اول اس نے عنصر کی صورت پھر عقل کی صورت پیدا کی پھر بقدر انوار و آثار عنصر نے عقل میں بیشمار دفعہ صورتوں کے رنگ مرتب کردیے جس طرح کہ صاف آئینہ میں صدہا صورتیں یکبارگی پیدا ہوجاویں مگر ہیولیٰ میں بغیر ترتیب و زمان کے یکبارگی سب صورتیں مرتب نہیں ہوسکتیں۔ پس اس لیے ہیولیٰ ایک عالم سے دوسرے عالم میں صورتیں بدل کرنمودار ہوتا گیا یہاں تک کہ جو صورتیں کہ ہیولیٰ میں ہیں ان کے اور خود ہیولیٰ کے انوار کم ہوگئے اور خاص وہ رذیل صورت رہ گئی کہ جو نہ نفس روحانیہ نہ نفس حیوانیہ نہ نباتیہ قبول کرسکتی ہے اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس عالم کو اس عالم سے وہ نسبت ہے کہ جو چھلکے کو مغز سے یعنی یہ عالم اس عالم کا ظل ہے اور جب تک اس عالم کا نور اس عالم میں باقی ہے تو یہ قائم ہے اور اس سے یہ بھی منقول ہے کہ سب سے پیشتر جو اس عالم میں پیدا ہوا وہ ہوا ہے پھر جس قدر اجرام علویہ اور سفلیہ ہیں سب اسی سے ہوئے ہیں پس جو چیز لطیف ہوا سے پیدا ہوئی ہے وہ روحانی اور لطیف ہے نہ وہ بگڑے گی نہ اس میں کچھ خرابی ظہور کرے گی اور جو کثیف ہوا سے پیدا ہوئی ہے وہ کثیف اور جسمانی ہے یہ ایک روز خراب ہوگی۔ یہ حکیم ثالیس کے مذہب پر ہے۔ شاید اس نے موجودات جسمانی میں ہوا کو سب سے اول مانا جس طرح کہ موجودات روحانی میں عنصر کو مبدئِ اول قرار دیا جس طرح کہ ثالیس نے پانی کو مبدء اول مانا تھا اور یہ عنصر کو بمنزلہ قلم کے اور عقل کو بمنزلہ لوح کے قرار دیتا ہے کہ جو ہر طرح کی صورتیں قبول کرتی ہے حکیم امنبذقلس یہ حضرت لقمان حکیم کے شاگرد ہیں ان سے حکمت حاصل کرکے یونان میں آئے۔ یہ کہتے ہیں کہ تمام عالم کا پیدا کرنے والا خدا تعالیٰ ہے۔ اس نے سب سے پیشتر ایک بسیط چیز کو یعنی عنصر کو پیدا کیا۔ یہ عنصر جو معلول اول ہے بالکل بسیط نہیں کس لیے کہ ہر معلول عقلاً یا حسناً مرکب ہوتا ہے پس عنصر بھی فی ذاتہٖ محبت اور غلبہ سے مرکب ہے پھر ان دونوں سے سب چیزیں پیدا ہوئیں ہیں اس طرح پر کہ تمام روحانیات پر محبت خالصہ منطبق ہے اور جسمانیات پر غلبہ اور جو دونوں سے مرکب ہے اس میں یہ دونوں ہیں اور یہ باری تعالیٰ کے لیے ایک قسم کی حرکت و سکون بھی ثابت کرتا ہے۔ یہ مذہب فیثا غورس سے لے کر افلاطون تک حکماء میں مسلم رہا اور سب قدماء عالم کو حادث کہتے رہے مگر افلاطون کے شاگرد ارسطاطالیس کا جب زمانہ آیا تو وہ جو کچھ ریاضات اور مکاشفات تھے ان میں فرق آگیا۔ پھر تو صرف تخمینی باتوں اور خیالی مقدمات سے مرکب دلیلوں پر حکمت کا دارومدار رہ گیا اس لیے اس گروہ کو مشائین کہنے لگے اور چونکہ یہ ارسطو سکندر رومی کا وزیر تھا کہ جس نے ایران کو فتح کرکے ایشیائی ملکوں میں بھی اپنا نام پیدا کیا تھا اس لیے ارسطو کے مذہب کی زیادہ شہرت ہوئی۔ اب میں قبل اس کے کہ ارسطو اور اس کے متعبین متاخرین کا مذہب اسباب بیان کروں وہ چار مقدمات گوش گزار کرتا ہوں کہ جن پر اس مذہب کی بنیاد ہے۔ (1) یہ کہ ایک شخص سے (کہ جو من کل الوجہ واحد ہو جیسا کہ باری تعالیٰ ) دو چیز صادر نہیں ہوسکتیں کیونکہ اگر دو صادر ہوں تو اس میں دو جہت ثابت ہوجاویں اور ترکیب لازم آوے۔ (2) یہ کہ ستاروں کی مختلف حرکات سے نو آسمان ثابت ہوتے ہیں۔ (3) یہ کہ ان آسمانوں کی حرکت دوری قدیم ہے اور ان کے محرک نفوس فلکیہ ہیں کہ جن کو عقل و شعور ہے۔ (4) جو چیز حادث ہے یعنی جو معدوم ہو کر موجود ہو ضرور ہے پہلے سے اس کے لیے مادہ ہو ورنہ اس شے کی جو صفت امکان ہے کس کے ساتھ قائم ہوگی ؟ جب یہ مقدمات اپنے خیال میں ان لوگوں نے مضبوط کرلیے تو کہنے لگے کہ عالم قدیم ہے یعنی یہ آسمان و زمین اور کل بسائط سب ہمیشہ سے ہیں ہاں یہ مرکبات حادث ہیں جیسا کہ حیوانات، نباتات، جمادات اور یہی فانی بھی ہیں کہ یہ ترکیب منحل ہوجاتی ہے۔ ہر عنصر اپنے اپنے حیز اصلی میں آ ملتا ہے اور کل عالم کا بانی خدائے تعالیٰ ہے جب سے وہ ہے تب ہی سے یہ عالم بھی ہے عالم کو حادث ذاتی کہہ سکتے ہیں اور اس کا صدور اس سے یوں ہوا ہے کہ سب سے اول اس نے عقلِ 1 ؎ اول کو پیدا کیا۔ کس لیے کہ وہ بسیط ہے، دو یا کئی چیزیں پیدا نہیں کرسکتا، اب عقل اول میں تین اعتبار ہیں۔ ایک وجودہ فی نفسہ، دوسرا وجودہ بالغیر تیسرا امکانہ لذاتہ، پس اس نے پہلے اعتبار سے کہ جو اشرف تھا عقل دوم کو پیدا کیا، یہ بھی اشرف ہے اور 1 ؎ عقل سے مراد انسان کی عقل نہیں کہ جس کو ذہن اور فہم بھی کہتے ہیں بلکہ جوہر مجرد جیسا کہ ملائکہ جس کو عرف شرع میں قلم کہتے ہیں۔ حقانی دوسرے اعتبار یا لحاظ سے نفس کو کہ جس کو روح یا آتما کہتے ہیں پیدا کیا اور تیسرے اعتبار سے جسم یعنی فلک اول کو پیدا کیا کہ جس کو ادھر کے لحاظ سے نواں آسمان اور فلک الافلاک بھی کہتے ہیں پھر عقل دوم نے عقل سوم اور آسمان دوم یعنی فلک الثوابت اور ایک نفس کو پیدا کیا۔ علی ہذا لقیاس نویں عقل نے نویں آسمان فلک القمر اور دسویں نفس کو پیدا کیا پھر دسویں عقل نے بذریعہ حرکات فلکیہ بسائط اور سب چیزوں کو پیدا کیا اس لیے اس کو عقل فعال کہتے ہیں اور اسی خیال سے شعراء حوادث کو آسمان کی طرف منسوب کرکے اس کو برا بھلا کہا کرتے ہیں۔ اسی طرح اصول مرکبات میں بھی حکماء کا باہم اختلاف ہے چناچہ متاخرین حکماء آگ، پانی، خاک، ہوا اربع عناصر کے قائل ہیں۔ بعض صرف ایک ہی عنصر کے قائل ہیں بعض دو کے بعض تین کے بعض بہت سے عناصر مانتے ہیں جو ایک کہتے ہیں پھر ان کا بھی اختلاف ہے۔ کوئی آگ کو اصل مانتا ہے اور عناصر اسی سے پیدا ہونا کہتا ہے کہ آگ مستحیل ہو کر ہوا بنی اور ہوا مستحیل ہو کر پانی بن گیا اور پانی منجمد ہو کر زمین ہوگیا۔ بعض کہتے ہیں ہوا اصل ہے باقی سب چیزیں مستحیل ہو کر ہوا سے بنی ہیں۔ بعض پانی کو اصل کہتے ہیں بعض مٹی کو اصل قرار دیتے ہیں۔ بعض ابخرات کے قائل ہیں اور بھی آفرنیش عالم میں حکمائِ مصر اور فارس اور روم اور ہندوچین کے رجماً بالغیب بہت سے اقوال ہیں یہاں بھی عقل کو بڑی حیرانی اور سرگردانی تھی کس کو غلط کہئے کس کو صحیح ؟ اس لیے خدائے تعالیٰ نے اپنے انبیاء (علیہم السلام) کی معرفت اس راز سربستہ کو یوں کھول دیا : قُلْ اَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بْالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمِیْنِ تَجْعَلُوْنَ لَـــہٗٓ اَنْدَادًا ذٰلِکَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ٭ وَجَعَلَ فِیْھَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِھَا وَبَارَکَ فِیْھَا وَقَدَّرَ فِیْھَا اَقْوَاتُھَا فِیْٓ اَرْبَعَۃٍ اَیَّامٍ سَوَآئٍ لِّلسَّآئِلِیْنَ٭ ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآئِ وَھِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَــھَا وَالاَْرْضْ اِئْتِیَا طَوْعًا اَوْکَرْھًا قَالَتَا اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ فَقَضٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ فِیْ یَوْمِیْنِ وَاَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآئٍ اَمْرَھَا وَزَیَّنَ السَّمَائِ الدُّنْیَا بْمَصَابْیْحَ وَحِفْظًا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزْیْزِ الْعَلِیْمِ اس آیت کی تفسیر تو اس کے موقع پر ہوگی مگر اصل مطلب یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے دو روز میں زمین کو پیدا اور بموجب قول ابن عباس ؓ کے (کہ جس کو تفسیر مدارک وغیرہ میں نقل کیا ہے) مبدء اس کا ایک جوہر ہے کہ جو خدائے تعالیٰ کی نظرہئیت سے پانی 1 ؎ ہوگیا۔ پس یہ پانی بحر ہستی میں موجزن تھا اور خدائے تعالیٰ کے احاطہ قدرت و جبروت میں تھا جیسا کہ فرماتا ہے وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآئِ کہ اس کا تخت پانی پر تھا اور تورات کتاب پیدائش کے اول باب 2 آیت میں بھی ہے کہ خدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی پھر اس پانی کی حرکت اور تموج سے حرارت اور ابخرات اور دھوئیں پیدا ہوئے اور جھاگ بھی بیشمار اٹھے وہ جھاگ وغیرہ جس قدر منجمد ہوگئے وہ زمین ہوگئی اور ہر طرف سے پانی اس پر محیط ہوگیا مگر کسی قدر ارتفاع اتحفاض کی وجہ سے پانیوں کے اوپر بھی رہے کہ جس پر لوگ آباد ہیں اور پانی تحلیل ہو کر حرارت کی وجہ سے ہوا بن گئی