Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 35
وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَقُلْنَا
: اور ہم نے کہا
يَا آدَمُ
: اے آدم
اسْكُنْ
: تم رہو
اَنْتَ
: تم
وَزَوْجُکَ
: اور تمہاری بیوی
الْجَنَّةَ
: جنت
وَكُلَا
: اور تم دونوں کھاؤ
مِنْهَا
: اس میں سے
رَغَدًا
: اطمینان سے
حَيْثُ
: جہاں
شِئْتُمَا
: تم چاہو
وَلَا تَقْرَبَا
: اور نہ قریب جانا
هٰذِهِ
: اس
الشَّجَرَةَ
: درخت
فَتَكُوْنَا
: پھر تم ہوجاؤگے
مِنَ الظَّالِمِیْنَ
: ظالموں سے
اور ہم نے کہا، اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں جا بسو اور وہاں دل بھر کر جہاں سے چاہو کھاؤ (پیو) اور اس درخت کے پاس بھی نہ پھٹکنا، ورنہ برا خمیازہ بھگتو گے۔
ترکیب : واؤ حرف عطف کہ عطف جملہ کا پہلے جملہ پر ہے۔ قلنا فعل ضمیر فاعل یا حرف ندا آدم منادی اسکن فعل ضمیر مستتر اس کی فاعل انت اس کی تاکید تاکہ ضمیر مستتر پر عطف صحیح ہوجاوے و حرف عطف زوجک معطوف برانت الجنۃ مفعول یہ تمام جملہ معطوف علیہ وکلا الخ جملہ معطوف رغدًا صفت ہے مصدر محذوف کی اے اکلاً رغداً اے طیباً ہنیئًا حیث ظرف مکان اور عامل اس میں کلا ہے اور ممکن ہے کہ جنت سے بدل ہو کر مفعول بہ ہوجاوے ولا تقربا فعل نہی انما ضمیر اس کا فاعل ھذہ موصوف الشجرۃ اس کی صفت یہ دونوں مفعول بہ ہیں یعنی منہی عنہما فتکونا جواب نہی ہے اسی لیے نون حالت جری میں گر پڑا۔ تقدیرہ ان تقربا تکون۔ فازلّ مشدد زلت بمعنی لغزش اور بعض نے اس کو ازال زوال سے لیا ہے جس کے معنی اکھیڑ دینا ہے۔ یہ فعل ھما مفعول بہ الشیطن فاعل عنہا ای عن الجنتہ متعلق ہے۔ ازل سے فاخرجہما جملہ معطوفہ مما میں ما بمعنی الذی ای من نعیم اھطبوا فعل ہبوط بمعنی نزول سے یعنی اترنا۔ انتم اس کا فاعل جس سے مراد آدم و حوا اور شیطان یا آدم اور اس کی ذریت جو اس کی پشت میں تھی بعضکم لبعض عدو جملہ موضع حال میں ہے واؤ اھبطوا سے اور اسی طرح و لکم فی الارض مستقرالخ جملہ بھی اسی سے حال ہے اور ممکن ہے کہ جملہ مستانفہ ہو۔ مستقر مصدر میمی اور ظرف دونوں ہوسکتا ہے۔ حین کے معنی وقت یعنی وقت موت تک تمہارا زمین پر قرار ہے۔ تفسیر : یعنی جبکہ آدم کے سر پر دستار خلافت بندھ چکی اور ملائکہ نے نذرانہ سجود پیش کردیا تو خدا فرماتا ہے ہم نے آدم اور اس کی بیوی حوا کو یہ حکم دیا کہ تم جنت میں رہا کرو اور وہاں تم پر کوئی روک ٹوک نہیں جہاں سے جو جی چاہے خوب کھاؤ پیو مگر اس درخت (گندم) بعض کہتے ہیں کہ انجیر بعض کہتے ہیں کہ انگور کا درخت تھا، بعض کہتے ہیں کوئی اور قسم کا درخت تھا کہ جس کی تاثیر یہ تھی کہ جو اس کو کھاتا تھا آلودگی جسمانی میں مبتلا ہوجاتا تھا (اور اسی مصلحت سے منع کیا تھا) کے پاس بھی نہ جانا چہ جائیکہ کھانا اور جو ایسا کرو گے تو خرابی میں پڑجاؤ گے (کیونکہ ظلم ایک چیز کو بےموقع رکھنے کا نام ہے اور یہاں غیر پر ظلم کرنا مراد نہیں بلکہ اپنی جان