Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 22
الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً١۪ وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ١ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
الَّذِیْ جَعَلَ : جس نے بنایا لَكُمُ : تمہارے لئے الْاَرْضَ : زمین فِرَاشًا : فرش وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بِنَاءً : چھت وَاَنْزَلَ : اور اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَاءً : پانی فَاَخْرَجَ : پھر نکالے بِهٖ : اس کے ذریعے مِنَ : سے الثَّمَرَاتِ : پھل رِزْقًا : رزق لَكُمْ : تمہارے لئے فَلَا تَجْعَلُوْا : سو نہ ٹھہراؤ لِلّٰہِ : اللہ کے لئے اَنْدَادًا : کوئی شریک وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : اور تم جانتے ہو
جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے مینہ برسا کر تمہارے کھانے کیلئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کئے پس کسی کو خدا کا ہمسر نہ بناؤ اور تم جانتے تو ہو
جَعَلَ لَکُمْ الْاَرْضَ فِرَاشًا : اس سے پہلی آیت میں ان انعامات کا ذکر تھا، جو انسانی ذات سے متعلق ہیں اور اس آیت میں ان انعامات کا ذکر ہے جو انسان کے گردوپیش کی چیزوں سے متعلق ہیں اس طرح اَنْفُسْ اور آفاقی نعمتوں کا احاطہ فرمایا، ان آفاقی نعمتوں میں اول زمین کا ذکر فرمایا کہ ہم نے زمین کو انسان کیلئے فرش بنایا جو نہ لوہے کی مانند نہایت سخت ہے کہ ہم اسے اپنی ضرورت کے مطابق آسانی سے استعمال نہ کرسکیں اور نہ پانی کی طرح نرم کہ جس پر قرار ہی ممکن نہ ہو، بلکہ سختی اور نرمی کے درمیان ایسا بنایا گیا کہ جو عام انسانی ضروریات زندگی میں کام دے سکے۔ اس آیت میں زمین کو فرش کہا گیا ہے، فرش کے لفظ سے یہ لازم نہیں آتا کہ زمین گول نہ ہو کیونکہ زمین کا یہ عظیم کرہ گول ہونے کے باوجود دیکھنے میں مسطح نظر آتا ہے اور قرآن کا عام طرز یہ ہے کہ ہر چیز کی وہ کیفیت بیان کرتا ہے جس کو ہر سیکھنے والا والم ہو یا جاہل، دیہاتی ہو یا شہری سمجھ سکے۔ زمین کی وسعت : زمین کی وسعت کا اندازہ آپ منسرجہ ذیل اعداد سے لگا سکتے ہیں، زمین کا قطر استوائی (عمقی) 7922 میل ہے اور قطر قطبی 7900 میل ہے اور زمین کا محیط 24860 میل ہے زمین کی سطح 197000000 یعنی تقریباً بیس کروڑ مربع میل ہے۔ (فلکیات جدیدہ) جس کرہ کی سطح اتنی وسیع ہو وہ گول ہونے کے باوجود مسطح ہی معلوم ہوگا، لہٰذا اس اعتبار سے زمین کو گول بھی کہا جاسکتا ہے اور مسطح بھی۔ فَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً : مقصود اس حقیقت کی تعلیم ہے کہ زمین و آسمان، کون و مکان، حیوان و انسان سب خدائے واحد کی مخلوق ہیں ان کی تخلیق میں نہ کسی دیوی دیوتا کا دخل ہے اور نہ کسی پیرو پیغمبر کا، جب یہ بات ثابت اور مسلم ہے جس کا خود تم کو بھی اقرار ہے تو پھر تمہاری بندگی اور عبادت اسی کے لئے خاص ہونی چاہیے دوسرا کون اس کا حقدار ہوسکتا ہے ؟ کہ تم اس کی بندگی کرو اور دوسروں کو اللہ کا شریک یا مد مقابل ٹھہراؤ۔ خلیفۃ اللہ فی الارض جب کبھی اپنے مقام و مرتبہ کو بھول کر قعر مذلت میں گرا ہے تو پستی کی تمام حدود کو پار کر گیا ہے اس نے اپنا مسجود ملائکہ کو بنایا تو کبھی شمس و قمر کو، کبھی دریاؤں کو تو کبھی ارض و سماء کو، کبھی بناتات کو تو کبھی حیوانات و جمادات کو، کبھی ناگ کو تو کبھی آگ کو غرض کہ نہ ندیوں کو چھوڑا نہ نالوں کو، نہ نجاست کو چھوڑا نہ شرمگاہوں کو، قرآن اسی حماقت اور سخافت پر اسے تنبیہ کر رہا ہے۔
Top