Tafseer-Ibne-Abbas - At-Tawba : 102
وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا١ؕ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور اعْتَرَفُوْا : انہوں نے اعتراف کیا بِذُنُوْبِهِمْ : اپنے گناہوں کا خَلَطُوْا : انہوں نے ملایا عَمَلًا صَالِحًا : ایک عمل اچھا وَّاٰخَرَ : اور دوسرا سَيِّئًا : برا عَسَى : قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ : معاف کردے انہیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور کچھ اور لوگ ہیں کہ اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار کرتے ہیں۔ انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا۔ قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے۔ بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
(102) اور اہل مدینہ میں سے کچھ اور لوگ ہیں یعنی ودیعتہ بن جزام انصاری، ابولبابہ بن عبد المنذر انصارنی، ابوثعلبہ انہوں نے اپنی غلطی کا اقرار کرلیا، جو ان سے غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے کی بنا پر سرزد ہوئی ہے، اس سے پہلے جو غزوات ہوچکے ہیں، اس میں تو وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے اور اس غزوہ میں آپ کے ساتھ شرکت نہیں کی، سو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ان کی غلطی معاف کردی جائے گی، بیشک جو ان میں سے توبہ کرے، اللہ رب العزت اس کی بخشش کرنے والے اور جو توبہ پر مرے اس پر رحم کرنے والے ہیں (جب ان لوگوں کی توبہ قبول ہوگئی) تو رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں اپنا مال واسباب لیکر آئے اور عرض کیا کہ اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے کیوں کہ ہم اس مال واسباب ہی کی وجہ سے غزوہ تبوک میں نہیں گئے تو رسول اکرم ﷺ نے ان سے مال واسباب نہیں لیا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس چیز کا حکم نہیں دے دیا اور یہاں نہیں فرما دیا کہ کیا مال لینا چاہیے۔ شان نزول : (آیت) ”۔ واخرون اعترفوا“۔ (الخ) ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عوفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے واسطہ سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ جہاد کے لیے تشریف لے گئے، ابولبابہ اور ان کے پانچ ساتھیوں نے جہاد میں شرکت نہیں کی، اس کے بعد حضرت ابولبابہ اور ان کے ساتھ دو مزید حضرات کو اپنے اس فعل سے ندامت ہوئی اور ان حضرات کو اپنی ہلاکت کا پکا یقین ہوگیا اور کہنے لگے کہ ہم سکون و اطمینان کے ساتھ عورتوں سے لذت اٹھا رہے ہیں اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ جہاد میں مصروف ہیں، اللہ کہ قسم اب ہم اپنے آپ کو ستونوں سے باندھ دیں گے اور ان کو نہیں کھولیں گے یہاں تک کہ رسول اکرم ﷺ ہی خود کھولیں، چناچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور تین لوگ اپنی حالت پر باقی رہ گئے، انہوں نے اپنے آپ کو ستونوں سے نہیں باندھا۔ جب رسول اکرم ﷺ جہاد سے واپس تشریف لائے اور پوچھا کہ یہ ستونوں کے ساتھ کون حضرات بندھے ہوئے ہیں تو ایک شخص نے کہا یہ ابو لبابہ ؓ اور اس کے ساتھی ہیں جو جہاد میں شریک نہیں ہوسکے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرلیا ہے کہ اپنے آپ کو ستونوں سے نہیں کھولیں گے جب تک کہ آپ خود ان کو ستونوں سے نہ کھولیں، آپ نے یہ سن کر فرمایا میں تو اس وقت تک نہیں کھولوں گا جب تک کہ ان کے کھولنے کا مجھے حکم نہیں دیا جائے گا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی کچھ اور لوگ ہیں جو اپنی خطا کا اقرار کرتے ہیں جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی آپ نے ان کو کھول دیا اور ان کے عذر کو قبول فرمایا۔ اور وہ تین حضرات باقی رہ گئے جنہوں نے اپنے آپ کو ستونوں کے ساتھ نہیں باندھا تھا، انہوں نے کوئی عذر نہیں بیان کیا یہ وہی حضرات ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور کچھ لوگ ہیں جن کا معاملہ اللہ کے حکم کے آنے تک ملتوی ہے الخ۔ چناچہ ان تینوں حضرات کے بارے میں ایک جماعت کہنے لگی کہ یہ لوگ جب ان کے عذر کے بارے میں کوئی حکم الہی نازل ہوا تو یہ لوگ ہلاک ہوگئے اور دوسری جماعت کہتی تھی کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان حضرات کی توبہ قبول فرما لے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ”و علی الثلاثۃ الذین“۔ الخ۔ اور ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے علی ابن ابی طلحہ ؓ کے ذریعے سے ابن عباس ؓ سے اسی طرح روایت کی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے کہ جب ابولبابہ ؓ اور ان کے ساتھی کھول دیے گئے تو وہ اپنے مال لے کر حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ ہمارے اموال ہیں، ہم سے ان صدقہ قبول فرمالیجیے اور ہمارے لیے بخشش طلب فرمائیے، آپ نے فرمایا مجھے تمہارے اموال میں سے کسی چیز کے لینے کا حکم نہیں دیا گیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ”خذ من اموالہم صدقۃ“۔ (الخ) نیز یہ اتنی مقدار سعید بن جبیر، ؓ ضحاک ؓ زید بن اسلم ؓ وغیرہ سے بھی نقل کی ہے۔ اور عبد بن قتادہ ؓ سے روایت کی ہے کہ یہ آیت سات آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن میں سے چار آدمیوں نے یعنی ابو لبابہ ؓ فرداس ؓ ، اوس بن جذام ؓ اور ثعلبۃ بن ودیعہ ؓ نے اپنے خود کو ستونوں سے باندھ لیا تھا۔ اور ابو الشیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن مندہ نے صحابہ کے بیان میں، ثوری، اعمش، ابوسفیان کے ذریعہ سے جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ غزوہ تبوک میں جن حضرات نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ شرکت نہیں کی، وہ چھ آدمی تھے، ابولبابہ ؓ اوس بن جذام ؓ ثعلبہ بن ودیعہ ؓ کعب بن مالک ؓ مرارہ بن ربیع ؓ ، ہلال بن امیہ ؓ ، چناچہ ابولبابہ ؓ ، اوس اور ثعلبہ نے آکرخود کو ستونوں سے باندھ لیا اور اپنے مال واسباب لے کر آئے اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ یہ جہاد میں شریک نہ ہونے کے عوض ہے، آپ نے فرمایا جب تک کہ قتال نہ ہو میں ان کو نہیں کھولوں گا، اس پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی اس روایت کی اسناد قوی ہیں۔ اور ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایسی سند کے ساتھ جس میں واقدی ہے ام سلمہ ؓ سے روایت کی ہے، فرماتی ہیں کہ ابولبابہ ؓ کی توبہ میرے حجرے میں نازل ہوئی، میں نے سحر کے وقت رسول اکرم ﷺ کے ہنسنے کی آواز سنی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا کافر لوگ آپ کو ہنسا رہے ہیں، آپ نے فرمایا ابولبابہ کی توبہ قبول ہوگئی ، میں نے عرض کیا تو ان کو اطلاع کر دوں، آپ نے فرمایا جیسے تمہاری مرضی، تو میں حجرے کے دروازہ پر کھڑی ہوئی اور یہ (واقعہ پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے) میں نے کہا ابولباب ؓ آپ کے لیے خوشخبری ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی توبہ قبول فرمائی، یہ سن کر صحابہ کرام ؓ ان کو کھولنے کے لیے دوڑے تو انہوں نے فرمایا جب تک رسول اکرم ﷺ مجھ کو نہ کھولیں کوئی اور نہ کھولے، جب آپ ﷺ صبح کی نماز کے لیے تشریف لے گئے تو آپ ﷺ نے ان کو کھول دیا اور یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ”واخرون اعترفوا“۔ (الخ) (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)
Top