Tafseer-e-Majidi - Al-Ankaboot : 50
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ١ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
کَيْفَ : کس طرح تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو بِاللہِ : اللہ کا وَكُنْتُمْ : اور تم تھے اَمْوَاتًا : بےجان فَاَحْيَاكُمْ : سو اس نے تمہیں زندگی بخشی ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ : پھر وہ تمہیں مارے گا ثُمَّ : پھر يُحْيِیْكُمْ : تمہیں جلائے گا ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : لوٹائے جاؤگے
تم اللہ کا کیونکر انکار کرسکتے ہو ؟ حالانکہ تم مردے (معدوم) تھے پس تم کو زندہ (موجود) کیا پھر تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کے پاس جاؤ گے۔
ترکیب : کیف استفہام حال کے لیے ہے اور یہاں استفہام انکاری ہے تکفرون باللہ جملہ استفہامیہ اور ضمیر انتم جو تکفرون کا فاعل ہے ذی الحال اور یہ جملے معطوف مع معطوف علیہ وکنتم امواتا الخ حال واقع ہوئے ہیں۔ تفسیر : جب مسئلہ توحید اور مسئلہ نبوت و مسئلہ معادبخوبی مسلسل ثابت ہوچکے اور اس کے ضمن میں خطرات و شبہات کے جواب بھی گزر گئے تب ان معاندین کو جو اپنے انکار پر اڑے ہوئے ہیں بالخصوص مخاطب کرکے ایک نئی دلیل نئے اسلوب سے بیان فرماتا ہے جو ان کے قوی انکار کا ازالہ کر دے۔ کس لیے کہ جس قدر مرض قوی ہوتا ہے دوا بھی ویسی ہی قوی دی جاتی ہے اور لطف بیان یہ ہے کہ اپنے انعامات حال و آیندہ کا بھی بضمن دلیل ذکر ہے تاکہ طبائع سرکش کا منعم حقیقی کی طرف میلان ہو۔ دلوں میں ولولہ پیدا ہو، نزول قرآن مجید کے وقت اور شاید اب بھی ہوں چند قسم کے منکر تھے : اول وہ جو موجودات کے دائرہ کو محسوسات تک ہی محدود سمجھتے تھے جس کو آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے تھے، کانوں سے نہیں سنتے تھے، ہاتھ سے ٹٹول نہ سکتے تھے، زبان سے چکھ نہ سکتے تھے، ناک سے سونگھ نہ سکتے تھے، نہیں مانتے تھے اس لیے صانع عالم اور مجردات ملائکہ و روح کے مرنے کے بعد کی دوسری زندگانی اور عالم برزخ اور حشر اور وہاں کے عقاب وثواب سب کے منکر تھے اور ایسی چیزوں کے وجود کو وہم و خیال جانتے تھے جیسا کہ موجودہ حکما کا یہ خیال اللہ تعالیٰ اور جزا و سزا سے بےخوف کرکے لذات بہیمیہ پر مائل کرتا ہے ہر قسم کے ظلم و عیاری کو اپنے حصول مطالب کے لیے کام میں لینا عاقلانہ زندگی سمجھتا ہے مگر اس قسم کی زندگی ایسی ناپاک زندگانی ہے جس کے بدنتائج اس عالم میں بھی پیش آتے اور برا مزا چکھاتے ہیں۔ دوم وہ جو اللہ تعالیٰ اور مجردات ملائکہ و جن و ارواح کے تو قائل تھے مگر مرنے کے بعد دوسری زندگی اور اعمال کے نیک و بد نتائجِ اخرویہ کے قائل نہ تھے بلکہ نیک و بد نتائج اسی زندگی میں کثرت اولاد اور مال و صحت و فتح مندی یا افلاس و ادبار اور موت اولاد و اموال کو خیال کرتے تھے یہ گروہ گو بظاہر اللہ جل و علاکا منکر نہیں مگر جب اس نے ایک نئی زندگانی اور حشر و نشر اور وہاں کے اعمال کے نتائج کا انکار کیا تو درحقیقت خدا ہی کا انکار کیا، کیونکہ خدا نے ان چیزوں کی اپنے رسولوں کی معرفت خبر دی ہے اور نیز اس میں اس کی صفات حمیدہ کا بھی انکار ہے، یہ زندگانی بھی سخت ناپاک اور ظلمانی زندگی ہے۔ سوم وہ لوگ تھے کہ ان سب باتوں کے تو قائل تھے مگر رسالت کے منکر تھے وہ کہتے تھے کہ خدا اور بندہ میں مجرد اور مادی ہونے کے سبب کوئی مناسبت نہیں۔ پھر آدمی سے ہمکلامی اور اس کی پیغام رسانی ایک خیال باطل ہے۔ جیسا کہ حکماء اور ہنود کا فرقہ براہمہ۔ یہ گروہ بھی خدا کی عظمت اور اس کے اوصاف حمیدہ کا منکر ہے۔ یہ زندگی بھی شکی زندگی ہے۔ ان سب کو خدا کا منکر قرار دے کر ان سے یوں خطاب کیا جاتا ہے کیف تکفرون باللہ اس کے بعد بطور جملہ حالیہ کے ان کے اطمینان قلبی کے لیے یہ دلیل پیش ہوتی ہے کنتم امواتا کہ تم مردے تھے یعنی معدوم اس مقدمہ میں کسی کو شک نہیں ایک جاہل اور بڑے سے بڑے فلسفی سے جب پوچھئے گا تو وہ اپنی عمر کی ایک ابتدا بتلا دے گا۔ دس، بیس، پچاس، ساٹھ سو برس جس سے یہ اقرار ہے کہ ہم اس سے پہلے معدوم تھے، دنیا میں نہ آئے تھے فاحیاکم پھر معدوم سے موجود ہوئے، کوئی زبردست قوت ہے جس کو ہمارے عدم اور وجود کا اختیار ہے۔ ہر حادث کے لیے کوئی محدث ضرور ہے اور یہ زندگی بھی ہمارے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس محدث قادر کے لیے کہ وہ ہمارے بےاختیار ہم کو مردہ کرتا ہے ہم لاکھ جتن کریں جس طرح لڑکپن کو جاتے ہوئے نہ روک سکے اسی طرح جوانی جو ہر روز اپنے کارواں ہمارے سامنے روانہ کرتی ہے، اس کو بھی نہیں روک سکتے، ثم یمیتکم آخر وہ قادر مطلق ایک روز پھر معدوم کردیتا ہے۔ صفحہ ہستی پر نام و نشان بھی باقی نہیں رکھتا، خاک میں خاک مل جاتی ہے یہ مقدمات بھی یقینی ہیں ان میں بھی کسی بشر کو انکار نہیں پھر جس کے ہاتھ میں وجود اور عدم ہے معدوم سے موجود اور موجود سے معدوم کرتا ہے جس کا بنی آدم ہر روز مشاہدہ کر رہے ہیں تو پھر وہ قادر مطلق اس عدم کے بعد کیا دوبارہ زندگی عطا نہیں کرسکتا ؟ ضرور کرسکتا ہے اور یقینا کرے گا ثم یحییکم اور یہ دوبارہ زندگی کس لیے عطا کرے گا ؟ ثم الیہ ترجعون کہ تم اس کی بارگاہ کبریائی میں حاضر کئے جاؤ اور اپنی اس حیات دنیا کا نیک و بد بدلہ پاؤ اس برہان میں غور کرنے سے پھر کسی منکر کو جائے انکار باقی نہیں رہتی۔ فوائد : ثم یحییکم کہ مر کر پھر زندہ ہونا ہے اس دلیل سے ظاہر ہے کہ جس نے ابتدائً زندہ کردیا دوبارہ زندہ کرنا اس کو کیا مشکل ہے ؟ جب یہ ہے تو ثم الیہ ترجعون میں کہ اس کے پاس حساب و کتاب کے لیے پھرجانا ہے، کیا شک ہے ؟ گویا یوں کہنا چاہیے کہ انسان ملک عدم سے کوچ کرکے ملک ہستی میں آیا پھر یہاں سے انتقال کرکے ایک اور عالم میں جائے گا کہ جس کو بااعتبار اس حیات کے موت کہتے ہیں لیکن چندے وہاں آلودگی جسمانی کے اثر میں مبتلا رہے گا پھر اس سے پاک ہو کر ایک کامل حیات پاوے گا اور جب یہ تکدر بالکل جاتا رہے گا تو خدا تعالیٰ کے روبرو ظہور کلی یعنی حشر کے روز حاضر ہوگا، اس تھوڑے سے کلام میں کس قدر مبدء و معاد کے احوال اجمالاً مذکور ہیں۔ نکات : (1) الیہ ترجعون میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمام عالم بالخصوص انسان محض اس کے وجود کا ظل ہے جس طرح کہ دھوپ آفتاب کا ظل ہے پس جس طرح یہ تخصیص شیونات ہر چیز بالخصوص انسان اس مبدا سے چلا ہے اسی طرح پھر اس کی طرف تجرد ہوتے ہوتے (کہ جو موت سے حاصل ہوتا ہے اور اسی لیے موت کو نعماء میں شمار کیا ہے ورنہ موت فی نفسہ نعمت نہیں) وہیں جا کر منتہی ہوگا کیونکہ رجوع کے معنی یہ ہیں کہ جہاں سے جاوے پھر وہیں ہٹ کر آوے جس طرح کرہ میں جہاں سے ابتدا ہوتی ہے وہیں آ کر انتہا ہوتی ہے، اسی طرح خدا تعالیٰ چونکہ ہر شے پر محیط ہے (اِنَّہٗ بْکُلِّ شَیْئٍ مُّحِیْطٍ ) اسی سے ابتدا ہے پھر اس کی طرف انتہا ہے لیکن یہ احاطہ جسمانی نہیں مگر کفر و الحاد ہر طرح کی بیدینی ‘ شہوت پرستی روح کے لیے اس کی طرف رجوع ہونے میں چونکہ موانع اور عوائق ہیں جیسا سڑک پر چلنے والے کے لیے غار و دیوار یا اینٹ پتھر۔ اس لیے انبیاء (علیہم السلام) اس سلوک کو تمام کرنے کے لیے ان چیزوں سے منع کرتے ہیں کیونکہ اس کے پاس پہنچنا کہ جو مرکز اصلی ہے نجات ہے اور عوائق کے سبب دور رہنا ہلاکت ہے۔ مگر آیت میں رجوع کرنے سے مجبوراً بارگاہ کبریائی میں حساب و کتاب کے لیے حاضر کیا جانا مراد ہے۔ (2) اگرچہ بظاہر فاعل تکفرون سے وکنتم امواتاً حال نہیں ہوسکتا کس لیے کہ حال اور ذوالحال کا زمانہ ایک ہوتا ہے اور اس لیے جملہ ماضیہ کو جو حال بناتے ہیں تو پہلے لفظ قد لاتے ہیں اور یہاں اتحاد زمانہ ہی نہیں کیونکہ انسان کے معدوم ہونے اور پھر موجود ہو کر کفر کرنے میں بڑا فاصلہ ہے۔ پیدا ہو کر عاقل بالغ ہو وے گا تب کہیں اس کا انکار کرے گا۔ لیکن اس رمز کی طرف اشارہ کرنے کے لیے حال بنایا کہ گو وہ زمانہ بعید ہے مگر ایام زندگانی چونکہ بادصبا کی طرح یوں ہی گزر جاتے ہیں جس کی سو برس کی عمر ہوتی ہے وہ بھی ایام طفولیت کے وقائع کو کل کی بات کہا کرتا ہے خواجہ درد فرماتے ہیں ؎ گزروں ہوں جس خرابہ پہ کہتے ہیں وہاں یہ لوگ ہے کوئی دن کی بات یہ گھر تھا یہ باغ تھا اور مرنے کے بعد تو ہزارہا سال کے زمانے کو یَوْمٌ اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ کہیں گے۔ اس لیے اس کو حال بنایا اور اس لیے بھی۔ (3) اس تقدیر پر ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون کا بظاہر عطف و کنتم امواتاً پر صحیح نہیں ہوتا کیونکہ یہ امور تو زمانہ آیندہ میں پیش آئیں گے، پس تکفرون سے بذریعہ عطف کہ جو زمانہ حال کو چاہتا ہے حال نہیں بن سکتے مگر یہاں بھی وہی نکتہ مرعی ہے کہ گویہ امور ایک عرصہ بعد پیش آویں گے جیسا کہ لفظ ثم باآواز بلند کہہ رہا ہے مگر بقول عرب ما اقرب ماہوآت وما ابعد ماہوفات آنے والی چیز گویا عاقل کے روبرو کھڑی ہے پس اس نکتہ کے لیے اس زمانہ آیندہ کو حال بنایا، گویا یہ بات بتلا دی کہ تمہارے بعد پیدا ہونے کا اور پھر مرنے کا زمانہ دونوں ملے ہوئے ہیں پس جب یہ ہے تو اس وجود بین العدمین کالطھربین الدمین پر پھول کر خدا کو بھولنا اور اس بےحقیقت ہستی کے گھمنڈ میں خدا تعالیٰ سے اکڑنا ‘ کفر کرنا بڑی حماقت ہے۔ بلغاء کا عام دستور ہے کہ وہ وجود شی کو عدم اور عدم کو وجود اور بعد کو قرب اور قرب کو بعد اعتبارات لطیفہ سے قرار دے کر کلام کرتے ہیں۔ (4) اس کو اس خوش اسلوبی سے بیان کیا اور اس کو اول کلام کا تتمہ یا نتیجہ اور اس کے بعد کے کلام کا توطیہ تمہید کہیں تو بجا ہے۔ پس اس کے بعد اس دوسری نعمت کو بیان کرتا ہے کہ جس کو وجود انسان از بس مقتضی ہے اور جس کے بغیر اس کو دم بھر بھی چارہ نہیں، پس فرماتا ہے :
Top