Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 35
وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا يَا آدَمُ : اے آدم اسْكُنْ : تم رہو اَنْتَ : تم وَزَوْجُکَ : اور تمہاری بیوی الْجَنَّةَ : جنت وَكُلَا : اور تم دونوں کھاؤ مِنْهَا : اس میں سے رَغَدًا : اطمینان سے حَيْثُ : جہاں شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پھر تم ہوجاؤگے مِنَ الظَّالِمِیْنَ : ظالموں سے
اور ہم نے کہا، اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں جا بسو اور وہاں دل بھر کر جہاں سے چاہو کھاؤ (پیو) اور اس درخت کے پاس بھی نہ پھٹکنا، ورنہ برا خمیازہ بھگتو گے۔
ترکیب : واؤ حرف عطف کہ عطف جملہ کا پہلے جملہ پر ہے۔ قلنا فعل ضمیر فاعل یا حرف ندا آدم منادی اسکن فعل ضمیر مستتر اس کی فاعل انت اس کی تاکید تاکہ ضمیر مستتر پر عطف صحیح ہوجاوے و حرف عطف زوجک معطوف برانت الجنۃ مفعول یہ تمام جملہ معطوف علیہ وکلا الخ جملہ معطوف رغدًا صفت ہے مصدر محذوف کی اے اکلاً رغداً اے طیباً ہنیئًا حیث ظرف مکان اور عامل اس میں کلا ہے اور ممکن ہے کہ جنت سے بدل ہو کر مفعول بہ ہوجاوے ولا تقربا فعل نہی انما ضمیر اس کا فاعل ھذہ موصوف الشجرۃ اس کی صفت یہ دونوں مفعول بہ ہیں یعنی منہی عنہما فتکونا جواب نہی ہے اسی لیے نون حالت جری میں گر پڑا۔ تقدیرہ ان تقربا تکون۔ فازلّ مشدد زلت بمعنی لغزش اور بعض نے اس کو ازال زوال سے لیا ہے جس کے معنی اکھیڑ دینا ہے۔ یہ فعل ھما مفعول بہ الشیطن فاعل عنہا ای عن الجنتہ متعلق ہے۔ ازل سے فاخرجہما جملہ معطوفہ مما میں ما بمعنی الذی ای من نعیم اھطبوا فعل ہبوط بمعنی نزول سے یعنی اترنا۔ انتم اس کا فاعل جس سے مراد آدم و حوا اور شیطان یا آدم اور اس کی ذریت جو اس کی پشت میں تھی بعضکم لبعض عدو جملہ موضع حال میں ہے واؤ اھبطوا سے اور اسی طرح و لکم فی الارض مستقرالخ جملہ بھی اسی سے حال ہے اور ممکن ہے کہ جملہ مستانفہ ہو۔ مستقر مصدر میمی اور ظرف دونوں ہوسکتا ہے۔ حین کے معنی وقت یعنی وقت موت تک تمہارا زمین پر قرار ہے۔ تفسیر : یعنی جبکہ آدم کے سر پر دستار خلافت بندھ چکی اور ملائکہ نے نذرانہ سجود پیش کردیا تو خدا فرماتا ہے ہم نے آدم اور اس کی بیوی حوا کو یہ حکم دیا کہ تم جنت میں رہا کرو اور وہاں تم پر کوئی روک ٹوک نہیں جہاں سے جو جی چاہے خوب کھاؤ پیو مگر اس درخت (گندم) بعض کہتے ہیں کہ انجیر بعض کہتے ہیں کہ انگور کا درخت تھا، بعض کہتے ہیں کوئی اور قسم کا درخت تھا کہ جس کی تاثیر یہ تھی کہ جو اس کو کھاتا تھا آلودگی جسمانی میں مبتلا ہوجاتا تھا (اور اسی مصلحت سے منع کیا تھا) کے پاس بھی نہ جانا چہ جائیکہ کھانا اور جو ایسا کرو گے تو خرابی میں پڑجاؤ گے (کیونکہ ظلم ایک چیز کو بےموقع رکھنے کا نام ہے اور یہاں غیر پر ظلم کرنا مراد نہیں بلکہ اپنی جان پر اور اسی لیے جو گناہ گار گناہ کرتا ہے اپنی جان پر