Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Faatir : 15
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ١ۚ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ
: اے لوگو !
اَنْتُمُ
: تم
الْفُقَرَآءُ
: محتاج
اِلَى اللّٰهِ ۚ
: اللہ کے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
هُوَ
: وہ
الْغَنِيُّ
: بےنیاز
الْحَمِيْدُ
: سزاوار حمد
لوگو تم (سب) خدا کے محتاج ہو اور خدا بےپروا سزاوار (حمد و ثنا) ہے
آیت نمبر 15 تا 26 ترجمہ : اے لوگو ! تم ہرحال میں اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو اپنی مخلوق سے بےنیاز ہے اور وہ اپنی مخلوق پہر احسان کی وجہ سے سزاوار حمد ہے اگر وہ چاہے تو تم کو فنا کردے اور تمہاری جگہ ایک نئی مخلوق پیدا کردے اور یہ بات اللہ کے لئے کچھ مشکل نہیں، کوئی بھی گنہ گار شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، گوجس شخص کو بلایا گیا ہے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ باپ اور بیٹا اور دونوں صورتوں میں عدم حمل اللہ کا حکم ہے، آپ تو صرف ان ہی لوگوں کو ڈراسکتے ہیں جو اپنے رب سے غائبانہ ڈرتے ہوں یعنی اس سے ڈرتے ہوں حالانکہ اس کو دیکھا نہیں ہے، اس لئے کہ یہی لوگ تنبیہ سے فائدہ اٹھانے والے ہیں، اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جو شخص شرک وغیرہ سے پاک ہوتا ہے وہ اپنے لئے پاک ہوتا ہے لہٰذا اس کا فائدہ اسی کے ساتھ مخصوص رہے گا اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے اور آخرت میں عمل کا بدلا دیا جائے گا اور بینا اور نابینا یعنی مومن اور کافر برابر نہیں ہوسکتے اور نہ تاریکی یعنی کفر اور روشنی یعنی ایمان اور نہ چھاؤں اور دھوپ یعنی جنت اور دوزخ اور نہ زندے اور مردے یعنی مومن و کافر برابر ہوسکتے تینوں جگہوں میں لا کی زیادتی تاکید کیلئے ہے اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی ہدایت سنا دیتا ہے تو وہ ایمان پر لبیک کہہ دیتا ہے، اور آپ ان لوگوں کو نہیں سناسکتے جو قبروں میں ہیں یعنی مردوں سے تشبیہ دی ہے، اسلئے کہ وہ جواب نہیں دیتے (ہدایت قبول نہیں کرتے) اور آپ تو صرف انکے لئے ڈرانے والے ہیں ہم نے ہی آپ کو حق دیکر خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، اور کوئی امت ایسی نہیں گذری جس میں کوئی ڈرانے والا یعنی نبی نہ گذرا ہو اور اہل مکہ آپکی تکذیب کی ہے اور انکے پاس بھی ان کے رسول معجزے اور صحیفۂ ابراہیم اور روشن کتابیں وہ تورات اور انجیل ہیں، لیکر آئے تھے سو آپ بھی ان کی طرح صبر کیجئے پھر میں نے ان کافروں کو ان کی تکذیب کی وجہ سے پکڑلیا (سودیکھو) میرا ان کو عذاب دینا، سزا اور ہلاک کرنے کے ذریعہ کیسا رہا (یعنی) وہ برمحل اور پر موقع ہوا۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : یَایُّھَا النَّاسُ اَنْتُمُ الفُقَرَاءُ الی اللہ آیت میں خطاب لوگوں کو ہے حالانکہ ہر شئ خدا کی محتاج ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے علاوہ دیگر کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جو غنا اور استغناء کا دعویٰ کرتی ہو اسی لئے خاص طور پر آیت میں انسان کو مخاطب بنایا گیا ہے، آیت کے معنی یہ ہیں یٰایُّھَاالنَّاسُ انتُم اَشَدُّ افتِقارًا واحتِیا جًا الی اللہ فی انفسکُمْ وعیالکمْ واموالَکم وفیما یعرض لکم من سائر الا مور فلا غنی لکم عنہ طرفَۃََ عینٍ ولا اقلَّ مِن ذٰلک۔ انسان اپنی ذات میں اور صفات میں اپنے عیال میں اور اموال میں غرضیکہ اپنے تمام امور میں ہر آن وہر لمحہ محتاج ہے، جس کی جتنی زیادہ ضرورتیں ہوتی ہیں وہ اتنا ہی زیادہ محتاج ہوتا ہے، انسان کی چونکہ ضرورتیں تمام مخلوقات سے زیادہ ہیں اس لئے اس کی احتیاج بھی سب سے زیادہ ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے لئے فرمایا ہے خُلِقَ الانسانُ ضَعِیْفًا اور یہیں سے ابوبکر صدیق ؓ کا قول مَنْ عرفَ نفسہ فقد عرب ربّہٗ یعنی جس نے اپنے فقر و حاجت اور ذل وعجز کو پہچانا اس نے خدا کے غرور غنا اور قدروکمال کو پہچانا۔ قولہ : الَی اللہ یہ فقراء کے متعلق ہے، فقراء فقیر کی جمع ہے، فقیر صیغہ صفت ہے، لہٰذا اس سے متعلق ہونا درست ہے۔ سوال : فقیر کے مقابل لانے کے بعد، الحمید، کا اضافہ کس مقصد سے کیا گیا ہے ؟ جواب : بندوں کا فقیر ہونا اور اللہ کا غنی ہونا تو ثابت ہوگیا، مگر غنی نافع نہیں ہوتا جب تک کہ وہ سخی اور جو ادنہ ہو، اور جب غنی، سخی اور جواد ہوتا ہے تو منعم علیہم اس کی حمد وثناء کرتے ہیں اور منعم و محسن، منعَم علیہم کی حمد وثناء کا مستحق ہو یا ہے، لہٰذا اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ غنی نافع ہے، الحمِیْد کا اضافہ فرمایا۔ (جمل) قولہ : ان یَّشَأیُذْ ھِبکُمْ ویاتِ بخلقٍ جدیدٍ یہ اللہ تعالیٰ کے غناء مطلق کا بیان ہے یعنی تمہاری فناء اس کی مشیئت پر اور بقاء اس کے فضل پر موقوف ہے، اس میں کسی کا دخل نہیں ہے، اور اپنے قول ویَاتِ بخلقٍ جدیدٍ سے زیادتی استغناء کا بیان ہے یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ اگر اللہ تعالیٰ انسانوں کو فنا کردے گا تو اس کے کمال ملک میں نقصان ہوگا اس لئے کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ جدید مخلوق پیدا کردے گا تو اس کے کمال ملک میں نقصان ہوگا اس لئے کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ جدید مخلوق پیدا کردے جو اس سے بھی احسن واجمل ہو وَمَا ذٰلک علی اللہ بعزیز یعنی اذہاب واتیان اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ قولہ : وازِرَۃٌ یہ تَزِرُ کا فاعل ہے اس کا موصوف محذوف ہے مفسر علام نے اپنے قول نفسٌ سے محذوف کی طرف اشارہ کردیا ہے یعنی کوئی گناہگارشخص کا (قیامت کے دن) بوجھ نہ اٹھائے گا۔ سوال : اس آیت یعنی لاتَزِرُ وَازِرَۃ وِزْرَ اُخرٰی اور دوسری آیت وَلَیَحْمِلُنَّ اثْقَالَھُمْ میں تعارض معلوم ہوتا ہے، تطبیق کی کیا صورت ہوگی ؟ جواب : یہ آیت ضالین اور مضلین کے بارے میں ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ ضلال واضلال یعنی گمراہ ہونے اور گمراہ کرنے کا بوجھ اٹھائیں گے، اس طریقہ پر یہ خود اپنے ہی گناہوں کا بوجھ اٹھانے والے ہوں گے۔ قولہ : وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ الیٰ حِمْلِھَا . مُثْقَلَۃٌ ای نفسٌ مثقلۃٌ بالذنوب۔ قولہ : حِمل موصوف ہے۔ قولہ : مِنہُ حِمل ہٗ یہ حِملٌ بمعنی محمول کی صفت ہے اور ضمیر وِزْرٌ کی طرف راجع ہے ای الی محمولھا الکائن من الوِزْرِ ، حمل بالکسر اس وزن کو کہتے ہیں جو سر یا پشت پر اٹھایا ہو، جمع احْمال وحُمُولٌ آتی ہے اور حَمْل بالفتح پھلوں کو کہتے ہیں، جب تک کہ وہ درختوں پر ہوں اور بچہ کو کہتے ہیں کہ وہ رحم مادر میں ہو، ازہری نے کہا ہے کہ یہی صواب ہے اور یہی اصمعی کا قول ہے۔ (جمل) قولہ : عدم الحمل فی الشقینِ شقین سے حمل اجباری جو کہ ولا تَزِرُوازرۃٌ وِزرَا اخرٰی میں مذکورہ ہے اور حمل اختیاری ہو کہ وَاِنْ تدْعُ . ذَاقُربیٰ میں مذکورہ ہے، مراد ہیں یعنی حمل اختیاری کی اجازت کا نہ ہونا، یہ اللہ ہی کے حکم سے ہوگا۔ قولہ : یخشونَ رَبَّھُمْ بالغیبِ ، یَخْشَوْنَ کی ضمیر فاعل سے حال ہے، ای یخشَوْنَہٗ حالَ کونِھم غائبین عنہ غائبین یہ بندوں کی صفت ہے نہ کہ رب کی، اس لئے کہ رب کی صفت قرب ہے نہ کہ غیبت، کما قال اللہ تعالیٰ ونحن اقرب الَیْہِ مِن حبلِ الوَرِیْدِ اور یہ بھی ردست ہے کہ یَخشَونَ کے مفعول سے حال ہو، ای یَخْشَوْنَہٗ والحال اَنَّہ غائبٌ عنھم ای مُحْتَجبٌ بجلالہٖ فلا یرونہٗ مفسر علام نے اپنے قول وَمَارَاَوْہُ سے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی عدم رویت اس کے صفت جلال میں محجوب ہونے کی وجہ سے ہے اور جب جنت میں صفت جمال میں جلوہ گر ہوں گے تو جنتیوں کو خدا کا دیدار حاصل ہوگا، مگر دنیا میں ان آنکھوں سے خدا کا دیدار ممکن نہیں ہے۔ قولہ : لِأنَّھُمْ المنتفعون بالإنذار اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کا جواب ہے، اعتراض یہ ہے کہ اِنَّمَا کلمہ حصر کے ذریعہ انذار کو اہل خشیت کے ساتھ خاص کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ حالانکہ ہر مکلف کے لئے انذار ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ چونکہ نصیحت وانذار سے اہل خشیت ہی منتقع ہوتے ہیں، اس لئے اہل خشیت کا خاص طور پر ذکر کیا ہے گویا کہ یہ کہا گیا ہے انّما یَنْفَعُ اِنذارُک اھل الخشیۃ۔ قولہ : وَمَا یَسْتَوِی الاعمٰی والبصیر یہ مومن اور کافر کی مثال ہے، اولاً مایستوی الاعمٰی البصیر سے مومن و کافر کی ذات میں فرق بیان کیا ہے، ثانیا یعنی ولا الظلمات ولا النور سے دونوں کی صفات میں فرق بیان کیا اور ثالثاً یعنی ولا الظل ولا الحرور سے آخرت میں دونوں کے ٹھکانوں کے درمیان فرق کو بیان فرمایا، تینوں جملوں میں لا کی زیادتی تاکید نفی کیلئے ہے، اس لئے کہ نفس نفی تو مانافیہ سے مفہوم ہے قولہ : اِنّ اللہَ یُسمِعُ سے فکَیْفَ کانَ نکِیْر تک یہ آپ ﷺ کو تسلی ہے۔ قولہ : وَمَا اَنْتَ بمُسْمِع مَّنْ فی القُبُورِ میں کفار کو اثر قبول نہ کرنے میں مردوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ قولہ : فَلا یجیبون کی ضمیر جمع معنی کے اعتبار سے مَنْ کی لوٹ رہی ہے، اس لئے کہ مفسر علام نے مَنْ کی تفسیر کفار سے کی ہے، بعض نسخوں میں فیُجِیْبُوْنَ ہے۔ قولہ : اِنْ اَنتَ اِلَّا نذیر مطلب یہ ہے کہ آپکا فریضہ صرف تبلیغ ہے ہدایت، اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسکو چاہتا ہے ہدایت عطا فرماتا ہے قولہ : بالق یہ اَرْسَلْنٰکَ کے کاف سے حال ہے، اور حق بمعنی ہدایت ہے اور ہدایت ھادیًا کے معنی ہے ای اَرْسَلْنٰکَ حال کونک ھادیًا۔ قولہ : اَجَابَ اِلَیْہِ ، اِلَیْہِ کی ضمیر ہدایت کی طرف راجع ہے اور اَجَابَ الیہ کے معنی جواب دینا، قبول کرنا، اَجَابَ الیہِ ای قَبلَہٗ لم یُجِبْ الیہ ای لَمْ یَقْبَلْہُ ۔ قولہ : ھُوَ واقِعٌ مَوْقِعَہٗ اس میں اشارہ ہے کہ کیف کان نکیری میں استفہام تقریری ہے، (حاشیۃ الجلالین) قولہ : وَمَا یَسْتَوِی الْاََحْیَاء وَلاَ الْاََمْواتُ یہ کافروں کی دوسری تشبیہ ہے جو کہ پہلی سے ابلع ہے پہلی تشبیہ کافروں کو عدم نفع میں اندھوں کے ساتھ دی گئی ہے اور اس میں مردوں سے تشبیہ دی گئی ہے، اندھوں میں کچھ نہ کچھ نفع ہوتا ہے، بخلاف مردوں کے کہ ان میں کوئی نفع نہیں ہوتا۔ تفسیر وتشریح یٰایھا۔۔۔ الفقراءُ (الآیۃ) ناسٌ کا لفظ عام ہے جس میں عوام و خواص حتی کہ اولیاء وصلحاء وانبیاء بھی داخل ہیں، اللہ کے در کے سب محتاج ہیں، لیکن اللہ کسی کا محتاج نہیں، وہ اتنا بےنیاز ہے کہ اگر سب لوگ اس کے نافرمان ہوجائیں تو اس سے اس کی سلطنت میں کوئی کمی اور اگر سب لوگ اس کے اطاعت گذار بن جائیں تو اس سے اس کی قوت اور حاکمیت میں کوئی زیادتی نہیں ہوگی، بلکہ نافرمانی سے خود انسانوں ہی کا نقصان اور اطاعت و عبادت سے انسانوں کا اپنا ہی فائدہ ہے۔ اور وہ اپنی تعمتوں کی وجہ سے محمود ہے یعنی اس نے جو نعمتیں اپنے بندوں پر کی ہیں ان پر وہ بندوں کے حمد وشکر کا مستحق ہے، اور اسکی شان بےنیازی کا یہ حال ہے کہ وہ چاہے تو تمہیں فنا کے گھاٹ اتار کر تمہاری جگہ ایک نئی مخلوق پیدا کردے، جو اسکی اطاعت گذار ہو، اور یہ بات اس کے لئے کچھ مشکل نہیں ولا۔۔ اخری یعنی قیامت کے روز کوئی شخص دوسرے شخص کے گناہوں کا بوجھ نہ اٹھائے گا، نہ اختیاری طور پر اور نہ اجباری طور پر، ہر شخص کو خود ہی اپنا بوجھ اٹھانا ہوگا، اور سورة عنکبوت میں جو آیا ہے کہ وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَھُمْ وَاَثْقَالاً مَعَ اَثْقَالِھِمْ یعنی گمراہ کرنے اولے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ ساتھ اتنا ہی ان دوسروں کا بوجھ بھی اٹھائیں گے جن کو انہوں نے گمراہ کیا ہوگا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ جن کو گمراہ کیا تھا ان کا بوجھ یہ لوگ کچھ ہلکا کردیں گے م بلکہ ان کا بوجھ اپنی جگہ باقی رہے گا، اور گمراہ کرنے والوں کا جرم دوہرانے کی وجہ سے ان کا بوجھ بھی دوہرا ہوجائے گا ایک گمراہ ہونے کا اور دوسرا گمراہ کرنے کا، حدیث میں وارد ہوا ہے مَنْ سَنَّ سُنَّۃً سَیِّئَۃً کانَ علَیْہِ وِزْرُھَا وَوِزْرُمَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہٖ (صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علی الصدقۃ) درحقیقت یہ دوسروں کا بوجھ بھی ان کا اپنا ہی بوجھ ہے کہ ان ہی نے دوسروں کو گمراہ کیا تھا، جس طرح کہ قابیل نے ہابیل کو قتل کرکے ایک رسم بد ایجاد کی، اب آئندہ جتنے بھی قتل ہوں گے قاتل کے اعمال نامہ میں لکھے جانے کے علاوہ قاتل اول قابیل کے نامہ عمل میں بھی لکھے جائیں گے، یہی صورت کار خیر کے بارے میں بھی ہوگی۔ حضرت عکرمہ ؓ نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا کہ اس روز ایک باپ اپنے بیٹے سے کہے گا تم جانتے ہو کہ میں تمہارا کیسا مشفق اور مہربان پاپ تھا، وہ اقرار کرے گا اور کہے گا بیشک آپ کے احسانات بیشمار ہیں، آپ نے میرے لئے دنیا میں بہت تکلیفیں برداشت کی تھیں، اس کے بعد باپ کہے گا بیٹا آج میں تمہارا محتاج ہوں، اپنی نیکیوں میں سے تھوڑی مجھے دیدو، کہ نجات ہوجائے، بیٹا کہے گا اباجان آپ نے بہت تھوڑی چیز طلب کی، مگر میں کیا کروں اگر میں وہ آپ کو دیدوں تو میرا بھی یہی حال ہوجائے گا، اس لئے میں مجبور ہوں، پھر وہ اپنی بیوی سے اسی طرح کہے گا، مگر بیوی بھی وہی جواب دے گی جو بیٹے نے دیا، اسی مضمون کو ایک دوسری آیت میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے، یَوْمَ یَفِرْءُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ وصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ ۔ (سورۂ عبس) ولو۔۔ قربیٰ یعنی جب اہل قرابت جن سے برے وقت میں تعاون و ہمدردی کی توقع ہوتی ہے وہ ہی رخ پھیر کر دوٹوک جواب دیدیں گے تو غیر اقارب کی مدد و تعاون کو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انما۔۔۔ بالغیب یہ جملہ مستانفہ ہے، ان لوگوں کا حال بیان کرنے کے لئے لایا گیا جو آپ کی انذار و تبلیغ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اور یَخْشَوٌنَ رَبَّھُمْ بالغَیْبِ کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے عذاب حال یہ ہے کہ وہ عذاب ان سے غائب ہے، تیسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ لوگوں کی نظروں سے غائب خلوت اور تنہائیوں میں ڈرتے ہیں۔ (فتح القدیر) نکتہ : ولاَ ۔۔ النور ظلمات سے مراد باطل اور نور سے مراد حق ہے ظلمات جمع اور نور کو واحدلانے میں یہ نکتہ ہے کہ حق ایک ہی ہوتا ہے اور باطل کثیر اور متعدد ہوتا ہے، اَحْیاء سے مراد مومن اور اموات سے مراد کافر ہیں، عالم اور جاہل نیز دانشمند بھی مراد ہوسکتے ہیں، مطلب آیت کا یہ ہے کہ جس طرح مردوں کو قبروں میں کوئی بات نہیں سنائی جاسکتی، اسی طرح جن لوگوں کے قلوب کو کفر نے موت سے ہمکنار کردیا ہے یعنی ان کی بداعمالیوں نے ان کے اندر سے قبولیت حق کی صلاحیت ہی ختم کردی ہے تو آپ ایسے لوگوں کو پیغام حق کہ ان کیلئے مفید اور نافع ہو، نہیں سنا سکتے، ورنہ تو کہیں کفار مکہ بہرے نہیں تھے وہ آپ ﷺ کی باتیں خوب سنتے تھے مگر قبولیت کے ارادہ سے نہیں سنتے تھے، مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کا کام صرف دعوت و تبلیغ ہے ہدایت اور ضلالت یہ اللہ کے اختیار میں ہے، اس مسئلہ کا تعلق سماع موتیٰ سے نہیں ہے، وہ الگ مستقل مسئلہ ہے، مطلب یہ ہے کہ مردے کی روح سنتی ہے، قبر میں پڑا ہوا دھڑ نہیں سنتا۔ (فوائد عثمانی)
Top