Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 83
وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ١ؕ وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِی الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ١ؕ وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا
وَاِذَا : اور جب جَآءَھُمْ : ان کے پاس آتی ہے اَمْرٌ : کوئی خبر مِّنَ : سے (کی) الْاَمْنِ : امن اَوِ : یا الْخَوْفِ : خوف اَذَاعُوْا : مشہور کردیتے ہیں بِهٖ : اسے وَلَوْ : اور اگر رَدُّوْهُ : اسے پہنچاتے اِلَى الرَّسُوْلِ : رسول کی طرف وَ : اور اِلٰٓى : طرف اُولِي الْاَمْرِ : حاکم مِنْھُمْ : ان میں سے لَعَلِمَهُ : تو اس کو جان لیتے الَّذِيْنَ : جو لوگ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ : تحقیق کرلیا کرتے ہیں مِنْھُمْ : ان سے وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ فَضْلُ : فضل اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت لَاتَّبَعْتُمُ : تم پیچھے لگ جاتے الشَّيْطٰنَ : شیطان اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند ایک
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اسے مشہور کردیتے ہیں اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہنچا دیتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کرلیتے اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند اشخاص کے سوا سب شیطان کے پیرو ہوجاتے
(83) اور ان منافقین کی خیانت اور بددیانتی کا یہ حال ہے کہ جب کسی لشکر کی کامیابی اور غنیمت ملنے کی ان کو اطلاع ملتی ہے تو حسد میں اسے چھپا لیتے ہیں اور اگر مجاہدین کے لشکر کے بارے میں کسی پریشان مثلا شکست کھاجانے وغیرہ کی خبران کو پہنچتی ہے تو سب جگہ اس کی تشہیر کرتے پھرتے ہیں۔ اور اگر یہ اس لشکر کی خبر کو رسول اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ وغیرہ کے حوالے کردیتے ہیں، جو ایسی باتوں کو پوری گہرائی کے ساتھ سمجھتے ہیں تو اس خبر کے غلط و صحیح ہونے کو وہ حضرات پہچان ہی لیتے ہیں جو ان اہل ایمان میں ان امور کی تحقیق کرلیا کرتے ہیں تو پھر صحیح خبر ان لوگوں کو بھی معلوم ہوجاتی اور اگر اللہ کی طرف سے یہ توفیق خاص نہ ملی ہوتی تو چند لوگوں کے سوا سب ہی اس فتنہ میں گرفتار ہوجاتے۔ شان نزول : (آیت) ”واذا جآء ھم“۔ (الخ) امام مسلم ؒ نے حضرت عمر فاروق ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات سے علیحدگی اختیار فرمائی تو میں مسجد نبوی میں گیا، وہاں صحابہ کرام ؓ کو دیکھا کہ وہ کنکریوں سے کھیل رہے ہیں (یہ اضطراب اور پریشانی کے اظہار کا ایک اضطراری طریقہ ہے) اور یہ کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی، چناچہ میں نے مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہو کر بہت باآواز بلند کہا کہ آپ نے اپنی ازواج کو طلاق نہیں دی اور تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور جب ان لوگوں کو کسی امر کی خبر پہنچتی ہو، خواہ امن ہو یا خوف تو اسے مشہور کردیتے ہیں، عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں اہل ایمان کو میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے اس راز کو پہچانا۔
Top