آفت ڈھاتا ہے کہ اس کا بدنتیجہ دنیا یا آخرت میں آپ ہی پاتا ہے، لیکن اس دشمن جانی یعنی شیطان نے وہاں جا کر یہ کہا یَــآآدَمُ ھَلْ اَدُّلَکَ عَلٰی شَجْرَۃِ الْخُلْدِ وَمَلَکٌ لَّا یَبْلٰی (طہ) وقال مانَہَا کُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجْرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَ مِنَ الْخَالِدِیْنَ وَقَاسَمُہَمَآ اِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ (اعراف) ” کہ اے آدم میں تجھ کو ایک ایسا درخت بتلاتا ہوں کہ جس کے کھانے سے تو ہمیشہ جیتا رہے اور تجھے ہمیشہ کی سلطنت ملے اور تمہارے رب نے جو اس کے کھانے سے منع کیا ہے تو صرف اس خوف سے کہ تم فرشتہ نہ ہوجائو۔ یا ہمیشہ زندہ رہو اور میں قسم کھا کر تم سے کہتا ہوں کہ میں تمہاری خیر خواہی کر رہا ہوں “۔ آخر الامر اس کہنے سے خداوند تعالیٰ کے حکم کو بھول گئے اور فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْآتُہُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْہْمَا مِنْ وَّرَقْ الْجْنَّۃِ (اعراف) اور دونوں نے اس درخت کو چکھ لیا۔ پھر تو کیا تھا اس کے کھاتے ہی اس کی تاثیر یہ ظاہر ہوئی کہ آدم و حوا برہنہ ہوگئے اور شرم کے مارے درختوں کے پتے چمٹانے لگے اور عتاب الٰہی شروع ہوا کہ نکلو یہ جگہ اب تمہارے رہنے کے قابل نہیں چلو اترو زمین پر جا کر رہو، وہاں باہمی عداوت کی تکلیف اٹھاؤ اور موت تک وہیں رہو اور اپنی معیشت کے سامان بہم پہنچائو، وَنَادٰھُمَا رَبُّہُمَآ اَلَمْ اَنْھَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَۃَ وَاَقُلْ لَّکُمَا اِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبْیْنٌ۔ (اعراف) ” اور خدا تعالیٰ نے ان کو یہ کہا کہ میں نے تم کو اس درخت سے منع نہ کیا تھا اور یہ نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا ظاہر دشمن ہے۔ “ متعلقات : اس مقام پر چند امور قابل غور ہیں۔ (1) یہ کہ خدا تعالیٰ نے آدم کو پیدا کرکے کون سی جنت میں رہنے کا حکم دیا تھا۔ جمہور اہل سنت و جماعت کا یہ قول ہے کہ بہشت میں رہنے کا حکم دیا تھا اور وہ بنی آدم کے مخلوق ہونے سے پہلے قائم ہے کیونکہ وہ لطف رحمانی کا مظہر ہے اور عالم حسی سے الگ ہے اور وہاں اس کے مناسب درخت اور میوے سب کچھ ہیں، نہ یہ درخت و میوے کہ جو جسمانیت و تکدر سے آلودہ ہیں بچندوجوہ۔ (وجہ اول) کہ گو حضرت آدم (علیہ السلام) کے جسم کی بنیاد اس عالم عنصری سے قائم تھی جیسا کہ احادیث صحیحہ و آثار قویہ سے ثابت ہے اور نیز یہ کہ وہ مکہ اور طائف کے درمیان میں بنائی گئی ہے اور گو آدم زمین کی خلافت کے لیے مقرر ہوئے تھے مگر انعاماتِ الٰہی اور تقرب غیر متناہی سے حضرت آدم پر وہ روحانیت غالب آگئی تھی کہ جس سے ملائکہ بلا تکلف ہر وقت ان کو دکھائی دیتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خدا کے دربار عام میں