بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Hud : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : کتاب احْكِمَتْ : مضبوط کی گئیں اٰيٰتُهٗ : اس کی آیات ثُمَّ : پھر فُصِّلَتْ : تفصیل کی گئیں مِنْ : سے لَّدُنْ : پاس حَكِيْمٍ : حکمت والے خَبِيْرٍ : خبردار
الرا۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں۔
آیت نمبر 1 تا 5 ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے الرٰ ، اس سے اپنی مراد کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے یہ ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیات عجیب نظم اور انوکھے معانی کے ذریعہ محکم کی گئی ہیں، پھر حکیم باخبر یعنی اللہ کی طرف سے احکام اور واقعات اور نصائح کے اعتبار سے صاف صاف بیان کی گئی ہیں، یہ کہ اللہ کے سوا کسی کو بندگی نہ کرو میں اس کی طرف سے تم کو عذاب سے ڈرانے والا ہوں اگر تم کفر کرو گے اور ثواب کی خوشخبری دینے والا ہوں اگر تم ایمان لاو گے اور یہ کہ تم اپنے رب سے شرک سے مغفرت طلب کرو پھر طاعت ل کے ذریعہ اس کی طرف رجوع کرو وہ دنیا میں تم کو معینہ مدت تک اچھا سامان عیش اور وسعت رزق دے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ اجر دے گا اور اگر تم، اعراض کرو گے) تولوا (میں دو تاوں میں سے ایک تاء حذف کردی گئی ہے تو مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کہ وہ قیامت کا دن ہے، کے عذاب کا اندیشہ ہے تم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور وہ ہر شئ پر قادر ہے اور اسی ہر شئ میں ثواب اور عقاب بحی ہے، اور) آئندہ آیت (جیسا کہ امام ابخاری نے اس کو حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے، اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی کہ جو اس خیال سے کہ میرا یہ عمل آسمان) یعنی اللہ ( تک پہنچ رہا ہے قضائے حاجت کرنے اور) بیوی سے (مجامعت کرنے میں شرم محسوس کرتا تھا، اور کہا گیا ہے کہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئی یاد رکھو وہ لوگ اپنے سینوں کو دہرا کئے ہیں) یعنی جھکے جاتے ہیں (تاکہ اللہ سے اپنی باتیں چھپا سکیں یاد رکھو کہ وہ لوگ جس وقت اپنے کپڑے لپیٹ لیتے ہیں) یعنی (ان میں چھپ جاتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ) اس وقت بھی (اس چیز کو جانتا ہے جس کو وہ چھپاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں لہٰذا ان کے چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں، بلاشبہ وہ تو دلوں کے اندر کی باتوں کو جانتا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : سورة ھود بترکیب اضافی مبتداء مکیۃ خبر اول مائۃ الخ خبر ثانی، مکیۃ مستثنیٰ منہ ہے اِلاَّ حرف استثناء اقم الصلوۃ) الآیۃ (مستثنیٰ یعنی پوری سورت مکی ہے سوائے ایک آیت واقم الصلوۃ) الآیۃ ( کے یہ قول ابن عباس ؓ کا ہے۔ قولہ : اَوْ اِلاَّ فَلَعَلَّکَ تارک بعض ما یوحٰی اِلَیْکَ ) الآیۃ ( یہ دوسرے قول کی طرف اشارہ ہے اس قول کے مطابق پوری سورت مکی ہے مگر دو آیتیں، ایک تو فَلَعَلَّک اور دوسری اولئکَ یومنون بہ) الآیۃ ( یہ قول مقاتل کا ہے۔ قولہ : ھذا، اس میں اشارہ ہے کہ کتاب مبتداء محذوف کی خبر ہے نہ کہ خود مبتداء اس لئے کہ نکرہ محضہ مبتداء واقع نہیں ہوتا، اُحکمتْ آیاتہ، جملہ ہو کر کتاب کی صفت ہے۔ قولہ : ثُمَّ فصلت، ثُمَّ میں دو احتمال ہیں اول یہ اخبار محض کیلئے ہے، اور معنی ہوں گے اللہ نے ہم کو خبر دی کہ قرآن غایت درجہ باحسن وجوہ محکم ہے اور بہترین تفصیل کے ساتح مفصل ہے، جیسا کہ عرب بولتے ہیں، " فلان کریم الاصل ثم کریم الفصل " دوسرا احتمال یہ ہے کہ ثُمَّ نزول کے اعتبار سے ترتیب زمانی کے ہو بایں طور کہ نزول اول یعنی عرش سے لوح محفوظ پر نزول کے وقت محکم کیا گیا پھر حسب موقع تفصیل کے ساتھ نازل ہوا۔ قولہ : من لدنْ حکیم خبیر یہ کتاب کی دوسری صفت ہے۔ قولہ : باَنْ اس میں اشارہ ہے کہ ان مصدریہ ہے، ان تفسیر یہ بھی ہوسکتا ہے، ان کے تفسیر یہ ہونے کیلئے یہ شرط ہے کہ اس سے پہلے قول یا قول کے ہم معنی کوئی لفظ ہو یہاں اگرچہ لفظ قول نہیں مگر اس کا معنی فصلت، موجود ہے لہٰذا ان کا مفسرہ ہونا بھی درست ہے، اور یہاں تفسیر یہ ہی بہتر ہے۔ ) صاوی ( قولہ : قیل فی المنافقین، اگر منافقین سے معروف منافقین مراد ہیں تو اس میں نظر ہے اس لئے کہ معروف منافقین کا وجود مکہ میں نہیں تھا اور آیت مکی ہے، حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہ آیت اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کہ منافقین مکہ میں سے تھا یہ شخص چرب زبان حسین المنظر تھا اور رسول اللہ ﷺ کو خوش کن خبریں سنایا کرتا تھا اور دل میں اس کے خلاف پوشیدہ رکھتا تھا اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ قولہ : یثنون، الثنی الطّی چھپانے کیلئے لپیٹنا، یَثنُون کی اصل یَثْنیون تھی ضمہ یاء پر دشوار رکھ کر نون کو دیدیا، یاء اور واو کے درمیان التقاء ساکنین کی وجہ سے یاء کو حذف کردیا، یثنُون ہوگیا۔ تفسیر و تشریح سورة ہود کے مضامین : اس سورت میں بھی ان ہی قوموں کا تذکرہ ہے جو آیات الہٰی اور پیغمبروں کی تکذیب کرکے عذاب الہٰی کا نشانہ بنیں، اور تاریخ کے صفحات سے یا تو حرف غلط کی طرف مٹا دی گئیں، یا تاریخ کے اوراق میں عبرت کا نمونہ بن کر موجود ہیں، اسی لئے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے آپ ﷺ سے عرض کیا، کیا وجہ ہے کہ آپ بوڑھے ہوئے چلے جارہے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا " مجھے ہود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا "۔ ابن مردویہ اور ابن عسا کرو غیر ہما نے مسروق کی سند سے حضرت ابوبکر صدیق سے روایت کیا ہے۔ قال، قلتُ ، یا رسول اللہ لَقَدْ اَسْرَع الیک الشیبُ فقال شیّبَتْنی ھود والواقعۃ والحاقۃ والمرسلات وعمّ یتسٰالون واذا الشمس کورت۔ ) تفسیر فتح القدیر ( کتاب احکمت آیاتہ، قرآنی آیات نظم و معانی کے اعتبارے سے اتنی محکم اور پختہ ہیں کہ نہ ان کی ترکیب لفظی میں کوئی خلل ہے اور نہ ترکیب مغوی میں اس کے علاوہ اس میں احکام و شرائع، مواعظ و قصص، عقائدو ایمانیات، عقائد و اخلاقیات جس طرح وضاحت و تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں کتب سابقہ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ محکم اس جگہ منسوخ کے مقابلہ میں ہے مطلب یہ ہے کہ اس کتاب کو اللہ تعالیٰ نے مجموعی حیثیت سے محکم غیر منسوخ بنایا ہے یعنی جس طرح سابقہ کتابیں تورات انجیل وغیرہ مجموعی اعتبار سے منسوخ ہوگئیں یہ کتاب تا قیامت منسوخ نہ ہوگی اسلئے کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ منطقع ہوگیا ہے بعض قرآنی آیات کا بعض کے ذریعہ منسوخ ہونا اس کے منافی نہیں، ثم فُصَّلَتْ کی تفسیر تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان گذرچ کی ہے ملاحظہ کرلیا جائے۔ یُمتعکم متاعاً حَسَنًا، دینوی سامان عیش کو قرآن میں دوسری جگہ " متاع غرور " کہا گیا ہے یعنی دھوکے کا سامان اور یہاں اسے " متاع حَسَن " قرار دیا گیا ہے دونوں میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے، مطلب اس کا یہ ہے کہ جو آخرت سے غافل ہو کر متاع دنیا سے استفادہ کرے گا اس کے لئے یہ متاع غرور ہے اور جو آخرت کی تیاری کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اس کیلئے یہ چند روزہ متاع، متاع حسن ہے۔ شان نزول : اَلا اِنَّھُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَھم) الآیۃ ( اس آیت کے شان نزول کے بارے میں نفسرین کا اختلاف ہے اسی لئے اس کے مفہوم میں بھی اختلاف ہے۔ ) صحیح بخاری تفسیر سورة ہود ( میں بیان کردہ شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی جو غلبہ حیا کی وجہ سے قضائے حاجت اور بیوی سے ہمبستری کے وقت برہنہ ہونا اور ستر کھولنا پسند نہیں کرتے تھے کہ اللہ جل شانہ ہمیں دیکھ رہا ہے اس لئے ایسے موقع پر شرم گاہ کو چھپانے کے لئے اپنے سینوں کو دہرا کرلیتے تھے، اللہ نے فرمایا رات کو جب وہ اپنے بستروں میں اپنے کپڑوں میں خود کو ڈھانپ لیتے ہیں اس وقت بھی وہ ان کو دیکھتا ہے مطلب یہ ہے کہ شرم و حیا کا جذبہ اپنی جگہ بہت اچھا ہے لیکن اس میں اتنا غلو اور افراط بھی صحیح نہیں، اسلئے کہ جس ذات کی خاطر تم ایسا کرتے ہو، اس سے تو تم پھر بھی نہیں چھپ سکتے تو اس طرح کے تکلیف سے کیا فائدہ۔
Top