Tafseer-e-Majidi - Al-Ankaboot : 23
وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذِیْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَجَآءَ : اور آئے الْمُعَذِّرُوْنَ : بہانہ بنانے والے مِنَ : سے الْاَعْرَابِ : دیہاتی (جمع) لِيُؤْذَنَ : کہ رخصت دی جائے لَهُمْ : ان کو وَقَعَدَ : بیٹھ رہے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَبُوا : جھوٹ بولا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول سَيُصِيْبُ : عنقریب پہنچے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا مِنْهُمْ : ان سے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور جو لوگ اللہ کی نشانیوں اور سامنے جانے کے منکر ہیں وہی تو ہیں جو میری رحمت سے مایوس ہوں گے،23۔ اور وہی تو ہیں جنہیں عذاب دردناک ہوگا
23۔ (قیامت کے دن) یعنی جب انکشاف حقائق کا وقت ہوگا تو انہیں خود مشاہدہ ہوجائے گا کہ ہم تو محل رحمت ہی نہیں ! (آیت) ” یئسوا “۔ صیغہ ماضی ہے لیکن یہاں مضارع کے معنی کھلے ہوئے ہیں، اور جس مستقبل کا تحقق یعنی ہے اس کے لیے ماضی کا صیغہ لے آنے کا دستور عربی فن بلاغت میں عام ہے۔ (آیت) ” رحمتی۔ عذاب الیم “۔ امام رازی (رح) نے کہا ہے کہ عذاب کو یوں بھی مطلق چھوڑ دینا اور رحتم کا انتساب اپنی جانب صیغہ واحد متکلم کے ساتھ کرنا، یہ خود غلبہ رحمت الہی کے آثار میں سے ہے۔
Top