Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 54
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ۚ فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا
اَمْ : یا يَحْسُدُوْنَ : وہ حسد کرتے ہیں النَّاسَ : لوگ عَلٰي : پر مَآ اٰتٰىھُمُ : جو انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل فَقَدْ اٰتَيْنَآ : سو ہم نے دیا اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : آل ابراہیم الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَاٰتَيْنٰھُمْ : اور انہیں دیا مُّلْكًا : ملک عَظِيْمًا : بڑا
کیا لوگوں پر اس بات سے جلے مرتے ہیں کہ خدا نے ان کو اپنے فضل سے نعمت دی ہے۔ سو بیشک ہم ابراہیم کے خاندان کو کتاب اور حکمت اور نیز ان کو بڑا ملک عنایت کرچکے ہیں۔
خود ستائی اور حسد و بخل کی برائی : (1) انظر کیف یفترون الخ کہ وہ ایسے ایسے دعوے کرکے خدا پر جھوٹے ڈھکوسلے بناتے ہیں کہ ہم اس کے فرزند اور محبوب ہیں۔ ہم پر آتش دوزخ حرام ہے اور جھوٹ باندھنا بجائے خود اثم مبین ہے (2) باوجود علم کتاب اور روشنی شریعت کے جو ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی طرح کسی قدر ان میں باقی تھی۔ جبت بت اور طاغوت یعنی شیطان پر ایمان لاتے ہیں یعنی ان کے ماننے والوں کو خدا پرستوں پر ترجیح اور فوقیت دیتے ہیں۔ چناچہ یہود مدینہ میں سے حی ابن اخطب اور کعب بن اشرف مکہ میں اس لئے گئے کہ قریش کو آنحضرت ﷺ سے لڑنے پر آمادہ کریں اور جب مشرکین نے پوچھا کہ آیا ہم حق پر ہیں یا اہل اسلام جو صرف ایک اللہ کی عبادت جائز ٹھہراتے ہیں ؟ تو کہہ دیا کہ تم حق پر ہو۔ سو یہ بات اس لئے تھی کہ خدا نے ان پر کفر کی وجہ سے لعنت کردی ہے۔ وہ قریش کی مدد پر بھروسہ نہ کریں ‘ دشمنان خدا کا کوئی حامی نہیں ہوسکتا۔ یہ عیوب تو ان میں جہل سے متعلق جو قوت عملیہ کا نقصان ہے اس کے بعد قوت عملیہ کا نقصان بیان کرتا ہے اور قوت عملیہ کا سب سے زیادہ نقصان بخل اور حسد سے ہوتا ہے۔ یہ دونوں وصف بھی ان میں تھے۔ (1) ام لہم نصیب من الملک کیا ان کو ان کی آرزو کے موافق سلطنت تو کیا اس کا کوئی حصہ بھی باوجود بخل کے کہ جو منافی 1 ؎ سلطنت ہے مل سکتا ہے ؟ 1 ؎ کس لئے کہ سلطنت کے لئے فوج اور کار پرداز ضرور ہیں اور جب انسان بخل کرتا ہے تو مفت کوئی کسی کی غلامی نہیں کرتا نہ یہ ننگ سر پر دھرتا ہے۔ پھر اور بخل کی حالت کہ اگر سلطنت مل جاوے تو کسی کو نقیر 2 ؎ یعنی ذرہ بھی نہ دیں۔ (2) ام یحسدون الناس آنحضرت ﷺ کی شوکت روز افزوں اور نبوت اور روشنی دین پر حسد کرتے تھے کہ یہ تو ہمارا حصہ تھا۔ ان کو کیوں ملا۔ اس پر تسلی دیتا ہے کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان میں دائود و سلیمان ( علیہ السلام) کو سلطنت اور نبوت دی تھی۔ اب تم ابراہیم (علیہ السلام) کے دوسرے خاندان پر کیوں حسد کرتے ہو۔ جب یہ ہے تو کون سر کٹوائے۔ پھر کس طرح سے ملک ہاتھ آئے۔ ان اخلاق رذیلہ پر یہود زمانہ گذشتہ کے اقبال کو جو دائود و سلیمان ( علیہ السلام) کے عہد میں تھا ٗ آرزو کرتے تھے۔ سو یہ خیال محال تھا۔ 12 منہ 2 ؎ نقیر فقر سے مشق ہے جس کے معنی کہودنا ہے اس سے مراد خرمہ کا چہلکا اور یہ ضرب المثل عام ہے مراد قلت ہے اور اسی طرح اور قطمیر سے قلیل مراد ہے۔ ؎ الحیت اصلہا جلسن فا بدلت التاء من السین قالہ قطرب وھہو الذی لاخیر فیہ فاختلف فی مصداقہ فقیل السحر وقیل کعب بن الاشرف الیہو وی وقیل الشیطان وقیل ضم لقریش سجدلہ الیہود لما دخلت کمۃ لمرضاۃ قریش والطاغوت من طغی یطغی ای تجاوز والحد والتاء زائدۃ کما فی الرا موت والناسوت والم المراد الشیطان وکاہن جاوز الحق 12 منہ
Top