Tafseer-e-Haqqani - Az-Zukhruf : 41
فَاِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَۙ
فَاِمَّا : پھر اگر نَذْهَبَنَّ : ہم لے جائیں بِكَ : تجھ کو فَاِنَّا : تو بیشک ہم مِنْهُمْ : ان سے مُّنْتَقِمُوْنَ : انتقام لینے والے ہیں
پھر اگر ہم آپ کو لے بھی جائیں (دنیا سے) تو بھی ہم ان سے ضرور بدلہ لیں گے
تفسیر : اس سے پہلے فرمایا تھا کہ ایسے بہرے اندھے کو جو ضلال مبین میں گرفتار ہو تو ہدایت نہیں دے سکتا۔ ایسی حالت میں ان ازلی گمراہوں کو اور بھی جرأت ہونا اور نبی کی تکذیب و ایذا پر کمر باندھ کر اس کہنے کا موقع ملنا (کہ تجھ سے ہماری ہدایت ممکن نہیں اور ہم ایسے بدراہ ہیں تو تیرا خدا اپنے وعدہ کے موافق ہمیں کچھ سزا دیوے تاکہ تیری سچائی معلوم ہو کہ تو اس کا بھیجا ہوا ہے) قرین قیاس ہے۔ ان کی اس شوخ چشمی کا جواب دیتا ہے فامانذھبن بک فانامنہم منقمون الخ کہ اگر تجھے اے محمد ﷺ ہم دنیا سے لے جاویں کیونکہ تو اپنا کام جو تھا سو کرچکا اور یہ ایک روز ہونا ہے تو یہ نہیں کہ پھر ہم ان سے بدلہ نہ لیں یا تیری زندگی ہی میں تجھے بھی آنکھ سے وہ عذاب جس کا ان سے وعدہ ہوا ہے دکھاویں تو ہم اس پر بھی قادر ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اہل مکہ کو اپنی نسبت فی ضلال مبین اور اندھا بہرا سننا سخت ناگوار گزرا اور قصد کیا کہ ان کو مار ڈالیں یا شہر سے نکال دیں اس کے ساتھ اس کے وہ وعدے بھی تمام ہوجاویں گے کہ جن سے ہم کو دھمکیاں دیا کرتا ہے۔ اس بات کا بیان کئی ایک جگہ قرآن مجید میں بھی آیا ہے از انجملہ یہ ہے 1 ؎ اویقتلوک اویخرجوک کہ تیرے مارنے یا نکال دینے کا قصد کرتے ہیں اور بدبخت لوگ جو مرتبہ ضلال مبین میں ہوتے ہیں باغوائی بئس القرین ایسا ہی کیا کرتے ہیں اپنے خیر خواہ ہوں کے ساتھ ان کی اس بات کا اس آیت میں جواب دیتا ہے کہ اگر انہوں نے ایسا ہی کیا کہ تجھے مار ڈالا یا نکال دیا فامانذھبن بک ان دونوں باتوں کو شامل ہے دنیا سے لے جانا یا مکہ سے باہر لے جانا۔ تو اس سے کیا ہوتا ہے ہم ہر حال میں قادر ہیں کہ تیرے جانے کے بعد بھی ان کو عذاب دکھا سکتے ہیں اور تیرے روبرو بھی اور ایسا ہی ہوا بھی مکہ میں جب آپ تھے ان پر سات برس کا قحط پڑا۔ سب شرارت نکل گئی اور مکہ چھوڑنے کے بعد بھی جنگ بدر وغیرہ معرکوں میں ان پر وہ مصیبتیں آئیں پس اے محمد ﷺ ! آپ ان کی دھمکی کی کچھ پروا نہ کریں فاستمسک بالذی اوحی الیک آپ اس پر خوب مضبوط رہیں جو تیری طرف توحید و مکارم اخلاق و عبادت کی بابت وحی کیا گیا ہے۔ اور وہ جو تیرے رستہ کو برا اور الٹا تجھے گمراہ کہتے ہیں کہنے دو انک علی صراط مستقیم بیشک آپ سیدھے رستہ پر ہیں۔ وانہ اور یہ قرآن لذکرلک ولقومک تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے ایک پند سود مند ہے اور خدا کو اور دارآخرت کو یاد دلانے والی اور سمجھانے والی چیز ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ذکر سے مراد شرف ہے کہ قران تیرا اور تیری قوم کا شرف اور پچھلی نسلوں کے لیے یادگار ہے۔ بیشک قرآن ہی کی وجہ سے قریش کا شرف دنیا میں مانا گیا اور یہی لوگ نبی کی خاص الخواص قوم بن کر خلافت اور جانشینی کے قابل قرار دیے گئے۔ وسوف تسئلون مگر عنقریب تم سے سوال ہوگا پوچھا جاوے گا کہ تم نے اس پر کیسا عمل کیا اس امانت کی رعایت کیسی کی ؟ مشرکین مکہ کی بہت سے گمراہیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ کہتے تھے بت پرستی سے منع کرنا نیا کام ہے جو محمد ﷺ نے ایجاد کیا پہلے کسی نبی نے نہیں کیا۔ یہ اس لیے کہتے تھے کہ یہود و نصاریٰ میں بھی اس وقت نئی قسم کی بت پرستی مروج تھی ان کی تسلی فرماتا ہے واسئل الخ کہ پہلے رسولوں سے یعنی ان کے علماء سے تو پوچھو کہ کیا ہم نے اپنے سوا اور معبود بھی پوجنے کے لیے مقرر کردیے ہیں ؟ ان کے علماء کبھی نہیں کہیں گے کہ خدا نے متعدد معبودوں کے پوجنے کی اجازت دی ہے گو ان کے عوام شرک میں مبتلا ہوں۔
Top