Fahm-ul-Quran - Maryam : 33
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُ١ۙ وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ١ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ١٘ وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ١ؕ وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ١ؕ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ١ؕ وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا١ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتَ : گھر (جمع) النَّبِيِّ : نبی اِلَّآ : سوائے اَنْ : یہ کہ يُّؤْذَنَ : اجازت دی جائے لَكُمْ : تمہارے لیے اِلٰى : طرف (لیے) طَعَامٍ : کھانا غَيْرَ نٰظِرِيْنَ : نہ راہ تکو اِنٰىهُ ۙ : اس کا پکنا وَلٰكِنْ : اور لیکن اِذَا : جب دُعِيْتُمْ : تمہیں بلایا جائے فَادْخُلُوْا : تو تم داخل ہو فَاِذَا : پھر جب طَعِمْتُمْ : تم کھالو فَانْتَشِرُوْا : تو تم منتشر ہوجایا کرو وَلَا مُسْتَاْنِسِيْنَ : اور نہ جی لگا کر بیٹھے رہو لِحَدِيْثٍ ۭ : باتوں کے لیے اِنَّ : بیشک ذٰلِكُمْ : یہ تمہاری بات كَانَ يُؤْذِي : ایذا دیتی ہے النَّبِيَّ : نبی فَيَسْتَحْيٖ : پس وہ شرماتے ہیں مِنْكُمْ ۡ : تم سے وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَسْتَحْيٖ : نہیں شرماتا مِنَ الْحَقِّ ۭ : حق (بات) سے وَاِذَا : اور جب سَاَلْتُمُوْهُنَّ : تم ان سے مانگو مَتَاعًا : کوئی شے فَسْئَلُوْهُنَّ : تو ان سے مانگو مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ۭ : پردہ کے پیچھے سے ذٰلِكُمْ : تمہاری یہ بات اَطْهَرُ : زیادہ پاکیزگی لِقُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں کے لیے وَقُلُوْبِهِنَّ ۭ : اور ان کے دل وَمَا كَانَ : اور (جائز) نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تُؤْذُوْا : کہ تم ایذا دو رَسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کا رسول وَلَآ : اور نہ اَنْ تَنْكِحُوْٓا : یہ کہ تم نکاح کرو اَزْوَاجَهٗ : اس کی بیبیاں مِنْۢ بَعْدِهٖٓ : ان کے بعد اَبَدًا ۭ : کبھی اِنَّ : بیشک ذٰلِكُمْ : تمہاری یہ بات كَانَ : ہے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک عَظِيْمًا : بڑا
مومنو ! پیغمبر کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر اس صورت میں کہ تم کو کھانے کے لئے اجازت دی جائے اور اس کے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے لیکن جب تمہاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو یہ بات پیغمبر کو ایذا دیتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتے تھے (اور کہتے نہیں تھے) لیکن خدا سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا اور جب پیغمبر کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو یہ تمہارے اور انکے (دونوں کے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے) اور تم کو یہ شایان نہیں کہ پیغمبر خدا کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ انکی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو بیشک یہ خدا کے نزدیک بڑا گناہ (کا کام) ہے
