Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
مومنو ! خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جو (اس نے) تم پر (اس وقت کی) جب فوجیں تم پر حملہ کرنے کو) آئیں تو ہم نے ان پر ہوا بھیجی اور ایسے لشکر (نازل) کئے جن کو تم دیکھ نہیں سکتے تھے اور جو کام تم کرتے ہو خدا ان کو دیکھ رہا ہے
اے ایمان والو اللہ تعالیٰ کا انعام و احسان اپنے اوپر یاد کرو کہ تم سے دشمن کو سخت آندھی اور فرشتوں کی مدد سے بھگا دیا جب تم پر کفار کے بہت سے لشکروں نے چڑھائی کردی تھی پھر ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی اور فرشتوں کی جماعت کو مسلط کیا اور اللہ تعالیٰ تمہاری خندق کھودنے کو دیکھ رہے تھے۔ شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا (الخ) امام بیہقی نے دلائل میں حضرت حذیفہ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ہم نے غزوہ احزاب کی رات کا منظر دیکھا ہے۔ ہم سب صف بنائے ہوئے بیٹھے تھے۔ ابو سفیان اور اس کے ساتھ جو لشکر تھا وہ اوپر کی طرف تھے اور بنو قریظہ نیچے کی طرف۔ ان کی وجہ سے ہمیں اپنے بچوں کا خوف تھا اور اس رات سے زیادہ سخت تاریک اور سخت آندھی والی رات ہم پر کبھی نہیں آئی۔ چناچہ منافقین رسول اکرم ﷺ سے یہ کہہ کر اجازت طلب کرنے لگے کہ ہمارے گھر خالی ہیں اور حقیقت میں وہ خالی نہ تھے مگر ان منافقین میں سے جو بھی آپ سے جانے کی اجازت طلب کرتا تھا آپ اس کو اجازت دے دیتے تھے چناچہ یہ سب کے سب میدان جنگ سے نکل گئے۔ جب ہم باری باری رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے تو آپ نے مجھ سے فرمایا دشمن کی قوم کی خبر لاؤ۔ چناچہ میں آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سخت ترین آندھی ان کے لشکر میں موجود ہے اور ان کا لشکر تھوڑا سا بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹا۔ اللہ کی قسم میں پتھروں کی آواز ان کے کچاو وں میں سے سن رہا تھا اور ہوا اس کے ذریعے ان کو مار رہی تھی اور وہ ایک دوسرے سے جلدی بھاگنے کو کہہ رہے تھے۔ چناچہ میں نے آکر اس قوم کی حالت بیان کردی اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی اے ایمان والو اللہ کا انعام اپنے اوپر یاد کرو۔ اور ابن ابی حاتم اور بیہقی نے دلائل میں بواسطہ کثیر بن عبداللہ، عبداللہ بن عمرو، عمرو مزنی سے روایت نقل کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے غزوہ خندق کے سال خندق کھودنا شروع فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے خندق کے درمیان سے ایک سفید گول پتھر نکالا رسول اکرم ﷺ نے کھدال لے کر اس پر ایسی ماری کہ وہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور اس میں سے ایسی روشنی نکلی جس سے مدینہ منورہ کے دونوں کنارے روشن ہوگئے آپ سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے پہلی مرتبہ جو اس پتھر کے مارا تو میرے سامنے حیرہ کے محلات اور مدائن کسری روشن ہوگئے اور مجھے جبریل امین نے بتلایا کہ میری امت ان مقامات پر غلبہ پائے گی اور پھر میں نے دوسری مرتبہ جو مارا تو میرے سامنے سرزمین روم میں حمر کے محلات روشن ہوگئے اور مجھے جبریل امین نے اطلاع دی کہ میری امت ان مقامات پر بھی غلبہ پائے گی اور پھر میں نے تیسری مرتبہ مارا تو صنعاء کے محلات نظر آئے اور جبریل امین نے مجھے بتایا کہ آپ کی امت ان مقامات کو بھی فتح کرے گی۔ اس پر منافقین کہنے لگے کہ کیا تم لوگوں کو تعجب نہیں ہوتا کہ یہ تم سے باتیں کرتے ہیں اور تمہیں امیدیں دلاتے اور تم سے جھوٹے وعدے کرتے ہیں اور یہ تم سے کہتے ہیں کہ یہ مدینہ سے حیرہ کے محلات اور مدائن کسری دیکھ رہے ہیں اور یہ کہ تم ان شہروں کو فتح کرو گے۔ حالانکہ اس وقت کھدالوں سے تم خندق کھود رہے ہو مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے اس پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی : واذ یقول المنافقون والذین فی قلوبھم مرض الخ۔ یعنی جبکہ منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے یوں کہہ رہے تھے۔ اور جبیر بن ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت معتب بن قشیر انصاری کے بارے میں نازل ہوئی جو اس بات کا کہنے والا تھا۔ اور ابن اسحاق اور بیہقی نے بھی عروہ بھی زبیر اور محمد بن کعب قرضی سے روایت نقل کی ہے کہ معتب بن قشیر کہنے لگا کہ محمد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ قیصر و کسری کے خزانے دکھا رہے ہیں اور ہم میں سے کوئی اطمینان کے ساتھ بیت الخلاء تک بھی نہیں جاسکتا اور اوس بن قیظی نے اپنی ایک جماعت کے ساتھ کہا کہ ہمارے گھر مدینہ منورہ سے بارہ ہیں۔ سو ہمیں اپنی عورتوں اور بچوں میں جانے کی اجازت دیجیے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اکرم کی زبانی جبکہ ان لوگوں کی وجہ سے گھبراہٹ تھی اور شدت کا عالم تھا اپنی نعمتوں کو یاد دلانے اور ان لوگوں کو کافی م ہیں ے کے بارے میں جبکہ ان منافقین کی طرف سے بدگمانی ہورہی تھی اور یہ منافقین باتیں ملا رہے تھے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
Top