Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 176
وَ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ١ۚ اِنَّهُمْ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰهَ شَیْئًا١ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَلَّا یَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِی الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
وَلَا : اور نہ يَحْزُنْكَ : آپ کو غمگین کریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يُسَارِعُوْنَ : جلدی کرتے ہیں فِي الْكُفْرِ : کفر میں اِنَّھُمْ : یقیناً وہ لَنْ يَّضُرُّوا : ہرگز نہ بگاڑ سکیں گے اللّٰهَ : اللہ شَيْئًا : کچھ يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَلَّا : کہ نہ يَجْعَلَ : دے لَھُمْ : ان کو حَظًّا : کوئی حصہ فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اور جو لوگ کفر میں جلدی کرتے ہیں ان (کی وجہ) سے غمگین نہ ہونا یہ خدا کا کچھ نقصان نہیں کرسکتے۔ خدا چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کو کچھ حصہ نہ دے۔ اور ان کے لئے بڑا عذاب (تیار) ہے
آیت نمبر 176 تا 180 ترجمہ : جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے (دوبارہ) قتال کے لیے نکلنے کے حکم پر لبیک کہہ دیا باوجودیکہ وہ احد میں زخم خوردہ ہوچکے تھے۔ (اور یہ اس وقت ہوا) کہ جب ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں نے پلٹ کر آنے کا ارادہ کیا۔ اور نبی ﷺ سے یوم احد کے بعد آئندہ سال بازار بدر کے موقع پر (مقابلہ آرائی) کا چیلنج کیا۔ اَلَّذِیْنَ مبتدا ہے اور اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ ، اس کی خبر ہے۔ ان میں سے جنہوں نے اس کی اطاعت کے ذریعہ نیکی اختیار کی اور اس کی مخالفت سے اجتناب کیا ان کے لیے اجر عظیم ہے اور وہ جنت ہے۔ اور یہ ایسے لوگ ہیں (الذین) سابق الذین سے بدل یا صفت ہے۔ کہ جب ان سے لوگوں یعنی نعیم بن مسعود اشجعی نے کہا کہ لوگوں (یعنی) ابوسفیان اور اس کے اصحاب نے تمہارے مقابلہ کے لیے ایک بڑی جماعت کرلی ہے تاکہ تم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں لہٰذا تم ان سے ڈرو، اور ان کے مقابلے کے لیے نہ نکلو۔ تو اس بات نے ان کے اللہ پر یقین اور تصدیق میں اضافہ کردیا۔ اور ان لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ ان کے معاملہ میں ان کے لیے کافی ہے۔ اور وہ بہترین کارساز ہے۔ معاملہ اسی کے حوالہ ہے۔ اور وہ نبی ﷺ کے ہمراہ نکلے اور بازار بدر میں فروکش ہوئے اور اللہ نے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے دل میں رعب ڈال دیا جس کی وجہ سے انہوں نے آنے کی ہمت نہیں کی اور مسلمانوں کے ساتھ سامان تجارت (بھی) تھا جس کو فروخت کرکے خوب نفع کمایا۔ (نتیجہ یہ ہوا) کہ یہ لوگ مقام بدر سے اللہ کے انعام اور فضل کے ساتھ صحیح سلامت اور نفع کے ساتھ واپس ہوئے اور ان کو قتل یا زخم، کسی قسم کی کوئی تکلیف پیش نہیں آئی۔ اور ان لوگوں نے نکلنے میں اطاعت کے ذریعہ اللہ کی رضا کی پیروی کی اور اللہ اپنے اطاعت گزاروں پر بڑے فضل والا ہے یقیناً یہ ّاِنّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ ) کا قائل شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں (یعنی کافروں سے خوف زدہ کر رہا ہے۔ تم ان کافروں سے خوف زدہ نہ ہونا، اور میرے حکم کو ترک کرنے میں مجھ سے ہی ڈرنا اگر تم صحیح معنیٰ میں مومن ہو اور وہ لوگ جو کفر میں جلدی کرتے ہیں یعنی کفر کی مدد کرکے اس میں جلدی واقع ہوجاتے ہیں اور وہ اہل مکہ ہیں یا منافقین ہیں، آپ کو غمگین نہ کریں (لَایُحزِنک) یاء کے ضمہ اور زاء کے کسرہ کے ساتھ اور یاء کے فتحہ اور زاء کے ضمہ ساتھ، حَزْنَہٗ سے اَحْزَنَہٗ میں ایک لغت ہے۔ یقیناً یہ لوگ اپنی حرکتوں سے اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے وہ تو اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اللہ کی یہی مشیت ہے کہ ان کے لیے آخرت یعنی جنت میں کچھ حصہ نہ رکھے۔ اور ان کے لیے جہنم میں بڑا عذاب ہے یقیناً جن لوگوں نے ایمان کے عوض کفر خرید لیا ہے یعنی ایمان کے نجائے کفر اختیار کرلیا ہے وہ اپنے کفر کی وجہ سے اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے، اور کافر لوگ ہماری اس درزای عمر اور تاخیر (مواخذہ) کی دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں (تحسین) یاء اور تاء کے ساتھ دونوں قراءتیں ہیں۔ اور انّ کو مع اپنے معمول کے یَحْسَبَنَّ بالیاء کی صورت میں قائم مقام دو مفعولوں کے قرار دیا ہے، اور تَحْسَبَنَ ، بالتاء کی صورت میں مفعول ثانی کا قائم قرار دیا گیا ہے، ہم ان (کافروں) کو صرف اس لیے مہلت دے رہے ہیں تاکہ کثرت معاصی کے ذریعہ ان کے گناہ زیادہ ہوجائیں۔ اور آخرت میں ان کے لیے اہانت آمیز عذاب ہے۔ اے لوگو مخلص اور غیر مخلص کی اختلاط کی جس حالت پر تم ہو اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اس حال پر نہ چھوڑے گا تاآنکہ خبیث یعنی منافق کو طیب (یعنی) مومن سے اس کو ظاہر کرنے والی تکالیف شاقہ کے ذریعہ ممتاز نہ کر دے۔ چناچہ یوم احد میں ایسا کیا، اور نہ اللہ تمہیں غیب پر مطلع کرنے والا ہے کہ تم منافق کو غیر منافق سے شناخت کرسکو البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے تو اس کو غیب پر مطلع کردیتا ہے۔ جیسا کہ نبی ﷺ کو منافقین کے حال پر مطلع کردیا سو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اگر تم ایمان لے آئے اور نفاق سے اجنتاب کیا تو تمہارے لیے اجر عظیم ہے اور جنہیں اللہ نے اپنے فضل و کرم سے کچھ دے رکھا ہے تو اس میں بخیلی کو بہتر نہ خیال کریں (یَحْسَبَنَّ ) تاء اور یاء کے ساتھ دونوں قراءتیں ہیں، (خیرًا) مفعول ثانی ہے اور ھُوَ ، ضمیر متصل کے لیے ہے اور مفعول اول (بُخْلَھُمْ ) فوقانیہ کی صورت میں موصول سے پہلے مقدر ہے اور ضمیر سے پہلے تھٹانیہ کی صورت میں۔ بلکہ وہ ان کے لیے نہایت برا ہے عنقریب قیامت کے دن ان (بخیلی کرنے والوں کی گردنوں) میں اس مال زکوۃ کا جس میں انہوں نے بخیلی کی ہے طوق بنا کر ڈالا جائے گا۔ اس طور پر کہ اس مال کو سانپ بنا کر ان کی گردنوں میں ڈالا جائے گا اور اس کو ڈستا رہے گا۔ جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے۔ آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے اہل ارض و سماء کے فنا ہونے کے بعد اللہ ان کا وارث ہوگا۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے بخوبی واقف ہے یاء اور تاء کے ساتھ پس تمہیں اس کا بدلہ دے گا۔ تحقیق و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : اَلَّذِیْنَ مبتدأ، یعنی اَلّذِیْنَ اپنے صلہ سے مل کر مبتداء ہے۔ اور لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ الخ خبر مقدم ہے، اَجَرٌ عظیم مبتداء مؤخر ہے۔ مبتداء مؤخر اپنی خبر مقدم سے مل کر جملہ ہو کر خبر ہے الَّذِیْنَ اول کی۔ قولہ : بدل من الذین۔ او نعت، مفسر علام نے الذین ثانی کو الذین اول سے بدل یا صفت قرار دیا ہے مگر اس میں اشکال ہے اس لیے کہ پہلے الذین سے خاص وہ لوگ مراد ہیں جو غزوہ احد میں شریک ہوئے تھے اور ثانی الذین سے عام مسلمان مراد ہیں حالانکہ بدل اور نعمت کے لیے دونوں میں اتحاد ضروری ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ الذین ثانی کو اَمْدُح فعل محذوف سے منصوب قرار دیا جائے۔ (اعراب القرآن) ۔ قولہ : ھُوَ ، یہ مخصوص بالمدح ہے۔ قولہ : کُمْ ، اس میں اشارہ ہے کہ، کُمْ ، یُخوِّف کا مفعول ثانی ہے مفعول اول محذوف ہے۔ قولہ : فتح الیاء و ضم الزاء یعنی باب نصر سے۔ قولہ : یقعُوْن فیہ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یُسَارِعُوْنَ متعدی بالیٰ ہوتا ہے اور یہاں متعدی، بفی۔ جواب : یسارعون، یَقَعُوْنَ کے معنی کو متضمن ہے۔ قولہ : مؤلِمٌ اَلِیْمٌ کی تفسیر مؤلمٌ سے کرکے اشارہ کردیا کہ لازم بمعنی متعدی ہے لہٰذا یہ شبہ ختم ہوگیا کہ عذاب صاحب الم خود (دردمند) نہیں ہوتا بلکہ اس میں داخل ہونے والا صاحب الم (دردمند) ہوتا ہے۔ قولہ : ای املاءنا اس میں اشارہ ہے کہ ما مصدریہ ہے نہ کہ موصولہ جیسا کہ اِنَّ کو ما سے متصل لکھنے کی وجہ سے وہم ہوتا ہے مناسب یہ تھا اِنَّ مَا کو اِنَّمَا لکھا جاتا مگر چونکہ مصحف ثانی میں اسی طرح مکتوب ہے اس لیے اس کی مخالفت نہیں کی گئی۔ اس لیے کہ ما موصولہ ہونے کی صورت میں ایک تو عائد کی ضرورت ہوگی جو کہ موجود نہیں ہے دوسرے یہ کہ معنی بھی درست نہیں ہیں۔ قولہ : قبل الموصول تقدیر عبارت یہ ہوگی ” ولا تحسبن بخل الذین “۔ قولہ : قبل الضمیر تقدیر عبارت یہ ہوگی ” ولایحسَبَنَّ البُخْلَاءُ بُخْلَھُمْ ھُوْ خَیْرًا لَھُمْ ، مقدر کو ضمیر پر مقدم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ضمیر فصل مبتدا اور خبر ہی کے درمیان واقع ہوئی ہے۔ اللغۃ والبلاغۃ (1) اِنَّ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْکُفْرَ بِالاِیْمَانِ ۔ اِسْتعارۃ مکنیۃ فی اشتراء الکفر بالایمان، وقد تقدّمَ القولُ فی ھذا۔ (2) اِنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ لِیَزْدَادُوْا اِثْمًا۔ استعارۃ تصریحیۃ فی الاملاء فَقَدْ سبَّہ امھالَھم، وترک الحبل لھم علی غوار بھم، بالفرس الذی یملی لھم الحبل لیجری علی سجیۃ۔ ویرتقی کیف یشاء، فحذف المشبہ وھو الامھال والترک، وابقی مشبہ بہ وھو الاملاء۔ الطباق : الطباق بین خیر وشرٍّ وبین السموات والارض۔ تفسیر و تشریح ربط آیات اور شان نزول : اوپر غزوہ احد کا ذکر تھا مذکورہ آیات میں اسی غزوہ سے متعلق ایک اور غزوہ کا ذکر ہے جو غزوہ احمر الاسد کے نام سے مشہور ہے، حمراء الاسد مدینہ طیبہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر ایک مقام کا نام ہے۔ واقعہ کی تفصیل : جنگ احد سے پلٹ کر جب مشرکین کئی منزل دور چلے گئے تو انہیں ہوش آیا اور آپس میں کہنے لگے ہم نے یہ کیا حرکت کی کہ محمد ﷺ کی طاقت توڑ دینے کا جو پیش قیمت موقع ملا تھا اس کھو کر چلے آئے چناچہ مشرکین مکہ نے ایک جگہ جمع ہو کر مشورہ کیا کہ مدینہ منورہ پر فوراً ہی دوسرا حملہ کردیا جائے لیکن پھر ہمت نہ پڑی ان پر اللہ نے ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ سیدھے مکہ مکرمہ کو ہولیے۔ اور ایک شخص جس کا نام نعیم بن مسعود تھا جو مدینہ کی طرف آرہا تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ عبد قیس کا ایک قافلہ ابوسفیان کے پاس سے گزرا تو ابو سفیان نے مسلمانوں کو کہلوایا کہ ابوسفیان نے ایک بڑا لشکر جمع کر رکھا ہے اس کا ارادہ ہے کہ مدینہ پر دوبارہ حملہ کرکے سب نیست و نابود کر دے گا۔ چناچہ ان لوگوں نے یہ خبر رسول اللہ ﷺ کو حمراء الاسد کے مقام پر پہنچائی تو آپ نے اور مسلمانوں نے کہا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے ” اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا للہ وَالرَّسُوْلِ “ آیات نازل فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کی گفتگو معلوم ہوگئی تو آپ ان کے تعاقب میں حمراء الاسد تک نکلے۔ تفسیر قرطبی میں ہے کہ احد کے دوسرے دن رسول اللہ ﷺ نے اپنے مجاہدین میں اعلان فرمایا کہ ہمیں مشرکین کا تعاقب کرنا ہے مگر اس میں صرف وہی لوگ جاسکتے ہیں جو کل کے معرکہ میں ہمارے ساتھ تھے، اس اعلان پر دو سو مجاہد جمع ہوگئے۔ دوسری طرف یہ ہوا کہ معبد کہ معبد خزاعی بنی خزاعہ کا ایک شخص مدینہ سے مکہ کی طرف جا رہا تھا یہ شخص اگرچہ مسلمان نہ تھا مگر مسلمانوں کا خیر خواہ تھا اس کا قبیلہ رسول اللہ ﷺ کا حلیف تھا۔ راستہ میں جب ابو سفیان کو دیکھا کہ وہ اپنے لوٹنے پر پچھتا رہے ہیں اور واپسی کی فکر میں ہے تو اس نے سفیان کو بتایا کہ تم دھوکے میں ہو کہ مسلمان کمزور ہوگئے ہیں۔ میں ان کے بڑے لشکر کو حمراء الاسد کے مقام پر چھوڑ کر آیا ہوں جو پورے سامان کے ساتھ تمہارا تعاقب کر رہے ہیں۔ ابوسفیان اس خبر سے مرعوب ہوگیا اور واپس چلا گیا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بدرصغری کے موقعہ پر ابوسفیان نے بعض لوگوں کی خدمات مالی معاوضہ سے کر حاصل کیں اور ان کے ذریعہ مسلمانوں میں یہ افوارہ پھیلائی کہ مشرکین لڑائی کے لیے پھر پوری تیاری کر رہے ہیں تاکہ یہ سن کر مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں، بعض روایات کی رو سے یہ کام شیطان نے اپنے حیلے چانٹوں کے ذریعہ لیا تھا۔ لیکن مسلمان ان افواہوں سے خوفزدہ ہونے کی بجائے مزید عزم و حوصلہ سے سرشار ہوگئے۔
Top