Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 104
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يَا اَيُّهَا الَّذِیْنَ : اے وہ لوگو جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَقُوْلُوْا : نہ کہو رَاعِنَا : راعنا وَقُوْلُوْا : اور کہو انْظُرْنَا : انظرنا وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَلِلْکَافِرِیْنَ ۔ عَذَابٌ : اور کافروں کے لیے۔ عذاب اَلِیْمٌ : دردناک
اے اہل ایمان (گفتگو کے وقت پیغمبر خدا ﷺ سے) راعنا نہ کہا کرو اُنْظُرْنا کہا کرو اور خوب سن رکھو اور کافروں کے لئے دکھ دینے والا عذاب ہے
(104) رسول اکرم ﷺ اور قرآن کریم پر ایمان رکھنے والو ! رسول اللہ ﷺ سے (راعنا) یعنی اے اللہ تعالیٰ کے نبی اپنی گفتگو سنائیے، یہ نہ کہا کرو بلکہ یہ کہا کرو کہ ہماری جانب توجہ فرمائیے اور اے اللہ تعالیٰ کے نبی ہماری گفتگو سنیے اور لغت یہود میں اس کا یہ مطلب ہوتا تھا کہ اپنی بات پھر سنائیے تاکہ میں سنوں (اور یہودی بدنیتی سے ایسا کہتے تھے) اس وجہ سے مسلمانوں کو اس لفظ کے استعمال سے روکا گیا اور فرمایا کہ جس چیز کا حکم دیا جارہا ہے اسے پہلے ہی غور سے سن لو اور اس کی اطاعت کرو اور ان یہودیوں کے لیے تو ایسا دردناک عذاب ہے کہ اس کی سختی ان کے دلوں تک پہنچ جائے گی۔ شان نزول : (آیت) ”۔ یایھا الذین امنوا لاتقولواراعنا“۔ (الخ) ابن منذر ؒ نے سدی ؒ سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں میں سے دو شخص مالک بن صیف اور رفاعہ بن یزید جب بھی رسول اللہ ﷺ سے ملتے تو ”راعنا“۔ کہتے اور ان کا یہ مطلب ہوتا کہ آپ ہمارے سامنے گفتگو فرمائیں مگر حقیقت ہمیں ہم آپ کی گفتگو کو نہیں سنتے، مسلمانوں نے یہ کلمہ یہودیوں کی زبان سے سن کر یہ سمجھ لیا کہ یہ ایسا کلمہ ہے جس کے ذریعہ یہودی اپنے انبیاء کرام کی تعظیم کرتے ہیں، تو انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کو اس کلمہ سے مخاطب کرنا شروع کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ”اے ایمان والو (آیت) ”راعنا“۔ مت کہا کرو بلکہ (آیت) ”انظرنا“۔ بولا کرو، ابو نعیم ؒ نے دلائل میں بواسطہ، سدی ؒ صغیر ؒ کلبی ؒ ، ابوصالح ؒ ، حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ”راعنا“۔ یہودیوں کی زبان میں بہت بری گالی تھی، جب یہودیوں نے صحابہ کرام ؓ سے اس کلمہ کو سنا تو انہوں نے علی الاعلان حضور اکرم ﷺ سے یہ لفظ کہنا شروع کردیا۔ یہودی اس لفظ کو بولتے تھے اور آپس میں ہنستے تھے چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ نے یہ جب یہ آیت سنی تو یہودیوں سے کہا اے اللہ کے دشمنو ! اگر اس مجلس کے بعد میں تم میں سے کسی کو اس کلمہ کو حضور اکرم ﷺ کے سامنے کہتے ہوئے سنا تو اس کی گردن کاٹ دوں گا اور ابن جریر ؒ نے ضحاک سے روایت کیا ہے کہ کوئی شخص حضور اکرم ﷺ کے سامنے یہ کہتا تھا کہ اپنی گفتگو سے میری جانب متوجہ ہوجائیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور قتادہ ؒ سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام ؓ حضور اکرم ﷺ سے کہتے تھے ”راعنا کسمعک“۔ یہودیوں نے بھی حضور ﷺ کی خدمت میں آکر یہی کلمہ کہنا شروع کردیا تب یہ آیت نازل ہوئی، عطا سے مروی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ انصار کی لغت تھی جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور ابوالعالیہ ؒ سے روایت کیا ہے کہ عرب جب آپس میں بات چیت کرتے تو ایک دوسرے سے کہتے تھے (ارعنی سمعک) چناچہ اس لفظ کے استعمال سے سب کو روک دیا گیا (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top