آیت نمبر 53 تا 58 ترجمہ : اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں (بلابلائے) مت جایا کرو مگر یہ کہ تم کو کھانے کے لئے دعوت کے طور پر آنے کی اجازت دیدی جائے تو اس طرح داخل ہوسکتے ہو کہ کھانے کی تیاری کے منتظر نہ رہو، اِنیٰ ، اَنیٰ یَانِی کا مصدر ہے، لیکن جب تم کو بلایا جائے تب جاتا کرو پھر جب کھانے سے فارغ ہوجاؤ تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور آپس میں باتوں میں دلچسپی لیکر بیٹھے نہ رہا کرو بلاشبہ اس بیٹھے رہنے سے نبی کو ناگواری ہوتی ہے سو وہ تم کو چلے جانے کے لئے کہنے کے بارے میں تمہارا لحاظ کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ بیان حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا یعنی حق بیان کرنے کو ترک نہیں کرتا، اور ایک قراءت میں یَسْتَحِیْ ایک یاء کے ساتھ بھی ہے، جب تم ان سے یعنی نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے باہر سے طلب کرو یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی مشتبہ خیالات سے پاکیزگی ہے اوت تمہارے لئے یہ بات مناسب نہیں کہ کسی طرح بھی اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ تمہارے لئے یہ حلال ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کبھی بھی آپ کی ازواج کے بارے میں، اللہ تعالیٰ ہر شئ سے بخوبی واقف ہے وہ اس پر تم کو ضرور بدلہ دے گا، اور ازواج مطہرات پر اپنے باپوں کے بارے میں کوئی گناہ نہیں اور نہ اپنے بیٹوں کے بارے میں اور نہ اپنے بھائیوں کے بارے میں اور نہ اپنے بھتیجوں کے بارے میں، اور نہ بھانجوں کے اور نہ اپنی عورتوں یعنی مومنات کے بارے میں اور نہ اپنے مملوکوں کے بارے میں خواہ وہ باندی ہوں یا غلام کوئی حرج نہیں یہ کہ ان کو دیکھیں اور بغیر حجاب کے ان سے باتیں کریں، اور جس بات کا تم کو حکم دیا گیا ہے اس میں اللہ سے ڈرتی رہو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا نگراں ہے، اس سے کوئی شئ مخفی نہیں بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی محمد ﷺ پر رحمت بھجتے ہیں اے ایمان والو ! تم بھی آپ ﷺ پر درودبھیجو اور خوب سلام بھیجا کرو یعنی اللّٰھُمَّ صلِّ علیٰ محمدٍ وَسَلِّمْ کہا کرو بلا شبہ وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں، اور وہ کفار ہیں اللہ کے لئے ایسی صفات ثابت کرتے ہیں جن سے وہ پاک ہے یعنی اولاد سے اور شرک سے اور اس کے رسول کی تکذیب کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے ان کو رحمت سے دور کردیا ہے اور ان کے لئے اہانت آمیز عذاب تیار کررکھا ہے، اور وہ آگ ہے، جو مومنین اور مومنات کو بلا وجہ تکلیف پہنچاتے ہیں یعنی ان کے بغیر کچھ کئے طعنہ زنی کرتے ہیں تو وہ بہتان یعنی جھوٹ اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : اِلَّا اَنْ یُّؤْذَنَ لَکُمْ یہ عموم احوال سے استثناء ہے ای لا تَدْخلو ھا فی حال من الا حوال الّا حال کو نکم ماذونالکم . قولہ : الیٰ طعام کا تعلق، یُؤْذَنُ کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے یُؤْذَنُ سے ہے، شارح (رح) تعالیٰ نے بالدعاء کا اضافہ یہ بتانے کے لئے کیا ہے کہ یُؤْذن یُدْعون کے معنی کو متضمن ہے ورنہ یُؤْذَنُ کا صلہ الیٰ نہیں آتا اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت ولیمۂ زینب حجش ؓ کے بارے میں نازل ہوئی، واقعہ کی تفصیل تفسیر کے زیر عنوان ملاحظہ فرمائیں۔ قولہ : اِناہُ . اَنیٰ یانِی کا مصدر ہے بروزن رَمٰی یَرْمِیْ پکنا، تیار ہونا اَنِیٰ بالفتح والکسریہ انایانِی (ض) کا مصدر ہے، معنی پکنے اور وقت آنے کے ہیں، اِنیٰ مصدر قیاسی اَنیٰ ہے لیکن یہ سنا نہیں گیا۔ (اعراب القرآن، للدرویش) قولہ : فَانتشِروا اِذَا طَعِمْتُمْ کا جواب ہے۔ قولہ : وَلاَ مُسْتَاْنِسِیٌنَ کا عطف غیر ناظرینَ پر ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ حال مقدر پر عطف ہے ای لا تَدْخُلوھا ھا جِمِیْنَ وَلَا مُسْتَانِسِیْنَ زمخشری نے کہا ہے کہ مستانسین، ناظرین پر معطوف ہونے کی وجہ سے مجرور ہے۔ قولہ : لا یستحْی کی تفسیر لا یترک سے کرکے اشارہ کردیا کہ یستحی بمعنی لا یترک ہے جو کہ لازم معنی ہیں اس لئے کہ حیا کی نسبت اللہ کی طرف درست نہیں ہے۔ قولہ : ذَالِکُمْ اَطْھَرُ ، ذلِکُمْ لا مرجع بغیر اجازت کے داخل نہ ہونا، اور باتوں میں دلچسپی لیکر جم کر نہ بیٹھ رہنا، اور پردے کے باہر سے سامان طلب کرنا ہے، یعنی مذکورہ باتیں تہمت اور شیطانی وساوس کے دفع کرنے کے لئے بہت مفید و مؤثر ہیں۔ قولہ : مَا کان لَکُمْ ای ما صَحَْ لکم اَنْ تُؤ ذُوا، اَنْ تؤذوا کان کا اسم ہے اور لَکُمْ اس کی خبر اور وَاَنْ تَنْکِحُوْا کا عطف کان کے اسم پر ہے۔ قولہ : اَنْ یَرَوْھُنَّ وَیُکَلِّمُوْھُنَّ کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ فِی آبائھِنَّ ولا اَبْنَائِھِنَّ (الخ) حذف مضاف کے ساتھ ہیں، یعنی ان لوگوں کو دیکھنے اور ان سے کلام کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ قولہ : وَاتَّقِیْنَ اللہ اس کا عطف محذوف پر ہے اَی اِمْتَثِلْنَ مَا اُمِرْتُنَّ بہ وَاتَّقِیْنَ اللہ۔ قولہ : صلوٰۃ اس کے متعدد معنی ہیں، رحمت، دعاء، تعظیم وثناء ان کو بیک وقت مراد لینا عموم مشترک کہلاتا ہے بعض حضرات کے یہاں یہ جائز نہیں ہے اس لئے یہ کہا جائے گا کہ لفظ صلوۃ کے اس جگہ ایک ہی معنی مراد ہیں یعنی آپ کی تعظیم اور مدح وثناء پھر جب یہ معنی اللہ کیطرف منسوب ہوں تو رحمت مراد ہوگی اور فرشتوں کی طرف منسوب ہوں تو دعاء و استغفار مراد ہوگی اور اگر عام مومنین کی طرف منسوب ہوں تو دعاء اور مدح و تعظیم کا مجموعہ مراد ہوگا، لفظ سلام مصدر ہے بمعنی سلامت جیسے ملام بمعنی ملامت مستعمل ہوتا ہے اور مراد اس سے یہ ہے کہ نقائص و عیوب اور آفات سے سلامتی آپ کے ساتھ رہے، عربی زبان کے قاعدے سے یہاں حرف علی کا موقع نہیں چونکہ سلام ثناء کے معنی کو متضمن ہے اس لئے حرف علیٰ کے ساتھ علیک یا علیکم کہا جاتا ہے۔ تفسیر وتشریح شان نزول : یٰایھا۔۔۔ النبی (الآیۃ) اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ نبی ﷺ کی دعوت پر حضرت زینب ؓ بنت حجش کے ولیمے میں صحابہ کرام ؓ تشریف لائے جن میں سے بعض کھانے کے بعد بھی بیٹھے ہوئے باتیں کرتے رہے جس سے آپ ﷺ کو تکلیف ہوئی، تاہم حیا واخلاق کی وجہ سے آپ ﷺ نے انہیں جانے کے لئے نہیں فرمایا، حضرت انس ؓ کی صحیح بخاری کی روایت میں واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ چونکہ میں اس واقعہ کے وقت خود موجود تھا اس لئے آیت حجاب کی حقیقت سے میں زیادہ واقف ہوں، جب حضرت زینب ؓ نکاح کے بعد حرم نبوی میں داخل ہوئیں تو آپ نے ولیمے کی دعوت کی، کھانے کے بعد کچھ لوگ وہیں جم کر باتیں کرنے لگے، ترمذی کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ بھی وہیں تشریف رکھتے تھے، اور حضرت زینب ؓ بھی اسی جگہ موجود تھیں جو حیاء کی وجہ سے دیوار کی طرف اپنا رخ پھیرے ہوئے بیٹھی تھیں، یہ نزول حجاب سے پہلے کی بات ہے جبکہ زنانہ مکانوں میں مردوں کے داخل ہونے پر پابندی نہیں تھی بلکہ دعوت وغیرہ کا انتظام زنا نخانہ میں ہی ہوتا تھا، ان لوگوں کے اس طرح دیر تک بیٹھنے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو تکلیف ہوئی آپ ان لوگوں کو اٹھنے کا اشارہ دینے کے طور پر باہرنکلے اور حضرت عائشہ ؓ کے گھر تشریف لے گئے یہ خیال کرکے کہ اب شاید لوگ چلے گئے ہوں گے واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ حضرات بیٹھے ہوئے ہیں آپ کو اس کا بہت احساس ہوا، تھوڑی دیر گھر میں قیام کے بعد پھر باہر تشریف لے گئے، کچھ دیر کے بعد جب آپ ﷺ واپس تشریف لائے تو وہ حضرات بدستور ڈٹے تھے، جب ان حضرات کو احساس ہوا تو اٹھ کر چلے گئے، اس واقعہ کے کچھ ہی دیر بعد مذکورہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے پڑھ کر سنائی، چناچہ اس آیت میں دعوت کے آداب بتلائے گئے ہیں، ایک تو یہ کہ اس وقت جاؤ جب کھانا تیار ہوچکا ہو، پہلے جا کر دھرنا مار کر نہ بیٹھ جاؤ، دوسرے یہ کہ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو چلے جایا کرو۔ آیت حجاب : اذا۔۔۔ متاعًا (الآیۃ) حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ آیت حجاب حضرت عمر ؓ کی خواہش کے مطابق نازل ہوئی، ایک حضرت عمر ؓ نے آپ ﷺ سے عرض کیا، یارسول اللہ آپ کے پاس اچھے برے ہر قسم کے آدمی آتے ہیں، کاش آپ امہات المومنین کو پردے کا حکم فرمادیں تو کیا اچھا ہو، جس پر اللہ تعالیٰ نے آیت مذکورہ نازل فرمائی۔ ما۔۔۔ قلوبھن یہ پردے کی حکمت اور علت ہے اس سے مراد اور عورت دونوں کے دل ریب وشک سے اور ایک دوسرے کے ساتھ فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں گے۔ ما۔۔۔ ابدًا اور تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو (یادرکھو) اللہ کے نزدیک یہ بڑا (گناہ) ہے یہ حکم ان ازواج کے بارے میں ہے جو آپ کی وفات کے بات آپ کے حبالۂ عقد میں تھیں، البتہ وہ عورتیں جن کو آپ ﷺ نے ہمبستری کے بعد طلاق دیکر الگ کردیا ہو، وہ اس کے عموم میں دخل ہیں یا نہیں ؟ اس میں دورائے ہیں بعض ان کو بھی شامل سمجھتے ہیں اور بعض نہیں، لیکن آپ کی کوئی ایسی بیوی تھی ہی نہیں، اس لئے یہ محض ایک فرضی شکل ہے، ایک تیسری قسم ان عورتوں کی ہے جن سے آپ ﷺ نے نکاح کیا ہو لیکن ہم بستری سے قبل ہی ان کو آپ نے طلاق دے دی ان سے دوسرے لوگوں کا نکاح درست ہونے میں کوئی نزاع معلوم نہیں۔ (تفسیر ابن کثیر) ولا۔۔۔ ابدا میں ظاہر اور ازواج کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مدخولہ سے بھی نکاح صحیح نہیں ہے کہ مستعیذہ (پناہ چاہنے والی بنت جون) اور وہ بیوی کہ آپ نے اس کے پہلو میں سفید داغ دیکھا تو ہم بستری سے قبل ہی فرمایا اِلْحَقِیْ بِاَھْلِکِ امام الحرمین اور رافعی نے صغیر میں اس بات کو صحیح قرار دیا ہے کہ حرمت صرف مدخول بہا کی ہے، اس لئے کہ روایت کیا گیا ہے کہ اشعث بن کندی نے مستعیذہ (پناہ چاہنے والی بنت جون) سے حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں نکاح کیا تھا تو حضرت عمر ؓ نے ان کو رجم کرنے کا ارادہ کیا تو اشعت بن قیس نے بتایا کہ وہ آپ ﷺ کی مدخول بہا نہیں ہے، تو حضرت عمر ؓ نے بلا کسی نکیر کے رجم کا ارادہ ملتوی کردیا۔ (روح المعانی) لا۔۔۔ آبائھن (الآیۃ) جب عورتوں کیلئے پردے کا حکم نازل ہوا تو پھر گھر میں موجود اقارب یا ہر وقت آنے جانیوالے رشتہ داروں کی بابت سوال ہوا کہ ان سے پردہ کیا جائے یا نہیں ؟ چناچہ اس آیت میں ان اقارب کا ذکر کردیا گیا جن سے پردے کی ضرورت نہیں، اس کی تفصیل سورة نور کی آیت 31 میں گذر چکی ہے ملاحظہ کرلیا جائے۔ واتقین۔۔۔ شھیدا اس مقام پر عورتوں کو تقویٰ کا حکم دے کر واضح کردیا کہ اگر تمہارے دلوں میں تقویٰ ہوگا تو پردے کا جو اصل مقصد قلب و نظر کی طہارت اور عصمت کی حفاظت ہے یقیناً وہ تم کو حاصل ہوگا، ورنہ حجاب کی ظاہری پابندیاں تمہیں گناہ میں ملوث ہونے سے نہیں بچاسکتیں۔ انسداد فواحش کا اسلامی نظام : فواحش، بدکاری، زنا اور اس کے مقدمات دنیا کی ان مہلک برائیوں میں سے جن کے مہلک اثرات صرف اشخاص وافراد ہی کو نہیں بلکہ قبائل اور خاندانوں کو اور بعض اوقات بڑے بڑے ملکوں کو تباہ کردیتے ہیں۔ دنیا کے اس موجودہ دور میں مغربی اقوام نے اپنی مذہبی حدود اور قدیم قومی روایات سب کو توڑ کر زنا کو اپنی ذات میں کوئی جرم نہیں رکھا، اور تمدن و معاشرت کو ایسے سانچے میں ڈھال دیا ہے جن میں ہر قدم پر جنسی انارکی اور فواحش کو دعوت عام ہے، مگر ان کے ثمرات اور نتائج کو وہ بھی جرائم سے خارج نہ کرسکے، عصمت فروشی، زنا بالجبر، منظر عام پر فحش حرکات کو تعزیری جرم قرار دینا پڑا۔ جس کی مثال اس کے سوا کچھ نہیں کہ کوئی شخص آگ لگانے کے لئے سوختہ کا ذخیرہ جمع کرے، پھر اس پر تیل چھڑکے، پھر اس میں آگ لگا دے اور جب آگ کے شعلے بھڑکنے لگیں تو ان شعلوں پر پابندی اور روکنے کی کوشش کرے۔ اس کے بر خلاف اسلام نے جن چیزوں کو جرم اور انسانیت کے لئے مضر سمجھ کو قابل سزا جرم قرار دیا ہے انکے مقدمات اور مبادیات پر پابندیاں عائد کی ہیں اور ان کو ممنوع قرار دیا ہے، مثلاً اصل مقصد زنا اور بدکاری سے بچانا تھا، تو زنا کی پیش بندی کے طور پر نظریں نیچی رکھنے کے قانون سے ابتداء کی، عورتوں اور مردوں کے نے محابا اختلاط کو روکا، اور عورتوں کو چہار دیواری میں رہنے کی تاکید کی، اور اگر ضرورت کے وقت نکلنا پڑے تو پردے اور حجاب کے ساتھ سڑک کے ایک کنارے چلنے کی ہدایت کی خوشبو لگا کر یا بجنے والا زیور پہن کر نکلنے کی ممانعت کردی، اس کے باوجود اگر کوئی شخص ان تمام حدود وقیود اور پابندیوں کے حصار کو پھاند کر باہر نکل جائے تو اس پر ایسی عبرتناک اور عبرت آموز سزا جاری کی کہ ایک مرتبہ کسی بدکردار پر جاری کردی جائے تو پوری قوم کو مکمل سبق مل جائے۔ اہل مغرب اور ان کے مقلدین نے اپنی فحاشی اور عیاشی کے جواز میں عورتوں کے پردے کو عورتوں کی صحت اور اقتصادی اور معاشی حیثیت سے معاشرہ کے لئے مضر ثابت کرنے اور بےپردہ رہنے کے فوائد پر بحثیں اور سیمینار کئے ہیں، اس کا جواب بہت سے علماء عصر نے بڑی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، اس کے متعلق یہاں اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ فائدہ اور نفع سے تو کوئی جرم اور گناہ بھی خالی نہیں، چوری، ڈاکہ، دھوکہ، فریب ایک اعتبار سے بڑا نفع بخش کاروبار ہے، مگر جب اس کے ثمرات و نتائج میں پیدا ہونے والی مضرتیں سامنے آتی ہیں تو کوئی شخص ان کو نفع بخش کاروبار کہنے کی جرأت نہیں کرتا بےپردگی میں اگر کچھ معاشی فوائد ہوں بھی مگر جب پورے ملک اور قوم کو ہزاروں فتنہ و فساد میں مبتلا کردے تو پھر اس کو نافع کہنا کسی دانشمند کا کام نہیں ہوسکتا۔ روس کے سابق صدر میخائیل گوربہ چوف اپنی کتاب پروسٹاٹیکا میں رقمطراز ہیں : ” ہماری مغربی سوسائٹی میں عورت کو باہر نکال دیا گیا، اور اس کو باہر نکالنے کے نتیجے میں نے شک ہم نے کچھ معاشی فوائد بھی حاصل کئے اور پیداوار میں کچھ اضافہ بھی ہوا، اس لئے کہ عورتیں بھی کام کررہی ہیں، اور مرد بھی کام کررہے ہیں، لیکن پیداوار میں اضافہ کے باوجود اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا خانہ داری یعنی فیملی سسٹم تباہ ہوگیا اور فیملی سسٹم تباہ ہونے کے نتیجے میں ہمیں جو نقصان اٹھانا پڑا ہے، وہ نقصان ان فوائد کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے جو پیداوار کے اضافہ کے نتیجے میں ہمیں حاصل ہوا ہے، لہٰذا میں اپنے ملک میں پروسٹاٹیکا کے نام سے ایک تحریک شروع کررہا ہوں، اس سے میرا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ عورت جو گھر سے باہر نکل چکی ہے اس کو گھر میں واپس کیسے لایا جائے، اور اس کے طریقے سوچے جائیں، ورنہ جس طرح ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوا ہے اسی طرح ہماری قوم بھی تباہ ہوجائے گی۔ (ترمیم واختصار کے ساتھ، اصلاحی خطبات، از مولانا تقی صاحب عثمانی) ۔ انسداد جرائم کے لئے انسداد ذرائع کا زرّین اصول : سابقہ شریعتوں میں اسباب و ذرائع کو مطلقاً حرام نہیں قرار دیا گیا تھا جب تک کہ ان کے ذریعہ کوئی جرم واقع نہ ہوجائے، شریعت محمدیہ ﷺ چونکہ قیامت تک رہنے والی شریعت ہے اس لئے جرائم و معاصی کو حرام قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کے اسباب و ذرائع کو بھی حرام قرار دیدیا گیا جو عادت غالبہ کے طور پر ان جرائم تک پہنچانے والے ہیں، مثلاً شراب نوشی کو حرام قرار دیا گیا تو شراب کے بنانے، بیچنے، خریدنے، اور کسی کو دینے اور اس کی تیاری میں کسی بھی قسم کی براہ راست مدد کو بھی حرام قرار دیدیا گیا، اسی طرح سود کو حرام قرار دینا تھا تو سود سے ملتے جلتے معاملات کو بھی ناجائز قرار دیدیا گیا، شرک