Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 59
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے (ایمان والے) اَطِيْعُوا : اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو الرَّسُوْلَ : رسول وَاُولِي الْاَمْرِ : صاحب حکومت مِنْكُمْ : تم میں سے فَاِنْ : پھر اگر تَنَازَعْتُمْ : تم جھگڑ پڑو فِيْ شَيْءٍ : کسی بات میں فَرُدُّوْهُ : تو اس کو رجوع کرو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَالرَّسُوْلِ : اور رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ : تم ایمان رکھتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ : اور روز الْاٰخِرِ : آخرت ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر وَّاَحْسَنُ : اور بہت اچھا تَاْوِيْلًا : انجام
مومنو ! خدا اور اس کے رسول کی کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہے ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اسکے رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو اور یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے
(59) عثمان بن طلحہ ؓ اور ان کے ساتھیوں، احکام خداوندی میں اس کا اور نیز حکام اور علماء کا کہنا مانو اور اگر کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اگر بعث بعد الموت پر ایمان رکھتے ہو تو اس چیز کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے حوالہ کردیا کرو۔ اس کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ شان نزول : (آیت) ”یایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ“۔ (الخ) حضرت امام بخاری ؒ وغیرہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن حذافیہ بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی جب رسول اللہ ﷺ نے ان کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا تھا۔ داؤدی کہتے ہیں کہ یہ ابن عباس ؓ عنہپر جھوٹ ہے کیوں کہ عبداللہ بن حذافہ ایک لشکر کے امیر بن کر روانہ ہوئے، انھوں نے ناراض ہو کر آگ روشن کی اور لشکر کو بھی آگ روشن کرنے کا حکم دیا، چناچہ بعض نے اس سے کنارہ کش رہنے اور بعض نے حکم کی اطاعت کرنے کا ارادہ کیا اگر آیت اس واقعہ سے قبل نازل ہوئی ہے تو یہ عبداللہ بن حذیفہ کے ساتھ کیسے خاص ہوسکتی ہے۔ اور اگر آیت بعد میں نازل ہوئی ہے تو لوگوں کو تو امر بالمعروف میں اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس موقع پر عدم اطاعت کی بنا پر ان سے کسی قسم کی باز پرس نہیں کی گئی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ مقصود یہ ہے کہ اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہے (ان کی اطاعت کے بارے میں نازل نہیں ہوئی) کیوں کہ لشکر والے آگ سے بچنے کی وجہ سے حکم کی بجا آوری میں رائے میں اختلاف ہوا تو اس وقت اس حکم کا نازل ہونا مناسب ہوا کہ اس قسم کے اختلاف کے وقت لوگوں کو کس قسم کا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے، اس کی جانب رہنمائی ہوجائے۔ اور وہ رہنمائی کا طریقہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی طرف کا معاملہ کا حوالہ کردیتا ہے اور ابن جریر ؒ نے روایت کیا ہے عمار بن یاسر ؓ نے بغیر ان کی اجازت کے ایک شخص کو پناہ دے دی اس پر دونوں میں اختلاف ہوا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top