Tafseer-Ibne-Abbas - An-Noor : 6
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں اَزْوَاجَهُمْ : اپنی بیویاں وَلَمْ يَكُنْ : اور نہ ہوں لَّهُمْ : ان کے شُهَدَآءُ : گواہ اِلَّآ : سوا اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں (خود) فَشَهَادَةُ : پس گواہی اَحَدِهِمْ : ان میں سے ایک اَرْبَعُ : چار شَهٰدٰتٍ : گواہیاں بِاللّٰهِ : اللہ کی قسم اِنَّهٗ لَمِنَ : کہ وہ بیشک سے الصّٰدِقِيْنَ : سچ بولنے والے
اور جو لوگ اپنی عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہوں تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ پہلے تو چار بار خدا کی قسم کھائے کہ بیشک وہ سچا ہے
(6) اور جو لوگ اپنی منکوحہ بیویوں کو زنا کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس اس چیز پر اپنے علاوہ اور گواہ نہ ہو تو ایسا شخص چار مرتبہ اللہ وحدہ لاشریک کی قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ میں نے اپنی عورت پر جو تہمت لگائی ہے اس میں، میں سچاہوں۔ شان نزول : (آیت) ”۔ والذین یرمون“۔ (الخ) امام بخاری ؒ نے عکرمہ ؓ کے ذریعے سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ ہلال بن امیہ نے اپنی بیوی کو رسول اکرم ﷺ کے سامنے تہمت لگائی، رسول اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پشت پر حد قذف لگائی جائے گی انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر ہم میں کوئی شخص اپنی عورت کے ساتھ کسی کو برا کام کرتے دیکھے تو گواہ ڈھونڈتا پھرے۔ رسول اکرم ﷺ یہی فرماتے رہے گواہ لاؤ ورنہ تم پر حد قائم ہوگی۔ حضرت ہلال ؓ نے عرض کیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ مبعوث فرمایا میں اپنی بات میں سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ضرور کوئی ایسا حکم نازل فرمائے گا جس سے میری پیٹھ سزا سے بچا دے گا۔ اس کے بعد جبریل امین ؑ تشریف لائے اور آیت نازل ہوئی۔ (آیت) ”والذین یرمون ازواجھم“۔ (الخ) آپ نے (آیت) ”من الصادقین“۔ تک یہ آیات پڑھ کر سنائیں۔ اور نیز اسی روایت کو امام احمد ؒ نے انہی الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ”والذین یرمون المحصنات“ (الخ) تو حضرت سعد بن عبادہ ؓ انصار کے سردار کہنے لگے یا رسول اللہ کیا اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا اے انصار کی جماعت سن نہیں رہے کہ تمہارے سردار کیا کہہ رہے ہیں، صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ان کو ملامت نہ کیجیے یہ بہت ہی باغیرت انسان ہیں اللہ کی قسم انہوں نے کنواری کے علاوہ اور کسی عورت سے کبھی شادی نہیں کی اور نہ کبھی کسی عورت کو طلاق دی ہے کہ ان کی غیرت کی شدت کی وجہ سے پھر ہم میں سے کسی کو جرأت ہو کہ وہ ان کی مطلقہ کے ساتھ شادی کرے، پھر حضرت سعد ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ میں جانتا ہوں کہ یہ بات حق ہے اور یہ حکم الہی ہے لیکن مجھے اس بات پر تعجب ہوا کہ اگر میں کسی بےوقوفہ کے ساتھ کسی نامحرم کو پاؤں تو مجھے اس نامحرم کو علیحدہ کرنے اور اس کو حرکت دینے کی بھی اجازت نہیں، جب تک کہ میں چار گواہ نہ لے آؤں تو خدا کی قسم میں گواہوں کو اس وقت تک نہیں لاؤں گا جب تک کہ وہ اپنی حاجت کو پورا نہ کرے اس کے بعد کچھ وقت نہیں گزرا تھا کہ ہلال بن امیہ آگئے اور وہ تین حضرات میں سے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول فرمائی ہے وہ اپنی زمین سے شام کو گھر آئے تو انہوں نے اپنی گھر والی کے پاس کسی شخص کو پایا یہ منظر انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے یہ باتیں سنیں تو وہ اس واقعہ سے بالکل نہیں گھبرائے یہاں تک کہ صبح ہوگئی وہ علی الصباح رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آکر عرض کیا کہ میں شام کے وقت اپنی گھر والی کے پاس آیا تو اس کے پاس ایک شخص کو دیکھا یہ چیز میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور یہ باتیں میں نے اپنے کانوں سے سنیں یہ جس واقعہ کی اطلاع لے کر آئے اس سے رسول اکرم ﷺ کو ناگواری ہوئی اور آپ پر یہ چیز گراں گزری، اتنے میں سب انصار جمع ہوگئے اور کہنے لگے کہ سعد بن عبادہ ؓ نے اس وقت جو بات کہی تھی اس کی وجہ سے ہم سب آزمایش میں ڈال دیے گئے، رسول اکرم ﷺ ہلال بن امیہ کو سزا دیں گے اور