Tafseer-e-Haqqani - Al-Qalam : 17
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ١ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم نے بَلَوْنٰهُمْ : آزمائش میں ڈالا ہم نے ان کو كَمَا بَلَوْنَآ : جیسا کہ آزمایا ہم نے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : باغ والوں کو اِذْ اَقْسَمُوْا : جب انہوں نے قسم کھائی لَيَصْرِمُنَّهَا : البتہ ضرور کاٹ لیں گے اس کو مُصْبِحِيْنَ : صبح سویرے
ہم نے ان کی باغ والوں کی طرح آزمائش کی ہے جبکہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ ہم صبح کو اس کا میوہ توڑ ہی لیں گے
ترکیب : اذ تعلیلیۃ اوظرفیۃ بنوع تسمح لان الانقسام کان قبل ابتلائہم لیصرمنہا جواب القسم مصبحین حال من الفاعل فی یصرمنہا ولا یستثنون جملۃ مستانفہ لبیان ماوقع منھم وقیل حال فتنادوا معطوف علی اقسموا بینما اعتراض لبیان مانزل بتلک الجنۃ ان اغدوا ان مفسرۃ لان فی التنادی معنی القول او مصدریۃ ای اخرجواغدوۃً ان کنتم الخ جواب الشرط محذوف فاغدوا وھم یتخافتون الجملۃ حال من فاعل فانطلقوا ان لایدخلنہا ان مفسرۃ للتخافت المذکور لمافیہ من معنی القول علی حرد یتعلق بقادرین وقادرین حال وقیل خبر غدوا لا نھا حملت علی اصبحوا۔ تفسیر : اہل مکہ خصوص ولید وغیرہ ثروت و حشمت پر نازاں ہو کر کہتے تھے کہ ہم پر خدا کی نظر عنایت ہے جو دنیا میں ایسا دیا۔ وہ آخرت میں بھی اس سے بھی زیادہ دے گا۔ ایسے خیالات اکثر بےدین متمولوں کے دل میں گزرا کرتے ہیں اور دیندار مساکین کی دل شکنی اور شبہ کا باعث ہوتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ اس تمول و شوکت کی وجہ بیان فرماتا ہے۔ فقال انا بلونہم کہ ہم نے جو ان کو یہ فراخ دستی اور عیش و آرام دے رکھے ہیں یہ ان کی آزمائش ہے۔ بدکار، منافق، فاجر کافر، بت پرستوں کو دنیا میں نعمتیں دی جاتی ہیں، آزمائش کے لئے، ان پر پھولنا نہیں چاہیے۔ یہ اور بھی ان کی غفلت و گمراہی و سرکشی کا سبب ہوجاتا ہے۔ آخرت میں سوال ہوگا کہ کیا شکرگزاری کی تھی ؟ اور نیز یہ نعمتیں فانیہ ہیں۔ یہ اور بھی ان کے دلوں کو فنا کے بعد صدمہ کا باعث ہوتی ہیں۔ کمابلونا اصحاب الجنۃ جیسا کہ ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا۔ قصہ اصحاب الجنۃ : باغ والے کون تھے اور کب تھے ؟ اور ان کی کیا آزمائش تھی ؟ اور مکہ کے کفار کے روبرو ان کا ذکر کیوں کیا گیا، کیا وہ اس بات سے واقف تھے ؟ (1) باغ کی نسبت مورخین نے یہ لکھا ہے کہ ملک یمن میں شہر صنعاء سے دو کوس کے قریب ایک شخص کا باغ تھا جس کا مالک بڑا باخدا شخص تھا۔ آمدنی میں سے فقراء و مساکین کے حصے مقرر کر رکھے تھے۔ باغ کے میوئوں میں بھی حصے مقرر تھے اور اس کے اندر جو کھیتی ہوتی تھی اس میں سے بھی حصے تھے اور یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کا ذکر ہے۔ پھر جب وہ مرد باخدا مرگیا تو اس کے بیٹے اس کے وارث ہوئے۔ ان کی نیت میں فرق آگیا۔ کہنے لگے ہم عیال دار ہیں، اگر باپ کی طرح لٹائیں گے تو کیا ٹھیک لگے گا۔ یہ شیطانی وسواس ان کے دلوں میں گھس آئے اور تجویز ٹھہری کی بڑے تڑکے اٹھ کر پھل توڑ کر گھر میں لے آئو۔ فقراء کے آنے سے پہلے مگر ان میں ایک بھائی خدا ترس بھی تھا، اس نے منع کیا کہ ایسا نہ کرو۔ فقراء و مساکین کو للہ دینے سے برکت ہوتی ہے اور ان کی دعائوں کے لشکر نگہبانی کیا کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ اپنی مخلوق پر رحم کرنے سے مہربان ہوتا ہے۔ اپنے خدائے پاک کو نہ بھولو، اپنی تدبیر پر ناز نہ کرو۔ وہی تدابیر کو درست کرتا ہے، وہی بگاڑ دیتا ہے۔ آخر اس کی بات نہ مانی اور بڑے سویرے اٹھ کر چلے۔ ادھر خدا کی طرف سے رات ہی میں ان کی نیت بدلنے سے اس تیار باغ پر مصیبت آگئی۔ کوئی لو کا ایسا جھونکا چلا کہ جس نے جلا کر برباد کردیا۔ جب باغ کے قریب پہنچے تو جھلسا ہوا دیکھتے ہیں۔ پہلے سمجھے کہ یہ ہمارا باغ نہیں ہم راہ بھول کر کسی اور کے اس برباد باغ میں آ نکلے۔ ہمارا باغ تو شاداب وتروتازہ ہے یعنی اس کی ایسی حیثیت بگڑ گئی تھی کہ یکایک پہچان بھی نہ سکے مگر جب خوب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہمارا ہی باغ ہے۔ اس پر آسمانی مصیبت آ پڑی۔ پھر تو باہم کڑھنے اور ایک دوسرے کو برابھلا کہنے لگے اور ایک دوسرے کو کہنے لگا تو نے یہ صلاح دی تھی۔ وہ کہنے لگا تو نے ہی تو کہا تھا۔ اس مرد باخدا نے کہا کیوں جی میں نے نہیں کہا تھا کہ خدا کو اور اس کی تسبیح و تقدیس کو نہ بھولو۔ پھر کہنے لگے بیشک ہم خطاوار تھے اور ہمارے رب کی پاک ذات ہے۔ ہم اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اپنے کئے پر نادم ہوتے ہیں۔ امید ہے کہ ہمارا خدا اس سے بہتر دے۔ چناچہ اس کے بعد خدا نے اس باغ میں بڑی برکت دی۔ ابوخالد یمانی کہتے ہیں کہ میں نے وہ باغ دیکھا ہے جس میں ایک خوشہ انگور کا ایسا تھا کہ جیسا سیاہ 1 ؎ آدمی کھڑا ہو۔ (2) اور آزمائش ان کی یہ تھی کہ انہوں نے اس نعمت کا شکر نہ کیا۔ نیت میں فتور آیا اس لیے اس پر بلا آگئی اور جب توبہ کی، نادم ہوئے تو خدا نے پھر اس سے بہتر دیا اور کذلک العذاب کا فقرہ کہہ رہا ہے کہ جو کوئی خداوند تعالیٰ کی نعمت کا شکریہ ادا نہ کرے گا اور اس کو اس کے موقع پر صرف نہ کرے گا اس پر بلائے آسمانی کبھی نہ کبھی ضرور ٹوٹ پڑے گی۔ عمر اور جوانی اور تندرستی بھی ایک نعمت ہے۔ اس کو بیکار اور ناشائستہ افعال میں صرف کرنے والے آخر ایک روز مصیبت کا منہ دیکھتے ہیں۔ بیماری اور بےوقت پیری اور پست ہمتی وغیرہ کس قدر مصائب ان پر آپڑتی ہیں۔ کہیں آتشک میں سڑے پڑے ہیں، کہیں کثرت مے نوشی سے بدن میں رعشہ پڑگیا، دانت گر گئے۔ تیس برس کے اندر ہی اندر نکمے ہوگئے۔ گردن ہلنے لگی، بال پک گئے، چہرے کی تازگی جاتی رہی، ضعف معدہ ‘ درد گردہ ‘ سلسل البول ‘ دمہ، ضعف بصارت، کیا کیا آفات ہم اس وقت کے عیاش لوگوں میں دیکھتے ہیں۔ ابھی آخرت کا عذاب باقی ہے۔ مال اور ملک بھی ایک نعمت الٰہی ہے۔ اس میں عدل و انصاف ملحوظ نہ رکھنا ‘ غرباء فقراء کے ساتھ ہمدردی نہ کرنا ‘ بلکہ عیاشی اور فضول خرچی میں اڑانا ‘ حقداروں کو محروم کر کے رنڈیوں، بھانڈوں، مسخروں کو دینا بےبرکتی کا باعث ہوتا ہے۔ تھوڑے دنوں میں خزانہ خالی ‘ ملک میں ابتری، لشکر میں بےدلی اور ہر طرح کی بےامنی پیدا ہوجاتی ہے۔ موقع پا کر دشمن کھڑے ہوجاتے ہیں آخر ایک روز سب دولت و ملک چھوڑنا پڑتا ہے اور چہرہ پر برائیوں کا سیاہ داغ ابد تک باقی رہ جاتا ہے۔ دیکھو پچھلے عیاش بادشاہوں کو۔ (3) مکہ کے کفار اس قصے کو بخوبی جانتے تھے کس لیے کہ گرمی و سردی میں شام اور یمن جایا کرتے تھے اس کے سوا اس مضمون کو ان کے دل تسلیم کرتے تھے کہ خدا کی راہ میں دینا نیک پھل لاتا ہے اور سرکشی اور بخل برے نتائج دکھاتا ہے کیونکہ وہ دہریے نہ تھے جو خدا کو اور اس کی قدرتوں کو نہ مانتے ہوں وہ خدا تعالیٰ اور اس کی قدرتوں کو مانتے تھے مگر اپنے خیال فاسد میں اور لوگوں کو بھی ان امور میں شریک سمجھتے تھے کہ اس نے ان کو یہ اختیارات دے رکھے ہیں۔ ولید اور مکہ کے اور سردار اپنی دولت پر گھمنڈ کر کے پیغمبر (علیہ السلام) سے سرکشی کرتے تھے اور فقراء سے بےرحمی کرتے تھے۔ اس کے بدلے سات برس کے قحط میں مبتلا ہوئے۔ کتوں کو بھون بھون کر کھانے کی نوبت آئی اور پھر جب اسلام لائے اور توبہ کی تو خدا نے ان کو ملکوں کا مالک کردیا۔ یہ مناع للخیر کی شرح ہوئی۔ اب ہم الفاظ قرآنیہ کی تفسیر کرتے ہیں۔ لیصرمنہا یہ صرم یصرم کا مضارع ہے جمع مذکر غائب بانون ثقیلہ۔ اور ہاضمیر جنت کی طرف راجع ہے۔ صرم پھلوں اور کھیتی کا کاٹنا۔ انصرام انقطاع اصرام پھلوں کے کٹنے کا وقت آنا، اور مفلس ہوجانا اور تلوار کو صارم اسی لیے کہتے ا ؎ انگور کا خوشہ لمبا ہوتا ہے پھر بعض سیاہ انگور کا خوشہ گز سواگز کا بھی ہوتا ہے لٹکا ہوا دور سے سیاہ آدمی کھڑا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ 12 منہ ہیں کہ وہ زیادہ کاٹنے والی ہے۔ صریم شب تاریک، وصبح، فاصبحت کالصریم، یعنی جل کر سیاہ ہوگیا۔ ولایستثنون۔ جمہور مفسرین کہتے ہیں اس کے معنی ہیں کہ وہ انشاء اللہ نہ کہتے تھے اور کسی آیندہ کام کرنے کا اظہار کرنا اور انشاء اللہ نہ کہنا بےبرکتی کا باعث ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ معنی کہ مساکین و فقراء کو مستثنیٰ نہ کرتے تھے محرومی سے۔ طائف اسم فاعل ہے طیف سے یا طوف سے۔ علی الاول طائف کے معنی رات میں آنے والی چیز۔ یہاں مراد ہے، لو کا جھونکا جس نے جلا کر باغ کو سیاہ کردیا۔ حرثکم حرث کھیتی۔ اس سے مراد پھل اور کھیتی اور انگور سب ہیں کس لیے کہ باغ میں صرف ایک ہی چیز نہ تھی مگر پھلوں کا توڑنا زیادہ مقصود تھا اس لیے صارمین فرمایا۔ حرد آہنگ کردن وعع1 ک 2 (صراح) یعنی صبح کو اپنے ارادہ پر مضبوط ہو کر چلے اور اس کے معنی منع کرنے کے بھی ہیں کہ صبح کو مساکین کے منع کرنے کے لیے قادر ہو کر چلے۔ بعض کہتے ہیں حرد اس باغ کا نام تھا کہ اس باغ پر چلے، قادر ہو کر۔ انالضالون یہ اول بار دیکھ کر کہا جبکہ باغ پہچانا نہ گیا۔ بل نحن محرومون جب کہا کہ جب پہچان گئے کہ تقدیر پھوٹ گئی۔ باغ تو وہی ہے۔ اوسطہم سے مراد منجھلا نہیں بلکہ ان میں سے پہلا (اے اعدلھم وافضلھم وبینا وجھہ تفسیر قولہ امۃً وسطاً ) کبیر۔ لولاتسبحون۔ کیوں نہیں تسبیح کرتے یعنی اپنے رب کی پاکی نہیں بیان کرتے تھے ان ناپاک خیالات سے کہ ” اگر ہم دیں گے تو محتاج ہوجائیں گے پھر کون دیتا ہے خدا بدلہ اور برکت کیوں دینے لگا اور جو نہ دے تو ہم کیا کریں۔ “ ان خیالات سے روکنے کو تسبیح کرنے سے تعبیر کیا۔ نہ یہ مراد کہ زبانی تسبیح کیوں نہیں پڑھتے کس لیے کہ اس سے مساکین کو کیا فائدہ تھا ؟ جب مصیبت دیکھ چکے تو قالوا سبحان ربنا کہنے لگے کہ پاک ذات ہے ہمارے رب کی اس کے وعدے سچے ہیں۔ اناکنا ظالمین۔ ہماری بدگمانی بری تھی ہم نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا۔ عسیٰ ربنا ان یبدلنا خیرامنہا اناالی ربناراغبون چونکہ خدا پرست کے بیٹے تھے اور خود بھی اچھے تھے۔ یہ ایک شیطانی وسوسہ آگیا تھا جس کے سبب مصیبت آ پڑی مگر پھر سمجھ گئے اور تائب ہوئے اور امید خیر کی اللہ سے رکھی اور ہر مصیبت کے بعد اگر اللہ کی طرف رجوع ورغبت کی جاتی ہے تو وہ راحت اور اس تلف شدہ چیز کا بدلہ دیتا ہے اسی لیے حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب مومن پر کوئی مصیبت آئے تو اناللہ واناالیہ راجعون کہنا چاہیے تاکہ دنیا یا آخرت میں اس کا بدلہ ملے۔ اس تمام قصے کے بعد فرماتا ہے وکذلک العذاب کہ یوں آ پڑا کرتی ہے مصیبت اس سے کبھی نڈر نہ رہیے۔ لیکن عذاب آخرت اس سے بھی بڑھ کر ہے مگر یہ لوگ جانتے نہیں۔ اگر وہاں آنے والی مصیبت کا یقین ہوجائے تو یقینا اس کی فکر کریں جب کچھ بھی فکر نہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کچھ بھی یقین نہیں۔
Top