Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 72
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ
اِنَّا : بیشک ہم عَرَضْنَا : ہم نے پیش کیا الْاَمَانَةَ : امانت عَلَي : پر السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالْجِبَالِ : اور پہاڑ فَاَبَيْنَ : تو انہوں نے انکار کیا اَنْ يَّحْمِلْنَهَا : کہ وہ اسے اٹھائیں وَاَشْفَقْنَ : اور وہ ڈر گئے مِنْهَا : اس سے وَحَمَلَهَا : اور اس اٹھا لیا الْاِنْسَانُ ۭ : انسان نے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا ظَلُوْمًا : ظالم جَهُوْلًا : بڑا نادان
ہم نے (بار) امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بےشک وہ ظالم اور جاہل تھا
انا عرضنا الامانۃ علی السموت والارض والجبال فابین ان یحملنھاد اشفقن منھا وحملھا الانسان ان کان ظلومًا جھولاً . واقعہ یہ ہے کہ ہم نے آسمانوں اور زمین کے اور پہاڑوں کے سامنے امانت (کا بار اٹھانے کیلئے) رکھا لیکن سب نے اٹھانے سے انکار کردیا اور ڈر گئے اور انسان نے اس امانت کو اٹھا لیا۔ اس آیت کی تشریح میں چند امور تنقیح طلب ہیں : (1) امانت سے کیا مراد ہے ؟ (2) آسمانوں سے اور زمین سے اور پہاڑوں سے مراد کیا ‘ آسمان ‘ زمین اور پہاڑ ہی ہیں یا ان کے باشندے بھی مراد ہوسکتے ہیں جیسے واسْءَلِ الْقَرْیَۃِ میں اہل القریہ مراد ہیں ؟ (3) پیش کرنے سے خطاب مقالی مراد ہے یا حالی ؟ (4) اٹھانے اور انکار کرنے سے کیا مراد ہے ؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا : امانت سے مراد ہے طاعت اور وہ فرائض جو اللہ نے بندوں پر فرض کئے ہیں۔ اللہ نے زمین ‘ آسمان اور پہاڑوں پر یہ فرائض پیش کئے اور فرمایا : اگر تم ان فرائض کو ادا کرو گے تو اللہ تم کو اجر دے گا ‘ ادا نہ کرو گے تو عذاب دے گا۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : امانت سے مراد ہے نماز ادا کرنا ‘ زکوٰۃ دینا ‘ رمضان کے روزے اور بیت اللہ کا حج ‘ صدق مقال ‘ ناپ تول میں انصاف اور ان سب سے زیادہ سخت امانتوں کی حفاظت۔ مجاہد نے کہا : امانت سے مراد ہے اداء فرائض اور حفاظت دین۔ ابوالعالیہ کے نزدیک تمام اوامرو نواہی مراد ہیں۔ زید بن اسلم نے کہا : امانت سے مراد ہے روزہ ‘ غسل جنابت اور اندرونی شرائع (جیسے حسد نہ کرنا ‘ دل میں مسلمان سے عداوت نہ کرنا ‘ حب جاہ و مال نہ رکھنا وغیرہ تمام اخلاق باطنہ) یعنی جن میں ریاکاری کا کوئی دخل نہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص نے فرمایا : انسانی جسم میں سب سے پہلے شرمگاہ بنائی اور فرمایا : یہ امانت ہے ‘ بطور ودیعت میں تیرے سپرد کرتا ہوں۔ کان بھی امانت ہے ‘ آنکھ بھی امانت ہے اور جس میں امانت (کی پاسداری) نہیں اس کے پاس ایمان نہیں۔ بعض اہل علم نے کہا : امانت سے مراد ہیں لوگوں کی باہمی امانتیں اور ایفاء وعدہ۔ ہر مؤمن پر حق ہے کہ دوسرے مؤمن یا معاہد کے ساتھ دھوکہ نہ کرے ‘ نہ چھوٹے معاملہ میں ‘ نہ بڑے معاملہ میں۔ ضحاک کی روایت میں حضرت ابن عباس کی طرف اس قول کی نسبت کی بئی ہے۔ ان تمام اقوال کا مآل یہ ہے کہ امانت سے مراد ہیں شرعی اوامرو نواہی اور آسمان و زمین سے مراد آسمان و زمین ہی ہیں (ان کے باشندے مراد نہیں ہیں) اور پیش کرنے سے مراد ہے خطاب لفظی مقالی (خطاب تکوینی فطری مراد نہیں ہے) ۔ بغوی نے لکھا : حضرت ابن عباس اور اکثر سلف کا یہی قول ہے۔ بغوی نے لکھا ہے : اللہ نے زمین و آسمان سے فرمایا تھا : کیا تم بار امانت کو مع ان کے لوازم کے اٹھاتے ہو ؟ آسمان و زمین نے کہا : لوازم امانت کیا ہیں ؟ اللہ نے فرمایا : اگر تعمیل کرو گے تو تم کو اچھا بدلہ دیا جائے گا اور اگر نافرمانی کرو گے تو سزا پاؤ گے۔ آسمان و زمین نے عرض کیا : (ان لوازم کے ساتھ ہم برداشت) نہیں (کر سکتے) اے رب ! ہم تیرے حکم کے پابند ہیں ‘ نہ ثواب چاہتے ہیں ‘ نہ عذاب۔ آسمان و زمین نے یہ بات (نافرمانی کے) خوف اور دین خداوندی کی تعظیم کی وجہ سے کہی۔ ان کو ڈر ہوا کہ دین خداوندی کا حق ہم سے ادا نہ ہو سکے گا (تو عذاب میں مبتلا ہوں گے) یہ مطلب نہیں کہ اللہ نے بار امانت اٹھانے کا حکم ان کو دیا تھا اور انہوں نے سرتابی کی۔ اللہ کی طرف سے عرض امانت کی برداشت اختیاری تھی ‘ لازمی نہیں تھی۔ اگر لازی ہوتی تو آسمان و زمین ضرور اس بار کو اٹھاتے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں : پیش کرنے سے مراد ہے لفظی خطاب لیکن آسمان ‘ زمین اور پہاڑوں سے مراد ہیں ان کے باشندے (یعنی آسمان و زمین اور پہاڑوں کی رہنے والی مخلوق کو اللہ نے بار امانت اٹھانے کی پیش کش کی تھی) اور مضاف محذوف ہے جیسے آیت واسْءَلِ الْقَرْیَۃِ میں اہل قریہ مراد ہیں ‘ قریہ کی زمین اور دوسری چیزیں مراد نہیں ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ آسمان ‘ زمین اور پہاڑوں سے (ان میں رہنے والی مخلوق مراد نہیں ہے بلکہ) بعینہٖ آسمان ‘ زمین اور پہاڑ مراد ہیں اور عرض سے مراد ہے فطری صلاحیت کا اعتبار اور انکار سے مراد ہے لیاقت و صلاحیت کا فقدان یعنی طبعی عدم استعداد اور برداشت امانت سے مراد ہے قابلیت و استعداد جو انسان میں موجود ہے ‘ باوجود فطری قابلیت کے انسان کو ظلوم وجہول اس لئے کہا گیا کہ قوت غضبیہ اور شہوانیہ کا اس پر غلبہ ہے۔ اس تفسیر پر ظلوم و جہول ہونا نقص نہ ہوگا بلکہ یہ برداشت امانت پر آمادہ کرنے والی دو اچھی صفتیں قرار پائیں۔ بیضاوی نے لکھا ہے : شاید امانت سے عقل یا تکلیف شرعی مراد ہے۔ عقل ‘ قوت غضبیہ و شہوانیہ کی نگران ہے ‘ دونوں کو حدود شرعیہ سے آگے بڑھنے اور تجاوز کرنے سے روکتی ہے۔ شرعی احکام کا اصل مقصد ہی غضبیہ اور شہوانیہ قوتوں کو اعتدال پر لانا ہے۔ اس تشریح کی بناء پر بیضاوی نے لکھا ہے کہ سابق آیت میں جو اطاعت کی عظمت شان کو ظاہر کیا تھا ‘ اس کی اس آیت سے تائید ہو رہی ہے۔ طاعت کو امانت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ امانت واجب الرد ہوتی ہے ‘ طاعت کا ادا کرنا بھی امانت کی طرح واجب ہے۔ آیت کا مطلب اس صورت میں یہ ہوگا کہ طاعت الٰہیہ اتنا بار ثقیل ہے کہ گر آسمان و زمین اور پہاڑوں سے اس کو برداشت کرنے کی پیشکش کی جاتی تو وہ بھی اس بار کو اٹھانے سے انکار کردیتے اور ڈر جاتے لیکن انسان نے اپنی جسمانی ساخت کی کمزوری اور طاقت کی کمی کے سبب اس کو اٹھا لیا۔ لامحالہ جو شخص حقوق امانت پورے پورے ادا کرے گا اور برداشت امانت کو ہر وقت پیش نظر رکھے گا ‘ وہ ضرور کامیاب ہوگا اور اس کو فلاح دارین حاصل ہوگی۔ میں کہتا ہوں : اسی آیت کی مثل ایک اور آیت بھی آئی ہے ‘ فرمایا ہے : لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَأَءْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَْشیَۃ اللّٰہِط وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا للنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ اگر پہاڑوں پر ہم یہ قرآن اتارتے تو ان میں بھی خشوع پیدا ہوجاتا اور اللہ کے خوف سے وہ بھی پارہ پارہ ہوجاتے۔ ہم لوگوں کی ہدایت کیلئے یہ مثالیں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور کریں۔ بیضاوی کی اس تشریح کی صورت میں آیت زیر تشریح کا مضمون بطور مثال کے ہوگا ‘ واقعۂ تخلیقی کا اظہار اور اصل مکالمہ مقصود نہ ہوگا۔ کچھ لوگوں نے جمادات سے خطاب کرنے اور ان کے جواب دینے کو بعیداز عمل سمجھا ہے اس لئے مجاز کا راستہ اختیار کیا ہے ‘ خواہ اس طرح کہ آسمان وغیرہ سے مراد آسمان وغیرہ کی مخلوق مراد ہو یا عرض و خطاب سے مجازی مفہوم مراد ہو۔ اس استبعاد کو دور کرنے کیلئے بعض لوگوں نے کہا کہ اجرام علویہ و سفلیہ پیدا کر کے اللہ نے ان کے اندر سمجھ بھی پیدا کردی تھی اور فرمایا تھا : میں نے ایک فریضہ لازم کیا ہے کہ جو میری طاعت کرے گا اس کیلئے میں نے جنت پیدا کردی ہے اور جو نافرمانی کرے گا اس کیلئے دوزخ بنا دی ہے۔ اجرام مذکورہ نے جواب دیا : تو نے جیسا ہم کو پیدا کیا ہے ‘ ہم (بالاضطرار) اس کے پابند ہیں ‘ کسی (اختیاری) فریضہ کو برداشت نہیں کرسکتے اور ثواب نہیں چاہتے۔ لیکن آدم کو پیدا کر کے بار فریضہ کی پیشکش کی تو انہوں نے اٹھا لیا کیونکہ وہ یہ بارگراں اپنے نفس پر ڈال کر خود اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے اور انجام کی خرابی سے ناواقف تھے۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد کا یہی تفسیری قول نقل کیا ہے ‘ اس روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ بار امانت کو اٹھانے اور جنت سے نکالے جانے کے درمیان بس اتنی ہی مدت ہوئی جتنی ظہر و عصر کے درمیان ہوتی ہے۔ بعض اہل علم نے کہا : جمادات ہمارے لحاظ سے بےعقل ہیں ‘ ہماری بات نہیں سمجھتے لیکن اللہ کے فرمان کو سمجھتے ہیں اور سمجھ کر اطاعت کرتے ہیں اور سربسجود ہوجاتے ہیں۔ اللہ نے آسمان و زمین سے فرمایا : اِءْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا دونوں نے جواب دیا : اِءْتِیَا طَآءِعِیْنَ ۔ دوسری آیت میں ہے : وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْھَارُ وَاِنَّ مِنْھَا لَمَا یَشّْقَّقُ فَیَخْرُجْ مِنْہُ الْمَآءُ وَاِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہ کچھ پتھروں سے دریا پھوٹ کر نکلتے ہیں اور کچھ پتھر پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ پتھر اللہ کے خوف سے نیچے کو گرتے ہیں۔ اَلَمْ تَرَا اَنَّ اللہ یَسْجُدُ لَہٗ مِنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ ۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ حَمَلَھَا الْاِنْسَان میں اَلْاِنْسَان سے مراد حضرت آدم ہیں۔ اللہ نے حضرت آدم سے فرمایا تھا کہ میں نے یہ امانت آسمان ‘ زمین اور پہاڑوں کے سامن یرکھی لیکن سب نے اٹھانے سے انکار کردیا ‘ کیا تو اس کو مع اس کے لوازم لے لے گا ؟ آدم نے عرض کیا : اے میرے رب ! اس کے لوازم کیا ہیں ؟ اللہ نے فرمایا : اگر تو نیکی کرے گا تو اس کا ثواب پائے گا اور بدی کرے گا تو عذاب میں پکڑا جائے گا۔ آدم نے امانت کو اٹھا لیا اور عرض کیا : میں اس بوجھ کو اپنے کاندھے پر لیتا ہوں۔ اللہ نے فرمایا : جب تو نے اس امانت کو قبول کرلیا تو میں بھی تیری مدد کروں گا۔ تیری آنکھوں کے اوپر ایک نقاب ڈال دوں گا تاکہ ناجائز چیز پر نظر پڑنے کا جب تجھے ڈر ہو تو آنکھ پر نقاب لٹکا لے (یعنی پلکیں جھکا لے اور آنکھیں بند کرلے) اور تیری زبان کیلئے دو جبڑے اور ایک قفل بنا دوں گا ‘ تجھے جب (ناجائز بات زبان سے نکالنے کا) اندیشہ ہو تو قفل بند کردینا اور میں تیری شرمگاہ کیلئے لباس مقرر کر دوں گا ‘ تو شرمگاہ اس کے سامنے نہ کھولنا جس کے سامنے کھولنا میں نے حرام کردیا ہے۔ مجاہد نے کہا : برداشت امانت کے وقت اور جنت سے نکالے جانے کے وقت کی درمیانی مدت صرف اتنی ہوئی جتنی ظہر و عصر کے درمیان ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں : برداشت امانت کے بعد جنت سے نکالے جانے کی وجہ شاید یہ ہو کہ جنت اداء امانت (یعنی عمل) کا مقام نہیں ہے بلکہ اداء امانت کے ثواب کا مقام ہے (دارالعمل نہیں ‘ دارالجزاء ہے) اس لئے حضرت آدم کو جنت سے نکال کر دنیا میں بھیج دیا گیا۔ دنیا آخرت کی کھیتی ہے (بونا دنیا میں ہے ‘ کاٹنا آخرت میں ہے) ۔ بغوی نے لکھا ہے : نقاش نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن مسعود کا قول نقل کیا ہے کہ امانت کو اس بھاری پتھر سے تشبیہ دی گئی جو کسی جگہ پڑا ہو۔ آسمان کو ‘ زمین کو اور پہاڑوں کو اس کے اٹھانے کی دعوت دی گئی لیکن کوئی اس کے قریب بھی نہیں آیا اور سب نے کہہ دیا کہ ہم میں اس کو اٹھانے کی طاقت نہیں ‘ پھر بغیر دعوت کے آدم آگئے اور انہوں نے پتھر کو ہلا کر کہا : اگر مجھے اس کو اٹھانے کا حکم دیا گیا تو میں اس کو اٹھا لوں گا۔ اللہ نے فرمایا : اٹھاؤ۔ حضرت آدم اس کو اٹھا کر زانوں تک لے آئے پھر رکھ دیا اور کہا : خدا کی قسم ! اگر میں زیادہ اٹھانا چاہوں تو اٹھا سکتا ہوں۔ آسمان و زمین نے کہا : اٹھاؤ۔ حضرت آدم نے اس کو اٹھا کر اپنے کاندھے پر رکھ دیا اور پھر اتار کر نیچے رکھ دینے کا ارادہ کیا۔ اللہ نے فرمایا : ہرگز اس کو نیچے نہ رکھنا ‘ یہ تمہاری اور تمہاری اولاد کی گردن میں قیامت تک بندھا رہے گا۔ زجاج اور دوسرے اہل معانی نے بیان کیا ہے کہ امانت سے مراد طاعت ہے ‘ خواہ طبعی (فطر) ہو یا اختیاری اور عرض امانت سے مراد ہے طلب طاعت ‘ خواہ طاعت اختیاری ہو یا ارادۂ تکوینی ہو اور حمل امانت سے مراد ہے امانت میں خیانت کرنا اور اداء امانت سے باز رہنا۔ جو شخص امانت کو ادا نہ کرے اور امانت کی ذمہ داری سے سبکدوش نہ ہو ‘ اس کو حامل امانت اور متحمل امانت (امانت کو اٹھانے والا) کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں برداشت امانت سے انکار کا معنی ہوگا بقدر امکان امانت کو ادا کرنا۔ رہا ظلوم و جہول ہونا تو خیانت اور قصور اداء کی وجہ سے اس کو ظلوم و جہول کہا گیا۔ اللہ نے فرمایا : یَحْمِلُوْنَ اَثْقالَھُمْ الْاِنْسَان میں الْاِنْسَان سے مراد کافر اور منافق ہیں جنہوں نے امانت الٰہیہ میں خیانت کی ہے۔ بغوی نے لکھا ہے : سلف کا اول قول ہے (کہ امانت سے طاعت اور شرعی تکالیف مراد ہیں) ۔ میں کہتا ہوں : آیت کی رفتار بتارہی ہے کہ امانت کا حامل صرف انسان ہے۔ اب اگر امانت سے مراد طاعت اور شرعی تکالیف ہوں گی تو انسان کی کوئی خصوصیت نہیں رہے گی۔ جن اور ملائکہ بھی مکلف شرعی ہیں بلکہ انسانوں پر ملائکہ کی فضیلت لازم آئے گی ‘ کیونکہ ملائکہ تو معصوم ہیں ‘ امانت کو کامل طور پر ادا کر رہے ہیں ‘ یُسَبِّحُوْنَ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ لاَ یَفْتَرُوْنَ رات دن اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں ‘ سست نہیں پڑتے اور انسانوں میں سے کچھ ظالِمٌ لِّنَفْسِہٖ اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں اور کچھ مُقْتَصِدٌ میانہ چال سے چلنے والے اور کچھ سابِقٌمبِالْخَیْرَات بھلائیوں کی طرف پیش قدمی کرنے والے ‘ اس لئے صوفیہ نے کہا کہ امانت سے مراد ہے نور عقل اور نار عشق۔ عقل کی روشنی میں منطقی استدلال کے ساتھ معرفت الٰہیہ کا حصول ہوتا ہے اور آتش عشق سے سارے درمیانی حجابات سوختہ ہوجاتے ہیں۔ ملائکہ مقربین بارگاہ ضروری ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک کا مقام قرب و معرفت معین ہے ‘ وہ اپنے مقام سے ترقی نہیں کرسکتے۔ اللہ نے فرمایا : وَمَا مِنَّآ اِلاَّ لَہٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ ہماری طرف سے ہر ایک کا رتبہ مقرر ہے۔ ہاں نارعشق تمام حجابات بعد کو جلا ڈالتی ہے اور صرف انسان معرفت الٰہیہ کے غیر متناہی مراتب میں ترقی کرسکتا ہے۔ میں نے حضرت مجدد الف ثانی کے کلام سے یہ استفادہ کیا ہے کہ امانت ‘ تجلیات ذاتیہ کو قبول کرنے کی وہ استعداد ہے جو اللہ نے ماہیت انسانیہ میں ودیعت کر رکھی ہے۔ ایمان اور نیک اعمال کے بعد اس کا الحاق اور شمار ملائکہ میں ہوسکتا ہے اور تجلیات صفاتیہ کو قبول کرنے کی اس میں استعداد ہوسکتی ہے لیکن ذاتی تجلی کی برداشت تو صرف اسی میں ہوسکتی ہے جس کا مزاج خاکی ہو۔ اسی استعداد نے حضرت آدم کو مستحق خلافت بنایا اور یہی استعداد مراد ہے اس علم سے جس کا اظہار آیت اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ میں کیا ہے ‘ یعنی اللہ نے ملائکہ سے فرمایا کہ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے کہ تجلی ذاتی کو وہی برداشت کرسکتا ہے جس کا مزاج خاکی ہو۔ اسی کی طرف اشارہ ہے لفظ ظلوم و جہول سے یعنی انسان کو سبعی قوت بھی دی گئی ہے اور بہیمی قوت بھی۔ سبعی قوت کا تقاضا ہے بلند چوٹیوں پر چڑھنا ‘ بلند سے بلند مراتب معفت کی طرف ترقی کرتے چلے جانا اور بہیمی قوت انسان کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ وصل محبوب کیلئے سخت ریاضتیں اور مشقتیں برداشت کرسکے۔ ظلوم و جہول ہونا انسان کی صفت محمودہ ہے اور مستحق خلافت بنا دینے کی علت ہے۔ سبعی اور بہیمی قوتیں ارضی مزاج رکھتی ہیں۔ موجودات ارضی اپنی مزاجی کثافت کی وجہ سے نور آفتاب کو جذب کر کے اپنے اندر روک لیتے ہیں اور لطیف اجرام میں جذب نور کر کے روک رکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ مادۂ ارضی اپنی کثافت کی وجہ سے تجلی ذات کو برداشت کرنے کی قابلیت رکھتا ہے ‘ مادۂ نوری اس قابلیت سے محروم ہے۔ ملائکہ مقربین کے مقامات قرب محدود ہیں ‘ اگرچہ ملائکہ کے قرب و ولایت (اتصال) کا مرتبہ انبیاء کے مقام قرب و ولایت سے بالا ہے ‘ کیونکہ ملائکہ کا مرتبۂ ولایت اور انبیاء کا مرتبۂ ولایت دونوں صفات سے مستفاد ہیں مگر انبیاء کے مرتبہ میں ظہور کی حیثیت معتبر ہے ‘ یعنی ذات کے ساتھ صفات کا قیام ملحوظ نہیں اور ملائکہ کے مرتبۂ ولایت میں بطون کی حیثیت معتبر ہے ‘ یعنی ذات کے ساتھ صفات کا قیام ملحوظ ہوتا ہے۔ لیکن تجلی ذاتی جو نبوت کا کمال ہے ‘ ملائکہ کو میسر نہیں اس لئے نبوت انسان کے ساتھ مخصوص ہے اور انبیاء کے خواص ‘ ملائکہ کے خواص سے افضل ہیں اور جنت صرف انسانوں کیلئے پیدا کی گئی ہے۔ ملائکہ کا جنت میں ہر دروازہ سے داخلہ انسانوں کے احترام کیلئے ہوگا۔ جو علماء امانت سے شرعی اوامرو نواہی مراد لیتے ہیں اور امانت اٹھانے سے مراد اوامرو نواہی کو اختیار کے ساتھ قبول کرنا قرار دیتے ہیں ‘ ان کے نزدیک ظلوم و جہول ہونے کا یہ مطلب ہے کہ انسان نے اپنے اوپر خود ظلم کیا بڑی سخت مشقت کو برداشت کیا اور اس انجام بد سے ناواقف رہا جو اداء امانت نہ کرنے کی صورت میں اس کو ہوگا۔ لیکن یہ دونوں باتیں انسان کی مذمت کو ظاہر نہیں کر رہی ہیں بلکہ ایک واقعی امر کو بیان کر رہی ہیں۔ بیضاوی نے اس آیت کو سابق الذکر وعدہ کی تائید قرار دیا اور مطلب اس طرح بیان کیا کہ امانت اتنا عظیم بار ہے کہ اگر بزرگ ترین اجسام بافرض باشعور ہوتے تو وہ بھی اٹھانے سے انکار کردیتے اور اٹھا نہ سکتے ‘ لیکن انسان نے باوجود اپنی جسمانی کمزوری کے اس کو اٹھا لیا ‘ اس لئے جو شخص اس امانت کے حقوق کی نگہداشت کرے گا وہ دونوں جہان میں کامیاب ہوگا۔ اس مطلب پر بیضاوی کے نزدیک اَنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا سے یہ مراد ہوگی کہ انسان نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور حق امانت کا لحاظ نہیں رکھا اور حقیقت امانت کے نتیجہ سے ناواقف رہا۔ یہ دونوں برے اوصاف جنس انسان کے قرار دئیے (لیکن کل افراد کے نہیں ‘ بلکہ عام طور پر زیادہ افراد کے ‘ کیونکہ بعض افراد یعنی انبیاء ‘ اولیاء اور مؤمنین صالحین نے تو امانت کے پورے حقوق ادا کئے اور وعدہ پورا کیا) ۔ مصنف سجر مواج نے لکھا ہے کہ انسان نے اپنے نفس کو اس چیز کے ادا کرنے پر قادر خیال کیا جس کو ادا کرنے سے آسمان و زمین خوف زدہ ہوگئے ‘ اس اعتبار سے انسان ظلوم قرار پایا اور چونکہ اداء امانت سے اپنے عاجز رہنے سے وہ ناواقف تھا اس لئے جہول قرار پایا۔ میرے نزدیک یہ تشریح ناپسندیدہ ہے کیونکہ الانسان سے مراد حضرت آدم ہیں اور حضرت آدم ہی نے بار امانت اٹھایا تھا اور حضرت آدم نبی معصوم تھے۔ انہوں نے جو بوجھ اٹھایا تھا اس کو پورا پورا ادا کردیا ‘ اور اِنَّہٗ کی ضمیر کا رجوع اسی شخص کی طرف ہے جس نے بار امانت اٹھایا تھا (یعنی حضرت آدم (علیہ السلام ) ۔ صوفیہ نے انسان کے ظلوم و جہول ہونے کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ انسان کے اکثر افراد نے اپنے نفوس پر ظلم کیا ‘ معرفت اور تجلیات الٰہیہ کی اس استعدا دکو کھو دیا جو فطرت اللہ ہے ‘ اللہ نے سب لوگوں کو اس فطرت پر پیدا کیا ہے۔ اکثر انسان انتہائی نادان بھی ہیں کہ جو چیز فوت ہوگئی ‘ اس کی خوبی سے ناواقف ہیں اور جو کمایا ‘ اس کی خرابی سے لاعلم ہیں۔ ا اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ‘ پھر اس کے ماں ‘ باپ اس کو یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ الحدیث ‘ متفق علیہ من حدیث ابی ہریرۃ۔ میں کہتا ہوں : یہ بات معلوم ہوگئی کہ بطور کنایہ ظلم سے مراد قوت سبعیہ (غضبیہ) ہے اور جہالت سے مراد قوت بہیمیہ (شہوانیہ) ہے اور ان دونوں قوتوں کی اچھائی برائی صرف کے تنوع کے لحاظ سے ہے۔ قوت سبیعہ کا استعمال اگر اللہ کے دشمنوں کو دفع کرنے اور مدارج قرب تک پہنچنے اور مراتب معرفت میں ترقی کرنے کیلئے کیا جائے تو یہ قوت مستحسن قرار پاتی ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : اِنَّ اللہ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَقًّا کَاَنَّھُمْ بُیْنَانٌ مَرْصُوْصٌ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اسی طرح صف بند ہو کر لڑتے ہیں جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار ہیں۔ بلاشبہ اللہ بلندی عزم اور رفعت ہمت کو پسند فرماتا ہے۔ لیکن اگر اسی قوت کا استعمال بےقصور لوگوں پر جبر و ظلم کرنے اور اللہ کے مقابلہ میں تکبر و غرور کرنے کیلئے کیا جائے تو یہ قوت قبیح قرار پاتی ہے۔ اللہ فرماتا ہے : اَلاَ لَعْنَۃُ اللہ عَلَی الظَّالِمِیْنَ خوب سن لو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔ اِنَّ اللہ لاَ یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ اور اللہ ہر اترانے والے ‘ شیخی جتانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح قوت بہیمیہ کا استعمال اگر حصول سعادت کیلئے کیا جائے تو یہ قوت اچھی ہے اور اگر فانی لذتوں کے حصول کیلئے کیا جائے تو بری ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : لَھَا مَا کَسَبَتَْ عَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ ۔ اور یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ان دونوں قوتوں کے استعمال و صرف کی اچھائی کا مدار نفس و قلب کے تزکیہ اور عناصر کی تطہیر پر ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے : بنی آدم کے جسم کے اندر ایک بوٹی ایسی ہوتی ہے کہ جب وہ ٹھیک ہوتی ہے تو سارا جسم ٹھیک ہوجاتا ہے اور جب وہ بگڑتی ہے تو سارا بدن بگڑ جاتا ہے۔ خوب سن لو کہ وہ بوٹی دل ہے۔ رواہ البخاری۔ ا اللہ نے فرمایا ہے : قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ فلاح یاب ہوگیا اور جس نے نفس کو میل آلود ‘ گندہ کردیا وہ نامراد رہا۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ شریعت کے اوامرو نواہی کی پابندی تطہیر نفس کا ذریعہ ہے۔ اب اگر امانت سے مراد شرعی اوامرو نواہی ہوں تو ظلوم و جہول ہونے سے اشارہ ہوگا اس علت کی طرف جس کی وجہ سے انسان پر بار امانت ڈالا گیا اور اس نے اس بوجھ کو اٹھایا ہے۔ اس صورت میں مطلب اس طرح ہوگا کہ انسان چونکہ ظلوم و جہول تھا اس لئے ہم نے اس پر بار امانت ڈالا اور اس نے اٹھا لیا تاکہ بری خصلتوں سے اس کی تطہیر ہوجائے اور اعلیٰ فضائل حاصل کرنے کی اس میں صلاحیت ہوجائے اور دونوں جہان میں وہ بامراد ہے اور اگر امانت سے مراد تجلیات ذاتیہ ہوں تو مطلب اس طرح ہوگا کہ چونکہ انسان ظلوم و جہول تھا اس لئے وہی اس امانت کو اٹھانے کے قابل تھا ‘ اس امانت کو برداشت کرنے کا وہی اہل ہوگا جو ان دونوں اوصاف کا حامل ہے۔ امانت سے مراد طاعت و فرائض ہوں یا معرفت اور مراتب قرب کا حصول ‘ بہرحال سبعیہ اور بہیمیہ قوتیں اچھی بھی ہیں اور بری بھی اگر نفس کا تزکیہ نہ کیا اور اللہ کی طرف سے انسان کو بےمددگار چھوڑ دیا گیا اور باطل میں ان قوتوں کو مشغول رکھا گیا تو یہ قوتیں بری ہیں اور اگر اس کے خلاف ان قوتوں سے کام لیا تو یہ قوتیں اچھی ہیں۔ دونوں صورتوں میں ان قوتوں کی عطاء کا بار امانت انسان پر لادنے اور اس بوجھ کو اٹھانے کی علت قرار دینا بالکل صحیح ہے۔
Top