Tafseer-e-Haqqani - Al-Ankaboot : 64
وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ١ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں هٰذِهِ : یہ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ : دنیا کی زندگی اِلَّا لَهْوٌ : سوائے کھیل وَّلَعِبٌ ۭ : اور کود وَاِنَّ : اور بیشک الدَّارَ الْاٰخِرَةَ : آخرت کا گھر لَھِىَ : البتہ وہی الْحَيَوَانُ ۘ : زندگی لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہوتے
اور کیا ہے اس دنیا کی زندگی مگر کھیل اور کود اور البتہ دار آخرت ہی زندگی (کی جگہ) ہے کاش وہ جانتے۔
ترکیب : والحیوان مصدرحی سمی بہ ذوالحیٰوۃ۔ واصلہ حییان فقلب الیاء الثانیۃ وا والئلاتلتبس بالتثنیۃ ولم تقلب الفالئلا بحذف احد لالفین والحیوٰۃ۔ ایضاً مصدر لکن الحیوان ابلغ لان من بناء فعلان من معنی الحرکۃ والاضطراب الازم للحیوٰۃ۔ بیضاوی وغیرہ۔ ان آیتوں کے بعد (کہ جن میں توکل کی ترغیب تھی اور جن میں اپنی قدرت کاملہ کے آثار ظاہر فرمائے تھے کہ ہم نے آسمان و زمین کو پیدا کیا، پھر آسمان سے مینہ برساکر روزی رزق پیدا کرتے ہیں۔ ہم ہی بےبس جانوروں کو روزی دیتے ہیں، ہم ہی تنگی و فراغدستی دیتے ہیں تاکہ بندہ اسی پر توکل کرے اور دین کی حفاظت میں جو کچھ مصیبت آوے اس سے نہ ڈرے) ایک ایسا جملہ ارشاد فرماتا ہے کہ جس سے دنیا سے دل سرد ہوجاوے اور یہاں کا عیش و آرام اور دکھ درد سب گرد ہوجاوے فقال و ما ھذہٖ الحیٰوۃ الدنیا الا لہو و لعب و ان الدار الآخرۃ لہی الحیٰون لوکانوا یعلمون۔ اس آیت میں تین باتیں ارشاد فرمائیں۔ اول یہ کہ دنیا کی زندگی محض کھیل کود ہے، یعنی اس چیز کے مانند بےحقیقت ہے کہ جس سے لڑکے تھوڑی دیر تک مل کر کھیل کود لیتے ہیں۔ پھر تھک کر الگ الگ ہوجاتے ہیں، اس طرح عالم وجود میں لوگ آتے ہیں۔ دنیا کی چیزوں پر فریفتہ ہوجاتے ہیں اور اپنے اصلی رستہ کو کہ جہاں جانا ہے اور اپنے اصلی کام کو کہ جو یہاں کرنا تھا بھول جاتے ہیں، اتنے میں جام عمر لبریز ہوا دنیا سے بڑی تلخ کلامی کے ساتھ سب کچھ چھوڑ چھاڑ ایسے گئے کہ پھر کسی نے ادھر آکر بھی نہ جھانکا۔ غرض یہ کہ جس طرح کھیل کود بےبنیاد ہے اس طرح دنیا کی زندگی ہے، کیا خوب کہا ہے عارف جامی نے۔ ؎ دلاتا کے دریں کا خِ مجازی کنی مانند طفلاں خاکبازی بیفشان بال و پر زآمیزش خاک بپرتا کنگرئہ ایوان افلاک مسلم نے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ ایک بکری کے کن کٹے مردہ بچے کے پاس سے ہو کر نکلے، لوگوں سے فرمایا۔ اس کو کوئی ایک درہم سے خریدنا چاہتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا ہم تو اس کو مفت بھی نہیں لیتے، فرمایا بخدا اللہ کے نزدیک تمہارے لیے دنیا اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے۔ ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ خبردار دنیا ملعون ہے، جو کچھ اس میں ہے سب پر لعنت ہے، مگر اللہ کا ذکر اور اس کی پسند کا کام اور عالم اور طالب العلم رواہ الترمذی و ابن ماجۃ۔ سہیل بن سعد ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے، اگر اللہ کے نزدیک دنیا مچھر کے برابر بھی ہوتی تو کسی منکر کو پانی بھی نہ پینے دیتا۔ رواہ احمد والترمذی و ابن ماجہ۔ حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ خطبہ میں فرماتے تھے کہ شراب گناہ کا گھر ہے اور عورت شیطان کی رسی ہے۔ (اس سے باندھ لیتا ہے) اور دنیا کی محبت سب گناہوں کی جڑ ہے۔ مشکٰوۃ ؎ ایام بقا چوباد سحر بگذشت تلخی و خوشی وزشت و دیبا بگذشت لہو ولعب سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں لہو ولعب کرنا چاہیے، بعض کہتے ہیں لہو اور لعب کے ایک ہی معنی ہیں۔ دوسرا لفظ پہلے کی تاکید کے لیے آیا کرتا ہے۔ بعض کہتے ہیں لعب لڑکپن کے زمانہ میں کھیلنے کو کہتے ہیں اور لہو جوانی میں کھیلنا۔ کھیل کود اس کا ترجمہ ہے۔ دوسری بات وان الدار الا خرۃ لہی الحیوان کہ آخرت کا گھر ہی زندگی کی جگہ ہے، یعنی فنا نہیں حیات ابدی ہے، پھر جس جگہ ہر وقت کوچ کا نقارہ بج رہا ہو، عاقل کو وہاں دل لگانے ‘ مکان بنانے، قصے قضیئے کرنے سے کیا کام اور اس رواروی کے اسباب عیش سے کیا آرام۔ ؎ مراد منزل جاناں چہ امن و عیش چوں ہر دم جرس فریاد میدار کہ دبر بندید محملہا اقارب و احباب کی موت ‘ بدن کے تغیرات زمانہ کا انقلاب اس غافل کے کوچ اور سفر کے لیے گھنٹیاں ہیں۔ ؎ مصحفی کس زندگانی پر بہلا میں شاد ہوں یاد ہے موت قتیل و مردن انشاء مجھے ؎ کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں تیسری بات لوکا نوا یعلمون۔ اگر لوگ جانتے تو دنیا پر نہ مرتے، یا یہ معنی کاش ان کو اس بات کا علم ہوتا گرچہ دنیا کی بےثباتی اور اپنی موت کا سب کو علم ہے، مگر جبکہ اس علم پر عمل نہیں تو وہ بمنزلہ جہل کے ہے، اس لیے یہ کلمہ فرمایا اور سچ بھی ہے کہ اس جاننے پر دنیا اور اس کے اسباب تفاخر میں یہ محویت ہے کہ مرنا بھی بھول گئے۔
Top