Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 60
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖ١ؕ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَزْعُمُوْنَ : دعویٰ کرتے ہیں اَنَّھُمْ : کہ وہ اٰمَنُوْا : ایمان لائے بِمَآ اُنْزِلَ : اس پر جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف وَمَآ اُنْزِلَ : اور جو نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَحَاكَمُوْٓا : مقدمہ لے جائیں اِلَى : طرف (پاس) الطَّاغُوْتِ : طاغوت (سرکش) وَقَدْ اُمِرُوْٓا : حالانکہ انہیں حکم ہوچکا اَنْ : کہ يَّكْفُرُوْا : وہ نہ مانیں بِهٖ : اس کو وَيُرِيْدُ : اور چاہتا ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَنْ : کہ يُّضِلَّھُمْ : انہیں بہکادے ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب ہر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لیجا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر راستے سے دور ڈال دے
(60) اے محمد ﷺ کیا آپ کو ان لوگوں کی اطلاع نہیں جو قرآن کریم اور توریت کی پیروی کے دعویدار ہو کر بھی اپنے فیصلے کعب بن اشرف کے پاس لے جانا چاہتے ہیں، حالانکہ کہ قرآن کریم میں ان کو اس سے کنارہ کشی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شان نزول : (آیت) ”الم ترالی الذین یزعمون“۔ (الخ) ابن ابی حاتم ؒ اور طبرانی ؒ نے سند صحیح کے ساتھ ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ابوبرزہ اسلمی کاہن تھے، یہودیوں کے جھگڑوں میں ان کے درمیان فیصلہ کیا کرتے تھے ، مسلمانوں میں سے کچھ لوگ بھی ان کے پاس گئے اس پر اللہ تعالیٰ نے (آیت) ”الم تر الی الذین“۔ سے ”احسانا وتوفیقا“۔ تک یہ آیات نازل فرمائیں۔ اور ابن ابی حاتم ؒ نے عکرمہ ؒ یا سعید ؒ کے واسطہ سے ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ جلاس بن صامت، معتب بن قشیر اور رافع بن زید اور بشر، یہ لوگ اسلام کے دعویدار تھے، ان کی قوم کے کچھ مسلمانوں نے ایک جھگڑے میں ان لوگوں کو رسول اللہ ﷺ سے فیصلہ کرانے کی دعوت دی، مگر ان لوگوں نے زمانہ جاہلیت میں جو کاہن فیصلہ کیا کرتے تھے ان کی طرف مسلمانوں کو بلایا، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ، اور ابن جریر ؒ نے شعبی ؒ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک یہودی اور ایک منافق میں جھگڑا ہوا، یہودی نے کہا آؤ تمہارے نبی سے فیصلہ کراتے ہیں، کیوں کہ وہ فیصلہ کرنے میں رشوت نہیں لیتے مگر دونوں میں اس پر جھگڑا ہوا، آخر کار قبیلہ جہینہ کے ایک کاہن سے فیصلہ کرانے پر رضا مند ہوئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top