Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 63
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ١ؕ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاِذْ اَخَذْنَا : اور جب ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے اقرار وَرَفَعْنَا : اور ہم نے اٹھایا فَوْقَكُمُ : تمہارے اوپر الطُّوْرَ : کوہ طور خُذُوْا : پکڑو مَا آتَيْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیا ہے بِقُوْةٍ : مضبوطی سے وَاذْكُرُوْا : اور یا درکھو مَا فِیْهِ : جو اس میں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجاؤ
اور یاد کرو جبکہ ہم نے تم سے عہد لیا اور تم پر کوہ طور بلند کیا اور کہا جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اس کو مضبوط ہو کرلو اور جو کچھ اس میں ہے اس کو یاد رکھو تاکہ تم پرہیزگار بنو
ترکیب : اخذنا فعل نحن فاعل میثاقکم مفعول و حالیہ رفعنا فعل نحن فاعل الطور مفعول فوقکم ظرف متعلق ہے فعل سے قلنا محذوف خذواما اتیناکم الخ مقولہ بقوۃ حال ہے ضمیر خذوا سے۔ ای خذوا عازمین فضل اللہ الخ مبتداء خبر محذوف۔ ای لولافضل اللہ حاضر کو فیوں کے نزدیک لولا کے بعد اس کا اسم ہے۔ تفسیر : گیا رہواں انعام : یہ گیا رہواں انعام ہے جس کا کسی قدر ذکر قانون ہدایت میں بیان فرمانے کے بعد یہ بھی بیان فرماتا ہے کہ ہم نے اے بنی اسرائیل تم پر یہاں تک عنایت کی تھی کہ جس طرح احمق مریض کو شفیق حکیم زبردستی دوا پلاتا ہے اسی طرح ہم نے تم سے کیا تم میں از خود تو اس قانون ہدایت لینے کی تو صلاحیت تھی نہیں ہم نے تم کو زبردستی سے اس عہد الٰہی پر تم کو کوہ طور اٹھا کر اس کے لینے اور یاد کرنے 1 ؎ یہود کے معنی تو ظاہر ہیں کہ بنی اسرائیل کو کہتے ہیں مگر وجہ تسمیہ میں اختلاف ہے۔ قوی یہ ہے کہ یہودا حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے کا نام ہے ان کے نام سے یہ قوم نامزد ہوگئی اور نصاریٰ عیسائیوں کو کہتے ہیں اس لیے کہ ناصرہ شام میں ایک گائوں ہے وہاں آ کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) رہے تھے اور یہ لفظ عیسائیوں میں سے ایک فریق خاص کے لیے بھی بولا جاتا ہے اعنی کلیسائے عرب کے لئے۔ 12 منہ پر مامور کیا مگر باوجود اس کے تم نے اس کو بھی توڑ دیا۔ اگر اس کی رحمت اور فضل نہ ہوتا تو اس عہد شکنی پر تم کو ہلاک کردیا جاتا۔ یہ سفر خروج کے 19 باب میں بھی ہے لیکن باوجود اس کے پھر بھی بنی اسرائیل پھرگئے اور طرح طرح کی بدکاری اور بت پرستی میں مصروف ہوئے جیسا کہ زمانہ سلاطین اور قضات میں واقع ہوا مگر خدا رحیم ہے اس نے اپنے فضل و رحمت سے پھر وقتاً فوقتاً انبیاء بھیجے کہ جو بنی اسرائیل کو ہر طرح کی ہلاکی اور بربادی سے بچاتے رہے ورنہ نیست و نابود ہوجاتے۔ فائدہ : سورة اعراف میں بھی خدا تعالیٰ نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے واذنتقنا الجبل فوقہم کا نہ ظلہ وظنوا انہ واقع بہم الآیۃ پس ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے پہاڑ کو ان پر اٹھا کر خوف دلایا تھا۔ وہ قادر ہے اور بعض ماوّل اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ پہاڑ کا اوپر اٹھانا ثابت نہیں بلکہ اس پہاڑ کی جڑ میں یہود کھڑے تھے اور پہاڑ کے لرزنے سے ڈرتے تھے کہ اوپر نہ آپڑے اس خوف کے وقت ان سے کہا گیا کہ اس عہد یعنی توریت کو لو اور اس کو یاد رکھو اور اس پر عمل کیا کرو۔ اس خوف سے انہوں نے عہد کرلیا مگر پھر توڑ دیا۔
Top