Al-Quran-al-Kareem - Al-Furqaan : 17
تَبٰرَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِی الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ۠   ۧ
تَبٰرَكَ اسْمُ : بہت بابرکت ہے نام رَبِّكَ : تیرے رب کا ذِي الْجَلٰلِ : جو صاحب جلال ہے وَالْاِكْرَامِ : اور کریم ہے۔ صاحب اکرام ہے
اور ان کو ابراہیم کا حال بھی پڑھ سنائو
ترکیب : کذالک منصوب بہ یفعلون فانہم عدولی انما افردوالقیاس اعداء لانا العد و جنس یطلق علی الواحد والکثیر، المراد ذوعداوۃ الا رب العلمین استثناجنس اور غیر جنس دونوں سے ہوسکتا ہے الذی مبتداء فھو مبتداء ثان یہدین اس کی خبر اور جملہ الذی کی خبر اور بعد کے الذی پہلے کی صفات ہیں اور صفات میں و کا داخل کرنا جائز ہے یوم لاینفع بدل ہے اول یوم سے الامن استثناء متصل اور غیر متصل بھی ہوسکتا ہے۔ تفسیر : واتل علیہم نباء ابراھیم الخ (2) قصہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے جس میں حضرت ﷺ کو کامل تسلی دی گئی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ اور ان کی تمام قوم بھی گمراہی میں مبتلا تھی بت پرست تھے پھر ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے باپ کے جہنمی ہونے کا کیا کچھ کم غم نہ تھا مگر بجز دعا کرنے کے اور کچھ نہ کرسکے۔ پھر آپ کیوں اے نبی ! اس قدر غم کرتے ہیں ؟ اور جب ابراہیم کے ساتھ ان بت پرستوں نے نہ صرف مقابلہ ہی کیا بلکہ آگ میں ڈالا اور وہاں سے سلامت آنے پر بھی دیس چھوڑنا پڑا۔ پس آپ پر یہ مصائب کوئی نئی بات نہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں جنت النعیم میں جانا اور قیامت کی رسوائی سے پناہ میں رہنا ذکر کیا تھا جس سے معلوم ہوا کہ جنت اور دوزخ اور مرنے کے بعد دوسری زندگانی کے اے قریش مکہ تمہارے جدِا مجد ابراہیم (علیہ السلام) بھی معتقد تھے اس میں میں نے کوئی نیا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد اس مناسبت سے مسئلہ معاد یعنی حشر کی کیفیت بھی بیان فرمائی کہ اس روز جہنم بدکاروں کے جنت ابرار کے سامنے لائی جائے گی اس دن مال اور زر ‘ اولاد کام نہ آئے گی مگر ان کے کہ جو خدا کے پاس کفر و معصیت ‘ حبِّ شہوات سے پاک دل لے کر آیا ہوگا اس کی اولاد نیک کے اعمال صالحہ جو اس کی ہدایت کا نتیجہ ہیں اور اس طرح جو مال اس نے اللہ کی راہ میں صرف کیا ہے اس کے کام آئے گا اور اس روز بت پرستوں سے پوچھا جائے گا کہ تم دنیا میں کس کی عبادت کیا کرتے تھے۔ پھر کیا آج وہ تمہارے معبود کچھ تم کو نفع یا نقصان دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد وہ بھی اور ان کے وہ معبود خبیث یہی ارواح خبیثہ و شیاطین سب کے سب جن ہم میں ڈال دیے جائیں گے۔ اور جہنم میں آپس میں لڑیں گے اور مشرکین کہیں گے ہم بڑے سخت گمراہ تھے جو تم کو رب العالمین کا شریک ٹھہرایا کرتے تھے۔ ہائے آج ہمارا نہ کوئی سفارشی ہے نہ حمایتی ‘ کاش دوبارہ دنیا میں جانے کی اجازت ملے تو ہم بھی ایمان لائیں۔ ایمان کے نتائج کا مشاہدہ ہوگیا۔ اوقال لابیہ وقومہ ما تعبدون گو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جانتے تھے کہ یہ بتوں کو پوجتے ہیں لیکن سوال اس غرض سے کیا تھا کہ ان کے بتوں کی کمزوری ثابت کریں تاکہ ان کو شرمندگی حاصل ہو اور پھر یہ ان کی پرستش چھوڑ دیں مگر وہ تو ایسے پختہ تھے کہ نعبد اصناما کہنے پر بس نہ کیا بلکہ فنظل لہا عاکفین بھی کہہ دیا کہ ہم نہ صرف ان کی پرستش ہی کیا کرتے ہیں بلکہ ہم دن بھر ان کے گردرہا کرتے ہیں (والعکوف الاقامۃ علی الشیء وانما قالو انظل لانہم کانو ایعبدونہا بالنہار دون اللیل۔ کبیر) ان کو بت پرستی پر تفاخر تھا اور اس کی وہ مسرت ظاہر کرنا چاہتے تھے (اللہ رے گمراہی) ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم بابل اور اس کے اطراف میں تھی وہ لوگ مذہب صابی رکھتے تھے جو ستاروں اور دیگر نورانی اور آسمانی چیزوں کی پرستش کیا کرتے تھے پھر ان معبودوں کے نام سے طرح طرح کی مورتیں بنا رکھیں تھیں۔ تخمیناً پچاس سال ہوئے ہوں گے کہ شہر نینوی کے بعض تودوں کو فرانس کی ایک جماعت نے بحکم حضرت سلطان عجائبِ قدیمہ دریافت کرنے کی غرض سے کھدوایا تو بہت نیچے سے سنگ مر مر کا ایک عجیب و غریب مکان برآمد ہوا جس کی دیواروں پر ہر طرف عجائب مورتیں ترشی ہوئی تھیں اور پھر اس کے صدر مقام میں ایک بہت بلند بیل سنگ مر مر کا تھا جس کے پائوں ہاتھی کے اور بازؤوں پر عقاب کے سے پر اور اس کی صورت انسان کی تھی دو قد آدم اونچا تھا جس کو اکھاڑ کر فرانس کے عجائب خانہ میں رکھا گیا اور دیواروں پر کچھ کتبہ بھی تھا جو آج تک کسی سے پڑھا نہیں گیا۔ غالباً یہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کا بت تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پھر ان سے دریافت کیا ہل یسمعونکم اذ تدعون او ینفعونکم او یضرون کہ بھلا جب تم ان کو پکارتے ہو کچھ تمہاری بات بھی سنتے ہیں یا تم کو کچھ نفع و نقصان بھی دیتے ہیں ؟ اس کا وہ کیا جواب دیتے بجز اس کہنے کے کہ بل وجدنا اباء ناکذلک یفعلون ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے ان کی تقلید ہم کرتے ہیں ایسی تقلید حرام ہے۔ اس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ أفرایتم ماکنتم تعبدون انتم و آباء کم الاقدمون۔ اب تم کو معلوم ہوگیا کہ تم اور تمہاے باپ دادا کس بےحقیقت چیز کی عبادت کیا کرتے تھے۔ فانہم عدولی الا رب العالمین یہ سب میرے دشمن ہیں یعنی مجھے ان سے نفرت اور عداوت ہے مگر رب العالمین سے نہیں۔ اس کے بعد رب العالمین کے چند اوصاف ذکر کرتے ہیں جن سے ان کو اس کی طرف رغبت پیدا ہو۔ پس فرمایا الذی خلقنی فہویہدین وہ کہ جس نے مجھے پیدا کیا پھر وہی مجھ کو راہ راست کی طرف رہنمائی کیا کرتا ہے والذی ھو یطعمنی ویسقین واذا مرضت فہو یشفین کہ صرف یہی نہیں کہ پیدا کر کے ہی اس نے چھوڑ دیا پھر اس سے کچھ کام نہیں پڑتا بلکہ جس طرح ابتداء میں اس کی طرف حاجت تھی حال میں بھی ادنیٰ اور اعلی حاجت اسی سے وابستہ ہے یطعمنی ویسقین سے چھوٹی باتوں کی طرف واذا مرضت فہو یشفین سے امور عظام کی طرف ایماء گیا۔ والذین یمتینی ثم یحیین والذی اطمع ان یغفرلی خطیئتی یوم الدین زندگی دنیا کے بعد بھی اس سے تعلق ہے وہی موت دے گا پھر قیامت کو دوبارہ وہی زندہ کرے گا۔ اسی سے مجھے گناہوں کی معافی کی امید ہے (ہر چند حضرت ابراہیم (علیہ السلام) گنہگار نہ تھے مگر خاصان خدا بمقام عبدیت اپنی ذرا ذرا سی فروگذاشت کو بھی بہت بڑا گناہ سمجھا کرتے ہیں) یعنی تمہارے بت بیکار اور میرا معبود یہ یہ کیا کرتا ہے اب دیکھو کون قابل پرستش ہے یہ سب ان پر تعریض ہے اس کے بعد جو دارآخرت اور دنیا کی بہبودی کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی اس کو نقل کرتا ہے رب ھب لی حکما والحقنی بالصالحین حکم سے مراد کمال قوت مدرکہ کا کہ جس سے ادراک حق حاصل ہو والحقنی بالصالحین سے مراد کمال قوت عملیہ کا کہ جس سے خیر کو عمل میں لاوے۔ واجعل لی لسان صدق فی الاخرین اور مرنے کے بعد دنیا میں میرا سچائی اور ذکر خیر کے ساتھ تذکرہ باقی رہے یعنی توحید کا طریقہ جو مجھے نصیب ہوا ہے میرے بعد میں یہی رہے کہ وہ اس سبب سے مجھے ذکر خیر سے یاد کیا کریں جو اوروں کے لیے توحید کی طرف رغبت کا باعث ہو واجعلنی من ورثۃ جنۃ النعیم اور مجھ کو جنت نعیم کا وارث کیجیو یہ سعادتِ آخرت کی دعا تھی جب سعادت دنیا و آخرت کے سوال سے فارغ ہوئے تو 1 ؎ باپ کے لیے بھی دعا کی کیونکہ وعدہ کرچکے تھے اور نیز اپنے حقداروں کو نعمت میں شریک کرنا عالی حوصلوں کا کام ہے 1 ؎ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سب دعائیں قبول ہوئیں مگر باپ کے حق میں نہ قبول ہوئی۔ عبرت کا مقام ہے خدا کی بےنیازی سے ڈرنا چاہئے۔ 12 منہ ولاتخزنی یوم یبعثون کہ قیامت کے روز مجھ سے کوئی باز پرس بھی نہ کرنا پھر اس کے بعد قیامت کا حال شروع کردیا کہ اس روز نہ مال کام آئے گا نہ اولاد نفع دے گی مگر قلب سلیم کہ جس میں توحید و اخلاص ہو۔
Top