اور ہوا تموج کی حرارت سے مستحیل ہو کر آگ بن گئی مگر قرآن سے صرف اس قدر ثابت ہے کہ خدا نے دو روز میں زمین کو بنایا پھر وہ جو دھویں اور ابخرات مرتفع تھے ان سے دو روز میں سات آسمان بنائے جیسا کہ خود فرماتا ہے ثم استوی الی السماء (اور وہ جو لطیف 1 ؎ صحیح بخاری میں ہے قال کان اللّٰہ ولم یکن شیء قبلہ کان عرشہ علی الماء ثم خلق السمٰوات والارض الحدیث کہ اللہ ہی تھا اس سے پہلے کچھ نہ تھا اور اس کا تخت پانی پر تھا پھر اس نے آسمان اور زمین کو بنایا اور ترمذی نے بھی ایسا ہی رویت کیا ہے۔ 12 حقانی ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ اندھیرا تھا اور خدا کا تخت پانی پر تھا۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اول مخلوق پانی تھا اور ابھی تک آفتاب اور ستارے پیدا نہ ہوئے تھے اس لیے اندھیرا تھا اور ممکن ہے کہ عدم مراد ہے کہ اس کو بھی اندھیرے سے تعبیر کیا کرتے ہیں اور جب کہ عالم حسّی میں صرف پانی میں تھا تو وہ کرہ محاطہ تھا اور اس کے گردا گرد احاطہ قدرت و کمال تھا جس کو تخت رب العالمین سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس تقدیر پر پانی پر تخت رب العالمین کا ہونا بہت ٹھیک بات ہے۔ 12 منہ ابخرات تھے ان سے) ستارے بنا کر آسمان کو مزین کیا۔ پس جب آفتاب اور ماہتاب اور رات دن ہوچکے (تو ان کی حرارت و برودت سے) زمین کے اوپر نباتات پہاڑو انہار وغیرہ وہ چیزیں پیدا کیں جن کی طرف انسان و حیوانات کو اشد ضرورت ہے اور یہ بھی دو روز میں کیا، جیسا کہ فرماتا ہے السَّمَآئِ بَنٰھا رَفَعَ سَمْکَھَا فَسَوَّھَا۔ وَاغْطَشَ لَیْلَھَا۔ وَاخْرَجَ ضُحٰھَا وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ ضُحَھَا اَخْرَجَ مِنْھَا مَآئَھَاوَمَرْعٰھَا وَالْجْبَالَ اَرْسٰھَا۔ کہ ” خدا نے آسمان کو بنایا اور بلند کیا اور پھر ان کی درستی کی اور اس سے رات دن پیدا کرکے اس کے بعد زمین کو آراستہ کیا اور اس کے اوپر پہاڑوں کا دباؤ ڈالا “۔ پھر حیوانات اور حضرت انسان کو بنایا جیسا کہ ابھی آتا ہے۔ تورات میں بھی اسی کے موافق ہے مگر کسی قدر عبادت کا ایچ پیچ ہے باقی مطلب صاف ہے۔ فائدہ : جمہور علماء صحابہ وتابعین عبداللہ بن عباس ؓ و مجاہد و حسن وغیرہ اسی تفسیر پر متفق ہیں کہ آسمان زمین کے بعد بنایا گیا ہے جیسا کہ ابھی مذکور ہوا لیکن بعض علماء جیسا کہ قتادہ اور سدی اور مقاتل اور بیضاوی وغیرہ یہ کہتے ہیں کہ آسمانوں کو پہلے پیدا کیا اس آیت سے والارض بعد ذالک دحہا اور ثم کو تراخی ربتی پر محمول کرتے ہیں مگر یہ تکلف ہے کلام الٰہی میں غور نہیں کیا کیونکہ بعد ذالک جو فرمایا ہے تو زمین کے دحو کی نسبت فرمایا نہ پیدا ہونے کی نسبت یعنی زمین آسمان سے پیدا تو پہلے ہوچکی ہے مگر اس کی آراستگی کہ جو دحو کا مفاد ہے آسمانوں کے بعد ہے۔ فائدہ : زمین کو دو روز میں پیدا کیا اور دو روز میں اس کو آراستہ کیا اور دو روز میں آسمان بنایا یہ کل چھ روز ہوئے جیسا کہ فرمایا ولقد خلقنا السموات والارض فی ستۃ ایام بعض احادیث میں آیا ہے کہ زمین کو اتوار اور پیر کے دن اور اس کی آراستگی اور اس کے پہاڑ وغیرہ چیزیں منگل اور بدھ کے روز اور جمعرات کے دن آسمانوں کو اور جمعہ کے دن ستاروں کو پیدا کیا۔ صحیح مسلم میں اور طرح پر آیا ہے تورات سفر خروج کے 31 باب 17 درس میں یہ بھی ہے اس لیے کہ چھ دن میں خداوند نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا اور تازہ دم ہوا اور یہ ساتواں روز ہفتہ کا دن ہے کہ جس کو یہود سبت کہتے ہیں لیکن آرام کرنا غلطی کاتب ہے اس لیے کہ وہ فرماتا ہے وَمَا مَسَّنَا مِنْ لَّغُوْبٍ کہ ہم پیدا کرنے میں کچھ بھی تھکے نہیں۔ فائدہ (3): اگر کوئی کہے کہ دن تو آفتاب کے طلوع و غروب سے ہوتا ہے پھر ان کے پیدا ہونے سے پہلے دن کہاں تھا اور پھر ان کے نام کہاں، میں کہتا ہوں کہ جو کچھ عالم ظہور میں آتا ہے وہ پہلے علم الٰہی میں ہو بہو قائم ہوتا ہے جس طرح آئینہ میں وہ دکھائی دیتا ہے جو پہلے موجود ہوتا ہے ہوبہو پس جس طرح دن اور ان کے نام آفتاب پیدا ہونے سے عالم ظہور میں متعین ہوئے اسی طرح اس کے علم میں تھے پھر وہ اپنے علم کے لحاظ سے اس مقدار زمانہ کو ایام سے تعبیر کرتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ ہمارے نزدیک یہ تعیین آفتاب کے بعد ہوئی اس کے نزدیک پہلے بھی تھے۔ سوال : خدائے تعالیٰ قادر ہے اس نے چھ روز کے عرصہ میں کیوں آسمان و زمین کو پیدا کیا ؟ کس لیے ایک بار کن کہتے ہی نہ کردیا، اس کو کس سامان کا انتظار تھا ؟ جواب : کسی کا بھی نہیں بلکہ صرف اس لیے کہ عالم اسباب میں ہر کام کا بتدریج ہونا ثابت کیا جائے اور عالم کا حادث ہونا اور حادث ہو کر اس کا مخلوق اور اس کا محتاج اور فانی ہونا ثابت ہوجاوے۔ فائدہ (4): اگرچہ ہم کو خوب معلوم نہ ہو مگر خدا نے دنیا کی سب چیزوں میں انسان کے لیے نفع رکھا ہے یہ اور بات ہے کہ مصلحت سے بعض چیزوں کا کھانا پینا حرام ہے مگر نفع کچھ کھانے پینے پر ہی موقوف نہیں اور اسی لیے جمہور علماء اس آیت خلق لکم مافی الارض جمیعا سے اس بات کے قائل ہوگئے ہیں کہ جب تک کوئی ممانعت شرعیہ نہ معلوم ہو ہر چیز مباح اور حلال ہے اصل اشیاء میں حلت ہے۔ فائدہ (5): وھو بکل شیئٍ علیم میں اس طرف اشارہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بابت جو لوگ کتاب الٰہی کے مخالف کہتے ہیں وہ جانتے نہیں یوں ہی اٹکل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں۔
Top