Tafseer-e-Haqqani - Al-Ahzaab : 99
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں کو وَبَنٰتِكَ : اور بیٹیوں کو وَنِسَآءِ : اور عورتوں کو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں يُدْنِيْنَ : ڈال لیا کریں عَلَيْهِنَّ : اپنے اوپر مِنْ : سے جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ : اپنی چادریں ذٰلِكَ : یہ اَدْنٰٓى : قریب تر اَنْ : کہ يُّعْرَفْنَ : ان کی پہچان ہوجائے فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ : تو انہیں نہ ستایا جائے وَكَانَ اللّٰهُ : اور اللہ ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اے نبی ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں، اس میں یہ ہوگا کہ وہ پہچانا جایا کریں گی، پھر ستائی نہ جاویں گی اور اللہ جو ہے تو معاف کرنے والا ‘ مہربان ہے۔
ترکیب : یدنین ھو مثل قولہ قل لعبادی یقیموا الصلوٰۃ فی ابراھیم فتذکرہ من جلا بیبھن للتبعیض فان المرۃ ترخی بعض جلبا بھا والبعض علی راسھا ثم لایج اور ونک عطف علیٰ نغرینک و ثم للدلاتہ علی ان الجلاء اشد علیھم من سائر المصائب۔ الاقلیلا زمانا اوجوار اقلیلا، ملعونین نصب علی او الحال والاستثناء یتنا ولہ لایجاورون الاملعونین۔ تفسیر : پیغمبر ( علیہ السلام) اور مومنین کی ایذاء کی برائی کے بعد ایذاء کے بعض اسباب دور کرنے کی تدبیر بتلاتا ہے۔ فقال یا ایہا النبی قل لازواجک وبناتک ونساء المؤمنین الخ ابن سعد نے طبقات میں ابی مالک سے روایت کیا ہے کہ حضرت ﷺ کی بیویاں حاجت ضروری کے لیے باہر جایا کرتی تھیں۔ (جب تک گھروں میں پاخانے نہ بنے تھے) اور منافق لوگ رستہ میں ان پر آوازے کستے تھے، یعنی چھیڑ چھاڑ کرتے تھے، اس کی بیویوں نے شکایت کی تو ان لوگوں سے کہا گیا کہنے لگے کہ ہم تو لونڈیوں کو چھیڑا کرتے ہیں۔ تب یہ آیت نازل ہوئی، پردہ کے بعد بھی حاجت ضروریہ و شرعیہ کے لیے پردہ کے ساتھ عورتوں کو باہر نکلنے کی اجازت تھی۔ جیسا کہ بخاری کی اس حدیث سے سمجھا جاتا ہے کہ جس میں شب کو سودہ ؓ کے باہر جانے اور عمر ؓ کے باہر جانے کا ذکر ہے۔ پائخانے کو بھی جاتی تھیں، شب کے وقت نماز میں بھی شریک ہوتی تھیں، رستہ میں منافق چھیڑا کرتے تھے۔ یہ بھی بڑی ایذاء تھی۔ اس آیت میں حکم دیا گیا کہ نبی کی بیویاں اور بیٹیاں اور مسلمانوں کی عورتیں جو بضرورت باہر نکلیں تو چادر میں چھپ کر نکلیں، تاکہ معلوم ہوجاوے کہ لونڈیاں نہیں بیویاں ہیں، کیونکہ لونڈیوں کا لباس اور ہوتا ہے، وہ کپڑا اس طرح سے اوڑھ کر نہیں نکلتی ہیں۔ اس لیے حضرت عمر ؓ نے ایک بار کسی لونڈی کو چادرے میں لپٹے ہوئے جاتے دیکھ کر فرمایا کہ کمبخت بیویوں کے مشابہ ہوا چاہتی ہے، اس کپڑے کو اتار۔ پھر بیوی سمجھ کر کوئی نہیں چھیڑتا تھا۔ جلابیب جمع جلباب بڑا کپڑا اوڑھنا وغیرہ کہ جس سے تمام بدن سر سے پائوں تک ڈھک جاوے۔ وکان اللہ غفوراً رحیما اور جو پردہ کے بارے میں کچھ قصور ہوجاوے بشریت سے تو اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ منافقوں کی ایک اور بھی ایذا رسانی تھی، وہ یہ کہ مدینہ میں طرح طرح کی خوفناک خبریں اڑا کر لوگوں کو پریشان کیا کرتے تھے کہ فلاں بادشاہ چڑھ کر آتا ہے وہ آکر یوں قتل عام کرے گا۔ فلاں قوم آتی ہے، ان سب کی نسبت فرماتا ہے۔ لئن لم ینتہ المنافقون والذین فی قلوبہم مرض والمرجفون فی المدینۃ کہ اگر یہ منافق اور وہ لوگ کہ جن کے دل میں مرض ہے، شک و شبہ یا مرض زناکاری ہے اور وہ جو افواہیں اڑایا کرتے ہیں، باز نہ آویں گے تو لنغرینک بہم تو اے نبی ! تجھ کو ہم ان پر ابھاریں گے اور مسلط کریں گے۔ ثم لایج اور ونک فیہا الا قلیلا کہ پھر وہ تیرے پاس مدینہ میں بہت ہی کم رہنے پاویں گے۔ ملعونین اینما ثقفوا اخذوا وقتلوا تقتیلا اور مدینہ سے باہر نکل کر بھی خوش حال نہ رہیں گے، بلکہ ذلیل و خوار ہو کر جہاں کہیں پاویں پکڑے جاویں اور قتل کئے جاویں۔ یہ جملہ بطور تہدید کے ہے کہ اگر منافق اس بات سے باز نہ آویں گے تو جہاں پائے جاویں گے قتل کئے جاویں گے۔ والذین فی قلوبہم اور اس کے بعد جو جملے بطور عطف کے آئے ہیں، ان سے منافق ہی مراد ہیں۔ واؤ زائد ہے۔ جیسا کہ اس شعر میں ؎ الی الملک القرم و ابن الہمام ولیث الکتیبۃ فی المزوحم بعض کہتے ہیں کہ منافق کئی قسم کے مدینہ میں تھے۔ بعض وہ تھے کہ جن کے دل میں مرض تھا۔ زنا کاری کا وہ اسی لیے رستہ میں آتے جاتے عورتوں کو چھیڑا کرتے تھے اور بعض غلط افواہیں اڑایا کرتے تھے۔ الارجاف من الرجفۃ وھی الزلزلۃ سمی الاخبار الکاذب لکو نہ متزلزلاً غیر ثابت۔ بیضاوی۔
Top