Tafseer-Ibne-Abbas - At-Tawba : 86
وَ اِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ اَنْ اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ جَاهِدُوْا مَعَ رَسُوْلِهِ اسْتَاْذَنَكَ اُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَ قَالُوْا ذَرْنَا نَكُنْ مَّعَ الْقٰعِدِیْنَ
وَاِذَآ : اور جب اُنْزِلَتْ : نازل کی جاتی ہے سُوْرَةٌ : کوئی سورت اَنْ : کہ اٰمِنُوْا : ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو مَعَ : ساتھ رَسُوْلِهِ : اس کا رسول اسْتَاْذَنَكَ : آپ سے اجازت چاہتے ہیں اُولُوا الطَّوْلِ : مقدور والے مِنْهُمْ : ان سے وَقَالُوْا : اور کہتے ہیں ذَرْنَا : چھوڑ دے ہمیں نَكُنْ : ہم ہوجائیں مَّعَ : ساتھ الْقٰعِدِيْنَ : بیٹھ رہ جانے والے
اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے کہ خدا پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ ہو کر لڑائی کرو۔ تو جو ان میں دولت مند ہیں وہ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں تو رہنے ہی دیجئے کہ جو لوگ گھروں میں رہیں گے ہم بھی انکے ساتھ رہیں۔
(86) اور جب کبھی کوئی ٹکڑا قرآن کریم کا اس مضمون کے بارے میں نازل کیا جاتا ہے اور اس میں حکم دیا جاتا ہے کہ خلوص دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ساتھ جہاد کرو تو محمد ﷺ ان منافقین یعنی عبداللہ بن ابی، جدی بن قیس، اور معتب بن قشیر میں سے مقدوروالے آپ سے رخصت مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے محمد ﷺ ہمیں اجازت دیجیے ہم بھی یہاں ٹھہرنے والوں کے ساتھ رہ جائیں۔
Top