پر اور اسی لیے جو گناہ گار گناہ کرتا ہے اپنی جان پر آفت ڈھاتا ہے کہ اس کا بدنتیجہ دنیا یا آخرت میں آپ ہی پاتا ہے، لیکن اس دشمن جانی یعنی شیطان نے وہاں جا کر یہ کہا یَــآآدَمُ ھَلْ اَدُّلَکَ عَلٰی شَجْرَۃِ الْخُلْدِ وَمَلَکٌ لَّا یَبْلٰی (طہ) وقال مانَہَا کُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجْرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَ مِنَ الْخَالِدِیْنَ وَقَاسَمُہَمَآ اِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ (اعراف) ” کہ اے آدم میں تجھ کو ایک ایسا درخت بتلاتا ہوں کہ جس کے کھانے سے تو ہمیشہ جیتا رہے اور تجھے ہمیشہ کی سلطنت ملے اور تمہارے رب نے جو اس کے کھانے سے منع کیا ہے تو صرف اس خوف سے کہ تم فرشتہ نہ ہوجائو۔ یا ہمیشہ زندہ رہو اور میں قسم کھا کر تم سے کہتا ہوں کہ میں تمہاری خیر خواہی کر رہا ہوں “۔ آخر الامر اس کہنے سے خداوند تعالیٰ کے حکم کو بھول گئے اور فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْآتُہُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْہْمَا مِنْ وَّرَقْ الْجْنَّۃِ (اعراف) اور دونوں نے اس درخت کو چکھ لیا۔ پھر تو کیا تھا اس کے کھاتے ہی اس کی تاثیر یہ ظاہر ہوئی کہ آدم و حوا برہنہ ہوگئے اور شرم کے مارے درختوں کے پتے چمٹانے لگے اور عتاب الٰہی شروع ہوا کہ نکلو یہ جگہ اب تمہارے رہنے کے قابل نہیں چلو اترو زمین پر جا کر رہو، وہاں باہمی عداوت کی تکلیف اٹھاؤ اور موت تک وہیں رہو اور اپنی معیشت کے سامان بہم پہنچائو، وَنَادٰھُمَا رَبُّہُمَآ اَلَمْ اَنْھَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَۃَ وَاَقُلْ لَّکُمَا اِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبْیْنٌ۔ (اعراف) ” اور خدا تعالیٰ نے ان کو یہ کہا کہ میں نے تم کو اس درخت سے منع نہ کیا تھا اور یہ نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا ظاہر دشمن ہے۔ “ متعلقات : اس مقام پر چند امور قابل غور ہیں۔ (1) یہ کہ خدا تعالیٰ نے آدم کو پیدا کرکے کون سی جنت میں رہنے کا حکم دیا تھا۔ جمہور اہل سنت و جماعت کا یہ قول ہے کہ بہشت میں رہنے کا حکم دیا تھا اور وہ بنی آدم کے مخلوق ہونے سے پہلے قائم ہے کیونکہ وہ لطف رحمانی کا مظہر ہے اور عالم حسی سے الگ ہے اور وہاں اس کے مناسب درخت اور میوے سب کچھ ہیں، نہ یہ درخت و میوے کہ جو جسمانیت و تکدر سے آلودہ ہیں بچندوجوہ۔ (وجہ اول) کہ گو حضرت آدم (علیہ السلام) کے جسم کی بنیاد اس عالم عنصری سے قائم تھی جیسا کہ احادیث صحیحہ و آثار قویہ سے ثابت ہے اور نیز یہ کہ وہ مکہ اور طائف کے درمیان میں بنائی گئی ہے اور گو آدم زمین کی خلافت کے لیے مقرر ہوئے تھے مگر انعاماتِ الٰہی اور تقرب غیر متناہی سے حضرت آدم پر وہ روحانیت غالب آگئی تھی کہ جس سے ملائکہ بلا تکلف ہر وقت ان کو دکھائی دیتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خدا