Tafseer-e-Haqqani - Ar-Rahmaan : 62
وَ مِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰنِۚ
وَمِنْ دُوْنِهِمَا : اور ان دونوں کے علاوہ جَنَّتٰنِ : دو باغ ہیں
اور ان دونوں باغوں کے سوا اور دو باغ ہوں گے
ترکیب : جنتان مبتداء ومن دونہما خبر مدھا متان صفۃ لجنتان اوخبر مبتداء محذوف عینان موصوف نضاختان صفۃ الموصوف والصفۃ مبتداء فیہما خبرہ وقس علیہ مابعدہ۔ حور بدل من خیرات وقیل الخبر مخذوف ای فیھن حور۔ حال وذوالحال محذوف دل علیہ الضمیر فی قبلھم۔ رفرف فی معنی الجمع وقیل رفرفۃ خضر صفۃ والاکرام بالجر عطفا علی الجلال وقرأ ابن عامر بالرفع صفۃ للاسم۔ تفسیر : یہ اہل سعادت کے مقامات کی اور زیادہ تشریح ہے کہ ان خدا ترسوں کے لیے دو اور باغ ملیں گے جن کے اوصاف بعد میں بیان فرماتا ہے۔ کیا یہ چاروں جنت ایک کے لیے ہوں گی ؟ جمہور کے نزدیک وہ دو جنت ایک گروہ اہل سعادت کے لیے ہوں گی اور یہ دونوں دوسرے گروہ اہل سعادت کے لیے۔ یہ پہلی بہتر ہیں یا یہ دونوں پچھلی ؟ حکیم ترمذی اپنی کتاب نوادرالاصول میں لکھتے ہیں۔ یہ دونوں جن کا ان آیات میں ذکر ہے ان دونوں سے جن کا پہلے ذکر ہوا بڑھ کر ہیں۔ دونہما کے معنی ہیں اقربھما وامامھما کے کہ یہ عرش کے ان سے زیادہ قریب تر ہیں یعنی ان سے بالاتر کے مقامات ہیں مگر اکثر مفسرین کا یہی قول ہے کہ یہ دونوں ان دونوں سے کمتر درجہ کی جنت ہیں۔ لفظ دون جس کے معنی کمی کے ہیں اس پر شہادت دے رہا ہے اور احادیث صحیحہ بھی اسی کی تائید کرتی ہیں۔ وہ پہلی دو جنت سابقین مقربین کے لیے ہیں اور یہ اصحاب الیمین کے لئے۔ بعض کہتے ہیں ان دونوں کا نام جنت عدن و جنت نعیم ہے اور ان کا جنت الفردوس و جنت الماویٰ ۔ اہل سعادت میں سے سابقین مقربین کا درجہ بڑھ کر ہے کیونکہ وہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) اور اولیائے کرام ہیں اور اصحاب الیمین ان سے درجہ میں کم ہیں کیونکہ اصحاب الیمین صلحائِ مومنین ہیں اس لیے ان کے لیے جو دو باغ ملیں گے بڑھ کر ہوں گے اصحاب الیمین کے دو باغ سے۔ اس لیے ابن کثیر (رح) نے اپنی تفسیر میں پہلی دو جنتوں کے جو اوصاف ہیں قرآن مجید کے الفاظ سے ان کا ان اوصاف سے جو ان دو جنتوں کے ہیں بڑھ کر ہونا ثابت کر کے دکھایا ہے۔ ایسی باتوں کو علم الٰہی کے حوالے کرنا میں پسند کرتا ہوں اس علم کی حقیقت وہی خوب جانتا ہے۔ مدھامتان مشتق ہے دھمۃ سے جس کے معنی لغت میں سیاہی کے ہیں۔ کہتے ہیں فرس ادھم وبعیر ادھم جب کہ ان پر سیاہی غالب آجائے ادھام ادھیماماً ۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس کے معنی ہیں سبز کے۔ محمد بن کعب۔ کہتے ہیں تیزسبزی، سبزی جب تیز ہوجاتی ہے تو سیاہی مارنے لگتی ہے اسی سبزی کو دھمۃ سے تعبیر کرتے ہیں یعنی پانی کی کثرت اور شادابی کے زیادہ ہوجانے سے ان دونوں باغوں کے درخت نہایت سبز مائل بہ سیاہی ہوں گے۔ نضاختان نضخ کے معنی ہیں چشمے سے پانی کا ابلنا ‘ فوارے کی طرح جوش مار کر نکلنا۔ اور نضح حاء مہملہ سے جو ہے تو اس کے معنی میں کمی ملحوظ ہے کیونکہ اس کے معنی ہیں ترشح اور چھڑکنے کے۔ یعنی ان دونوں باغوں میں ایسے دو چشمے ہوں گے کہ جن کا پانی فوارے کی طرح سے گرتا ہوگا۔ اس قسم سے پانی کا نکلنا بھی عجب فرحت خیز ہے۔ فیہما فاکہۃ و نخل و رمان ان میں میوے اور کھجور اور انار بھی ہوں گے۔ یہ چیزیں باغوں کو خصوصاً عرب کے قلوب میں نہایت زینت دیتی ہیں کس لیے کہ کھجور تو ان کی عام خوراک ہے اور اناربمنزلہ شراب کے ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے اس آیت سے یہ بات ثابت کی ہے کہ کھجور اور انار پر عرف عرب میں فاکہتہ کا اطلاق نہیں ہوتا کس لیے کہ ان کا فاکہہ پر عطف ہے اور معطوف علیہ معطوف کے غیر ہوتا ہے دونوں ایک ہی چیز نہیں ہوا کرتی۔ فیہن خیرات حسان۔ فیہن کی ضمیر انہیں دونوں باغوں کی طرف پھرتی ہے تغلیباً ۔ بعض کہتے ہیں ان دو کی خصوصیت نہیں اس میں پہلے دو باغ بھی شامل ہیں۔ مکانات کی خوبی اور ان کی تروتازگی کے بعد وہاں کی دلکش چیزوں کو بھی بیان فرماتا ہے کہ ان میں خیرات حسان ہیں خیرات کو جمہور نے بغیر تشدید کے پڑھا ہے تب یہ خَیْرَۃُ بوزن فعلۃ کی جمع ہے کہتے ہیں امرۃ خیرۃ یعنی اچھی عورت جیسا کہ اس کے مقابل میں کہتے ہیں امرۃ شرۃ بری عورت اور بعض نے خیرات بالتشدید پڑھا ہے تب یہ خَیَّرَۃُ کی جمع ہے۔ پہلی صورت میں اس کے معنی ہیں خوبصورتی کے دوسری میں عادت و اخلاق کی اچھائی کے اور بعض نے عام رکھا ہے مگر قوی یہی ہے کہ خیرات سے اخلاق و عادات کی خوبی مراد لی جائے اور حسان سے صورت کی۔ اور ممکن ہے کہ ایک لفظ دوسرے کی تائید کے لیے آیا ہو۔ حسان خوبصورت، یعنی ان دونوں باغوں میں خوبصورت اور حسین عورتیں ہوں گی۔ حور مقصورات فی الخیام، ان باغوں میں خیمے ہوں گے جن میں حوریں پردہ ستر میں ہوں گی۔ حسن کہتے ہیں وہ حورالعین جو قرآن میں مذکور ہیں وہ یہی دنیا کی نیک عورتیں ہوں گی جن کو حسن و خوبی دے کر وہاں حور بنا دیا جائے گا۔ جمہور کے نزدیک وہ ایک نئی قسم کی عورتیں ہیں جو خدا تعالیٰ نے جنت میں پیدا کی ہیں وہ دنیا کی عورتیں نہیں۔ اس پر جمہور کے پاس بہت سے شواہد نقلیہ موجود ہیں۔ پھر ان دونوں میں کس کا حسن زیادہ ہوگا ؟ بعض کہتے ہیں حوریں بڑھ کر ہوں گی بعض کہتے ہیں دنیا کی نیک بیویاں ستر درجے بڑھ کر حسن میں حور سے زیادہ ہوں گی اور حوریں ان کے آگے لونڈیوں کی طرح رہیں گی۔ واللہ اعلم ان باتوں میں بھی کسی کے پاس کوئی حجت قاطعہ نہیں۔ مکانات میں ان حسین عورتوں کا رہنا اور خیموں میں سیروتفریح کے لیے جانا انہیں کا جا کر رہنا وہاں حوروں کا موجود ہونا طبائعِ انسانیہ کے لیے نہایت مرغوب ہے۔ متکئین علی رفرف خضروعبقری حسان۔ رفرف سبز اور خوبصورت عبقری پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ رفرف رف برف اذا ارتفع سے مشتق ہے جس کے معنی بلند کے ہیں اور اسی لیے جو طائر ہوا میں پر کھول کر اڑتا ہے اس کو رفرفہ کہتے ہیں۔ آیت میں اس سے کیا مراد ہے ؟ ابوعبیدہ کہتے ہیں اس سے مراد بچھو نے۔ اور یہی قول ہے حسن و مقاتل و ضحاک وغیرہم کا بعض کہتے ہیں تکیے بعض کہتے ہیں جنت کے چمن۔ مگر صحیح اول قول ہے کہ وہ عمدہ ریشمی قالین سبزرنگ کے ہوں گے۔ عبقری عبقر کی طرف منسوب (عبقرزمین پریاں و عرب ہر چیزے ازمردم دستور وجامہ و فرش وخبر آں را کہ درغایت قوت و حسن ولطافت باشد بوے منسوب کنندیقال ثوب عبقری وھو واحدو جمع والانثیٰ عبقریہ) صراح۔ اس سے مراد بھی وہی گدے اور تکیے اور نہالچے ہیں جو نہایت عمدہ ہوں گے اس کے بعد کلام کو اپنی ذات کی خوبی و برکت پر تمام کرتا ہے تبارک اسم ربک ذی الجلال والاکرام کہ جس نے انسان کے لیے یہ نعمتیں پیدا کیں 1 ؎۔ ثوبان کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نماز سے فارغ ہو کر تین بار استغفار کرتے اور پھر یہ کہتے تھے۔ اللہم انت السلام و منک السلام تبارکت یاذوالجلال والاکرام۔ (رواہ مسلم) 1 ؎ اصل تبارک کی تبرک ہے جس کے معنی دوام و ثبات کے ہیں اور اسی سے ہے برک البعیر و برکۃ الماء کہ جہاں پانی ٹھہرتا ہے۔ یہ معنی ہوئے کہ اس کا نام سدا رہے گا اور سب خیروخوبی اسی کو ہے کس لیے کہ برکت کا استعمال خیر میں ہوتا ہے یا اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کی شان بلند اور وہ سب عیبوں سے پاک ہے۔ ازاں جملہ کذب ہے جس میں اشارہ ہے کہ یہ جو اس کے وعدے ہیں سب سچ ہیں بعد مرنے کے ہر کوئی دیکھ لے گا ترغیب کے لیے جھوٹی باتیں نہیں بنائی گئی ہیں جیسا کہ ملحد کہتے ہیں۔
Top