Tafseer-e-Jalalain - An-Naml : 22
فَمَكَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَ جِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۭ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ
فَمَكَثَ : سو اس نے دیر کی غَيْرَ بَعِيْدٍ : تھوڑی سی فَقَالَ : پھر کہا اَحَطْتُّ : میں نے معلوم کیا ہے بِمَا : وہ جو لَمْ تُحِطْ بِهٖ : تم کو معلوم نہیں وہ وَجِئْتُكَ : اور میں تمہارے پاس لایا ہوں مِنْ : سے سَبَاٍ : سبا بِنَبَاٍ : ایک خبر يَّقِيْنٍ : یقینی
ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ (ہد ہد آموجود ہو اور) کہنے لگا کہ مجھے ایک ایسی چیز معلوم ہوئی ہے جس کی آپ کو خبر نہیں اور میں آپ کے پاس (شہر) سبا سے ایک سچی خبر لے کر آیا ہوں
آیت نمبر 22 تا 31 ترجمہ : فَمَکُثَ کاف کے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ، چناچہ تھوڑی دیر گزری تھی کہ (اس نے آکر) کہا یعنی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ بازو اور دم لٹکائے ہوئے اور سر اٹھائے ہوئے عاجزانہ طریقہ پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا، چناچہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کو معاف کردیا اور زمانہ غیبونت میں پیش آنے والے واقعہ کے بارے میں معلوم کیا تو اس نے کہا میں ایسی خبر لایا ہوں کہ آپ کو اس کی خبر نہیں یعنی میں ایسی خبر پر مطلع ہوا ہوں کہ آپ کو اس کی اطلاع نہیں اور میں (قوم) سبا کی سچی خبر آپ کے پاس لایا ہوں سَبَأ منصرف اور غیر منصرف دونوں ہے، سبا یمن میں ایک قبیلہ کا نام ہے جو کہ ان کے جد ابعد کے نام پر رکھا گیا ہے اور اسی وجہ سے یہ منصرف ہے (اور اگر قبیلہ کا نام ہو تو علمیۃ اور تانیث کی وجہ سے غیر منصرف ہوگا) میں نے دیکھا کہ ان پر ایک عورت حکومت کر رہی ہے یعنی وہ ان کی ملکہ ہے اس کا نام بلقیس ہے اور اس کے پاس ہر قسم کا سازوسامان ہے جس کی بارشاہوں کو ضرورت ہوتی ہے، یعنی ہتھیار اور دیگر سامان اور اس کا ایک عظیم الشان تخت بھی ہے جس کی لمبائی اسی ہاتھ اور چوڑائی چالیس ہاتھ اور اونچائی تیس ہاتھ ہے، سونے چاندی سے جڑا ہوا ہے، موتیوں اور یاقوت سرخ اور زَبَرْ جَدْ اور زَمُّرد سے آراستہ ہے اور اس کے پائے یاقوت احمر اور زبر جدا خضر اور زمرد کے ہیں، اور اس پر سات کمرے ہیں اور ہر کمرے پر بند دروازہ ہے میں نے اس کو اور اس کی قوم کو اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا اور شیطان نے ان کے اعمال ان کی نظر میں آراستہ کرکے پیش کر دئیے ہیں جس کی وجہ سے ان کو (شیطان) نے راہ حق سے روکدیا ہے پس وہ ہدایت پر نہیں آتے یہ کہ اللہ کو سجدہ کریں لاَ زائدہ ہے اس میں اَنْ کو مدغم کردیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول لِئلاَّ یَعْلَمَ اَھْلُ الکتاب حرف الیٰ کو حذف کرکے یھتدونَ کے مفعول کی جگہ میں ہے وہ (اللہ) کہ جو زمین اور آسمانوں کی مخفی چیزوں یعنی بارش اور نباتات کو باہر نکالتا ہے اَلْخبأَ مصدر مَخْبُوْءٌ کے معنی میں ہے اور جن چیزوں کو تم اپنے دلوں میں چھپاتے ہو اور جن چیزوں کو اپنی زبان سے ظاہر کرتے ہو وہ جانتا ہے وہی معبود برحق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش عظیم کا مالک ہے یہ جملہ مستانفہ ثنائیہ ہے، بلقیس کے تخت کے مقابلہ میں رحمٰن کے تخت پر مشتمل ہے حالانکہ ان کے درمیان بون بعید ہے (بڑا فرق ہے) سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا اب ہم دیکھیں گے کہ آیا تم نے اس بات میں جس کی تم نے ہم