Tafseer-Ibne-Abbas - At-Tawba : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا : معاف کرے اللّٰهُ : اللہ عَنْكَ : تمہیں لِمَ : کیوں اَذِنْتَ : تم نے اجازت دی لَهُمْ : انہیں حَتّٰي : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : ظاہر ہوجائے لَكَ : آپ پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے وَتَعْلَمَ : اور آپ جان لیتے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
خدا تمہیں معاف کرے۔ تم نے پیشتر اس کے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہوجاتے جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہوجاتے جو جھوٹے ہیں انکو اجازت کیوں دی ؟
(43) اے نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف کردیا، لیکن آپ نے ان منافقین کو شرکت نہ کرنے کی اتنی جلدی کیوں اجازت دے دی، جب تک کہ آپ کے ساتھ نکل کر ایمان والوں کی سچائی ظاہر نہ ہوجاتی، اور آپ ﷺ جھوٹے لوگوں کے ایمان کو معلوم کرلیتے کہ وہ بغیر آپ ﷺ کی اجازت کے جہاد رہ گئے۔ شان نزول : (آیت) ”عفا اللہ عنک“۔ (الخ) ابن جریر ؒ نے عمر بن میمون ازدی سے روایت کیا ہے کہ دو باتیں رسول اکرم ﷺ نے ایسی کیں جن میں اللہ کی طرف سے اس وقت تک کوئی صاف حکم نہیں دیا گیا تھا ایک تو منافقین کو عدم شرکت کی اجازت دے دی اور دوسری غزوہ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لے لیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف تو فرما دیا لیکن (حیرت سے دریافت کیا کہ) آپ نے ان کو اجازت کیوں دی تھی۔
Top