کے دربار عام میں نہایت عزت و منزلت حاصل کرچکے تھے پس جس طرح بعد مفارقت بدن ہر شخص پر اس عالم کا رازکھل جاتا ہے اور وہاں کی چیزیں جنت اور دوزخ عیاناً دکھائی دیتی ہیں اسی طرح حضرت آدم (علیہ السلام) کو اس جسم سے یہ بات نصیب ہوگئی تھی اور یہ کچھ تعجب کی بات نہیں اکثر مقربانِ الٰہی پر یہ حالت طاری ہوجاتی ہے اور شب معراج میں آنحضرت ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور جنت و دوزخ کی سیر کرنا ایک امر قرین فہمِ مستقیم ہے اور بائبل سے بعض بعض اور انبیاء کے ایسے حالات ثابت ہوتے ہیں۔ چناچہ حضرت الیاس کا ملائکہ اور روحانیت میں مل جانا ثابت ہے۔ پس قرین قیاس ہے کہ حضرت آدم کو عالم قدس میں چند روز کے لیے اس لیے لے جا کر رکھا کہ زمین کی خلافت میں ایسا مست و مدہوش نہ ہوجائے کہ ادھر کا خیال نہ آئے اور اس مرکز اصلی کو بھول جائے، بلکہ اس عالم میں اس عالم کے شوق میں ہر دم ماہی بےآب کی طرح تڑپتا رہے اور وہ اور اس کی ذریت اس عالم کے خیال میں ہر طرح کی نیکی کو عمل میں لاویں۔ دنیا اور اس کے مال و زر کی کچھ وقعت آنکھوں میں نہ رہے اپنے آپ کو مسافر تیز رو جانیں کیونکہ اگر یہ مضمون پیش نظر نہیں تو پھر صدہا فساد اور خونریزیاں زمین پر ہوتی ہیں۔ خلافت کا نتیجہ حاصل نہیں ہوتا مگر اس جگہ خدا نے اپنی قدرت سے ایک درخت ایسا پیدا کیا تھا کہ جس کی تاثیر آلودگی تھی اور یہ کچھ تعجب کی بات نہیں اس عالم عجائب کی عجائب تاثیرات میں قضا و قدر میں آدم کا زمین پر آنا اور اس کی اولاد سے زمین کا آباد ہونا لکھا تھا کھالیا اس کی تاثیر سے نکالے گئے معتوب ہوئے۔ (وجہ دوم) علاوہ احادیث صحیحہ و اقوال صحابہ ؓ کے خود قرآن مجید کے طرز تکلم اور بعض الفاظ سے جو اس مطلب کے بیان میں وارد ہے یہی مطلب سمجھا جاتا ہے کہ ازان جملہ وَلَکُمْ فِی الْاَرْضْ مُسْتَقَرٌ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنَ یہ کہہ رہا ہے کہ وہ جگہ زمین کے علاوہ کوئی اور جگہ تھی جس کی نسبت اِھْبْطُوْا بھی آیا ہے ورنہ اس کے کیا معنی ہیں کہ یہاں سے نکل جاؤ اور زمین پر ایک مدت تک رہو اور گزران کرو، کس لیے کہ اگر وہ جنت میں نہ تھے تو خود وہاں بھی ارض موجود تھی اور بھی وجوہ ہیں۔ معتزلہ اور اسی قسم کے ظاہر پرست یہ کہتے ہیں کہ جنت سے مراد وہ جنت نہیں بلکہ زمین پر ایک باغ تھا پھر اس میں اختلاف ہے کہ کہاں تھا۔ بعض کہتے ہیں کر مان کے متصل اور بعض کہتے ہیں فلسطین میں تھا اور اہل کتاب عدن میں کہتے ہیں۔ چناچہ تورات اول میں اس کی تصریح ہے (اگر عدن سے مراد جنت ہے تو ٹھیک ہے اور وہاں سے چاروں دریا نکلنے کی بھی توجیہ ہوسکتی ہے ورنہ وہ عدن کہ جو عرب میں سمندر کے کنارے پر واقع ہے وہاں تو چاروں نہریں کیا بلکہ حاجیوں کو میٹھا پانی بھی پینے کو نہیں ملتا اور کوئی عدن ہو تو معلوم نہیں) معتزلہ کہتے ہیں کہ خلیفہ جو زمین کے بنے تھے تو ضرور تھا کہ زمین پر رہتے۔ اس کا جواب ہوچکا۔ پھر کہتے ہیں اھبطوا کے معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہے جیسا کہ اھبطوا مصرًا آیا ہے پس اس باغ سے نکال کر خدا نے اس کو سراندیپ میں ڈال دیا تھا۔ (2) اکثر مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) جنت سے نکال کر سراندیپ میں ڈالے گئے کہ جہاں اب تک ان کے آثار و تبرکات پائے جاتے ہیں اور ہزار ہا ہندو اور مسلمان اس پہاڑ کی زیارت کو آتے ہیں۔ (3) حضرت آدم (علیہ السلام) نبی تھے انہوں نے یہ گناہ کیوں کیا ؟ واضح ہو کہ انبیاء کے عقائد اور تبلیغ اور فتویٰ میں عمداً یا سہواً خطا واقع ہونے کا کوئی بھی قائل نہیں۔ تمام اہل اسلام ان تینوں باتوں میں معصوم ہونے کے مقر ہیں ہاں ان کے افعال و عادات میں کچھ اقوال ہیں۔ چناچہ شیعہ کہتے ہیں کہ نہ ان سے صغیرہ نہ کبیرہ نہ علی سبیل قصد نہ سہواً نہ تاویلاً سرزد ہوا ہے اکثر معتزلہ کہتے ہیں کہ عمداً کبائر کا سرزد ہونا انبیاء سے ممتنع ہے ہاں صغائر سرزد ہوسکتے ہیں مگر جن میں رذالت ہے جیسا کہ کم تولنا وہ بھی سرزد نہیں ہوسکتے مگر جمہور اہل سنت و جماعت کا یہ قول ہے کہ کفر و شرک اور کوئی کبیرہ یا صغیرہ عمداً کسی نبی سے سرزد نہیں ہوا ہاں سہواً اور خطائً ا کوئی صغیرہ کہ جس سے شان نبوت میں فرق نہ آئے اگر سرزد ہوگیا ہو تو ممکن ہے کہ جس کو زلت یعنی لغزش کہتے ہیں۔ سو ان لغزشوں پر عام مسلمین معاف ہیں مگر چونکہ نبوت کی بڑی شان ہے ان کو اس پر بھی چند در چند مصلحتوں سے عتاب ہوتا ہے جس پر وہ روتے اور ہر دم خدا کی یاد میں سرگرم رہتے ہیں اور یہ بات جس پر عوام سے مؤاخذہ نہ ہو خواص سے ہو کچھ عقلاً و نقلاً بعید الفہم نہیں حسنات الابرار سیئات المقربین مشہور ہے اور دلائلِ عصمت انبیاء کے آیات و احادیث صحیحہ میں کہ جو شرح مواقف وغیرہ کتب کلامیہ میں مذکور ہیں۔ عصمت انبیاء : پس وہ جو انبیاء (علیہم السلام) کی نسبت اس قسم کی روایات مذکور ہیں کہ جو شرک و کفر اور زنا اور جھوٹ بولنے پر دال ہیں یا اور کبائر پر مشعر ہیں وہ جھوٹی ہیں یا مائول۔ حاشاو کلا کبھی انبیاء (علیہم السلام) کی جناب میں بد گمانی کرنا نہ چاہیے۔ علی ہذا القیاس حضرت آدم (علیہ السلام) نے جو یہ درخت کھایا اور گناہ کیا تو اول تو یہ قبل نبوت تھا ولاکلام فیہ دوم یہ کبیرہ نہ تھا۔ محض آدم (علیہ السلام) کی بھلائی کے لیے خدا نے ارشاد کیا تھا جس کے خلاف انہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا۔ ربنا ظلمنا انفسنا فرمایا۔ سوم یہ سہواً سرزد ہوا تھا جیسا کہ آدم (علیہ السلام) کو بروقت کھانے کے وہ ممانعت یاد نہ رہی تھی 1 ؎ پھر جنت سے جو وہ نکالے گئے تھے تو اس درخت کی تاثیر تھی اور یوں بھی تسلیم کیا جاوے تو اس بےاحتیاطی اور لغزش کی سزا تھی۔ فائدہ : ازلہما الشیطان یہاں پھسلانے کو جو شیطان کی طرف منسوب کیا ہے تو مجازاً کیونکہ شیطان اس پھسلنے کا سبب تھا یہ اسناد مجازی ہے۔
Top