Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 229
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
اَلطَّلَاقُ
: طلاق
مَرَّتٰنِ
: دو بار
فَاِمْسَاكٌ
: پھر روک لینا
بِمَعْرُوْفٍ
: دستور کے مطابق
اَوْ
: یا
تَسْرِيْحٌ
: رخصت کرنا
بِاِحْسَانٍ
: حسنِ سلوک سے
وَلَا
: اور نہیں
يَحِلُّ
: جائز
لَكُمْ
: تمہارے لیے
اَنْ
: کہ
تَاْخُذُوْا
: تم لے لو
مِمَّآ
: اس سے جو
اٰتَيْتُمُوْھُنَّ
: تم نے دیا ان کو
شَيْئًا
: کچھ
اِلَّآ
: سوائے
اَنْ
: کہ
يَّخَافَآ
: دونوں اندیشہ کریں
اَلَّا
: کہ نہ
يُقِيْمَا
: وہ قائم رکھ سکیں گے
حُدُوْدَ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
فَاِنْ
: پھر اگر
خِفْتُمْ
: تم ڈرو
اَلَّا يُقِيْمَا
: کہ وہ قائم نہ رکھ سکیں گے
حُدُوْدَ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
فَلَاجُنَاحَ
: تو گناہ نہیں
عَلَيْھِمَا
: ان دونوں پر
فِيْمَا
: اس میں جو
افْتَدَتْ
: عورت بدلہ دے
بِهٖ
: اس کا
تِلْكَ
: یہ
حُدُوْدُ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
فَلَا
: پس نہ
تَعْتَدُوْھَا
: آگے بڑھو اس سے
وَمَنْ
: اور جو
يَّتَعَدَّ
: آگے بڑھتا ہے
حُدُوْدَ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
فَاُولٰٓئِكَ
: پس وہی لوگ
ھُمُ
: وہ
الظّٰلِمُوْنَ
: ظالم (جمع)
طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کردیا جائے اور رخصت کرتے وقت ایسا کرنا تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو ، البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو۔ ایسی صورت میں اگر انہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے ۔ تو ان کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرے ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ۔ ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں ، وہی ظالم ہیں ۔ “
وہ طلاق جن کے بعد ، فریقین ازدواجی زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں دو ہیں ۔ اگر خاوند ان دو سے بھی آگے بڑھ جائے تو پھر ان کے درمیان زادواجی تعلقات صرف اس صورت میں قائم ہوسکتے ہیں ، جس کی تشریح اگلی آیات میں آرہی ہے ۔ یعنی یہ کہ پہلے وہ کسی دوسرے خاوند سے جدا ہوجائے ۔ صرف اس صورت میں پہلے خاوند کے لئے ، جس نے تین طلاقوں کا حق استعمال کرلیا تھا ، یہ جائز ہے کہ اس عورت سے دوبارنکاح کرے بشرطیکہ یہ عورت ازسر نو اس کے ساتھ نکاح کرنے پر راضی ہو۔ اس پابندی کے عائد ہونے کی وجہ کے بارے میں بعض روایات میں آتا ہے کہ اسلامی دور آغاز میں بھی (جاہلیت کی طرح) طلاقوں کی تعداد مقرر نہ تھی ۔ اور مرد کو یہ حق بھی حاصل تھا کہ وہ ہر طلاق کے دوران عدت رجوع کرسکے ۔ چناچہ بعض لوگ اسی طرح طلاق دیتے ، پھر رجوع کرتے اور یوں ہی یہ سلسلہ چلتا رہتا ۔ اسلامی دور میں انصار میں سے ایک صاحب کی اپنی بیوی کے ساتھ ان بن ہوگئی ، اس نے بیوی سے کہا اللہ کی قسم نہ میں تجھے اپنے قریب چھوڑوں گا اور نہ ہی تجھے اپنے سے جدا کروں گا ۔ اس نے کہا کیونکر ہوگا ؟ اس نے کہا میں تجھے طلاق دوں گا ، لیکن جب عدت کا وقت قریب آئے گا تو میں رجوع کرلوں گا ۔ وہ پریشان ہوئی اور اس نے رسول اللہ ﷺ سے یہ شکا یت کی ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ وحی آئی الطَّلاقُ مَرَّتَانِ ” طلاقیں دو ہیں۔ “ اللہ نے اسلامی نظام کے نزول احکام میں حکیمانہ پالیسی اختیار کی جب بھی کسی حکم کی ضرورت پڑی ، حکم نزال کردیا گیا۔ اور اس طرح بتدریج پورے احکام نازل ہوگئے ۔ اور اسلامی زندگی کے اصول مکمل کرلئے گئے ۔ اب جو کام رہ گیا تھا وہ جزوی اور نئے حالات پر ان اصولی احکام کی تطبیق کا تھا کہ اصول کی روشنی میں جزئیات کے حل معلوم کئے جائیں۔ اس پابندی کے نتیجے میں طلاقوں کی تعداد محدود ہوگئی ۔ اب وہ سابقہ صورت حال باقی نہ رہی کہ خاوند مسلسل طلاق دیتا جائے اور اس کو بازیچہ اطفال بنادے ۔ اب طریق کار یہ ہوگیا کہ جب مرد عورت کو ایک مرتبہ طلاق دے دے تو وہ دوران عدت کسی قانونی پیچیدگی کے بغیر اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے ۔ اور اگر یوں ہی عدت گزرجائے تو عورت جدا ہوجائے گی جسے فقہ میں ” بائنہ “ کہتے ہیں ۔ اب بھی عدت کا عرصہ گزرجانے کے بعد وہ محض رجوع سے واپس نہیں لے سکتا ۔ بلکہ اسے ایک نئے نکاح کے ذریعہ ، اور ایک نیا مہر مقرر کرکے عورت کی رضا سے اسے واپس نکاح میں لانا ہوگا ۔ ایک طلاق کے بعد مرد عورت کو دوران عدت میں واپس لے لے ، رجوع کرکے یا عدت گزرنے کے بعد وہ نکاح تازہ کرلے اور جدید مہر کے ساتھ عورت کو واپس کرلے دونوں صورتیں جائز ہیں۔ اس کے بعد اگر دوسری مرتبہ یہ خاوند پھر اسے ایک طلاق دے دیتا ہے تو بھی اسے یہی حق حاصل ہوگا۔ یعنی دوران عدت میں رجوع اور بعد از عدت نکاح جدید ۔ لیکن اگر وہ تیسری مرتبہ طلاق دے دے تو اس صورت میں یہ عورت اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہوجائے گی ۔ فقہی اصطلاح میں اسے عظیم جدائی (بینونت کبریٰ ) کہتے ہیں ۔ تیسری مرتبہ طلاق دیتے ہی عورت بائن ہوجائے گی یعنی جدا تصور ہوگی ۔ اب یہ مرد دوران عدت رجوع کا حق استعمال نہیں کرسکتا ، نہ وہ نکاح جدید کرسکتا ہے ۔ الایہ کہ اس عورت کا نکاح کسی دوسرے مرد سے ہوجائے اور یہ دوسرا خاوند اپنی ازدواج زندگی کے دوران اسے طلاق دے دے ، پھر رجوع نہ کرے یا یہ دوسرا خاوند بھی تین طلاقوں کا حق استعمال کرے اور عورت ہمیشہ کے لئے جدا ہوجائے تو پھر پہلے مرد کے لئے جائز ہے کہ وہ اس عورت کو اپنے نکاح میں لے لے ۔ لیکن یہ سب کام اپنی قدرتی رفتار سے ہونا چاہئے۔ پہلی طلاق ایک کسوٹی اور ایک معیار ہے جیسا کہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں ۔ دوسری طلاق دوبارہ آزمائش اور ایک آخری تجربہ ہے ۔ دوسری طلاق کے بعد اگر زندگی کی گاڑی چل پڑے تو فبہا ورنہ تیسری طلاق اس بات کا بین ثبوت فراہم کردیتی ہے کہ زوجین کے درمیان طبائع اور مزاجوں کا اختلاف بہت ہی بنیادی نوعیت کا ہے اور ناقابل اصلاح ہے۔ بہرحال طلاق بھی ایک آخری علاج ہے ۔ کوششوں کے بعد بھی اگر فریقین کے درمیان مصالحت کا کوئی امکان نہ رہے تو پھر یہی بہتر ہے کہ دائمی جدائی ہوجائے ۔ اگر دوطلاقیں ہوجائیں تو پھر بیوی کو یا تو معروف طریقے سے رکھنا ہے اور نرمی و محبت کا نئے سرے سے آغاز کرنا ہے اور پا پھر بھلے انداز میں حسن و خوبی کے ساتھ ، احسان کے ساتھ ، شرافت کے ساتھ اس کو رخصت کردینا ہے ، یعنی تیسری مرتبہ طلاق دے کر ، جس کے بعد عورت کو پھر زندگی کی نئی لائن اختیار کرنی ہوتی ہے ۔ یہ ہے حقیقت پسندانہ قانون سازی ، جو انسان کے حقیقی واخلاقی زندگی کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے ۔ اور جو عائلی زندگی کے پیچیدہ مسائل کا بہترین اور عملی (Paractical) حل پیش کرتی ہے ۔ اس قانون سازی میں ایسی شدت بھی نہیں ہے جو مفید نہ ہو ، انسان کو ایسے اخلاقی نظام میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتی جو اس کی جبلت سے متصادم ہو ، نہ یہ قانون سازی انسان اور اس کی قوتوں کو مہمل چھوڑنے پر اصرار کرتی ہے ، اگر یہ اسے یوں ہی چھوڑدیتے ہیں کوئی فائدہ نہ ہو۔ ازدواجی زندگی کے دوران مرد نے عورت کو جو مہر دیا ہے ، یا اس پر مختلف قسم کے جو اخراجات کئے ہیں ، مرد کے لئے جائز نہیں ہے کہ تیسری مرتبہ طلاق کے بعد ، وہ اس سے کوئی چیز واپس لینے کا حق دار بن جاتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ عورت کو ذاتی اسباب کی بناپر ذاتی جذبات اور بمقتضائے طبیعت مرد ناپسند ہو اور عورت یہ محسوس کرتی ہو کہ اس نفرت اور کراہت کی وجہ سے وہ اس خاوند کے ساتھ حدودالٰہی کی پابندی کرتے ہوئے زندگی بسر نہیں کرسکتی ۔ وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کے ساتھ حسن معاشرت سے پیش آئے ۔ اس کے ادب کا خیال رکھے یا اس کی عزت وآبرو بچائے اور عفیفانہ زندگی بسر کرسکے تو ایسے حالات میں عورت کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ مرد سے طلاق طلب کرے ۔ اس صورت میں یہ عورت چونکہ محض ذاتی وجوہات کی بناپر اس مرد کے جذبات مجروح کرتی ہے اور اس کے خاندان اور گھر کو خراب کررہی ہے ۔ اور اس میں بیچارے مرد کا کوئی ذاتی قصور نہیں ہے ۔ اس لئے اس عورت کا فرض ہے وہ مہر واپس کردے ۔ یہ محض اس لئے کہ عورت اللہ کی معصیت سے بچے ، اس کی حدود توڑنے کا موقع اسے نہ ملے ، اور نہ اپنے نفس پر اور نہ دوسروں پر مصیبت لانے کے مواقع پیدا ہوں۔ یہ ہے اسلامی نظام زندگی ، جس میں لوگوں کو پیش آنے والے تمام واقعی حالات زندگی کی رعایت کی گئی ہے ۔ اس میں انسانی جذبات اور فطری پسند وناپسند کا بھی خاطر خواہ لحاظ رکھا گیا ہے ، جن پر خود انسان کو کنٹرول نہ ہو ، بیوی کو بھی مجبور نہیں کیا گیا کہ وہ اپنی پوری زندگی ایک ایسے شخص کے ساتھ بسر کردے جسے وہ پسند ہی نہیں کرتی ، اس سے طبعاً متنفر ہے ، اور ساتھ ہی مرد کے حقوق کو بھی نظر انداز نہیں کرتی ۔ جس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ اس طبعی نفرت اور مزاج کی ناہمواری کے پیدا کرنے میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ اس آیت کی اہمیت اور اس کے دوررس نتائج تک پہنچنے کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم قارئین کے سامنے وہ واقعی حالات بھی رکھ دیں جن حالات کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنایا اور اسے نافذ کیا گیا۔ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے اس ربانی نظام زندگی میں کس حقیقت پسندی ، کس دقت نظری ، کس میانہ روی اور عدل و انصاف کے کس اونچے معیار کو پیش نظررکھا گیا ہے ۔ امام مالک (رح) نے اپنی مشہور کتاب مؤطا میں روایت کی ہے کہ حبیبہ بنت سہل انصاری ، ثابت ابن قیس ابن شماس کی بیوی تھیں ۔ رسول اللہ ﷺ صبح اندھیرے منہ گھر سے باہر نکلے تو دیکھا کہ صبح کی تاریکی میں حبیبہ کھڑی ہیں ۔ رسول ﷺ نے فرمایا کون ہوسکتی ہیں یہ ؟ کہنے لگی میں حبیبہ بنت سہیل ہوں جناب ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! ایسے وقت میں کیسے ؟ کہنے لگی اللہ کے رسول ﷺ میں کسی صورت میں بھی ثابت ابن قیس کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔ اس کے بعد ثابت بن قیس بلائے گئے تو رسول ﷺ نے فرمایا ! ثابت ، یہ حبیبہ ہے اس نے میرے سامنے تمہارے بارے میں وہ باتیں کی ہیں جو اللہ کو منظور ہوں گی۔ اس پر حبیبہ نے کہا اللہ کے رسول ﷺ ” اس نے مجھے جو کچھ دیا ہے وہ میرے پاس محفوظ ہے۔ “ اس پر رسول ﷺ نے ثابت سے کہا اس سے لے لو چناچہ اس نے وہ سب کچھ لے لیا اور حبیبہ اپنے اہل خاندان کے پاس چلی گئی۔ امام بخاری (رح) نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ ثابت ابن قیس ابن شماس کی بیوی رسول ﷺ کے پاس آئیں ۔ کہنے لگیں میں اس کسی بےدینی وبداخلاقی کا الزام نہیں لگاتی ۔ لیکن میں نہیں چاہتی کہ ہم مسلمان ہوکر کفر کا ارتکاب کریں۔ رسول ﷺ نے فرمایا !” کیا تم اس باغ کو واپس کردو گی جو اس نے تمہیں (بطورمہر) دیا ہے ؟ “ اس نے کہا :” ہاں “ رسول ﷺ نے فرمایا :” ثابت ! اپنا باغ واپس لے لو اور اسے ایک طلاق دے دو ۔ “ ایک دوسری روایت میں ذرا زیادہ تفصیل آئی ہے ۔ ابن جریر (رح) نے نقل کیا ہے کہ ابوجریر (رح) نے عکرمہ (رح) سے دریافت کیا : کیا خلع کی کوئی شرعی حقیقت ہے ؟ عکرمہ (رح) نے جواب دیا حضرت ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے اسلام میں پہلا خلع عبداللہ ابن ابی کی بہن کا ہوا۔ وہ رسول ﷺ کے پاس آئیں اور کہا : اللہ کے رسول ﷺ ، میرا سر اس چیز کے سر کے ساتھ ہرگز جمع نہیں ہوسکتا ۔ میں نے پردے کا ایک کونا اٹھایا اور اسے چند آدمیوں کے درمیان آتے ہوئے دیکھا۔ وہ سب میں سیاہ رنگ تھا ، سب میں کوتاہ قد اور سب میں قبیح صورت تھا۔ “ اس پر اس کے خاوند نے کہا :” رسول ﷺ میں نے تو اسے بہترین جائیداد عطا کردی ہے ۔ ایک ہی باغ تھا میرا جو میں نے اسے دے دیا ہے کیا وہ میرا باغ واپس کردے گی ؟ “ رسول ﷺ نے عورت سے دریافت کیا تمہاری رائے کیا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں اگر وہ چاہتا ہے تو میں اسے واپس کردوں گا۔” ابن عباس کہتے ہیں :” اس پر رسول ﷺ نے دونوں کے درمیان تفریق کرادی۔ “ ان تمام روایات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا نفسیاتی صورت حال تھی ، جو رسول ﷺ کے سامنے آئی۔ رسول ﷺ نے اس صورتحال کو اس طرح قبول کرلیا کہ یہ کیس ناقابل علاج ہے ۔ تشدد اور سختی سے اس کا علاج ممکن نہیں ہے اور نہ اس میں ازدواجی زندگی میں کوئی مفید مثال قائم ہوسکتی ہے ۔ کہ عورت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایسی تلخ معاشرت پر مجبور کرکے رکھ دیا جائے۔ اس لئے رسول ﷺ نے اس صورت حال کا اصل اسلامی نظام زندگی کے مطابق ، اسلامی منہاج کے مطابق ، پیش کردیا جو بےحد عملی ہے ۔ واضح ہے ۔ حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہو ، کہ اس نفس کے اندر کیا جذبات کام کررہے ہیں ۔ کیا رجحانات ہیں ۔ پھر ایسی تمام صورتوں میں سنجیدہ طرز عمل یا طفلانہ طرزعمل ، اور سچائی کی راہ یا فریب کاری کی راہ اختیار کرنے کے لئے واحد نگراں صرف اللہ خوفی اور اس کی پکڑ کا ڈر ہی ہوسکتا تھا ، اس لئے ان احکام کے خاتمہ پر تنبیہ کردی گئی کہ یہ ہیں اللہ کی حدود ۔ ان سے تجاوز مت کرنا۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ” یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو حدود الٰہی سے تجاوز کریں ، وہی ظالم ہیں۔ “ یہاں تھوڑی دیر کے لئے رکیے ! یہاں ہمارے سامنے قرآن مجید نے ایک ہی مضمون کو مختلف حالات میں مختلف انداز میں بیان کیا ہے ۔ مضمون ایک ، حالات مختلف ، اس لئے انداز بیان اور ۔ اس صورت میں روزے پر بحث کرتے ہوئے آخر میں یہ تنبیہ فرمائی گئی تھی تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوهَا ” یہ اللہ کی حدیں ہیں ، ان کے قریب مت پھٹکو اور یہاں یہ کہا گیا ہے ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوهَا ” یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔ “ سوال یہ ہے کہ انداز میں یہ اختلاف کیوں ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ سابقہ مقام ایسا تھا ، جس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی چیزوں سے روکا تھا ، جو طبعاً سخت ناپسندیدہ ہیں بلکہ ایک مادہ پرست کے لئے خلاصہ حیات ہیں وہاں فرمایا گیا تھا : ” تمہارے لئے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا ہے ۔ وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔ اللہ کو معلوم ہوگیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کررہے تھے ۔ مگر اس نے تمہارا قصور معاف کردیا اور تم سے درگزر فرمایا۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لئے جائز کردیا ہے اسے حاصل کرو ۔ نیز راتوں کو کھاؤ پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری سے نمایاں نظر آجائے۔ تب یہ سب کام چھوڑ کر اپنا روزہ پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیوی سے مباشرت نہ کرو ۔ یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں ، ان کے قریب نہ پھٹکنا ۔ “ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوهَا ان آیات میں جن چیزوں کی ممانعت کردی گئی ہے ، وہ سب ایسی ہیں کہ انسان ازروئے طبیعت انہیں بےحد چاہتا ہے ۔ اس لئے یہاں حکم دیا گیا کہ ان کے قریب نہ پھٹکنا ، قریب ہی نہ ہونا ، انسان ضعیف ہے ، ہوسکتا ہے کہ ان چیزوں کی جاذبیت کا مقابلہ نہ کرسکے اور ان میں مبتلا ہوجائے ، ان کے پھندے میں بس کہیں پھنس ہی نہ جائے ۔ اب یہاں سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی چیزوں سے منع کیا گیا ہے جو بذات خود ناپسندیدہ ہیں ۔ گھریلو اختلافات ، جھگڑے بذات خود ناپسندیدہ ہیں ۔ یہاں خطرہ اس بات کا نہیں ہے کہ کوئی لڑائی جھگڑے کا شوق کرے ، بلکہ خطرہ اس بات کا ہے کہ بامر مجبوری اگر کوئی مبتلا ہو ہی جائے تو اس میں حدود سے تجاوز نہ کرے ۔ معقول حدود میں رہے ، حدیں توڑ ہی نہ دے۔ اس لئے یہاں حکم یہ نہیں دیا گیا کہ قریب ہی مت جاؤ بلکہ یہ حکم دیا گیا کہ حدود سے آگے نہ بڑھو۔ انداز بیان میں یہ لطیف فرق اس لئے ہوا ہے کہ موقع ومحل میں اختلاف ہے ۔ دونوں مواقع ومحل کے اس قدر لطیف فرق میں بالکل جدا ہیں ۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ وہ موقع ومحل کے اس قدر لطیف فرق میں بھی انداز بیان مختلف اختیار کرتا ہے۔ احکام طلاق کا سلسلہ جاری ہے ۔ چلتے جائیے :
Top