ان کی گواہی کو مسلمانوں میں جھوٹی قرار دے دیں گے، حضرت ہلال ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم میں اس چیز کی امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس چیز سے میرے لیے نجات کا کوئی راستہ نکال دیں گے، سو اللہ کی قسم رسول اکرم ﷺ ان کو سزا دینے کے لیے حکم فرمانا ہی چاہ رہے تھے کہ آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوگئی تو سب ان سے رک گئے یہاں تک کہ آپ وحی سے فارغ ہوئے چناچہ آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں یعنی جو لوگ اپنی منکوحہ عورتوں کو تہمت لگاتے ہیں، نیز ابویعلی نے اسی طرح حضرت انس ؓ سے روایت نقل کی ہے۔ اور امام بخاری ؒ اور مسلم ؒ نے مسہل بن سعد ؓ سے روایت کیا ہے کہ عویمر عاصم بن عدی کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میرا ایک مسئلہ رسول اکرم ﷺ سے پوچھو کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی اجنبی آدمی کو پائے تو کیا کرے وہ اس کو مار ڈالے تو کیا وہ بھی بدلے میں قتل کردیا جائے گا تو پھر کرے تو کیا کرے چناچہ عاصم رسول اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے یہ مسئلہ دریافت کیا رسول اکرم ﷺ نے اس قسم کے سوال کو برا سمجھا، اس کے بعد عویمر سے ملاقات ہوئی، عویمر نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے کیا کیا عاصم نے جواب دیا میں کیا کرتا تم نے میرے ساتھ بھائی نہیں کی، میں نے آپ کا مسئلہ رسول اکرم ﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے ایسے سوالات کو پسند نہیں فرمایا، عویمر بولے اللہ کی قسم میں تو رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور بغیر دریافت کیے ہوئے نہیں رہوں گا چناچہ انہوں نے رسول اکرم ﷺ سے جا کر دریافت کیا، آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں حکم نازل کردیا ہے۔ حافظ بن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ اس مقام پر ائمہ کرام کا اختلاف ہے کہ آیت مبارکہ کون سے واقعہ کے ماتحت نازل ہوئی ہے تو بعض حضرات نے اس چیز کو ترجیح دی ہے کہ یہ آیت حضرت عویمر ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور بعض نے حضرت ہلال ؓ کے واقعہ کو ترجیح دی ہے کہ یہ آیت اس واقعہ میں نازل ہوئی ہے۔ اور بعض لوگوں نے دونوں واقعات میں موافقت میں موافقت کردی ہے کہ پہلے تو حضرت ہلال ؓ کا واقعہ پیش آیا اور پھر حضرت عویمر ؓ کے آنے سے اس واقعہ کی تائید ہوگئی پھر دونوں کے بارے میں ایک ساتھ آیت مبارکہ نازل ہوئی، امام نووی ؒ کا بھی اسی جانب رجحان ہے اور خطیب بھی یہی کہتے ہیں کہ ممکن ہے یہ دونوں واقعے ایک ہی وقت پیش آئے ہوں۔ نیز حافظ بن حجر عسقلانی ؒ ان دونوں واقعات میں موافقت بیان کرتے ہیں کہ ممکن ہے حضرت ہلال ؓ کا واقعہ پیش آنے پر پہلے آیت کریمہ کا نزول ہوچکا ہو پھر جب حضرت عویمر ؓ اپنا واقعہ لے کر آئے اور انھیں اس بات کا علم نہ ہوا کہ حضرت ہلال ؓ کا کیا واقعہ ہوچکا ہے تو رسول اکرم ﷺ نے انھیں اس حکم سے مطلع فرما دیا یہی وجہ ہے کہ حضرت ہلال ؓ کے واقعہ میں تو یہ الفاظ ہیں کہ پھر جبریل امین نازل ہوئے اور حضرت عویمر ؓ کے واقعہ میں یہ الفاظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے بارے میں حکم نازل کردیا ہے یعنی تمہارے جیسا واقعہ پیش آچکا ہے اس کے اندر حکم نازل ہوگیا اور ابن الصباغ نے بھی شامل میں یہی جواب دیا ہے اور امام قرطبی کا میلان اس جانب ہے کہ دو مرتبہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ہو کیوں کہ نزول آیت دو مرتبہ جائز ہے۔ اور بزار ؒ نے زیدبن مطیع ؒ کے ذریعے حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ سے فرمایا اگر تم ام رومان کے ساتھ کسی اجنبی کو دیکھو تو تم کیا کرو گے، حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا میں ایسے شخص کے ساتھ بہت برا پیش آؤں گا پھر آپ حضرت عمر ؓ کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا عمر تم کیا کرو گے حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں ایسے شخص پر اللہ تعالیٰ کی لعنت بھیجوں گا اور ایسا شخص خبیث ہے، تب یہ آیت نازل ہوئی، حافظ بن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں اسباب النزول کے زیادہ تعداد میں ہونے میں کوئی حرج نہیں۔
Top