نہایت عزت و منزلت حاصل کرچکے تھے پس جس طرح بعد مفارقت بدن ہر شخص پر اس عالم کا رازکھل جاتا ہے اور وہاں کی چیزیں جنت اور دوزخ عیاناً دکھائی دیتی ہیں اسی طرح حضرت آدم (علیہ السلام) کو اس جسم سے یہ بات نصیب ہوگئی تھی اور یہ کچھ تعجب کی بات نہیں اکثر مقربانِ الٰہی پر یہ حالت طاری ہوجاتی ہے اور شب معراج میں آنحضرت ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور جنت و دوزخ کی سیر کرنا ایک امر قرین فہمِ مستقیم ہے اور بائبل سے بعض بعض اور انبیاء کے ایسے حالات ثابت ہوتے ہیں۔ چناچہ حضرت الیاس کا ملائکہ اور روحانیت میں مل جانا ثابت ہے۔ پس قرین قیاس ہے کہ حضرت آدم کو عالم قدس میں چند روز کے لیے اس لیے لے جا کر رکھا کہ زمین کی خلافت میں ایسا مست و مدہوش نہ ہوجائے کہ ادھر کا خیال نہ آئے اور اس مرکز اصلی کو بھول جائے، بلکہ اس عالم میں اس عالم کے شوق میں ہر دم ماہی بےآب کی طرح تڑپتا رہے اور وہ اور اس کی ذریت اس عالم کے خیال میں ہر طرح کی نیکی کو عمل میں لاویں۔ دنیا اور اس کے مال و زر کی کچھ وقعت آنکھوں میں نہ رہے اپنے آپ کو مسافر تیز رو جانیں کیونکہ اگر یہ مضمون پیش نظر نہیں تو پھر صدہا فساد اور خونریزیاں زمین پر ہوتی ہیں۔ خلافت کا نتیجہ حاصل نہیں ہوتا مگر اس جگہ خدا نے اپنی قدرت سے ایک درخت ایسا پیدا کیا تھا کہ جس کی تاثیر آلودگی تھی اور یہ کچھ تعجب کی بات نہیں اس عالم عجائب کی عجائب تاثیرات میں قضا و قدر میں آدم کا زمین پر آنا اور اس کی اولاد سے زمین کا آباد ہونا لکھا تھا کھالیا اس کی تاثیر سے نکالے گئے معتوب ہوئے۔ (وجہ دوم) علاوہ احادیث صحیحہ و اقوال صحابہ ؓ کے خود قرآن مجید کے طرز تکلم اور بعض الفاظ سے جو اس مطلب کے بیان میں وارد ہے یہی مطلب سمجھا جاتا ہے کہ ازان جملہ وَلَکُمْ فِی الْاَرْضْ مُسْتَقَرٌ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنَ یہ کہہ رہا ہے کہ وہ جگہ زمین کے علاوہ کوئی اور جگہ تھی جس کی نسبت اِھْبْطُوْا بھی آیا ہے ورنہ اس کے کیا معنی ہیں کہ یہاں سے نکل جاؤ اور زمین پر ایک مدت تک رہو اور گزران کرو، کس لیے کہ اگر وہ جنت میں نہ تھے تو خود وہاں بھی ارض موجود تھی اور بھی وجوہ ہیں۔ معتزلہ اور اسی قسم کے ظاہر پرست یہ کہتے ہیں کہ جنت سے مراد وہ جنت نہیں بلکہ زمین پر ایک باغ تھا پھر اس میں اختلاف ہے کہ کہاں تھا۔ بعض کہتے ہیں کر مان کے متصل اور بعض کہتے ہیں فلسطین میں تھا اور اہل کتاب عدن میں کہتے ہیں۔ چناچہ تورات اول میں اس کی تصریح ہے (اگر عدن سے مراد جنت ہے تو ٹھیک ہے اور وہاں سے چاروں دریا نکلنے کی بھی توجیہ ہوسکتی ہے ورنہ وہ عدن کہ جو عرب میں سمندر کے کنارے پر واقع ہے وہاں تو چاروں نہریں کیا بلکہ حاجیوں کو میٹھا پانی بھی پینے کو نہیں ملتا اور کوئی عدن ہو تو معلوم نہیں) معتزلہ کہتے ہیں کہ خلیفہ جو زمین کے بنے تھے تو ضرور تھا کہ زمین پر رہتے۔ اس کا جواب ہوچکا۔ پھر کہتے ہیں اھبطوا کے معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہے جیسا کہ اھبطوا مصرًا آیا ہے پس اس باغ سے نکال کر خدا نے اس کو سراندیپ میں ڈال دیا تھا۔ (2) اکثر مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) جنت سے نکال کر سراندیپ میں ڈالے گئے کہ جہاں اب تک ان کے آثار و تبرکات پائے جاتے ہیں اور ہزار ہا ہندو اور مسلمان اس پہاڑ کی زیارت کو آتے ہیں۔ (3) حضرت آدم (علیہ السلام) نبی تھے انہوں نے یہ گناہ کیوں کیا ؟ واضح ہو کہ انبیاء کے عقائد اور تبلیغ اور فتویٰ میں عمداً یا سہواً خطا واقع ہونے کا کوئی بھی قائل نہیں۔ تمام اہل اسلام ان تینوں باتوں میں معصوم ہونے کے مقر ہیں ہاں ان کے افعال و عادات میں کچھ اقوال ہیں۔ چناچہ شیعہ کہتے ہیں کہ نہ ان سے صغیرہ نہ کبیرہ نہ علی سبیل قصد نہ سہواً نہ تاویلاً سرزد ہوا ہے اکثر معتزلہ کہتے ہیں کہ عمداً کبائر کا سرزد ہونا انبیاء سے ممتنع ہے ہاں صغائر سرزد ہوسکتے ہیں مگر جن میں رذالت ہے جیسا کہ کم تولنا وہ بھی سرزد نہیں ہوسکتے مگر جمہور اہل سنت و جماعت کا یہ قول ہے کہ کفر و شرک اور کوئی کبیرہ یا صغیرہ عمداً کسی نبی سے سرزد نہیں ہوا ہاں سہواً اور خطائً ا کوئی صغیرہ کہ جس سے شان نبوت میں فرق نہ آئے اگر سرزد ہوگیا ہو تو ممکن ہے کہ جس کو زلت یعنی لغزش کہتے ہیں۔ سو ان لغزشوں پر عام مسلمین معاف ہیں مگر چونکہ نبوت کی بڑی شان ہے ان کو اس پر بھی چند در چند مصلحتوں سے عتاب ہوتا ہے جس پر وہ روتے اور ہر دم خدا کی یاد میں سرگرم رہتے ہیں اور یہ بات جس پر عوام سے مؤاخذہ نہ ہو خواص سے ہو کچھ عقلاً و نقلاً بعید الفہم نہیں حسنات الابرار سیئات المقربین مشہور ہے اور دلائلِ عصمت انبیاء کے آیات و احادیث صحیحہ میں کہ جو شرح مواقف وغیرہ کتب کلامیہ میں مذکور ہیں۔ عصمت انبیاء : پس وہ جو انبیاء (علیہم السلام) کی نسبت اس قسم کی روایات مذکور ہیں کہ جو شرک و کفر اور زنا اور جھوٹ بولنے پر دال ہیں یا اور کبائر پر مشعر ہیں وہ جھوٹی ہیں یا مائول۔ حاشاو کلا کبھی انبیاء (علیہم السلام) کی جناب میں بد گمانی کرنا نہ چاہیے۔ علی ہذا القیاس حضرت آدم (علیہ السلام) نے جو یہ درخت کھایا اور گناہ کیا تو اول تو یہ قبل نبوت تھا ولاکلام فیہ دوم یہ کبیرہ نہ تھا۔ محض آدم (علیہ السلام) کی بھلائی کے لیے خدا نے ارشاد کیا تھا جس کے خلاف انہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا۔ ربنا ظلمنا انفسنا فرمایا۔ سوم یہ سہواً سرزد ہوا تھا جیسا کہ آدم (علیہ السلام) کو بروقت کھانے کے وہ ممانعت یاد نہ رہی تھی 1 ؎ پھر جنت سے جو وہ نکالے گئے تھے تو اس درخت کی تاثیر تھی اور یوں بھی تسلیم کیا جاوے تو اس بےاحتیاطی اور لغزش کی سزا تھی۔ فائدہ : ازلہما الشیطان یہاں پھسلانے کو جو شیطان کی طرف منسوب کیا ہے تو مجازاً کیونکہ شیطان اس پھسلنے کا سبب تھا یہ اسناد مجازی ہے۔
Top