Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 22
فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍ١ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ١ؕ وَ نَادٰىهُمَا رَبُّهُمَاۤ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَ اَقُلْ لَّكُمَاۤ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
فَدَلّٰىهُمَا : پس ان کو مائل کرلیا بِغُرُوْرٍ : دھوکہ سے فَلَمَّا : پس جب ذَاقَا : ان دونوں نے چکھا الشَّجَرَةَ : درخت بَدَتْ : کھل گئیں لَهُمَا : ان کے لیے سَوْاٰتُهُمَا : ان کی ستر کی چیزیں وَطَفِقَا : اور لگے يَخْصِفٰنِ : جوڑ جوڑ کر رکھنے عَلَيْهِمَا : اپنے اوپر مِنْ : سے وَّرَقِ : پتے الْجَنَّةِ : جنت وَنَادٰىهُمَا : اور انہیں پکارا رَبُّهُمَآ : ان کا رب اَلَمْ اَنْهَكُمَا : کیا تمہیں منع نہ کیا تھا عَنْ تِلْكُمَا : اس سے متعلق الشَّجَرَةِ : درخت وَاَقُلْ : اور کہا لَّكُمَآ : تم سے اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان لَكُمَا : تم دونوں کا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
پھر تو ان کو فریب 1 ؎ سے (کھانے کی طرف مائل ہی کردیا) جوں ہی انہوں نے درخت کو چکھا تو ان کا ستر کھل گیا اور لگے اپنے اوپر جنت کے پتے چپکانے اور ان کے رب نے ان کو پکار کر (کہا) کیا میں نے تم کو اس درخت سے منع نہ کردیا تھا اور یہ نہ کہہ دیا تھا کہ بیشک شیطان تم دونوں کا صریح دشمن ہے۔
1 ؎ یعنی قسمیں کھا کر فریب دے کر آخرکار اس درخت ممنوع کے کھانے کی طرف مائل ہی کرلیا۔ 12 منہ (1) جنت میں گناہ کرنے سے حضرت آدم و حوا کا لباس عزت اتار لیا گیا تھا جس پر وہ نہایت شرمندہ ہو کر جنت کے درختوں کے پتے اپنے بدن پر ڈھانکتے تھے۔ پھر دنیا میں خدا نے آدم (علیہ السلام) کو کپڑا بنانا سکھایا جس سے ستر ڈھانکنا میسر آیا۔ اس بات کو خدا اپنی بڑی نعمت من آیات اللّٰہ کہتا ہے اور لباس کا نازل کرنا فرما کر ایک اور لباس کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی پرہیزگاری کا لباس بہتر 1 ؎ ہے۔ اس کے بعد اولاد آدم کو متنبہ کرتا ہے کہ دیکھو اب تم شیطان کے بہکانے میں نہ آنا کہیں لباس تقویٰ تمہارا نہ اتار لے جس سے تم برہنہ ہوجائو۔ شیطان اور اس کی ذریت تم کو دیکھتے ہیں اور وہ تم کو نظر نہیں آتے کیونکہ ان کا مادہ آتش لطیف چیز ہے جو محسوس بحس بصرہ نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ ان خبیثوں سے کافر ہی دوستی رکھتے ہیں 2 ؎
Top