کو خبر دی سچ بولا یا تم جھوٹوں میں سے ہو یعنی جھوٹوں کی قسم سے ہو یہ جملہ اَمْ کَذَبْتَ فِیْہِ سے زیادہ بلیغ ہے، پھر (ہُدہُد) نے ان کے لئے پانی کی نشاندہی کی، چناچہ سلیمان (علیہ السلام) نے پانی نکلوایا، سب لوگ سیراب ہوئے وضو کیا نماز پڑھی، پھر سلیمان (علیہ السلام) نے ایک خط لکھا جس کا متن (حسب ذیل) ہے، اللہ کے بندے سلیمان بن داؤد کی طرف سے سبا کی ملکہ بلقیس کے نام، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم السلام علی مَنْ اتَّبَعَ الھدی امابعد ! میرے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو اور تابع فرمان ہو کر میرے پاس چلی آؤ پھر اس خط کو مشک سے سر بند کردیا اور اس پر اپنی مہر بھی لگا دی، پھر ہُدہُد سے فرمایا میرا یہ خط لیجا اور ان یعنی بلقیس اور اس کی قوم کو پہنچا دے پھر ان کے پاس سے ہٹ جانا اور ان کے قریب ہی کھڑے ہوجانا، اور دیکھنا کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ؟ چناچہ ہُدہُد نے وہ خط لیا اور بلقیس کے پاس آیا، حال یہ ہے کہ بلقیس کے گرداگرد لشکر تھا چناچہ ہُدہُد نے وہ خط بلقیس کی گود میں ڈال دیا جب بلقیس نے وہ خط دیکھا تو لرزہ براندام ہوگئی اور عاجزی کرنے لگی، اپنی قوم کے شرفاء سے کہنے لگی اے سردار و میری طرف ایک باوقعت یعنی سربمہر خط ڈالا گیا ہے دونوں ہمزوں کی تحقیق کے ساتھ اور ثانی کی تسہیل یعنی واؤ مک سورة سے بدل کر جو سلیمان کی طرف سے ہے جس کا مضمون یہ ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ کہ میرے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو اور فرمانبردار ہو کر میرے پاس چلی آؤ۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : اَبْلَغُ مِنْ اَن کَذِبتَ فیہ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اَمْ کذبتَ مختصر بھی ہے اور مشہور اور کثیر الاستعمال بھی پھر اخصر کو چھوڑ کر اَمْ کنتَ من الکاذبینَ کو جو کہ طویل بھی اور غیر معروف بھی کیوں اختیار فرمایا ؟ جواب اَمْ کذِبْتَ صدور کذب احْیاناً پر دلالت کرتا ہے اور ام کنت من الکاذبین دوام کذب اور عادت کذب پر دلالت کرتا ہے اس لئے اخصر کو چھوڑ کر اطول کو اختیار کیا۔ قولہ : فانظر (الآیۃ) انظر بمعنی انتظر ہے اور ما بمعنی الذی ہے، صلہ چونکہ جملہ ہے اس لئے عائد محذوف ہے تقدیر عبارت انتظر الذی یرجعونہ وتسھیل الثانیۃ بقلبھا واواً مکسوراً یہاں تسہیل سے معروف تسہیل مراد نہیں ہے بلکہ ہمزہ ثانیہ کو واؤ سے بدلنا مراد ہے یعنی یٰاَیُّھَا الْمَلأُونِّیْ اُلْقِیَ کتابٌ کریمٌ سے مہر لگا ہوا خظ مراد ہے، حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے آپ ﷺ نے فرمایا کرَمُ الکتابِ ختمہٗ خط کا باوقار ہونا اس کا مختوم ہونا ہے۔ قولہ : أنہٗ مَنْ سلیمان جملہ مستانفہ ہے یعنی سوال مقدر کا جواب ہے جب بلقیس نے کہا اِنِّی اُلقِیَ اِلَیَّ کتابٌ کریمٌ سوال ہوا مَاھُوَ ؟ جواب دیا اِنّہٗ مِن سلیمان الخ۔ قولہ : اَلاَّ تعلوا عَلَیَّ یا تو کتابٌ سے بدل ہونے کی وجہ سے محلاً مرفوع ہے یا مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے اَیْ مضمونہ اَلاَّ تَعْلُوْا عَلَیَّ واتونِیْ مسلمینَ ۔ تفسیر و تشریح حاکم کو اپنی رعیت اور مشائخ کو اپنے مریدوں اور استاذ کو اپنے شاگردوں کی خبر گیری ضروری ہے : آیت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنی رعایا کے ہر طبقہ پر نظر رکھتے تھے اور ان کے حالات سے اتنے باخبر رہتے کہ ہُدہُد جو طیور میں کمزور رعایا اور چھوٹا بھی ہے وہ حضرت سلیمان کی نظر سے اوجھل نہیں ہوا، اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حاکم کو خاص طور پر کمزور رعایا کی خبر گیری کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے، صحابہ کرام میں حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں اس سنت انبیاء کو پوری طرح جاری کیا، راتوں کو مدینہ منورہ کی گلیوں میں گشت لگاتے تھے تاکہ سب لوگوں کے حالات سے باخبر رہیں، اگر کسی کو کسی مصیبت و پریشانی میں گرفتار پاتے تو اس کی مدد فرماتے جس کے بہت سے واقعات ان کے سیرت میں مذکور ہیں، حضرت عمر ؓ فرمایا کرتے تھے ” اگر دریائے فرات کے کنارے پر بھیڑئیے نے کسی بکری کے بچہ کو پھاڑ ڈالا تو اس کا بھی عمر سے سوال ہوگا۔ (قرطبی، معارف) یہ تھے وہ اصول جہانبانی اور حکمرانی جو انبیاء (علیہ السلام) نے لوگوں کو سکھائے اور صحابہ کرام ؓ نے ان کو عملاً جاری کرکے دکھلایا، جس کے نتیجے میں پوری مسلم و غیر مسلم رعایا امن و اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتی تھی، اور ان کے بعد زمین و آسمان نے ایسے عدل و انصاف اور عام دنیا کے امن و سکون اور اطمینان کا منظر نہیں دیکھا۔ سبا ایک شخص کے نام پر ایک قوم کا نام بھی تھا اور ایک شہر کا نام بھی تھا یہاں شہر مراد ہے، یہ صنعاء (یمن) سے تین دن کے فاصلہ پر ہے اور مآرب یمن کے نام سے مشہور ہے۔ اِنی وَجَدْتُّ امرأۃً تملکھم یعنی ہُدہُد کے لئے یہ امر باعث تعجب تھا کہ سبا میں ایک عورت حکمراں ہے، اس کے برخلاف آج کہا جاتا ہے کہ عورتیں بھی ہر معاملہ میں مردوں کے برابر ہیں، اگر مرد حکمراں ہوسکتا ہے تو عورت کیوں نہیں ہوسکتی ؟ حالانکہ یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بعض لوگ ملکہ سبا (بلقیس) کے اس ذکر سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورت کی سربراہی جائز ہے، حالانکہ قرآن کریم نے ایک واقعہ کے طور پر اس کا ذکر کیا ہے، اس سے اس کے جواز کا کوئی تعلق نہیں ہے، عورت کی سربراہی کے عدم جواز پر قرآن و حدیث میں واضح دلائل موجود ہیں۔ الا یسجدوا للہ لا زائدہ اور لایھتدون اس میں عامل ہے یعنی ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ سجدہ صرف اللہ کو کریں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الا یسجدوا کا تعلق زین کے ساتھ ہو یعنی شیطان نے یہ بھی ان کے لئے مزین کردیا کہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں۔ ہُدہُد نے چونکہ توحید کا وعظ اور شرک کا رد کیا ہے اور اللہ کی عظمت شان کو بیان کیا ہے اس لئے حدیث شریف میں آیا ہے چار جانوروں کو قتل نہ کرو چیونٹی، شہد کی مکھی، ہُدہُد، صرد (یعنی لٹورا) اس کا سر بڑا اور پیٹ سفید اور پیٹھ سبز ہوتی ہے یہ چھوٹے چھوٹے پرندوں کا شکار کرتا ہے۔ (مسند احمد 1/332، ابو داؤد کتاب الادب) اِذْھَبْ بکتابِیْ ھٰذَا حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ سبا کے نام خط بھیجنے کو اس پر اتمام حجت کے لئے کافی سمجھا اور اسی پر عمل فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ عام معاملات میں تحریر و خط قابل اعتبار ثبوت ہے، فقہاء رحمہم اللہ صرف ان مواقع پر خط کو کافی نہیں سمجھتے جہاں شہادت شرعیہ کی ضرورت ہے، کیونکہ خط اور ٹیلیفون وغیرہ کے ذریعہ شہادت نہیں لی جاسکتی، شہادت کا مدار شاہد کا عدالت کے سامنے آکر بیان دینے پر رکھا گیا ہے، جس میں بڑی حکمتیں مضمر ہیں یہی وجہ ہے کہ آج کل بھی دنیا کی کسی عدالت میں خط اور ٹیلیفون پر شہادت کو کافی نہیں سمجھا جاتا۔
Top