Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 62
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١۪ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِیْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِیْنَ : اور جو لوگ هَادُوْا : یہودی ہوئے وَالنَّصَارَىٰ : اور نصرانی وَالصَّابِئِیْنَ : اور صابی مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰہِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْآخِرِ : اور روز آخرت پر وَعَمِلَ صَالِحًا : اور نیک عمل کرے فَلَهُمْ : تو ان کے لیے اَجْرُهُمْ : ان کا اجر ہے عِنْدَ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے پاس وَلَا خَوْفٌ : اور نہ کوئی خوف ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ هُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (یعنی کوئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو) جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے گا اور عمل نیک کرے گا تو ایسے لوگوں کو ان (کے اعمال) کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے
آیت نمبر 62 تا 66 اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا۔۔۔۔۔۔ الیٰ ۔۔۔۔۔۔ وَمَا خَلْفَھَا وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ ۔ ترجمہ : بیشک وہ لوگ جو انبیا سابقین پر ایمان لائے، (یعنی مسلمان) اور یہود اور نصاریٰ اور صابی (اور صابی) یہود و نصاریٰ ہی کا ایک فرقہ ہے، ان میں سے جو بھی اللہ اور روز آخرت پر نبی کے زمانہ میں ایمان لائے گا، اور آپ کی شریعت کے مطابق نیک عمل کرے گا، تو ان کا اجر یعنی ان کے اعمال کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے، اور ان کے لئے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ غم، آمَنَ اور عَمِلَ کی ضمیر میں مِنْ کے لفظ کی رعایت ہے اور اس کے مابعد میں مَنْ ، کے معنی کی رعایت ہے۔ اور وہ وقت یاد کرو، جب ہم نے تم سے تورات کے احکام پر عمل کرنے کا عہد لیا تھا، درآنحالیکہ ہم نے تمہارے اوپر کوہ طور کو بلند کیا (یعنی) اس کو جڑ سے اکھاڑ کر تمہارے اوپر معلق کردیا، جب تم نے تورات کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا، اور ہم نے کہا تھا کہ جو (کتاب) ہم نے تم کو دی ہے، اس کو مضبوطی سے تھامنا، یعنی کوشش اور محنت سے اور جو احکام اس میں درج ہیں، ان پر عمل کے ذریعہ ان کو یاد رکھنا تاکہ تم نار (جہنم) یا معاصی سے بچ سکو، (مگر) پھر تم اس (عہد) کے باوجود طاعت سے پھرگئے، پھر بھی اگر تم پر توبہ اور تاخیر عذاب کے ذریعہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، تو تم زیاں کاروں (یعنی) ہلاک ہونے والوں میں ہوجاتے۔ اور یقیناً تم ان لوگوں کے بارے میں جانتے ہو، جنہوں نے تم میں سے یوم السبت، (ہفتہ) کے بارے میں مچھلی کا شکار کرکے حد سے تجاوز کیا، حالانکہ ہم نے ان کو اس سے منع کیا تھا، اور وہ ایلہ کے باشندے تھے، تو ہم نے ان کے لئے حکم دیدیا کہ ذلیل دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ، چناچہ وہ بند بن گئے، اور تین روز بعد ہلاک ہوگئے، تو ہم نے اس سزا کو موجودہ اور آئندہ آنے والوں یعنی ان کے اور ان کے بعد آنے والوں کے لئے (سامان) عبرت یعنی ان کے جیسا عمل کرنے سے روکنے والا بنادیا، اور خوف (خدا) رکھنے والوں کے لئے نصیحت بنادیا اور متقین کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ یہی لوگ ان سے استفادہ کرتے ہیں، بخلاف ان کے علاوہ کے۔۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ھَادُوْا، ای دَخَلُوْا فی الیَھُوْدِیَّۃِ ، ھَادُوْا، ماضی جمع مذکر غائب معروف، یہودی مذہب اختیار کیا، (ن) ھُوْدًا، توبہ کرنا یہودی ہونا، گؤسالہ پرستی سے توبہ کرنے کی وجہ سے یہودی کہلائے، ھُوْدٌ یہودیوں کی جماعت، الیھود اگر عربی ہے، تو ھَادَ ، سے موخوذ ہے، بمعنی تاب، چونکہ ان لوگوں نے قتل نفس کے ذریعہ بچھڑے کی پرستش سے توبہ کی تھی، اسی لئے یہ لوگ یہود کہلائے اور اگر عجمی ہے، تو اس صورت میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بڑے صاحبزادے ” یہودا “ کی جانب نسبت ہوگی تعریب کے وقت ذال کو دال سے بدل دیا جو کہ معربین کی عام عادت ہے۔ قولہ : النصاریٰ ، یہ نَصْران، کی جمع ہے، اس میں یا نسبتی ضرور استعمال ہوتی ہے کہا جاتا ہے روکنے نصرانی، اِمرأۃ نصرانیۃ، نصاری کی وجہ تسمیہ یا تو یہ ہے کہ انہوں نے کہا تھا : ” نحن انصار اللہ “ یا نَصْران نامی یا ناصرہ نامی بستی کی طرف نسبت کرکے نصرانی کہلانے لگے۔ (اعراب القرآن، لغات القرآن) قولہ : اَلصَّابِئِیْنَ ، یہ صابی کی جمع ہے اور صَبَا فلانٌ، سے ماخوذ ہے جب کہ دین سے خارج ہوجائے، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ صابی ستارہ پرست کو کہتے ہیں، ابو اسحاق صابی کاتب شاعر کا تعلق اسی قوم سے تھا، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ان لوگوں نے ہر دین و عقیدے سے کچھ کچھ لے لیا تھا، اس لئے یہ بین بین ہوگے، مفسر علام نے طائفۃ من الیھود والنصاری کہہ کر اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ قولہ : فی زمَنِ نبینا، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک اشکال کا جواب ہے۔ اشکال : اوپر فرمایا : ” اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا “ اور پھر فرمایا : ” اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ “ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، تو اس تخصیص بعد التعمیم کی کیا ضرورت ہے ؟ جواب : دونوں کا مصداق الگ لاگ ہے : ” اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا “ کا مصداق وہ لوگ ہیں، جو زمانہ فترت (وقفہ) میں ایمان لائے، جیسے کہ ورقہ بن نوفل، بحیرا راہب، سلمان فارسی وغیرہ، ان میں سے بعض نے آپ ﷺ کا زمانہ بھی پایا، اور بعض آپ کی بعچت سے پہلے انتقال کرگئے، اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے علامہ سیوطی نے ” بالانبیائ من قبل “ فرمایا، اور ” مَنْ امَنَ بِاللہِ “ سے وہ لوگ مراد ہیں، جو آپ کے زمانہ میں آپ ﷺ پر ایمان لائے، اس سے معلوم ہوا کہ دونوں کے مصداق میں مغایرت کے بیان کے لئے دوسری آیت کی تشریح میں ” فی زمَنِ نبینا “ فرمایا۔ سوال : مَنْ آمَنَ اور مَنْ عَمِلَ ، میں ضمیر مفرد کا مرجعمَنْ ہے، اور فَلَھّمْ اَجْرُھُمْ کی ھم ضمیر جمع کا مرجع بھی من ہے، جو کہ درست نہیں ہے۔ جواب : مفسر علام نے رُوْعِیَ فی ضمیر الخ کا اضافہ کرکے اسی سوال کا جواب دیا ہے، مطلب یہ ہے کہ اول میں مَن کے لفظ کی رعایت ہے اور دوسرے میں مَنْ کے معنی کی رعایت ہے یہ بات یاد رہے کہ مَنْ ، لفظ کے اعتبار سے مفرد اور معنی کے اعتبار سے جمع ہے۔ قولہ : وَقَدْ رَفَعْنَا، قَدْ مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ واؤ حالیہ ہے نہ کہ عاطفہ اور رَفَعْنَا، قَدْ کی تقدیر کے ساتھ اَخَذْنٰھُمْ ، سے حال ہے، نہ کہ معطوف، اس لئے کہ امام شافعی کے نزدیک معطوف علیہ اور معطوف میں ترتیب ضروری ہے حالانکہ رفع طور مقدم ہے اور اخذ میثاق مؤخر۔ قولہ : بالعمل، بالعمل، کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ ذکر لسانی کافی نہیں بلکہ مقصد عمل ہے مطلب یہ ہے کہ نعمتوں کو شمار کرنا اور گننا مقصد نہیں ہے عمل مقصد ہے۔ قولہ : النار والمعاصی، اس میں اشارہ ہے کہ تَتَّقُوْنَ کا مفعول النار یا المعاصی محذوف ہے یہ تنزیل المتعدی بمنزلۃ الازم کے قبیل سے نہیں ہے۔ قولہ : نَکَال، جمع اَنکال، بیڑی کو کہتے ہیں، لازم منع کے طور پر عذاب اور مَنَعَ میں استعمال ہوتا ہے۔ اللغۃ والبلاغۃ وَالصّٰبِئینَ : جمع صَابئ، من صَبَأ فلان اذا خَرَجَ مِنَ الدین، والصابئۃ قومٌ کانوا یعبدون النجوم ومنھم ابو اسحٰق الصابئ الکاتب الشاعر المشھور۔ الطور من جبال فلسطین، ویطلق علی کل جبل کما فی القاموس۔ تفسیر و تشریح ربط آیات : ما قبل میں بنی اسرائیل کی شرارتوں اور ان کی ضد وعناد کا ذکر تھا، اس سے ناظرین کو یا خود یہود کو یہ خیال گزر سکتا تھا کہ ان حالات میں اگر عذر معذرت کرکے ایمان لانا بھی چاہیں تو غالبا اللہ کے نزدیک قبول نہ ہو اس خیال کو دفع کرنے کے لئے اس قرینہ میں ایک قانون رکھتا ہو اور دیگر ضروریات دین پر ایمان رکھتا ہو، نیز قانون شریعت کے مطابق عمل پیرا ہو، تو ایسے لوگوں کے لئے ان کا حق الخدمت بھی ہے اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ کر نہ مغموم ہوں گے اور نہ ان کو کسی بات کا خوف ہوگا۔ مطلب : مطلب یہ ہے کہ ہمارے دربار میں کسی کی تخصیص نہیں جو شخص عقائد و اعمال میں پوری اطاعت کرے گا خواہ وہ پہلے سے کیسا ہی ہو وہ ہمارے یہاں مقبول اور اس کی خدمت مشکور ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ نزول قرآن کے بعد پوری اطاعت دین محمدی میں منحصر ہے، مطلب یہ ہے کہ ان شرارتوں کے بعد بھی اگر مسلمان ہوجائے گا، تو اس کے لئے راہ نجات کھلی ہوئی ہے، ہم ان کی سب شرارتوں کو معاف کردیں گے۔ (معارف ملخصا) وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا، اب تک بنی اسرائیل کے نام سے ایک خاص نسل اور قوم کا ذکر تھا، اور ان کی تاریخ کے اہم ترین واقعات اور مناظر سامنے لائے جا رہے تھے، اب یہاں اسی قوم کا ذکر بحیثیت مسلک اور عقیدہ کے شروع ہو رہا ہے، یہاں پہلی بار “ اَلَّذِیْنَ ھَادُوْا ” کہہ کر ان کے مذہبی عقیدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل اور یہود میں فرق : بنی اسرائیل ایک نسلی اور خاندانی نام ہے جسے اپنی عالی نسبی پر فخر تھا، اپنے آباو اجداد کی مقبولیت پر ناز تھا، تاریخ کو دہرانے کے لئے ضروری تھا کہ ان کا نسلی نام لیا جائے، چناچہ اب تک ان کا اسی نسلی نام سے ذکر کیا گیا، اب یہاں سے ایک دینی مسلک اعتقادی نظام کا بیان شروع ہو رہا ہے، اس لئے ضروری ہوا کہ اب ایسا نام لیا جائے کہ جو نسبت اور نسل اور خاندان کے بجائے، مسلک و عقیدہ کی طرف رہنمائی کرے : ” والَّذِیْنَ ھَادُوْا “ اسی ضرورت کے لئے بولا گیا ہے۔ یہودی مذہب نسلی مذہب ہے، تبلیغی نہیں ؟ کسی غیر اسرائیلی کو یہودی بنانے کا طریقہ ان کے یہاں نہیں، برناباس حواری غیر اسرائیلی کو یہودی مذہب میں داخل کرنے کے مخالف تھے، اس کے برخلاف پولوس رسول اس کے حامی تھے جو غیر اسرائیلی یہودی مذہب اختیار کرتے تھے، ان کو خارجی کہا جاتا تھا، غیر اسرائیلیوں کے یہودی مذہب اختیار کرنے میں بڑی رکاوٹ ایک یہ تھی کہ وہ یہودی شرعی احکام کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے، خاص طور پر احکام عشر کو اور ان میں بھی ختنہ کو تسلیم نہیں کرتے تھے، پولوس رسول نے ایک کانفرنس میں بعض احکام کو منسوخ کردیا، جن میں ختنہ کا حکم بھی شامل تھا، اس ترمیم کی وجہ سے غیر اسرائیلیوں کا یہودی مذہب میں داخل ہونا آسان ہوگیا اور یہیں سے برناباس حواری کی مخالفت کا آغار ہوا۔ (بائبل سے قرآن تک ملخصا) عرب میں متعدد قبیلے ایسے آباد تھے، جو نہ پیدائشی یہودی تھے، اور نہ نسلا اسرائیلی، بلکہ عرب یا بنی اسماعیل تھے، لیکن یہود کی صحبت سے متاثر و مرعوب ہو کر انہوں نے یہود کے طور طریقہ اور پھر عقیدے اختیار کر لئے اور رفتہ رفتہ ان کا شمار بھی یہودی آبادی میں ہونے لگا۔ اسرائیل کی قومی حکومت کا خاتمہ : اسرائیل کی قومی حکومت کا خاتمہ تو ظہور سلام سے مدتوں پہلے مشرک رومیوں کے ہاتھوں بیت المقدس کی بربادی کے بعد ہی ہوگیا تھا، اور رسول اللہ ﷺ کے معاصرین یہود کی حیثیت صرف ایک مذہبی اور دینی فرقے کی رہ گئی تھی، مدینہ اور جوار مدینہ بلکہ یمن میں بھی جو یہود موجود تھے، وہ نسلاً بنی اسرائیل نہ تھے، بنی اسرائیل تھے، لیکن اسرائیلیوں کی صحبت میں رہ کر تمدن معاشرت یہاں تک کہ عقیدے بھی انہیں کے اختیار کر لئے تھے : ” وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا “ میں کھلا اشارہ اسی حقیقت کی طرف ہے۔ بنی اسرائیل کی مختصر تاریخ : اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے، آپ کے بارہ صاحبزادے تھے، حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد ہی کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے عہد قدیم میں اللہ تعالیٰ نے اسی خانوادے کو منصب نبوت کے لئے منتخب فرمایا تھا اور ان میں بیشمار پیغمبر مبعوث فرمائے، بنی اسرائیل کا اصل وطن فلسطین کے علاقے تھے، لیکن عمالقہ نے اس علاقہ پر غاصبانہ قبضہ کرکے اسرائیلیوں کو فراعنہ مصر کی غلامی پر مجبور کردیا تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں اس غلامی سے نجات حاصل ہوئی، لیکن اب بھی وہ فلسطین کو دوبارہ حاصل نہ کرسکے تھے، ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وفات پاگئے، آپ کے بعد حضرت یوشع اور ان کے بعد کالب (علیہم السلام) پیغمبر ہوئے حضرت یوشع (علیہ السلام) نے اپنے زمانہ میں عمالقہ سے جہاد کرکے فلسطین کا ایک بڑا علاقہ فتح کرلیا، لیکن ان دونوں حضرات کے بعد بنی اسرائیل کو چاروں طرف سے مختلف یورشوں کا سامنا کرنا پڑا اس زمانہ تک بنی اسرائیل عربوں کی طرف نیم خانہ بدوش تھے، اور ان کی زندگی تمدن سے زیادہ قبائلی انداز کی تھی، تاہم جو شخص ان کے قبائلی قوانین کی بنا پر بین القبائلی جھگڑوں کو خوبصورتی سے رفع کردیتا تھا، اسے بنی اسرائیل تقدس کی نظر سے دیکھتے تھے، اور اگر اس میں کچھ عسکری صلاحیتیں بھی پاتے، تو بیرونی حملوں کے مقابلہ کے لئے اسی کو اپنا سپہ سالار بھی بنا لیا جاتا، اس قسم کے قائدین کو بنی اسرائیل قاضی کہا کرتے تھے۔ قاضیوں کے زمانہ میں جہاں اسرائیلیوں نے بیرونی حملوں کا کامیاب دفاع کیا، وہاں گیارہویں صدی قبل مسیح میں وہ کنعانیوں کے ہاتھ مغلوب ہوگئے اور فلسطین کے بڑے علاقہ پر کنعانیوں کی حکومت قائم ہوگئی جو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے عہد تک قائم رہی۔ بالآخر حضرت شموئیل (علیہ السلام) پیغمبر بنا کر بھیجے گئے، تو بنی اسرائیل نے ان سے درخواست کی کہ اب ہم خانہ بدوشی کی زندگی سے تنگ آگئے ہیں آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہمارے اوپر ایک بادشاہ مقرر فرما دے جس کے تابع ہو کر ہم فلسطین پر قابضوں کا مقابلہ کریں، چناچہ حضرت شموئیل (علیہ السلام) کی دعا سے ان ہی میں سے ایک شخص کو جس کا نام قرآن کریم کے بیان کے مطابق طالوت تھا، مقرر کردیا گیا، اور بائبل کی روایت کے مطابق ساؤل تھا، طالوت نے فلسطینیوں کا مقابلہ کیا، حضرت داؤد (علیہ السلام) اس وقت نوجوان تھے، اور طالوت کے لشکر میں اتفاقاً شامل ہوگئے تھے، فلسطینیوں کے لشکر سے ایک پہلوان جالوت نے مبارزہ طلب کیا تو حضرت داؤد (علیہ السلام) اس کے مقابلے کے لئے نکلے اور اسے قتل کردیا، اس واقعہ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل میں اتنی ہر دلعزیزی عطا کردی کہ ساؤل (طالوت) کے بعد وہ بادشاہ بنے، حضرت داؤد (علیہ السلام) کے عہد میں فلسطین پر بنی اسرائیل کا قبضہ تقریباً مکمل ہوگیا، ان کے بعد 1974 قبل مسیح میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس سلطنت کو اور مستحکم کرے اقبال کے بام عروج تک پہنچا دیا، ان کے ہی حکم سے بیت المقدس کی تعمیر ہوئی، سلطنت کا نام اپنے جد امجد کے نام پر یہودارکھا۔ لیکن 973 قبل مسیح میں حضرت سلیمان کے بعد ان کا بیٹا رجعام تخت سلطنت پر بیٹھا تو اس نے اپنی نا اہلی سے نہ صرف یہ کہ سلطنت کی دینی فضا کو ختم کردیا بلکہ اس کے سیاسی استحکام کو بھی سخت نقصان پہنثایا، اسی کے زمانہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ایک سابق خادم بریعام نے بغاوت کرکے ایک الگ سلطنت اسرائیل کے نام سے قائم کرلی، اب بنی اسرائیل دو ملکوں میں تقسیم ہوگئے، شمال میں اسرائیلی سلطنت تھی جس کا پایہ تخت سامرہ تھا اور جنوب میں یہود یہ کی سلطنت تھی جس کا مرکز یروشلم تھا ان دونوں ملکوں میں باہم سیاسی اور مذہبی اختلاف کا ایک طویل سلسلہ قائم ہوگیا، جو بخت نصر کے حملے تک جاری رہا، دونوں ملکوں میں آہستہ آہستہ بت پرستی کا رواج بڑھنے لگا، اس کے سدباب کے لئے انبیا (علیہم السلام) مبعوث ہوتے رہے، جب بنی اسرائیل کی بداعمالیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں، تو اللہ نے ان پر شاہ بابل کو مسلط کردیا، اس نے 586 قبل مسیح میں یروشلم پر زبردست حملے کئے اور آخری حملے میں یروشلم کو بالکل تباہ کر ڈالا، اور اس کے بادشاہ صدقیاہ کو قید کرکے لے گیا اور بقیہ السیف یہودی گرفتار ہو کر بابل چلے گئے، عرصہ دراز تک غلامی کی زندگی گزارتے رہے۔ بالآخر جب 536 قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ خسرو نے بابل فتح کیا، تو اس نے یہودیوں کو دوبارہ یروشلم پہنچ کر اپنا بیت المقدس تعمیر کرنے کی اجازت دیدی چناچہ 515 قبل مسیح میں بیت المقدس کو دوبارہ تعمیر کیا گیا اور یہودی ایک بار پھر یروشلم میں آباد ہوگئے، اسرائیلی سلطنت یہودا سے پہلے ہی اسوریوں کے ہاتھوں تباہ پو چکی تھی، اب اگرچہ دونوں فرقوں کے مذہبی اختلافات کافی حد تک کم ہوچکے تھے، لیکن انہیں کوئی سلطنت نصیب نہ ہوسکی 400 ق م، میں ان پر سکندر اعظم کا تسلط ہوگیا اور اسی زمانہ میں انہوں نے تورات کا ترجمہ کیا، 165 ق م، میں سوریا کے بادشاہ انتیوکس نے ان کا بری طرح قتل عام کیا اور تورات کے تمام نسخ جلا دئیے، اسی دوران یہودا مکابی نے جو بنی اسرائیل کا ایک صاحب ہمت شخص تھا، ایک جماعت بنائی، اور اس کے ذریعہ فلسطین کے ایک بڑے علاقہ پر قبضہ کرکے اسوری حکمرانوں کو مار بھگایا، مکابیوں کی یہ سلطنت 70 ق م تک قائم رہی۔ (بائبل سے قرآن تک) وَالنَّصٰریٰ ، نصاریٰ نصرانی کے جمع ہے، ملک شام (موجودہ فلسطین) میں ایک قصبہ ہے، ناصرہ (Nazareth) علاقہ گلیلی میں بیت المقدس سے ستر میل دور شمال میں اور بحرروم سے مشرق میں بیس میل کے فاصلہ پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا آبائی وطن یہی قصبہ ہے اور آپ یسوع ناصری اسی مناسبت سے کہلاتے ہیں، ناصرہ ہی کو عربی تلفظ میں نَصْرَان بھی کہتے ہیں، یہی قول قتادہ، ابن جریج کا ہے۔ وھو قول ابن عباس و قتادہ (ابن جریج) (کبیر) قیل سموا بذلک قریۃ تسمی ناصرہ۔ (قرطبی) مسیحی اور نصرانی میں فرق : مسیحی اناجیل اربعہ پر ایمان رکھتے ہیں، مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا نبی نہیں خدا کا بیٹا مانتے ہیں، یا یہ مانتے ہیں کہ خدا ان کے قالب میں حلول کر آیا تھا، آخرت میں نجات دہندہ خدا کو نہیں مسیح (ابن اللہ) کو مانتے ہیں اور خدائی کو تین اقنوم میں تقسیم کرکے ایک ناقابل فہم فلسفہ بیان کرتے ہیں، ان کے نزدیک ہر اقنوم بجائے خود ایک مستقل خدا ہے اور تینوں اقنوم بھی مل کر ایک مستقل خدا ہے ! کبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎ تثلیث کے قائل نے خالق کو کہا ایک تھی سوئی تین پر حیرت سے بجا ایک یہاں مقصود بیان نصاریٰ کا ہے، نہ کہ مشرک مسیحیوں کا، نصرانی حضرت مسیح کے سچے پیرو اور آپ کو نبی مانتے تھے، نہ خدا نہ اس کا بیٹا توحید کے قائل تھے، انا جیل اربعہ کے بجائے، انجیل متی کو مانتے تھے، موجودہ مسیحیت سرتاپا پولوسیت ہے اور تمام تر پولوس طرسوسی کی تعلیمات پر مبنی پے یہ فرقہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے کچھ مدت بعد وجود میں آگیا تھا، نصرانی اس کے بالکل منکر تھے، (ماجدی) وَالصَّابِئِیْنَ ، صابی ہر اس شخص کو کہا جاتا ہے، جو اپنے دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں شامل ہوجائے خود رسول اللہ ﷺ کو شروع میں صابی اس لئے کہا گیا کہ آپ نے دین قریش کو چھوڑ کر دین اسلام اختیار فرمایا، وکانت العرب تسمی بالنبی الصابی لانہ خرج من دین قریش الی دین الاسلام۔ (نہایۃ، تاج) اصطلاح میں صابیوں کے نام کا ایک مذہبی فرقہ جو عرب کے شمال مشرق میں شام و عراق کی سرحد پر آباد تھا، یہ لوگ دین توحید اور عقیدہ رسالت کے قائل تھے، اصلاً اہل کتاب تھے، ان ہی کو نصاریٰ یحییٰ بھی کہا جاتا تھا، یہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی طرف نسبت رکھتے تھے، حضرت عمر ؓ جیسے مبصر دور بین اور دور رس خلیفہ راشد اور حضرت عبد اللہ بن عباس جیسے محقق صحابی نے صابیوں کا شمار اہل کتاب میں کیا ہے، حضرت عمر ؓ نے ان کا ذبیحہ بھی حلال قرار دیا ہے۔ قال عمر بن الخطاب وابن عباس ؓ ھم قوم من اھل الکتاب وقال عمر تحل ذبائحھم مثل ذبائح اھل الکتاب۔ (معالم، ماجدی)
Top