اور بت پت پرستی کو قرآن نے ظلم عظیم اور ناقابل معافی جرم قرار دیا، تو اس کے اسباب و ذرائع پر بھی سخت پابندی لگادی، آفتاب کے طلوع، غروب اور وسط میں ہونے کے اوقات میں چونکہ مشرکین آفتاب کی پرستش کرتے تھے، اگر اب اوقات میں نماز پڑھی جاتی تو آفتاب پرستوں کے ساتھ ایک طرح کی مشابہت ہوجاتی، پھر یہ مشابہت شرک میں مبتلا ہونے کا سبب بن سکتی تھی، اس لئے شریعت نے ان اوقات میں نماز اور سجدہ کو بھی حرام و ناجائز کردیا، اسی طرح بتوں کے مجسمے اور تصویریں چونکہ بت پرستی کا قریبی ذریعہ تھیں اس لئے بت تراشی اور تصویر سازی کو حرام قرار دے دیا۔ تنبیہ : شریعت اسلام نے جن کاموں کو گناہ کا سبب قریب درجۂ اول قرار دے کر حرام کردیا، اس کے حکم حرمت کے بعد وہ سب کیلئے مطلقاً حرام ہے خواہ ابتلاء گناہ کا سبب بنے یا نہ بنے، اب وہ خود ایک شرعی حکم ہے جس کی مخالفت حرام ہے۔ (معارف) ان۔۔۔ النبی (الآیۃ) اس آیت میں نبی ﷺ کے مرتبہ اور منزلت کا بیان ہے جو ملاء اعلیٰ (آسمانوں) میں آپ ﷺ کو حاصل ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں میں آپ ﷺ کی ثناء و تعریف کرتا ہے، اور آپ پر رحمتیں بھیجتا ہے، اور فرشتے بھی آپ کی بلندئ درجات کی دعاء کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے عالم سفلیٰ (اہل زمین) کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ پر صلوٰۃ وسلام بھیجیں تاکہ آپ ﷺ کی تعریف میں علوی دونوں عالم متحد ہوجائیں، حدیث شریف میں آتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ سلام کا طریقہ تو ہم جانتے ہیں، ہم درودکس طرح پڑھیں ؟ اس پر آپ نے وہ درود ابراہیمی بیان فرمایا جو نماز میں پڑھا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری تفسیر سورة احزاب) ان۔۔۔ ورسولہ اللہ کو ایذاء دینے کا مطلب ان افعال کا ارتکاب کرنا ہے جنہیں وہ ناپسند فرماتا ہے، ورنہ اللہ کو ایذاء پہنچانے پر کون قادر ہے ؟ جیسے مشرکین، یہود اور نصاریٰ وغیرہ اللہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں، یا جس طرح حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، زمانہ کو گالی دیتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں اس کے رات اور دن کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری تفسیر سورة جاثیہ) اللہ کے رسول کو ایذاء پہنچانے کا مطلب آپ کی تکذیب کرنا اور آپ ﷺ کو شاعر، ساحر، مجنون وغیرہ کہنا ہے، اس کے علاوہ بعض احادیث میں صحابہ کرام ؓ کو ایذا پہچانا آپ ﷺ کو ایذا پہچانے اور ان کی تنقیص و اہانت کو بھی آپ ﷺ نے ایذاء قرار دیا ہے، اور لغت کا مطلب اللہ کی رحمت سے دوری اور محرومی ہے۔ والذین۔۔۔ والمؤمنات (الآیۃ) یعنی ان کو بدنام کرنے کے لئے ان پر بہتان باندھنا ان کی تنقیص و توہین کرنا، جیسے روافض صحابہ کرام ؓ پر سب وشتم کرتے ہیں اور ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا ارتکاب انہوں نے نہیں کیا، امام ابن کثیر (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں رافضی منکوس القلب ہیں، ممدوح اشخاص کی مذمت کرتے ہیں اور مذموم لوگوں کی مدح کرتے ہیں۔
Top