Tafseer-e-Haqqani - Al-Maaida : 43
وَ كَیْفَ یُحَكِّمُوْنَكَ وَ عِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ فِیْهَا حُكْمُ اللّٰهِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓئِكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے يُحَكِّمُوْنَكَ : وہ آپ کو منصف بنائیں گے وَعِنْدَهُمُ : جبکہ ان کے پاس التَّوْرٰىةُ : توریت فِيْهَا : اس میں حُكْمُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم ثُمَّ : پھر يَتَوَلَّوْنَ : پھرجاتے ہیں مِنْۢ بَعْدِ : بعد ذٰلِكَ : اس وَمَآ : اور نہیں اُولٰٓئِكَ : وہ لوگ بِالْمُؤْمِنِيْنَ : ماننے والے
اور (اے نبی ! ) وہ آپ کو کس طرح ثالث بناتے حالانکہ ان کے پاس اس تو خود تورات ہے کہ جس میں اللہ کا حکم ہے پھر وہ اس کے بعد بھی پھرجاتے ہیں اور (سرے سے) وہ ایماندار ہی نہیں۔
ترکیب : کیف ضمیر یحکمونک فاعل سے حال ہے وعندھم خبر التوراتہ مبتداء جملہ موضع حال میں ہے فیہا ھدی ونور جملہ حال ہے التوراتہ سے اسی طرح یحکم الخ للذین ھادوا کالام یحکم سے متعلق ہے والربانیون اور الاحبار معطوف ہیں النبیون پر بما اے بسبب الذین استحفظوہ ای استود عوہ اعنی استحفظہم اللہ ایاہ من کتاب حال ہے ما سے۔ تفسیر : اس جگہ خدا تعالیٰ نبی (علیہ السلام) سے یہود کے آنحضرت ﷺ کے پاس جھگڑا لانے اور فیصلہ پر راضی ہونے پر تعجب ظاہر فرماتا ہے کہ یہ لوگ باوجودیکہ توریت کے معتقد ہیں اور اس میں احکامِ الٰہی ہیں اور اس کو خاص اللہ نے نازل کیا تھا جس پر انبیاء اور مشائخ و علماء چلتے تھے مگر اس کے حکم سے اعراض کرکے اے نبی ! آپ کو حکم بنانا کہ جس کے منکر ہیں ٗ کمال تعجب کی بات ہے یعنی ان کے قلوب ایسے خراب ہوگئے ہیں کہ جس کتاب کو برحق سمجھتے ہیں اس کے احکام پر نہ چلنے کے لئے اس کو چھوڑ کر مخالف کے پاس جاتے ہیں۔ پس جن کی اپنی کتاب توریت کی نسبت یہ حالت ہو تو اس قوم کا نبی عربی کے مقابلہ میں حق سے چشم پوشی کرنے میں کیا کچھ حال نہ ہوگا ؟ وما اولئک بالمؤمنین میں اسی طرف اشارہ ہے کہ دراصل ان کا توریت پر ایمان ہی نہیں۔ اس کے بعد توریت کی مدح فرماتا ہے کہ جس کے وہ دراصل منکر ہیں۔ (1) انا انزلنا التوراتہ کہ توریت کو ہم نے نازل کیا ہے۔ وہ کسی شخص کی تصنیف کردہ کتاب نہیں بلکہ منزل من اللہ ہے۔ جو خاص حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی۔ جیسا کہ ایک جگہ فرماتا ہے 1 ؎ ولقد اتینا موسیٰ الکتاب ای التورتہ اور بہت جگہ ایسا ہی آیا ہے (2) فیہا ھدی ونور ہدی سے مراد احکام و شرائع اور نور سے مراد توحید و تنزیہ باری تعالیٰ اور نبوت اور معاد کا بیان (3) یحکم بہا النبیون کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک جس قدر انبیاء آئے ہیں احکام و شرائع میں سب کے سب توریت پر چلتے تھے۔ ان کے لئے کوئی جداگانہ شریعت نہ دی گئی تھی۔ گویا وہ سب دین موسوی کے مجدد تھے۔ پھر انبیاء کی صفت میں الذین اسلموا کا جملہ لانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ تمہاری طرح منحرف نہ تھے بلکہ مطیع تھے اور یہ بھی کہ وہ یہود و نصاریٰ نہ تھے بلکہ مسلمان۔ جس سے یہ بات پیدا ہوئی کہ تمام انبیاء بجز چند احکام کے سب متفق اور ملقب بہ اسلام تھے۔ للذین ھادوا کالام یحکم سے متعلق مانا جاوے گا تو یہ معنی ہوں گے کہ انبیاء احکام توریت پر چلنے کا یہود کو حکم دیتے تھے۔ احبار حبر بالکسر کی جمع ہے ( فرائ) ابو عبیدہ کہتے ہیں حبر بفتح الحاء ہے اور یہ تحبیر بمعنی تحسین سے مشتق ہے۔ چونکہ علم بڑی زینت ہے اس لئے یہود میں حبر کہتے تھے ربانی لوگ بمنزلہ مجتہدین کے ہوتے تھے اور احبار بمنزلہ عام علماء کے یا ربانیین درویش احبار علمائ۔ بما استحفظوا من کتاب اللّٰہ یہ احبار کا صلہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کا ہے کے عالم تھے یعنی اس چیز کے جو کتاب اللہ یعنی توریت میں سے حافظ کئے گئے تھے یا یحکم سے متعلق کیا جاوے کہ جو کچھ ان کو توریت میں سے یاد کرایا گیا تھا اس کا حکم دیتے تھے (کبیر) یعنی نہ صرف انبیاء ہی توریت پر یہود کو چلنے کا حکم دیتے آئے ہیں بلکہ ان کے بعد مشائخ اور علماء بھی اسی پر چلاتے تھے۔ بعد میں جو یہود نے توریت میں تحریف کرنی شروع کی تھی۔ غالباً اس کے دو سبب تھے : ایک خوف حکام کہ اگر ان کے برخلاف یہ احکام بیان کریں گے تو ہم کو ایذا دیں گے۔ اس کے وہ جواب فرماتا ہے فلا تخشوا الناس واخشون کہ لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ خاص مجھ سے کیونکہ نافع و ضار میں ہوں۔ دوسرا سبب طمع تھا کہ لوگوں کی خواہش کے موافق کم زیادہ کرکے حکم دیتے تھے تاکہ لوگ ان کو کچھ دیا کریں۔ اس کے جواب میں فرماتا ہے ولا تشتروا بآیاتی ثمنا قلیلا کہ دنیا چند روزہ اور بہت بےحقیقت ہے۔ اس کے لئے میری امانت میں خیانت نہ کرو۔ اس کے بعد بطور تہدید کے فرماتا ہے ومن لم یحکم الخ کہ جو بدبخت خدا کی نازل کی ہوئی کتاب پر حکم نہ دے وہ کافر ہے۔ عکرمہ کہتے ہیں خلاف ما انزل اللہ حکم کرنے سے جو کافر ہوتا ہے تو اس صورت میں کہ دل سے بھی اس کا منکر ہو ورنہ دل میں حق جاننے اور زبان سے حق کہنے پر جو کوئی خلاف کتاب اللہ کسی دنیاوی غرض سے فیصلہ کرے گا کافر نہ ہوگا بلکہ فاسق۔ یہاں سے وہ انگریزی نوکریاں جن میں خلاف قرآن حکم دیا جاتا ہے ممنوع و حرام سمجھی گئیں بلکہ جو قرآن کے مقابلہ میں ایکٹ کو دل سے پسند کرکے حکم دے گا تو بموجب آیت مذکورہ کافر ہوجاوے گا۔ 1 ؎ یہاں سے صاف ثابت ہوا کہ جو کتاب موسیٰ کے بعد توریت کے نام سے تصنیف کی گئی وہ ہرگز توریت نہیں اور یہ مجموعہ آج کل اہل کتاب کے ہاں توریت کہلاتا ہے قطعاً موسیٰ کے بعد تصنیف ہوا سو یہ بھی قطعاً وہ توریت نہیں کرسکے کہ جس کے اوصاف قرآن میں مذکور ہیں جن کو پادری مغالطہ دینے کے لیے اس پر منطبق کرکے مسلمانوں کو اس کے تسلیم پر مجبور کیا کرتے ہیں۔ توریت کے گم ہونے پر بحث : لارڈ ولیم میور نے اپنی کتاب شہادت قرآنی میں اس آیت کے جملہ وعندھم التوراتہ اور اسی قسم کی دیگر آیات سے جو توریت کی مدح میں وارد ہیں یا توریت پر عمل نہ کرنے سے اہل کتاب پر الزام ہے۔ یہ بات ثابت کی ہے کہ آج کل جو اہل کتاب کے پاس توریت ہے وہی اصلی توریت بلا تغیر موجود ہے اور نیز ان کے ایک قدیم مرید نے جو در پردہ ان ہی کے حامی مذہب ہیں۔ صحیح بخاری اور فوز الکبیر سے یحرفون کی تفسیر میں تحریف معنوی مراد لینا نقل کرکے اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ یہ توریت بلا تحریف وہی اصلی توریت ہے اور نیز اس کی سند میں بعض اقوال بےتک بھی نقل کرکے اس توریت کے ایک جملہ کے منکر کو بھی خواہ وہ مخالف قرآن ہی کیوں نہ ہو کافر بتلایا ہے مگر یہ سب دھوکا ہے۔ اولاً تو یوں کہ التوراتہ سے مراد مجازاً یہ مجموعہ ہے کہ جس میں اصلی توریت کے بھی پیشتر مضامین موجود ہیں باعتبار تسمیۃ الکل باسم الجز کیونکہ مدعی بھی اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ اس مجموعہ پر لفظ توریت مجازاً اطلاق ہوا ہے کس لئے کہ اصلی توریت اینٹو کس و بخت نصر وغیرہ کے حوادث میں تلف ہوگئی۔ یہ مجموعہ تاریخ و مسائل بعد میں مشائخوں نے جمع کیا ہے۔ علاوہ اس کے توریت تو وہ ہے کہ جو خاص حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی اور مجموعہ میں سینکڑوں مضامین وہ ہیں کہ جو بعد موت موسیٰ (علیہ السلام) درج کئے گئے۔ چناچہ کتاب استثناء کا اخیر باب جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی موت اور قبر کے مفقود ہونے کا حال درج ہے اور جو شیئیں مرکب ہو ایک سے اور اس کے غیر سے وہ نہیں رہتی۔ سکنجبین جو شہد وسر کہ سے مرکب ہے نہ وہ سرکہ کہلاتی ہے نہ شہد الا مجازاً پس مجازاً توریت کہنے سے اس مجموعہ کا اصل ہونا کیونکر لازم آگیا۔ ثانیاً یوں کہ اگر ہم اس بات کو تسلیم بھی کرلیں کہ آنحضرت ﷺ کے عہد تک وہی اصلی توریت یہود عرب کے پاس موجود تھی اور وہ اس میں تحریراً تحریف نہیں کیا کرتے تھے بلکہ صرف بیان کرتے وقت الٹ پلٹ کردیتے تھے۔ بنابرتحریف معنوی اور پھر اس توریت کی پیغمبر ﷺ نے نہایت مدح و عزت بھی کی تھی جیسا کہ مدعی ثابت کرتا ہے اور اس سے بھی ہم قطع نظر کرلیں کہ آنحضرت ﷺ عمر ؓ پر توریت کے اوراق پڑھنے سے نہایت پر غضب ہوئے تھے جیسا کہ دارمی نے بسند صحیح نقل کیا ہے اور اس سے بھی کہ آنحضرت ﷺ نے (لاتصدقوا اہل الکتاب) فرمایا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں موجود ہے تب بھی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ جو آج کل یہود و نصاریٰ کے پاس مجموعہ صحیح و غلط روایات ہے کہ جس کو وہ توریت کہتے ہیں وہی اصلی توریت ہو۔ اگر اصلی ہوگا تو آنحضرت ﷺ کے عہد تک یہود عرب کے پاس ہوگا نہ کہ یہ جو قطعاًـ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تصنیف ہوا جس کا مخالف بھی انکار نہیں کرسکتا اور یہی مذہب جمہور علمائِ اسلام کا ہے اور اس بات پر تمام فرقہ اسلامیہ متفق ہیں کہ توریت وہی تھی جو موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی نہ کہ وہ جو بعد میں بنائی گئی۔ واللہ اعلم۔ گرچہ آپ کو مقدمہ تفسیر سے یہ بات بخوبی معلوم ہوگئی ہوگی کہ یہ جو آج کل یہود و نصاریٰ کے پاس توریت ہے یہ ایک مجموعہ ہے صحیح اور غیر صحیح مرویات کا نہ کہ وہ توریت جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی لیکن اس مقام پر اور بھی اس امر کا تحقیق کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ واضح ہو کہ جب اس توریت کو دیکھا جاتا ہے تو بیشمار مقدمات سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی موت کے بعد اس کو ترتیب دیا ہے۔ منجملہ ان کے کتاب استثناء کے 34 باب کی یہ عبارت ہے۔ ” سو موسیٰ خداوند کا بندہ خداوند کے حکم کے موافق مواب کی سزا میں مرگیا اور اسے اسی مواب کے ایک وادی میں بیت مغفور کے مقابل گاڑا۔ پر آج تک کوئی اس قبر کو نہیں جانتا اور موسیٰ اپنے مرنے کے وقت ایک سو بیس برس کا تھا کہ نہ اس کی آنکھیں دھندلائیں اور نہ اس کی تازگی جاتی رہی۔ سو بنی اسرائیل موسیٰ کے لئے مواب کے میدانوں میں تیس دن تک رویا کئے اور ان کے رونے پیٹنے کے دن موسیٰ کے لئے آخر ہوئے اور نون کا بیٹا یشوع دانائی کی روح سے معمور ہوا کیونکہ موسیٰ نے اپنے ہاتھ اس پر رکھے تھے اور بنی اسرائیل اس کے شنوا ہوئے اور جیسا خداوند نے موسیٰ کو فرمایا تھا انہوں نے ویسا کیا۔ اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ کی مانند کوئی نبی نہیں اٹھا جس سے خداوند آمنے سامنے آشنائی کرتا۔ ان سب نشانیوں اور عجائب اور غرائب کی بابت جن کے کرنے کے لئے فرعون اور ان کے سب خادموں اور اس کی ساری سرزمین کے سامنے خداوند نے مصر کی سرزمین میں بھیجا تھا اور اس قویٰ ہاتھ اور بڑے ہیبت کے سب کاموں کی بابت جو موسیٰ نے تمام بنی اسرائیل کے آگے کر دکھائے “۔ اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ عبارت جس پر توریت کا خاتمہ ہوگیا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو کیا ان کے کسی معاصر کے ہاتھ کی بھی لکھی ہوئی ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ بہت عرصہ کے بعد جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر کا نشان بھی مٹ گیا جو بنی اسرائیل میں قرنوں اور صدیوں زیارت گاہ خاص و عام رہ چکی ہوگی اور لطف یہ ہے کہ اس تمام توریت میں کسی جگہ بھی نہیں پایا جاتا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) لکھ رہے ہیں بلکہ یہ کوئی دوسرا مؤرخ ان کا حال تحریر کر رہا ہے اور جیسی یہ عبارت ہے اسی قسم کے اور صدہا مقامات ہیں کہ جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد صدہا سال والے شخص کے لکھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ اس بات کا خود اہل کتاب کو بھی اقرار ہے کہ یہ مقامات توریت میں کسی اور شخص نے بعد میں لکھے ہیں اور بلا سند حضرت عزیر (علیہ السلام) کا نام بتاتے ہیں۔ فرض کرلو کہ یہ عبارتیں حضرت عزیر (علیہ السلام) نے بعد میں زیادہ کردیں مگر جبکہ حضرت عزیر (علیہ السلام) نبی تھے۔ غلط باتیں کیونکر لکھتے پھر وہ جو سینکڑوں مقامات غلط فاحش ہیں کہ جن کے غلط ہونے کا اہل کتاب کے مفسرین کو بھی اقرار ہے جیسا کہ عدن سے جیحون و سیحون کا نکلنا اور خدا سے یعقوب کا کشتی لڑنا اور آدم کو پیدا کرکے پچھتانا اور اس سے خائف ہونا حضرت لوط (علیہ السلام) کا شراب پی کر اپنی دونوں بیٹیوں سے زنا کرنا۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا بنی اسرائیل سے بچھڑا پجوانا یا تاریخی واقعات میں غلطیاں ہیں) وہ تو کسی طرح کلام الٰہی نہیں ہوسکتے۔ غیر لوگوں کے کلام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر منزل توریت ہوسکتے ہیں۔ پس جب اس آج کل کی توریت میں غلط باتیں بھی ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ اور اشخاص کے کلام بھی مندرج ہیں تو یہ مجموعہ جو مرکب ہے کلام اصلی اور غیر اصلی سے ہرگز وہ اصلی توریت نہیں۔ اگر کوئی شخص کچھ مضامین قرآن کے اور کچھ اور باتیں دیگر لوگوں کی لے کر کوئی کتاب مرکب کرے تو یہ مجموعہ ہرگز قرآن نہ شمار ہوگا۔ پس اسلامی عقیدہ کے بموجب یہ مجموعہ ہرگز توریت نہیں۔ کمالایخفی۔ (2) اصل حال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد کے اندر اندر جانے کس وقت فلسطینیوں اور مصر کے بادشاہوں کی غارت گری میں جو کئی بار بنی اسرائیل پر واقع ہوئی توریت مفقود ہوگئی کیونکہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس صندوق کو کھولا کہ جس میں توریت دھری تھی (جیسا کہ کتاب استثناء کے 32 باب 24 درس سے صندوق میں موسیٰ کا کتاب دھرنا پایا جاتا ہے) تو بجز پتھر کی دو لوحوں کے جو کوہ حورب سے موسیٰ لائے تھے اور کچھ نہ نکلا جیسا کہ اول کتاب السلاطین کے 8 باب 9 درس میں مذکور ہے۔ یہ واقعہ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تخمیناً ہزار برس پیشتر کا ہے۔ اس کے بعد بنی اسرائیل میں سلطنت کے دو ٹکڑے ہوگئے اور اسرائیلی بادشاہ اکثر بت پرست اور بدکار ہونے لگے کہ ہیکل کو بھی جلایا اور جو کچھ اس مقدس مقام میں تبرکات تھے سب کو لوٹ کھسوٹ کر برباد کردیا بلکہ خود ہیکل میں بت رکھ دیے۔ پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے تخمینا ً چار سو برس بعد بوسیاہ بن آمون کے عہد میں خلقیاہ کاہن نے کہیں ہیکل کے کسی کونے میں دبے ہوئے کئی سو برس کے بوسیدہ اوراق اٹھا کر یہ دعویٰ کیا کہ مجھ کو دبی ہوئی توریت دستیاب ہوگئی جس کو سن کر بوسیاہ بڑا رویا۔ پھر یہ مجموعہ بھی جس کو خلقیاہ نے مرتب کیا تھا اور جو بنی اسرائیل میں توریت سمجھا جانے لگا تھا بنو کد قیصر یعنی بخت نصر کی دوبارہ چڑھائی میں بالکل نیست و نابود ہوگیا۔ یہاں تک کہ جب بنی اسرائیل ستر (70) برس کی اسیری کے بعد شہر بابل سے شام میں آئے تو ان کے پاس توریت تو کیا کوئی مذہبی کتاب بھی نہ تھی بلکہ وہ تو سرے سے اپنی زبان قدیم کو بھی بھول گئے تھے اور کلدانی زبان بولتے تھے۔ اس کے بعد مشہور کرتے ہیں کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) نے پھر ازسرنو توریت کو مرتب کیا مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ ایک بےسند بات ہے بلکہ جس کو خود عزیر کی کتاب مجموعہ بائبل میں شمار کرتے ہیں۔ وہ بھی بقول محققین شمعون صادق کی تصنیف ہے جو حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تخمیناً تین سو برس پیشتر تھا۔ خیر یہ بھی سہی کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) نے پھر توریت کو مرتب کیا مگر آکس یعنی اینٹو کس سر یا کے بادشاہ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) سے ایک سواکہتر برس پیشتر ساڑھے تین برس تک اور شلیم اور ہیکل کو ایسا برباد و نیست و نابود کردیا کہ ہزاروں آدمیوں کو تہ تیغ کردیا اور شہر اور ہیکل کو جلا دیا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر تمام کتب دینیہ یہود کو جلایا۔ جیسا کہ مقابیس کی پہلی کتاب کے اول باب میں اس کا اقرار ہے اور یہ ظاہر ہے کہ بجز ہیکل کے توریت اور کہیں نہیں رہی تھی۔ سو وہ عزیر (علیہ السلام) کا مرتب کردہ نسخہ بھی معدوم ہوگیا۔ اس کے بعد یہوداہ مقابیس نے مسیح سے ایک سو پینسٹھ برس پیشتر ہیکل کی تعمیر کی اور سن سنا کر ایک مجموعہ احکام و قصص بھی مرتب کیا اور نام توریت رکھا۔ اس کا ایک نسخہ ہیکل میں رہتا تھا (مفتاح الکتاب صفحہ 135) اور یہی نسخہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے عہد تک باقی تھا اس کے بعد حضرت مسیح سے تخمیناً چالیس برس بعد روم کے بادشاہ طیطس نے اور شلیم پر چڑھائی کرکے تمام شہر کو نیست و نابود کردیا۔ ہیکل اور اس نسخہ کو جلا دیا۔ لاکھوں آدمیوں کو تہ تیغ کرکے اس نقلی توریت کو بھی صفحہ عالم سے نیست و نابود کردیا جس کا تمام یہود و نصاریٰ کو ملال رہا۔ بعض کہتے ہیں کہ طیطس اس کو روم میں لے گیا۔ اس کے 65 برس بعد آدرین قیصر شاہ روم نے جو بت پرست تھا ٗ یہودیوں کی سرکشی دیکھ کر اور بھی شہر اور ہیکل پر ہل چلوا دیے اور پیٹر بت کا مندر بنا دیا اور شلیم کا نام اپنے خاندان کی یادگار پر ایلیہ رکھ دیا۔ اس کے بعد اور بھی بربادیاں اہل کتاب پر سخت سخت آئیں مگر پھر امن پا کے ایک مجموعہ مرتب احکام و قصص کا مشائخِ یہود نے کیا اور اس کا نام تورات رکھا۔ اگرچہ پھر عمداً یا سہواً اس میں بھی صدہا غلطیاں اور تحریفات ہوئیں مگر آنحضرت ﷺ کے عہد میں یہود عرب کے پاس یہی نسخہ تھا۔ اب اگر بعض علمائِ اسلام کا یہ قول مان لیا جاوے کہ یہود مدینہ تحریف لفظی نہ کرتے تھے تو کیا اس سے یہ نسخہ موسیٰ کی اصل توریت ہوگیا ؟ مولوی رحمۃ اللہ صاحب اپنی کتاب اظہار الحق کے صفحہ 142 جلد اول میں فرماتے ہیں ” ان التورات الاصلی وکذا الانجیل الاصلی فقدا قبل بعثۃ محمد ﷺ والموجودان الآن بمنزلۃ کتابین من السیر مجموعین من الروایات الصحیحۃ والکاذبۃ “ اس کے بعد علمائِ اسلام کے اقوال اور احادیث اس بات کی تائید میں کئی صفحہ تک درج فرماتے ہیں۔ فمن شاء فلیرجع الیہ۔
Top