Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 72
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ
اِنَّا : بیشک ہم عَرَضْنَا : ہم نے پیش کیا الْاَمَانَةَ : امانت عَلَي : پر السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالْجِبَالِ : اور پہاڑ فَاَبَيْنَ : تو انہوں نے انکار کیا اَنْ يَّحْمِلْنَهَا : کہ وہ اسے اٹھائیں وَاَشْفَقْنَ : اور وہ ڈر گئے مِنْهَا : اس سے وَحَمَلَهَا : اور اس اٹھا لیا الْاِنْسَانُ ۭ : انسان نے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا ظَلُوْمًا : ظالم جَهُوْلًا : بڑا نادان
ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا (وہ فطری طور پر اس کے متحمل ہی نہ تھے) اور وہ اس سے ڈر گئے اور اسے انسان نے اٹھا لیا (وہی اس کا مستحق تھا) بلاشبہ وہ اپنے کو مشقت میں ڈالنے والا عواقب سے بےپروا تھا
یہ امانت آسمان و زمین پر ہم نے پیش کی لیکن وہ اس کا بوجھ سرداشت نہ کرسکے 72 ۔ آپس کے لین دین کے معاملوں میں جو اخلاقی جوہر مرکزی حیثیت رکھتا ہے وہ دیانتداری اور امانت ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے کاروبار میں ایماندار ہو اور جس کا جس کسی پر جتنا نکلتا ہے وہ اس کو پوری دیانت سے رتی رتی دے دے۔ اس کو عربی میں امانت کہتے ہیں۔ زیر نظر آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی شرعی تکلیف کو جسے اس نوع انسانی کے سپرد کیا ہے امانت ہی کے لفظ سے ادا کیا ہے جیسا کہ اس جگہ ارشاد فرمایا کہ ” ہم نے اپنی امانت آسمانوں پر ، زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا (کیونکہ وہ فطری طور پر بھی اس کے متحمل نہیں تھے اور یہی دراصل اس کا انکار تھا) وہ اس سے ڈرے اور انسان نے اس کو اٹھا لیا بلا شبہ وہ ظالم اور نادان ہے “۔ معلوم ہوا کہ پوری شریعت رب ذوالجلال والاکرام کی ایک امانت ہے جو ہم انسانوں کے سپرد ہوئی کیونکہ اللہ نے صرف اور صرف ایک انسان ہی ایسی مخلوق بنائی ہے جس میں اس کے باراٹھانے کی صلاحیت رکھی ہے اس لئے اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اسی کے مطابق اپنے ملک کا پورا پورا حق ادا کریں اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو یقینا خائن ٹھہریں گے۔ غور کرو کہ جب تک سلسلہ نبوت و رسالت جاری رہا اللہ تعالیٰ کا فرشتہ جو پیغام لے کر اس کے خاص بندوں کی طرف دوڑتا تھا تو وہامانت ہی سے متصف ہوتا تھا تاکہ بندوں کے لئے جو حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سیآئے اور بغیر کسی کمی بیشی کے اللہ تعالیٰ کا اصل حکم سمجھا جائے اس لئے قرآن کریم میں اس فرشتہ کا نام ” الامین “ رکھا گیا جیسے ارشاد الٰہی ہے کہ { نزل بہ الروح الامین } (193:26) ” اس پیغام کو لے کر امانت والا فرشتہ نازل ہوا “۔ { مطاع ثم امین } (21:81) ” یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو پیغام مجھے ملا ہے وہ بےکم وکاست تم تک پہنچاتا ہوں ، اس میں اپنی طرف سے کچھ ملاوٹ نہیں کرتا۔ فطرت انسانی ہی اس امانت الٰہی کا تحمل رکھتی تھی اور کسی مخلوق میں یہ تحمل نہیں تھا ہمارے نبی کریم ﷺ کو نبوت سے قبل مکہ والوں کی طرف سے ” امین “ کا خطاب ملا تھا کیونکہ آپ ﷺ اپنے کاروبا میں دیانتدار تھے اور جو لوگ آپ ﷺ کے پاس جو کچھ بھی رکھواتے تھے وہ آپ ﷺ ان کو جوں کا توں واپس کرتے تھے۔ ارشاد الٰہی ہے کہ { ان اللہ…………… اھلھا } (نساء 58:4) ” بلا شبہ تم کو اللہ حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے مالکوں کے حوالے کرو “۔ زیر نظر آیت میں جو آسمانوں ، زمینوں اور پہاڑوں پر امانت کو پیش کرنے کا ذکر فرمایا اور ساتھ ہی فرمایا کہ انہوں نے اس بار کو اٹھانے سے انکار کردیا تو ظاہر ہے کہ اس کا مطلب صرف اور صرف انسان کو اس کی حیثیت بتانا مقصود ہے کہ انسان کی فطرت کیا ہے اور اس کے مقابلہ میں آسمان جس کی بلندی اور وسعت کا کوئی اندازہ ہی نہیں لگا سکتا ، زمین جس کو کوئی ناپ نہیں سکا ہے ، پہاڑ جو اتنی بلندی اور لمبائی ، چوڑائی رکھتے ہیں ان سب کی فطری حیثیت اس چیز کی متحمل نہیں ہے جس چیز کا متحمل ساڑھے پانچ فٹ سے چھ فٹ کی قدوقامت اور ایم من سے دو من تک کا وزن رکھنے والا انسان ہے اس طرح انسان کو اس کی حیثیت سمجھادی کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی میں نے پیدا کیا ہے اس سے تو ہی فائدہ حاصل کرسکتا ہے اتنی بڑی بڑی جسامت رکھنے والی ساری چیزوں کو نہ تو ان کے اپنے وجود کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ان میں سے کسی ایک کو دوسرے کا کوئی فائدہ ہے لیکن انسان کی تخلیق ہی کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ اس کی فطرت میں انسان کو سب سے فائدہ اٹھانا داخل کردیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس بات کی نشاندہی کردی ہے کہ جس کی فطرت میں بہ سب کچھ داخل کردیا گیا ہے بعض اوقات اتنا کم عقل اور کوتاہ بیں ثابت ہوتا ہے کہ اپنی حقیقت کو بھول جاتا ہے اور پھر کبھی اپنی ہی جنس اور کبھی دوسری اشیاء کو اپنا رب بنا بیٹھتا ہے اور گویا ان حقیر چیزوں کو اپنے سے بہت افضل واعلیٰ سمجھنے لگتا ہے اور جب اس کی حالت ایسی ہوتی ہے تو یہ گویا ظالم اور جاہل ہو کر رہ جاتا ہے۔ قرآن کریم نے جگہ جگہ امانت کے بار کے اٹھانے کا ذکر کیا ہے لیکن ہم ان آیات کی تلاوت کرکے آگے گزر جاتے ہیں اور ان پر بہت کم غور وفکر کرتے ہیں حالانکہ غوروفکر ہی سے انسان اس امانت کا صحیح معنوں میں امین بن سکتا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے مدین کے سفر میں دو لڑکیوں کی بکریوں کے پینے کے لئے پانی بھر دیا اور ان کی کوئی مزدوری ان سے طلب نہیں کی اور ان لڑکیوں میں سے ایک نے واپس جاکر اپنے بزرگ باپ سے ان کی تعریف کی اور سفارش کی کہ ان کو اپنا کام سپرد کردیجئے اگر وہ آپ کے کام کرنے کو تیار ہوں تو ، قرآن کریم نے اس کو اس طرح بیان فرمایا کہ { یابت……………… الامین } (قصص 26:28) ” اے اباجان اس کو اجیر رکھ لو وہ سب سے بہتر اور اچھا اجیر ہے کیونکہ طاقتور بھی ہے اور امانت دار بھی “۔ اس آیت نے معاشرہ اسلامی کی پوری پوری وضاحت کردی کہ جس شخص کے ذمہ آپ جو کام لگانا چاہتے ہیں اس میں دو چیزیں ہونا ضروری ہیں ایک اس کام کی سمجھ کہ اس کو کس طرح کرنا ہے اور دوسرے اس کے کرنے کی صلاحیت گویا اس کام کے لئے اس کے سپرد کرنا چاہتے ہیں اس کے پاس طاقت وقوت بھی ہو اور امانت ودیانت بھی اگر ان دونوں باتوں میں سے کسی ایک کی کمی ہوگی تو وہ اس کا اہل نہیں ہوگا۔ اس امانت الٰہی کے تحمل کا ہمارے ملک عزیز میں کیا حال ہے ؟ قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے اور مسلمانوں کے لئے اس میں ایمانی طاقت وقوت ہے۔ ہم قارئین سے ان کی اس ایمانی طاقت وقوت کے ناطے سے سوال کرتے ہیں کہ اس ملک پاکستان میں حکومت کی کلیدی اسامیوں سے لے کر اسملک کے کسی شعبے کے چپڑاسی تک کسی ایک میں اس کام کو جس پر وہ لگایا گیا ہے اس کے کرنے کی طاقت وقوت اور صرف اتنی ہی دیانت وامانت وہ رکھتا ہے ؟ آپ خاموش کیوں ہیں جواب کیوں نہیں دیتے کہ کلیدی اسامیوں میں صدارت ، وزارت عظمیٰ ، وزارت اعلیٰ دوسرے وزرائ ، عدالتوں کے منصف ، ساری وزارتوں کے سیکرٹری ، انتظامیہ کے بڑے بڑے افسر کسی ایک جگہ آپ اپنی ایمانی طاقت وقوت کے انحصار پر کہہ سکتے ہیں کہ ان میں یہ دونوں چیزیں ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ، ان کے عہدہ کے مطابق موجود ہیں تم میری طرف دیکھو اور دیکھتے ہی جائیں ، علامہ حضرات میریطرف دیکھیں اور دیکھتے ہی جائیں ، مذہبی لیڈر میری طرف دیکھیں اور دیکھتے ہی جائیں ، سیاسی لیڈر میری طرف دیکھیں اور دیکھتے ہی رہیں اور اچانک مجھ پر ٹوف کیوں نہ پڑیں ، میرا سر قلم کیوں نہ کردیں ، میری زبان گدی سے کھنچوا کیوں نہ دیں لیکن جب تک میری جان جسم میں موجود ہے اور میری زبان بول سکتی ہے میں یہی کہوں گا کہ ان میں اس وقت تو ایک بھی ایسا نہیں جس میں اس کے عہدہ کے مطابق طاقت وقوت موجود ہو اور وہ اپنے عہدہ کے مطابق امانت ودیانت بھی رکھتا ہو۔ لوگو ! میں اسی رب کی قسم کھاتا ہوں جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر ایک ملازم میں جس ملازمت پر اس کو ملازم رکھا گیا ہے جب تک یہ دونوں چیزیں اس کی ملازمت کے بارے میں جتنی قوت و طاقت اور جتنی امانت ودیانت درکار ہے اتنی اس کے پاس موجود نہ ہو تو وہ اس ملازمت کا اہل نہیں ہوتا اس لئے اس کو وہ ملازمت سپرد کرنے والے جس کے ذمہ وہ ملازمت لگائی گئی ، وہ ملازم جن کے لئے وہ ملازم مقرر کیا گیا ، وہ عوام سب کے سب قرآن کریم کی اس آیت کی رو سے ظالم و جاہل ہیں خواہ وہ کون ہیں اور خواہ وہ کہاں ہیں۔ پھر یہ نظام جو ہمارے ملک میں رائج ہے جس کو بڑے فخر اور پیار سے ” اسلامی جمہوریت “ کا نام دیا گیا ہے سراسر دھوکا ، فریب اور مکاری ہے ۔ یہ بات بہت لمبی ہے اس کو اس جگہ بیان نہیں کیا جاسکتا صرف ایک مثال پر اکتفا کروں گا کہ اس ملک عزیز میں کئی انتخاب ہوچکے جن جن لوگوں نے اس میں حصہ لیا کسی سے وہ پوشیدہ نہیں جو ایم پی اے یا ایم این اے کی سیٹ پر الیکشن لڑنے والے ہیں ان سب پر عوام نظر نہیں رکھ سکتے لیکن اپنے حلقہ کے ان آدمیوں پر اس حلقہ کے سارے آدمی نظر رکھ سکتے ہیں۔ قارئین سے میری درخواست ہے کہ آپ اپنے حلقہ کے ان ایم این اے اور ایم پی اے کی سیٹوں کے لئے جن لوگوں نے درخواست دی ہے ان پر نظر رکھیں اور دیکھیں کہ یہ درخواست گزار صاحب اس پورے حلقے کے لوگوں سے امانت ودیانت اور اس عہدہ کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں جس کے لئے انہوں نے درخواست دی ہے یا اس حلقہ کے لوگوں میں سب سے زیادہ بددیانت اور اس عہد کی بہت کم صلاحیت رکھتے ہیں جس کے لئے انہوں نے درخواست گزاری ہے ؟ آپ نہیں بولیں گے کیونکہ اس طرح بولنا اتنا آسان نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس حلقہ کے لوگوں میں اگر کوئی اتنا بددیانت اور کم صلاحیت رکھنے والا بھی ہے تو وہ وہی ہے جو ان کے مقابلہ میں کھڑا ہورہا ہے۔ وہ ایک ہو یا دس ہوں۔ یہ نظام اکثریت کا ہے اس لئے ملک عزیز کے اندر جتنے لوگ اس الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں وہ سب کے سب نہیں تو ان کی اکثریت اپنے حلقہ کے لوگوں سے زیادہ بددیانت اور اس عہدہ کی صلاحیت نہ رکھنے والے لوگوں کی ہے لیکن یہ سب کے سب کسی نہ کسی صورت میں اس ملک کے و ڈیرے ہیں وہزمین کے لحاظ سے و ڈیرے ہوں۔ کاروبار کے لحاظ سے و ڈیرے ہوں۔ خاندانوں اور برادریوں کے لحاظ سے و ڈیرے ہوں یا وہ ڈاکوئوں ، چوروں ، سمگلروں اور سٹہ بازوں کے لحاظ سے و ڈیرے ہوں پھر یہ تو درخواست گزاروں کی بات تھی اب کامیاب ہونے والوں کی باری آئے گی تو جن میں کچھ قدرے دیانت وامانت کی رتی تھی وہ ناکام ہوتے چلے جائیں گے اور اس طرح بددیانتوں اور نہ صلاحیتوں رکھنے والوں کی مزید چھانٹی ہو کر جو بددیانتی کے اور ان عہدوں کی صلاحیت نہ رکھنے کے بادشاہ ہوں گے وہ کامیاب قرار پائیں گے اور اب کیا ہوگا ؟ انہیں بددیانتی اور نہ صلاحیت رکھنے والی بادشاہوں کی جماعت میں سے وزارت عظمیٰ اور وزارت اعلیٰ اور دوسرے وزراء کو وزارتیں ملیں گی اور پھر یہ سارے مل کر پوری دیانت وامانت کے ساتھ جس کا نام ونشان بھی ان کے پاس موجود نہیں اس ملک عزیز کا انتظام چلائیں گے۔ کسی صوبہ کے کسی ایک ضلع کو ایک یونٹ قرار دے کر اس امانت کی حقیقت معلوم کرلو آگے چلو اس ملک عزیز کے چار صوبوں میں سے کسی ایک صوبے کے ایک ضلع کو بطور یونٹ لے لو اور تصور کرو کہ ایک ضلع میں دس ایم پی اے اور چھ ایم این اے کامیاب قرار پاتے ہیں تو ہر ضلع میں رزلٹ نکلتے ہی ایک ایم این اے اورد و ایم پی اے کے خلاف تو رٹ ہوجائے گی کہ انہوں نے یہ یہ دھاندلی کی ہے لہٰذا ان کو عملدرآمد روک دو اور مقدامات کی تیاری کرو پھر جو ہو سو ہو۔ باقی پانچ ایم این اے اور آٹھ ایم پی اے اس ضلع کے مکمل مالک ہیں اور ان مالکوں کی تعلیمی حیثیت یہ ہے کہ ان تیرہ آدمی میں سے چھ ایف اے فیل ہیں ، تین ایف اے پاس ہیں ، دو کی تعلیم میٹرک ہے اور دو ان میں سے بی اے اور ایک ماشاء اللہ وکالت کا کورس پاس کیے ہوئے ہے۔ اس ضلع میں مثلاً بیس محکمے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں ، جن کے ہیڈ ایم اے پاس ، پی ایچ ڈی ، ریٹائرڈ جنرل اور ممالک غیر کی ڈگریاں رکھتے ہیں جو انہوں نے کم وبیش 20 تا 30 سال کی محنت شاقہ اور زر کثیر سے حاصل کی ہیں ان میں ضلع کا ڈی سی ، ایس پی ، ڈی ایچ او اور ڈی اور وغیرہ سب شامل ہیں اور پھر ان سب کا کنٹرول تیرہ ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے لہٰذا اس بیس محکموں کے ہیں حضرات نے ان تیرہ آدمیوں کو خوش رکھنا ہے اور نہایت دیانت داری کے ساتھ خوش رکھنا ہے اگر کسی کو ناراض کریں گے تو جان نہیں یا جہاں نہیں۔ رہی یہ بات کہ ان تیرہ آدمیوں کو جو آدمی نہیں بلکہ ایم پی اے اور ایم این اے ہیں کو کیوں خوش رکھنا ہے اس لئے کہ تیرہ اس ضلع کے اصل مالک وآقا ہیں اور ان سارے محکموں کے ہیڈ حضرات ان کے خادم و غلام ہیں کیونکہ انہی کے سہارے ان کے یہ عہدے بحال ہیں۔ قرآن کریم ہم کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ جو دو آقائوں کا غلام ہو تو اس کی زندگی اتنی خراب ہوتی ہے کہ اس کا مرنا اس کے جینے سے زیادہ بہتر ہوتا ہے اور جو تیرہ کا غلام ہے ان کی حالت ان ہی سے پوچھ لیجئے اگر پوچھ سکتے ہیں ورنہ خاموش رہ کر یہ سب کچھ دیکھتے رہیں کہ اس بھان متی نے کیا سوانگ رچایا ہے۔ انسان نے یہ بار امانت اٹھا تو لیا لیکن اس کی حقیقت کو سمجھنے سے گریزاں ہے فرمایا کہ انسان نے بار امانت اٹھا تو لیا ظالم و جاہل نکلا کیوں ؟ اس لئے کہ اٹھانے کا حق ادا نہیں کیا بلکہ اس امانت کی حقیقت کو سمجھنے سے بھی گریز کیا اور یہی بات سورة الجمعہ میں اس پیرایہ میں بیان فرمائی کہ : ” ان لوگوں کی مثال کہ جنہوں نے تورات کا بوجھ اٹھا لیا لیکن پھر اٹھانے کا حق ادا نہ کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو مقدس کتابیں لادے پھرتا ہے “۔ آں محقق بود نہ دانش مند چار پائے براو کتابے چند ظاہر ہے کہ اگر گدھے کے اوپر توریت ، زبور اور انجیل کے مقدس نسخے لاد دیئے جائیں تو وہ گدھا نہ تو حامل تورات ہوگا اور نہ فصاحب زبور اور انجیل تو اگر ان مقدس کتابوں کی بجائے قرآن کریم لاد دیا جائے تو وہ صاحب قرآن بن جائے گا ؟ ہرگز نہیں ، اس لئے کہ ایمان کا مصدر اور منبع تو قرآن کریم کی بامعنی تلاوت ہے جب کہ اس کے مطابق اس پر عمل بھی ہو۔ سب پہ جس بار نے گرانی کی اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا جو بات آدم وابلیس کے رنگ میں سمجھائی وہی ظلم وجہل کے رنگ میں پیش کردی انسان کی ابتدائی منزل تھی اور ابھی اس کا شعور پختہ نہ تھا تو اس کو ابلیس وآدم کے پیرایہ میں اس کی فطرت کو اس کے سامنے بیان کیا تاکہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے کہ اس کی فطرت میں دو متضاد طاقتیں کام کررہی ہیں اور ان کے مجموعے کو اس نے عقل وفکر کے ذریعہ سے ملا کرچلانا ہے اگر وہ ان کو ملاکر چلانے میں کامیاب رہا تو اس کو انعام ملے گا اور اگر وہ ناکام ہوگیا تو اس کو سزا ملے گی۔ اب نبی اعظم وآخر ﷺ پر نبوت ختم کردی گئی کیوں ؟ اس لئے کہ اب انسان کی بلوغت ہوگئی اور فطری طور پر باشعور ہوگیا اس شعور کے آنے کے بعد اس کو زیر نظر آیت کے مضمون سے یہ بات تفہیم کرادی گئی کہ اے بہادر نوجوان ! تو نے ہمت تو بہت کی کہ رب ذوالجلال والاکرام کے اس بار امانت کو اپنے سر پر اٹھا لیا جس سے زمین و آسمان اور پہاڑوں جیسی مخلوق نے اٹھانے سے فطری طور پر انکار کیا تھا لیکن تجھے کیا ہوا یعنی تیری نسل ہی سے کتنے ہیں جو راستے ہی میں دل توڑ بیٹھے ہیں اور اس بارگراں کے اٹھانے کا جو حق تھا وہ صحیح معنوں میں ادا نہ کیا ؎ آسمان بار امانت نتواں کشید قرعہ فال بنام من دیوانہ زوند بار امانت اٹھانے کے بعد اس پر کیا گزری کہ وہ ہمت ہاربیٹھا اندریں وجہ کہ اس سے صحیح معنوں میں اس بارگراں کے اٹھانے کا حق ادا نہ ہوا اور جو ہمت ہار گیا گویا وہ نادان اپنی ذات پر ظلم کرنے کے باعث ظالم اور بار امانت اٹھانے کے باعث جاہل نکلا اس طرح گویا کامیاب ہونے والوں کا ذکر چھوڑ دیا کہ وہ تو کامیاب ہو ہی گئے اور ناکام ہونے والوں کا ذکر کردیاتا کہ اب بھی جو اس سے سبق حاصل کرکے بچ سکتا ہے وہ بچ جائے کیونکہ جب تک سانس ہے تب تک آس بھی ہے۔ پیچھے ہم نے ناکام ہونے والے کامیاب لوگوں کا ذکر کیا تھا جو ازروائے اسلام تو بالکل ناکام ہیں لیکن اس دنیوی زندگی کی ہو ہوا کے باعث وہ کامیاب کہلاتے ہیں اور اس کے بعد قرآن کریم کے حوالے سے ان مذہبی پیشوائوں اور رہنمائوں کو جو کچھ کہا گیا ہے اس کی بات بھی آپ نے سن لی اور دوسری جگہ انہی لوگوں کی مثال جن کو لوگ بڑے بڑے خطابات سے نوازتے اور مذہبی ٹھیکہ دار سمجھتے ہیں حالانکہ اس کی نورانی شکل و صورت ہی آنکھوں کے گڑھے ، گالوں کی ملونی جلد اور است کی بیماریاں ان کی پوشیدہ سیرت کی پوری پوری عکاسی کررہی ہیں۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ ان کی مثال کلب سے دی ہے جس کی وضاحت ہم عروۃ الوثقی ، جلد سوم ، سورة الاعراف کی آیت 177 , 476 میں بیان کر آئے ہیں وہاں سے ملاحظہ کریں۔ یہ سب مثالیں { ظلوما جھولا } کی تفسیر پیش کررہی ہیں۔ بار امانت احادیث کی روشنی میں جو میں سمجھا احادیث میں امانت کے بہت سے جزئیوں کو ایک ایک کرکے گنوایا گیا ہے اور بہت سی باریک باتوں کو جن کو لوگ امانت کے خلاف ہیں سمجھتے امانت کے خلاف بتایا گیا ہے اور اگر کوئی غور سے دیکھے تو اخلاق کی رو سے وہ یقینی طور پر امانت کے خلاف ہے۔ جس طرح قرآن کریم کی آیت نے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی امانت کا بوجھ انسان نے اٹھایا ہے اسی طرح ایک حدیث بھی ادھر اشارہ کرتی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ” آپ ﷺ نے فرمایا پھر یہ حال ہوگا کہ آدمی کا تو امانت اس کے دل سے نکال لی جائے گی اور اس کا ایک ہلکا سا نشان رہ جائے گا اور پھر سوئے گا تو امانت چلی جائے گی اور ایک آبلہ کی طرح کا داغ رہ جائے گا جو اٹھ تو جاتا ہے مگر اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا لوگ ایسے ہوجائیں گے کہ لین دین کریں گے لیکن کوئی امانت داری نہیں کرے گا ، اس وقت امانت داری کی مثال ایسی کامیاب ہوجائے گی کہ لوگ مثال کے طور پر کہیں گے کہ فلاں قوم میں ایک امانت دار شخص ہے ، آدمی کی تعریف ہوگی کہ کیسا عقل مند ، کیسا خوش مزاج اور کیسا بہادر ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمانداری نہ ہوگی “۔ (صحیح بخاری باب رفع الامانہ و کتاب الفتن والرقانی و صحیح مسلم ومسند احمد وترمذی وابن ماجہ) طبرانی کبیر میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں ، جس کو عہد کا پاس نہ ہو اس میں دین نہیں۔ اس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے کسی بندے کا اس وقت تک دین درست نہ ہوگا جب تک اس کی زبان درست نہ ہوگی اور اس کی زبان درست نہ ہوگی جب تک اس کا درست نہ ہوگا اور جو کوئی کسی ناجائز کمائی سے کوئی مال پائے گا اور اس میں سے خرچ کرے گا تو اس کو اس میں برکت نہ دی جائے گی اور اگر اس میں خیرات کرے گا تو تو قبول نہ ہوگی اور جو اس میں سے بچ رہے گا وہ اس کے دوزخ کی طرف سفر کا کا توشہ ہوگا۔ بری چیز بری چیز کا کفارہ نہیں ہوسکتی۔ ہاں ! اچھی چیز اچھی چیز کا کفارہ ہوتی ہے “۔ (کنزالعمال ج 2 ص 15 بحوالہ طبرانی کبیر عن ابن مسعود ؓ بار امانت اہل لغت کی روشنی میں اہل لغت کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص امانت کو واپس کرنے سے انکار کردے اور اس میں خیانت کا مرتکب ہو تو عرب کہتے کہ حمل الامانۃ یعنی اس نے امانت کے واپس کرنے سے انکار کردیا اور اس کا بوجھ اٹھا لیا اور اس زیر نظر آیت میں حمل اسی معنوں میں استعمال ہوا ، اس لغوی تحقیق کے پیش نظر آیت کے معنی یہ ہوئے کہ ” ہم نے آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر اس امانت کو پیش کیا { فابین ان یحملنھا } تو انہوں نے اس امانت میں خیانت کرنے سے انکار کردیا ، جو حکم ربانی ملا ہے چون وچرا اس کی تعمیل میں لگ گئے سرموانحراف اور سستی نہیں کی { واشفقن منھا } وہ اس بات سے ڈرے کہ کہیں امانت میں خیانت کرنے سے وہ غضب الٰہی کا شکار نہ ہوجائیں { فحملھا منھا } لیکن انسان نے اس امانت میں خیانت کی اور اس کا بوجھ گردن پر اٹھایا { انہ کان ظلوما جھولا } بلا شبہ انسان بڑا ہی ظالم اور نادان ہے “۔ چناچہ لسان العرب میں ہے کہ : وکل من خان الامائۃ فقد حملھا وکذلک کل من اثم فقد حمل الاثم والسموات والارض ابین ان یحملنھا یعنی الا مانۃ وادینھا وادائھا طاعۃ اللہ تعالیٰ فیما امر ھابہ و حملھا الانسان قال الحسن ارادا ال کافر وال منافق ای حملا الا مانۃ ای خانا۔ ولم یطیعا قال ھذا المعنی واللہ اعلم صحیح ومن اطاعہ من الا نبی اء والصدیقین فلا یقال کان ظلوما جھولا۔ بار امان علمائے اسلام کی تفہیمات کی روشنی میں اکثر علماء کرام کے نزدیک امانت سے مراد تکلیفات شرعیہ ہیں جن میں مبادات ، اخلاقیات اور ہر قسم کے قوانین داخل ہیں چناچہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں کو فرمایا کہ ہم تمہیں اختیار اور ارادہ کی آزادی دیتے ہیں کیا تم اس اختیار وآزادی کے ساتھ اس امانت کا باراٹھانے کے لئے تیار ہو انہوں نے اعتراض عجز کرتے ہوئے معذرت خواہی کردی اور اپنی بےبسی کا اقرار کیا اور کہا کہ یہ بوجھ بہت گراں ہے ہم اسے اٹھانے سے قاصر ہیں ہمیں اطاعت کے ثواب کی امید سے عصیان ونافرمانی کے عذاب کا اندیشہ زیادہ ہے۔ ہم تیرے مسخر اور پابند حکم رہ کر تیرے ہر ارشاد کی تعمیل کریں گے اختیار و ارادہ کی آزادیوں میں جو خطرات پنہاں ہیں ان کو برداشت کرنے کی طاقت ہم اپنے اندر نہیں پاتے اور اب یہی چیز جب انسان کے سامنے پیش کی گئی تو اس نے اپنی ناتوانیوں اور کمزوریوں کیو پس پشت ڈال کر اس امانت کو اٹھانے کی حامی بھر لی اور اس بارگراں کو اٹھا کر اپنے آپ کو ابتلاء وآزمائش میں مبتلا کردیا اور ایسا کرکے اس نے کسی عقلمندی کا ثبوت نہیں دیا۔ خیال رہے کہ اس سے انسان کی مذمت مقصود نہیں ہے بلکہ بیان واقع کے طور پر ہے { انہ کان ظلوما جھولا } (روح البیان) بار امانت اور مفکرین اسلام کی فکر کا خلاصہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ امانت حضرت آدمی پر پیش کی تو آپ کی نظر اس وقت امانت اور ثقل پر نہ تھی بلکہ امانت پیش کرنے والے رب ذوالجلال والا کرام پر تھی اور اس کے پیش فرمانے میں جو لذت و سرور تھا اس نے امانت کی گرانی کو ان کی نظروں سے اوجھل کردیا اور یقینا لطف ربانی نے آدم کی اس نیاز مندی اور ہمت سے خوش ہو کر فرمایا کہ اے آدم ! اٹھانا تیرا کام ہے اور اٹھانے کی توفیق دینا اور تیری حفاظت کرنا میرا کام ہے اب جو اٹھاتا ہے اس کو رب ذوالجلال والا کرام کی طرف سے بلا شبہ توفیق ملتی ہے ۔ (جنید بغدادی منکرین کے ترجمان ہیں) بار امانت اور صوفیائے اسلام کے مسلک کا خلاصہ آیت کا سبق اس بات کا مقتضی ہے کہ اس جگہ جو امانت مذکور ہے اس سے وہ امانت مراد ہے جسے صرف انسان ہی اٹھا سکتا ہے اور کوئی مخلوق اسے اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتی اگر اس امانت سے مراداحکامات شرعیہ ہوں تو انسان کی خصوصیت نہیں بلکہ جن بھی اس کے ساتھ مکلف ہیں لہٰذا ان کا ساتھ ذکر ہونا ضروری تھا جیسا کہ ہر جگہ ان کا ذکر کیا گیا ہے لہٰذا اس جگہ امانت سے مراد نور العقل اور نور العشق ہے یعنی نور عقل استدلال کے ذریعہ معرفت الٰہی حاصل کرتا ہے اور عشق کی آگ حجابات کو جلا کر معرفت الٰہی تک پہنچاتی ہے یا امانت سیمراد وہ استعداد ہے جو اللہ تعالیٰ نے ماہیت انسانیہ میں ودیعت کی ہے جو تجلیات ذاتیہ ودائمہ کو قبول کرتی رہتی ہے اور انسان میں دو قوتیں ہیں ایک سبعیہ اور دوسری بہمیہ سبعی قوتوں سے اس کے دل میں توفق اور برتی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جس سے وہ معرفت کی اونچی سے اونچیچوٹیوں کو سر کرتا ہے اور بہیمی طاقتوں کے باعث اس میں جفا کشی اور مشقت جھیلنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جس کے باعث وہ طویل عبادتوں اور ریاضتوں کا بوجھ برداشت کرتا ہے اگر یہ دو قوتیں انسان میں نہ ہوتیں تو وہ بھی حامل عافیت پر خیمہ زن رہتا اور کبھی آزمائش کے تندوتیز طوفان سے نبردآزما ہونے کے لئے تیار نہ ہوتا۔ (قاضی ثناء اللہ پانی پتی صوفیائے کرام کی ترجمانی کرتے ہیں) زیر نظر آیت کے متعلق ہم نے اپنی رائے کا اظہار پہلے کیا ہے جو احادیث کی روشنی تک بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد جن لوگوں کی باتوں کا خلاصہ میں نے پیش کیا ہے ان کی نشاندہی کردی ہے مزید تفصیل کے لئے تفسیر روح البیان ، تفسیر مظہری اور تفسیر معارف القرآن کو بھی دیکھ لیں اور اس طرح ضیاء القرآن کا مطالعہ کرلیں اس لئے کہ جو کچھ لیا گیا ہے انہی سے لیا گیا ہے۔ موازانہ خود کرلیں اور پھر جو پسند آئے اختیار کریں میری نالائقی یہ ہے کہ میں موجودہ دور کے انسانوں کو بھی انسان اور مسلمانوں کو مسلمان ہی سمجھتا ہوں اس لئے ان کا ذکر بھی ساتھ ساتھ کرتا جاتا ہوں کیونکہ وہ بھی اسی طرح مکلف ہیں جس طرح پہلے تھے اور اسی طرح جواب دہ ہیں جس طرح پہلے جواب دہ تھے اگر میری یہ غلطی ہے تو مجھے سے سہواً نہیں ہوئی میں نے یہ غلطی جان بوجھ کر کی ہے لیکن فرق ہے کہ اس کو غلطی سمجھ کر نہیں کیا بلکہ صحیح سمجھ کر اختیار کیا ہے اس لئے میں نے اس کو { الم } سے شروع کیا ہے اور اب سورة احزاب کے ختم تک کرتا ہی چلا آرہا ہوں اور انشاء اللہ العزیز والناس تک کرتا ہی جائوں گا۔ ہاں ! اس کے نتیجے سے میں بیخبر ہوں لیکن رب ذوالجلال والاکرام پر مکمل بھروسہ رکھتا ہوں کہ وہ علیم وخبیر ہے یقینا اس کو میرے گناہوں کا ازالہ بنائے گا۔ رب اغفرلی وارحمنی واھدنی وعافی۔
Top