Tafseer-e-Haqqani - An-Naba : 31
اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًاۙ
اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ : بیشک متقی لوگوں کے لئے مَفَازًا : کامیابی ہے
ضرور پرہیزگاروں کو کامیابی ہے
ترکیب ¦ مفازا اسم ان وللمتقین خبرھا والمفاز مصدر میمی بمعنی الفوز والظفر بالمطلوب والنجاۃ من الھلاک ولذا یطلق المفازۃ علی الفلاۃ 1 ؎ تفاولاً بالخلاص منھا وقیل الفوز النجاۃ والھلاک ایضا فا طلاق المفازۃ علی الافلاۃ حقیقی حدائق بدل من مفازاً بدل الاشتمال اوبدل الکل علی طریق المبالغۃ وھی جمع حدیقۃ ہی کل بستان 2 ؎ محوط علیہ من قولھم احد قوابہ ای احاطوابہ وکذا واعنابا معطوف علی حدائق وھی جمع عنب (انگور) وکواعب عطف علی اعناباوھی جمع کا عبۃ وھی الناہدۃ 3 ؎ التی تکعب ثدیہا ای استدرات مع ارتفاع اترا باصفۃ کو اعب وھی جمع ترب بالکسر ھمزا ویقال ھذہ ترب ھذہ دھن اتراب صراح وکاسا موصوف دھا قاصفۃ عطف علی کو اعب الک اس جام باشراب مونث جمعہ کو ئوس۔ واذالم تکن فیھا خمر فلیس بک اس دھاق بالکسر جام پر ادھاق پر کردن جام۔ اوبر ریختن آب را (صراح) لایسمعون الجملۃ حال من لضمیر فی خبران ویجوزان یکون مستانفاوالضمیر فی فیھا یرجع الی الک اس ای لایجری بینھم لغو فی الک اس التی یشربونھا بخلاف کاس الدنیا وقیل یرجع الی الجنۃ ای لایسمعون فی الجنۃ مایکرھونہ کذابا التخفیف ای کذبا وبالتشدید ای تکذیبا من واحد لغیرہ بخلاف مایقع فی الدنیا عند شرب الخمر جزاء منصوب علی انہ مصدر ای جازاھم جزاء من ربک صفۃ لہ عطا بدل منہ حسابا مصدر اقیم مقام الوصف ادھاق علی مصدریۃً مبالغۃ اوھو علی حذف مضاف وفی معناہ کلام طویل قیل معناہ کافیا ماخوذ من قولھم اعطانی ما احسبنی ای ماکفانی وقیل معناہ بقدر ماو جب لہ فیما وعدہ من الاضعاف ماخوذ من قولھم حسبت الشیء اذا اعددتہ وقدرتہ وقیل معناہ کثیرا۔ والاول ارحج وفی القاموس حسبک درھم کفاک وشیء حساب کاف ومنہ عطا حسابا رب المسموٰات الخ بالرفع علی الابتداء وفی خبرہ وجہان احدھما الرحمن فیکون ما بعدہ خبرآ آخرا اومستانفا والثانی الرحمن نعمت ولا یملکون الخبر ویجوزان یکون رب خبر مبتداء محذوف ای ھو رب لسموات الرحمن وما بعد مبتداء وخبر ویقراء رب والرحمن بالجر بدلا من ربک لایملکون الجملۃ مستانفۃ لما تفیدہ الربوبیۃ العامۃ من العظمۃ والکبریاء۔ تفسیر ¦ دارِ آخرت میں اشرار و بدکاروں کی جو حالت ہوگی اس کو بیان کرکے ابرار و صلحاء کا حال بیان فرماتا ہے تاکہ بیان پورا ہوجاوے یا یوں کہو کہ بدکاروں کے حق میں بیان فرماتا تھا کہ ان کو عذاب دم بدم زیادہ ہوگا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پرہیزگاروں کو جوہر دن نئے عیش و کامرانی میں دیکھیں گے اور بھی دل جلیں گے گویا یہ روحانی عذاب ہوگا۔ اس لیے پرہیزگاروں کا حال بیان فرماتا ہے۔ فقال ان للمتقین مفازا کہ ضرور بالضرور پرہیزگاروں کو وہاں ہر طرح کی کامیابی اور سعادت اور حیات جاودانی اور کامرانی حاصل ہے۔ اس میں کچھ شبہ نہ کرنا چاہیے ٗ متقی کون ہے ؟ جو عقائد درست کرنے کے بعد بری چیزوں سے بچے اور جن کا حکم ہے ان کو کرے۔ پھر تقویٰ کے چند مراتب ہیں۔ اول مرتبہ توحید اور ایمان ہے۔ اس مرتبہ میں ہر مومن متقی ہے۔ گو وہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو۔ دوم مرتبہ ایمان کے بعد اعمال صالحہ کو عمل میں لانا ‘ برے افعال سے بچنا۔ اس مرتبہ میں گنہگار ایماندار کو متقی لکھا جاوے گا۔ جب تک کہ کبائر سے نہ بچے اور فرائض و واجبات کا پابند نہ ہو۔ تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ ماسویٰ اللہ کسی کی محبت اس کے دل پر نہ ہو۔ یہ اولیاء اللہ کا مرتبہ ہے اور تقویٰ کا انتہا درجہ ہے کہ ماسواء اللہ کوئی چیز ان کے قلوب صافیہ تک نہیں پہنچتی۔ وہ اس کے سوا سب سے بچتے ہیں۔ قرآن مجید میں لفظ متقی کو مطلق رکھا ہے کیا تعجب ہے کہ اس کی رحمت گنہگارو ایمانداروں کو بھی مفاز یعنی کامیابی سے حصہ دے۔ جس طرح متقی میں اطلاق تھا اسی طرح مفازا میں بھی کوئی تخصیص نہیں بلکہ ہر قسم کی کامیابی مراد ہے۔ روحانی ہو یا جسمانی لیکن کی عام رغبتیں ان چند چیزوں کی طرف زیادہ ہوتی ہیں اس لیے اس کامیابی کے خزانے میں سے ان چند جواہر 1 ؎ کو بیان فرماتا ہے۔ فقال حدائق باغ رہنے کو ملیں گے۔ زبان عرب میں حدیقہ اس باغ کو کہتے ہیں جس کی چار دیواری ہو اور ہم جلیسوں اور یاروں کے ساتھ اسی میں رہنے سے لطف بھی ہوتا ہے۔ یہ وہ باغ ہیں جو دنیا میں توحید و ایمان سے لگائے تھے اور اعمال صالحہ سے سینچے گئے تھے اور معارف سے آراستہ کئے گئے تھے۔ یہ لفظ بھی عام تھا ٗ باغ کہنے میں جو کچھ نعمتیں باغوں میں ہوتی ہیں سب ہی آگئی تھیں۔ پر کوئی یہ نہ سمجھے کہ ان باغوں میں شاید وہ چیزیں نہ ہوں جو ہم کو مرغوب ہوتی ہیں اور نئی قسم کی چیزیں ہوں۔ دنیا میں اقالیم کے لحاظ سے باغوں کا حال مختلف ہوتا ہے۔ چہ جائیکہ دوسرے جہاں کے باغ اس لیے اپنی مہربانی سے اس خطرہ کو بھی دور کرتا ہے اور ان باغوں میں جو دل پسند چیزیں ہوں گی ان کا ذکر فرماتا ہے۔ فقال واعنابا 2 ؎ وہاں انگور بھی بکثرت اور عمدہ ہوں گے۔ انگور ایک ایسا میوہ ہے جو غذا کا کام بھی دے سکتا ہے اور اس سے شراب بنتی ہے اور نیز باغ میں انگور ٹٹیوں پر ہوتا ہے۔ اس کا سایہ اور بھی لطف دیتا ہے۔ اس عمدہ باغ میں جہاں کھانے پینے کے یہ سامان ہوں اگر ماہ روہم نشین نہ ہوں تو کچھ بھی لطف نہیں۔ اس لیے فرماتا ہے وکواعب اترابا کہ وہاں نوجوان عورتیں بھی ہوں گی جن کی جوانی کی پستان ابھی ابھری ہوں گی یہ نوعمری اور سادگی معشوقوں میں اور بھی لطف تازہ کرتی ہے۔ پھر ان کی نو عمری اور نئی جوانی کے ساتھ اگر اہل جنت بڑی عمر کے ہوں تو بھی لطف نہ ہو۔ انسان اپنے ہم عمروں سے رغبت کیا کرتا ہے اور وہیں اس کا دل کھلتا ہے۔ نوجوان لڑکی بوڑھے مرد سے کبھی لطف صحبت نہیں پاتی۔ اس لیے اترا با کا لفظ بھی ارشاد فرما دیا کہ یہ متقی بھی ان کے ہم سن یعنی نوجوان ہوں گے۔ پھر یہ سب کچھ ہو اور دل میں حجاب ہو اور چوچلے اور اچھل کود نہ ہو تو سوئی سوئی سی صحبت رہتی ہے۔ اس لیے اس کا بھی سامان کردیا جائے گا۔ وکاسادھاقا کہ جام شراب کے دور چلیں گے جن سے ایک فرحت و سرور تازہ ہوگا۔ دہاق کے معنی بھرے ہوئے کے بھی ہیں یعنی لبریز پیالے اس سے اور بھی لطف ہوتا ہے اور پے در پے کے یہی معنی ہیں کہ یکے بعد دیگر اس جام کا تسلسل جاری رہے گا۔ یہ وہ شراب محبت الٰہی ہے جو دنیا میں ساقی کوثر کے میخانے سے عطا ہوئی تھی۔ 1 ؎ فلاۃ صحرا خالی از آب و خورش۔ 12 منہ 2 ؎ وہ باغ جس کی دیوار نہ ہو۔ 12 منہ 3 ؎ یعنی پستان ابھری ہوئی۔ 12 منہ 4 ؎ ہم سن و ہم عمر۔ 12 منہ شراب کے ساتھ اگر اس کی خرابیاں بھی ہوں جیسا کہ دنیا کی شراب میں ہوتی ہیں۔ بیہوشی اور درد سر اور اہل مجلس کی بیہودہ بکواس یا مارپیٹ تو کچھ بھی مزہ نہیں۔ اس لیے فرماتا ہے لایسمعون فیہا لغوا ولاکذابا کہ وہاں ایذا اور مارپیٹ تو کیا کوئی لغو بات سننے میں نہ آئے گی اور نہ جھوٹی بات۔ نہ کوئی دل کو رنج دینے والی بات کہ اس کو کوئی جھٹلاوے اور رنج ہو۔ اس میں اشارہ ہے کہ علم و ادراک اور اخلاق پر کوئی برا اثر پیدا نہ ہوگا۔ یہ دنیا کی شراب محبت الٰہی کا ظہور ہے جس کے نشے میں احوال و مقامات کے ابکار اور ان کے ثمرات کے پھل کھاتے اور وقار و تہذیب کو عمل میں لاتے ہیں۔ دنیا کی شراب اور یہاں کی اور نعمتوں اور آخرت کی شراب اور وہاں کی نعمتوں میں شرکت اسمی ہے 1 ؎ جس میں سے چند جواہر بیان فرماتا ہے جام شراب کے دو چلے گئیں یکے بعد دیگر اس جام کا تسلسل جاری رہے گا یہ وہ شراب محبت الٰہی ہے جو دنیا میں ساقی کوثر کے مے خانہ سے عطا ہوئی تھی۔ حقانی۔ 12 2 ؎ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے قول سے بھی جنت میں انگور کا شیرہ پینا ثابت ہے پھر عیسائی کیوں کہتے ہیں کہ وہاں لذات جسمانیہ نہیں۔ 12 منہ ورنہ ان کی حقیقت اور ان کی اور ” چہ نسبت خاک را با عالم پاک “ یہاں کی فانی اور ظلمانی چیزوں پر نام کی شرکت سے وہاں کی چیزوں کا قیاس کرکے اعتراض کرنا بےفہمی ہے۔ اس لیے فرماتا ہے جزاء من ربک کہ یہ سب نعمتیں بدلہ ہیں۔ بندوں کے اعمال و عقائد و معارف کا تیرے رب کی طرف سے اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو یہاں بوئے گا وہی وہاں کاٹے گا جیسا کرے گا ویسا پاوے گا بغیر تقویٰ اختیار کئے ان نعمتوں کی ہوس کرنا اور اپنی اضافی نسبتوں کو وسیلہ سمجھنا کہ ہم فلاں کی اولاد ‘ فلاں کے شاگرد ‘ فلاں کے مرید ہیں کچھ مفید نہیں۔ اب دنیا میں متقی بننے کی راہیں کھلی ہوئی ہیں۔ کوشش کرو اور تقویٰ کا سرمایہ حاصل کرو۔ جزا کو رب کی طرف سے کہنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ گو اعمال کی جزا ہے مگر جزا بھی کسی تنگ دل تنگ حوصلہ شخص کی طرف سے نہیں بلکہ اے محمد ﷺ تیرے رب یعنی پرورش کرنے والے کی طرف سے جس کی بخشش اور جود کے دریا رواں ہیں جو ایک ذرا سے کام کے بدلے میں سینکڑوں حصہ بڑھ کر دے گا اور اس دنیا کی چند روزہ کوشش میں نعمائِ باقیہ و صافیہ عطا فرماوے گا۔ اس لیے فرماتا ہے عطاء کہ یہ سب کچھ گو جزا یا اعمال کے بدلے میں ہے مگر اس قدر اور ایسی چیزیں دراصل عطا یعنی بخشش ہے اور بخشش بھی کیسی حسابا کافی اور پوری اور بہت کچھ اور یہ اس لیے کہ یہ انعام و افضال اس کی طرف سے ہیں جو رب السموات والارض وما بینہما آسمانوں اور زمین اور ان کے اندر کی چیزوں کا پرورش کرنے والا ہے۔ ہر ایک چیز کو بغور دیکھے تو اس کے وجود اور ذات اور اس کے بقاء میں سینکڑوں عنایات ہیں۔ بغیر کسی سابقہ واسطہ یا عمل کے۔ درختوں کو پتے عطا فرمائے۔ ان کی جڑوں میں زمین سے غذا حاصل کرنے کی قوت دی۔ پھر رنگا رنگ کے پھول دیے جو نہایت خوشنما ہیں جن کے نقل کرنے میں بڑے بڑے صناع اور کاریگر نقاش حیران ہیں۔ پھر جب اس عالم میں بےکسی عمل اور کوشش کے اس نے ہر ایک شے پر یہ عطا و فضل کیا تو اس جہاں میں اس کی عطا کا کیا ٹھکانا ہے جس کے لیے ذراسا عمل کا ہی بہانہ ہے۔ اب یہ شبہ کرنا کہ نعمائِ آخرت کو جزاء کہنا جو بدلہ ہوتا ہے اور پھر اس کو عطا کہنا جو بےبدل ہوتی ہے تعارض ہے۔ محض کم فہمی ہے۔ جزا اور لحاظ سے ہے تو عطا اور لحاظ سے۔ رب السموات الخ کے بعد اور بھی صفت جود کا اظہار کرتا ہے۔ الرحمن کہ وہ عطا کس کی طرف سے ہے۔ رحمن کی طرف سے جس کی رحمت کا کچھ حساب نہیں۔ ہر ذرہ پر بیشمار رحمتیں ہیں جن کا کسی کو بھی استحقاق نہیں لایملکون منہ خطابا اور کوئی اپنے استحقاق کی بابت اس سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتا جس کو جو کچھ دیا محض فضل ہی فضل ہے جس کو نہیں دیا وہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیزیں مجھے کیوں نہیں دیں کیونکہ اس کو کسی کا دینا نہیں آتا جو وہ اپنا حق جتلاوے اور گلہ کرے۔ فائدہ : ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ لایملکون کی ضمیر کفار کی طرف پھرتی ہے کہ کفار قیامت میں اس سے کچھ کلام نہ کرسکیں گے یعنی وہ متقیوں پر رحمن ہوگا ان کو شرف کلام حاصل ہوگا مگر یہ نعمتیں دیکھ کر کفار کو اس کی ہیبت و جبروت دیکھ کر کلام کرنے کی قدرت نہ ہوگی مگر اول معنی بہت ٹھیک ہیں اور اس جملہ سے شفاعت کا انکار نہیں ثابت ہوتا۔ کس لیے نفی جو ہے تو استحقاق جتلانے میں کلام کرنے کی ہے اور شفاعت میں استحقاق نہیں جتلایا جاتا بلکہ وہ بھی فضل و کرم پر موقوف ہے اور فضل و کرم کا دروازہ بڑا وسیع ہے۔ ہر مومن اس سے وہاں کلام کرے گا بلکہ عذر و معذرت کے لیے کفار بھی کلام کریں گے۔ صرف نفی کلام استحقاقی کی ہے حاصل یہ ہے کہ رحمن بھی ہے اور اس کے ساتھ یہ ہیبت و جبروت بھی ہے کہ کوئی بات نہیں کرسکتا بےاذن کے۔
Top