Dure-Mansoor - Al-Maaida : 19
لِّنُخْرِجَ بِهٖ حَبًّا وَّ نَبَاتًاۙ
لِّنُخْرِجَ بِهٖ : تاکہ ہم نکالیں اس کے ساتھ حَبًّا وَّنَبَاتًا : غلہ اور نباتات
اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے جو ایسے وقت میں تمہارے لئے بیان کرتا ہے جبکہ رسولوں کا سلسلہ موقوف تھا تاکہ تم یوں نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا نہیں آیا، سو تمہارے پاس بشارت دینے والا اور ڈرانے والا آگیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
(1) امام ابن اسحاق، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم اور بیہقی ہے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کو اسلام کی طرف بلایا۔ ان کو اس سے رغبت دلائی اور ان کو ڈرایا تو انہوں نے انکار کردیا تو معاذ بن جبل، سعد بن عتادہ اور عقبہ بن وہب ؓ نے ان سے کہا اے یہود کی جماعت اللہ سے ڈرو، اللہ کی قسم تم البتہ جانتے ہو کہ وہ اللہ کے رسول ہیں تم ہم کو ان کے آ نے سے پہلے بتلایا کرتے تھے اور ہم کو ان کی صفات بیان کیا کرتے تھے۔ رافع بن حریملہ اور وھب بن یہود نے کہا ہم نے تم کو کوئی بات نہیں کہی۔ اور اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کے بعد کوئی کتاب نہیں اتاری۔ اور نہ کسی بشر اور نذیر کو ان کے بعد بھیجا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لفظ آیت یاھل الکتب قد جاء کم رسولنا یبین لکم علی فترۃ (2) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں سے لفظ آیت یاھل الکتب قد جاء کم رسولنا یبین لکم علی فترۃ من الرسل کے بارے میں فرمایا وہ محمد ﷺ ہیں جو حق کو لے کر آئے تو حق اور باطل کو امتیاز کیا اس میں بیان ہے نور ہدایت اور عظمت ہے۔ اور بچاؤ سے امید کے لئے جو اس کو پکڑے اور ہم کو ذکر کیا گیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور محمد ﷺ کے درمیان فترہ کا عرصہ (یعنی درمیانی) چھ سو سال تھا جو اللہ تعالیٰ نے اس میں سے چاہا۔ (3) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابن جریر نے معمر کے طریق سے قتادہ (رح) سے روایت ہے کہ لفظ آیت علی فترۃ من الرسل یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) اور محمد ﷺ کے درمیان پانچ سو ساٹھ سال کا عرصہ تھا۔ معمر اور کلبی نے کہا کہ پانچ سو چالیس سال کا عرصہ تھا۔ (4) امام ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کی کہ فترۃ کا عرصہ پانچ سو سال تھا۔ (5) امام ابن جریر نے صحاک (رح) سے روایت کیا کہ عیسیٰ اور محمد ﷺ کے درمیان کا زمانہ چار سو تیس سال سے کچھ اوپر تھا۔
Top