Tafseer-e-Haqqani - Al-Ankaboot : 65
فَاِذَا رَكِبُوْا فِی الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ١ۚ۬ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ یُشْرِكُوْنَۙ
فَاِذَا : پھر جب رَكِبُوْا : وہ سوار ہوئے ہیں فِي الْفُلْكِ : کشتی میں دَعَوُا اللّٰهَ : اللہ کو پکارتے ہیں مُخْلِصِيْنَ : خالص رکھ کر لَهُ الدِّيْنَ ڬ : اس کے لیے اعتقاد فَلَمَّا : پھر جب نَجّٰىهُمْ : وہ انہیں نجات دیتا ہے اِلَى الْبَرِّ : خشکی کی طرف اِذَا هُمْ : ناگہاں (فورا) وہ يُشْرِكُوْنَ : شرک کرنے لگتے ہیں
پھر جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں، خاص اسی کے لیے نیاز کرکے، پھر جب ان کو خشکی کی طرف بچاکر لے جاتا ہے تو جبھی شرک کرنے لگتے ہیں
ترکیب : اذا رکبوا شرط دعوا جواب۔ مخلصین کا الدین مفعول اور فاعل اس کا ضمیر۔ یہ جملہ حال ہے، فاعل دعوا سے حرمًا موصوف امنا اھلہ من القتل او السبیّ صفت مجموعہ جعلنا کا مفعول ثانی اول بلدھم محذوف اور کل جملہ لم یروا کا مفعول۔ ویتخطف الخ جملہ حال مفعول جعلنا سے یا مستانفہ الخطف ربودن لے جانا۔ تفسیر : فاذا رکبوا فی الفلک یہاں پھر اس حیات دنیا کے ایک بڑے اثر کو بیان فرماتا ہے کہ جب یہ مشرکین جو حیات دنیا میں محو ہورہے ہیں، کشتی پر سوار ہو کر دریا کا سفر کرتے ہیں اور وہاں پہاڑ جیسی دریا کی موجیں اٹھتی اور کشتی کو تہ وبالا کرتی ہیں تو اس حیات دنیا کا نشہ اتر جاتا ہے اور موت سامنے دکھائی دیتی ہے، ان کی فطری حالت عود کر آتی ہے تو پھر خاص اللہ ہی پکارنے لگتے ہیں۔ مخلصین لہ الدین الدین بمعنی الطاعۃ ای مخلصین الطاعۃ لایغیرہ ویمکن ان یکون بمعنی الملۃ فالمعنی کا ئتین فی صورۃ من اخلص دینہ من المؤمنین حیث لایذکرون الا اللہ تعالیٰ ولا یدعون سواہ۔ فلما نجہم الی البراذ اھم یشرکون پھر جب ان کو وہ خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اپنی اسی حالت پر آجاتے ہیں، اپنے انہیں معبودوں کی طرف دنیاوی طمع سے جس کو وہ ان کی طرف سے سمجھتے ہیں، ان کو اللہ کے ساتھ شریک کرنے لگتے ہیں۔ لیکفروا بما اتینہم تاکہ اللہ کی نعمت کی ناشکری کریں۔ (واللام لام کے ای یشرکون لیکونوا کافرین بشرکھم نعمۃ النجاۃ اولام الامر علی التہدید بیضاوی) یعنی ان کو اس نعمت کا شکر کرنا چاہیے تھا مگر حیات دنیا کے نشہ میں اس کے بدلہ میں وہ ناشکری کرتے ہیں۔ غیروں کی طرف طمع میں آکر جھک جاتے ہیں۔ ولیتمتعوا اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے ہم دنیا میں شاد بامراد رہیں گے، پھلیں پھولیں گے۔ دنیا کو برتیں گے، اگر ایسا نہ کریں تو یہ معبود ہم کو برتنے نہ دیں گے۔ چناچہ اب بھی مشرکوں کا اپنے بتوں کی طرف یہی خیال ہے کہ اگر ہم ان کو نہ پوجیں ‘ نذر نیاز نہ کریں ‘ تو بیمار ہوجاویں ‘ مفلسی آجاوے ‘ اولاد مرجاوے۔ دوسری تقدیر پر یعنی جبکہ لام امر لیا جاوے گا تو یہ معنی ہوں گے۔ اچھا برت لیں فسوف یعلمون پھر ان کو معلوم ہوجاوے گا کہ یہ نعمتیں کس نے دی تھیں، اور اب اس کی ناشکری میں کون سزا دے رہا ہے ؟ یہ بات مرنے کے بعد بخوبی معلوم ہوگی۔ اولم یروا انا جعلنا حرمًا امنا الخ اب یہاں سے یہ بات بتلاتا ہے کہ یہ سب نعمتیں ہماری دی ہوئی ہیں، اس میں ان کے معبودوں کا کچھ بھی دخل نہیں، ان نعمتوں میں سے ایک ایسی نعمت کا ذکر کرتا ہے کہ جس کو وہ بھی خاص اللہ ہی کی طرف سے سمجھتے تھے۔ وہ کیا حرم مکہ کا امن کی جگہ ہونا۔ عرب کے تمام قبائل حرم مکہ کی تعطیم ہمیشہ سے کیا کرتے تھے، حرم مکہ میں یعنی اس کے پاس ایک خاص مدت تک (جس کو ہم سورة بقرہ کی تفسیر میں بیان کر آئے ہیں) نہ کسی کو مارتے تھے، نہ لوٹتے تھے، اس لیے مکہ کے لوگ امن و عافیت سے زندگی بسر کرتے تھے اور ان کے اردگرد حرم کی حد سے باہر لوگ اچک لیے جاتے تھے، یعنی جس طرح شکاری پرند چیل، باز وغیرہ زمین پر سے کسی کو اچک لیتے ہیں، یعنی اٹھا کرلے بھاگتے ہیں، اس طرح لوگوں کا حال تھا۔ افبالباطل یؤمنون و بنعمۃ اللہ یکفرون فرماتا ہے کہ پھر کیا غلط اور جھوٹی باتوں پر ایمان لاتے ہیں کہ فلاں بت نے اولاد دی، فلاں نے فلاں کام کردیا اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں، اس کو نہیں مانتے۔ اس پر ایمان نہیں لاتے۔ کافر و مشرکین اس حیات دنیا کے نشے میں دو کام کرتے تھے۔ ایک تو یہ کہ بتوں کے لیے افسانے اور قصے گھڑ رکھتے تھے کہ اس نے فلاں کو یہ نعمت دی تھی اور فلاں نے جو نذر و نیاز نہ کی تھی اس کو برباد کردیا تھا۔ اللہ نے ان کو اپنے گھر کا مختار کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ سچی باتوں کو جو رسول لے کر آیا تھا، جھٹلاتے تھے اور حقیقت یہ دونوں باتیں عقلاء کے نزدیک ازحد بری اور صریح ظلم ہیں، اس لیے فرماتا ہے ومن اظلم الخ کہ ان لوگوں سے بھی بڑھ کر کوئی ظالم اور بےانصاف ہے کہ جو اللہ پر جھوٹی باتیں بنائیں اور سچی بات کو نہ مانیں۔ پھر کیا ان کافروں کا جہنم میں ٹھکانا نہ ہوگا، یعنی ان کا جہنم میں گھر ہوگا۔
Top